الٰہیات کی غیر معمولی اہمیت اور ہماری جسارتیں

صلاح الدین مقبول احمد مدنی عقائد

رب کائنات کا تعارف اور اس کی الوہیت و عبودیت، ربوبