مولانا عبدالسلام مدنی؛ اک دیا اور بجھا…

راشد حسن مبارکپوری

کل بتاریخ 16/7/2018 یہ اطلاع ملی کہ جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم بنارس کے سابق استاد حدیث استاد محترم حضرت مولانا عبدالسلام مدنی بھی چل بسے، آخر کار علم حدیث کے چند آخری روشن چراغوں میں سے ایک چراغ گل ہوگیا، دلی صدمہ ہوا اور ہاتھ دعاء رحمت ومغفرت کے لئے اٹھ گیے-
جانا سب کو ہے، یہ سلسلہ ہمیشہ سے ہے اور سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک چلتا رہے گا، کمال یہ ہے کون کس طرح جارہا ہے، روشنی بکھیر کر یا تاریکی، خوشبو بکھیر کر یا بدبو، بعد کے لوگوں پر اس کے اثرات کیا ہیں، آئندہ مؤرخ انہیں بنیادوں پر عظمت اور حیثیت طے کرے گا،

إن خيرا فخير وإن شرا فشر-

ہمارے استاد مولانا عبدالسلام مدنی مرحوم نے ایک بھرپور زندگی گزاری، جامعہ رحمانیہ بنارس سے فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا بی اے مکمل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے، محنت، علم، اور شعور تو تھا ہی، مزید اس وقت کا سب سے نمایاں اسٹیج ملا، جہاں مسلسل محنت سے اپنی ایک انفرادی پہچان بنائی، زندگی بھر اپنے اصولوں پر قائم رہے، 42 سال کا عرصہ معمولی نہیں ہوتا، اس طویل عرصہ کو کامیابی کے ساتھ برتنا اور وقار کو برقرار رکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے-
استاد مرحوم حدیث و علوم حدیث کے شناور تھے، یہ ان کا خاص موضوع تھا، پورے تدریسی زمانہ میں مشکاۃ، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، نزھۃ النظر، اور الباعث الحثيث وغیرہ پڑھاتے رہے، تفسیر وعقیدہ کی بھی کچھ کتابیں پڑھائیں، خاکسار کو آپ سے صحیح بخاری پڑھنے کا موقع ملا، استدلال پر زور دیتے تھے، اقوال ائمہ میں الجھنے کے بجائے حدیث سے بلاواسطہ استدلال کے عادی تھے، فرماتے تھے جب سوال کیا جائے: “مسائل کا استنباط کیجیے” تو حدیث سے مستنبط بہت ہی خاص صرف تین مسائل بتائیے، زائد چیزیں مثلا: “پتہ چلا کہ فلاں بھی صحابی ہیں” وغیرہ کی ضرورت نہیں، مقررہ وقت پر صحیح بخاری کی تکمیل ایک مشکل کام ہے، اس لیے تفصیلات میں جایے بغیر أبواب بخاری پر خاص توجہ فرماتے، اعراب کی بقدر ضرورت اصلاح کرتے، مشکلات حدیث کی توضیح میں اختصار کے عادی تھے، اپنے مخصوص مسائل پر جب کبھی بحث چھڑی اور جلال میں آتے تو پوری گھنٹی ختم ہوتے دیر نہ لگتی، عموم، قیاس، اور فرض نمازوں کے بعد دعا کو بڑے شدومد سے ثابت کرتے، کبھی خاصی شدت بھی آجاتی –
ایک بار ایک طالب علم نے ان کی گھنٹی سے قبل بورڈ پر لکھ دیا “لیس فی البخاری الا العموم”، نظر پڑتے ہی سخت چراغ پا ہوئے، اور پھر اپنے خاص رنگ میں مدلل گفتگو فرمائی، جب کسی مسئلہ پر زور دینا ہوتا تو طلبہ سے خود سوال کرتے، اور جواب نہ آنے کی صورت میں خود ہی جواب بھی دیتے، اس سے مسائل کا استحضار ہوجاتا، ان کا یہ طریقہ مجھے بہت پسند آیا-
دوسرا طریقہ جو خاص طور سے مجھے پسند تھا وہ یہ کہ وقت سے ٹھیک پانچ منٹ پہلے درس کو روک دیتے، سوالات کرتے، طلبہ سے فتاوی ومسائل دریافت کرتے، کبھی ناراض بھی ہوجاتے مگر جلد ہی اپنے معمول پر لوٹ آتے، ایک بار کلاس میں “ثلاثہ قروء” میں قروء سے مراد حیض ہے یا طہر پر طویل بحث ہوئی، آپ کا خیال تھا کہ اس سے مراد (حنفی مسلک کے مطابق) حیض ہے، اور خاکسار ابن الانباری کی لغوی تحقیق کی مدد سے اسے طہر ثابت کررہا تھا، مگر گفتگو ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ مرحوم نے گفتگو کا رخ دوسری طرف کردیا، اس طرح گھنٹی ختم ہوگئی، ہم نے سوچا بحث ختم ہوگئی مگر دوسرے دن درس کا آغاز وہیں سے کیا، اور جو علمی تقریر فرمائی اس سے ہمیں اندازہ ہوگیا، کہ شیخ نے آج کے لیے اس بحث کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا ہے، اور یہاں معاملہ “بدایہ المجتہد” کے چند متعلقہ صفحات سے زیادہ کچھ نہ تھا. یہ ان کی خاص بات تھی کہ جس مسئلہ میں انہیں تیقن نہیں ہوتا اسے وہیں روک کر اگلے دن مطالعہ کے بعد گفتگو کرتے-

وقت کے سخت پابند تھے، بخاری شریف کی پہلی گھنٹی ہوتی تھی، روزآنہ گھنٹی لگنے سے ایک منٹ قبل غرفۃ الاساتذہ سے نکل جاتے اور گھنٹی لگتے لگتے کلاس روم میں داخل ہوجاتے، اختتام بھی اسی انداز سے کرتے، یہی روزآنہ کا معمول تھا، جس میں کبھی بھی فرق نہ آنے دیا-
علم حدیث سے جو آپ کو خاص نسبت تھی اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپ حضرت شیخ الحدیث مبارکپوری مرحوم سے بڑا قرب رکھتے تھےـ ہمارے بعض اساتذہ کا بیان ہے کہ حضرت شیخ صاحب جب بھی جامعہ تشریف لاتے تو مرحوم آپ کی خدمت میں لگ جاتے، ایک بار کہنے لگے: جی مجھے شیخ صاحب کی خدمت کا بہت موقع ملا، اس خدمت کے دوران ہی مشکلات حدیث سے متعلق سوالات کرکے علم میں اضافہ کرتے رہے، مولانا عبدالسلام رحمانی کے بعد مرعاہ المفاتيح کی پروف ریڈنگ آپ ہی کرتے تھے، گو شروع میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر بعد میں حضرت شیخ صاحب کا اعتماد حاصل ہوگیا-
حدیث میں اس خاص مذاق اور گہرائی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے ماہرین فن سے کسب فیض کیا تھا، بشمول شیخ الحدیث مبارکپوری، مولانا املوی، مولانا عبدالغفار حسن رحمانی، شیخ تقی الدین ھلالی، شیخ ممدوح فخری، شیخ محمد امین شنقیطی، شیخ عبدالمحسن العباد وغیرہم جیسے اساطین علم کا نام شامل ہےـ اس کے علاوہ شیخ ابن باز، شیخ العثیمین، شیخ الالبانی سے بھی استفادہ رہا ہوگاـ مزید برآں آپ کی تالیفات جنہیں ماسٹر پیسز کہا جاسکتا ہے وہ بھی حدیث سے متعلق ہی ہیں، التعلیق الملیح حاشیہ مشکاہ، المنتقی حاشیہ نسائی، (یہ دونوں کتابیں آپ نے خاکسار کو عنایت فرمائی تھیں) اسکے علاوہ مسلم شریف اور نزھۃ النظر پر دقیق حواشی لکھےـ آخر الذکر جامعہ سلفیہ سے شائع ہے، محدث بنارس میں مسلسل درس حدیث کا کالم آپ ہی لکھتے رہے، جو اب کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں –
استاد مرحوم ایک اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے خطیب بھی تھے، خطبہ جمعہ کا خاص اہتمام فرماتے تھے، تقریری جلسوں میں جاتے مگر محتاط انداز میں، اردو میں روانی تھی اور عربی میں ادائیگی، ان کا ملکہ تقریر تحریری قوت پر بھاری تھا، وہ کہتے تھے کہ تقریر میں آواز بلند اور خطیبانہ ہونی چاہیے، نصوص کا خاصا استحضار تھا، جس سے گفتگو باوزن اور مدلل ہوجاتی اور سننے والے کو پورا انشراح ہوجاتا-
جامعہ سلفیہ بنارس میں بزمانہ طالب علمی میرا آپ سے استاد وشاگرد کا ایک روایتی تعلق تھا، بعد میں جامعہ سے سبکدوشی کے بعد علاج ومعالجہ کے سلسلے میں جب دہلی آتے بڑی بے تکلفی سے ملتے، دیر تک باتیں کرتے، جب بھی ملاقات ہوئی علمی مسائل پر ہی گفتگو کرتے پایا، غیر ضروری باتوں سے حتی المقدور احتراز کرتے، یہی عادت استاد محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری مرحوم کی بھی تھی، زیادہ وقت پڑھنے لکھنے میں گزارتے، نمازوں کے سخت پابند تھے، داڑھی پر خاص زور دیتے، کہتے کہ یہ ایک ایسی سنت ہے جس پر کچھ کیے بغیر ہمیشہ ثواب ملتا ہے، علمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھتے اور بتانے پر خوشی کا اظہار کرتے، ایک بار خاکسار نے بنگلور میں منعقد آل انڈیا حفظ حدیث میں پہلی پوزیشن حاصل کی تو آپ نے کلاس میں اپنی خوشی کا اظہار کیا، استفسار پر خود اپنی بابت بھی بتاتے-

جامعہ سلفیہ ترک کرنے کے بعد دیگر مشہور مدارس نے دعوت تدریس دی مگر آپ نے قبول نہ کی، آپ کا یہ موقف مجھے پسند آیا وجہ جو بھی ہو، آپ جامعہ رحمانیہ بنارس کے فیض یافتگان میں سے تھے مگر رحمانی کے بجاے مدنی کے لقب کو ترجیح دیا، غالبا اس کی مبارک نسبت کا لحاظ تھا، مولانا عبدالحمید مرحوم آپ کے ساتھی تھے مگر انہوں نے مدنی کے بجائے رحمانی کو ترجیح دیا-
چند ماہ قبل پتہ چلا کہ کڈنی میں کچھ پریشانی ہے، لہذا حضرت شیخ صلاح الدين مقبول اور برادرم عبدالقدیر سلفی کے ساتھ یہ خاکسار بھی حاضر عیادت ہوا، کافی دیر علمی وجماعتی باتیں کرتے رہے، پھر گزشتہ دنوں خبر ملی کہ حالت تشویشناک ہے، نوئڈا کے ایک ہاسپیٹل میں ایڈمٹ کیے گیے، ڈائلسس ہورہا تھا، مگر ہمیشہ کی طرح تپاک سے ملے، آنے کا شکریہ ادا کیا، دعائیں دیں، مگر ہمیشہ کا چہکتا اور کھلتا چہرہ مایوس تھا، انتہائی نقاہت کے آثار نمایاں تھے، دل بجھ سا گیا، 15/7 کو پتہ چلا کہ بس جسم میں سانسیں ہیں جو زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہیں، طے ہوا، حضرت الأستاذ ابوالقاسم فاروقی اور عم محترم ڈاکٹر فواز رحمانی اور یہ خاکسار نوئڈا کے اسی ہوسپیٹل کی طرف چل دیے، اب پہونچے تو غشی طاری تھی، اندازہ یقین میں بدل گیا کہ چل چلاؤ کا وقت ہے، زندگی کی روح اپنا رخت سفر باندھ چکی ہے، واپس آنے کے بعد خبر ملی کہ مرحوم کی وصیت کے مطابق ڈاکٹروں کے مشورہ سے آبائی وطن ٹکریا سدھارتھ نگر لے جایا گیا ہے، دوسرے دن خبر آئی کہ روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے-
اس عالم شباب میں اپنا عالم تو یہ ہے : “مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں”، حادثات آتے ہیں گزر جاتے ہیں، گزشتہ حادثے تازہ ہوجاتے ہیں، زخم دل ہرے ہوجاتے ہیں، سوکھے چہرے پر اندوہ کی بوندیں ٹپک ٹپک پڑتی ہیں، اب دل ہمیشہ اندوہ ناکیوں کے لیے تیار رہتا ہے، بایں ہمہ اس حادثہ نے دل پر گہرا اثر چھوڑا، خامہ میں وہ طاقت نہیں ہے کہ کاغذ پر بکھری ہوئی روشنائی میں درد کی شدت کو محسوس کیا جاسکے، نہ ہی نظروں میں وہ “دوربینی” ہے کہ لفظوں میں پنہاں نالہ وشیون کو شعور کے پردے پر اتار سکوں-
اب جب بھی کس کی وفات پر قلم کو جنبش دیتا ہوں تو وہ بہک بہک جاتا ہے، چوہتر سال کے بزرگ پر سسکیاں لیتے لیتے آٹھ ماہ کے اور چھ ماہ کے معصوموں پر اشکوں کی برسات کرنے لگتا ہے، یہی دنیا ہے اور یہی قدرت کے فیصلے-

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد عمر سلفی

اللہ استاد محترم پر رحم فرمائے بشری لغزشوں کو معاف فرمائے شیعہ مسلم ہیں یا کافر اور طلاق کے مسئلے میں کئی دن تک وضاحت کرتے رہے آپ ایک بڑے مجتہد عالم دین تھے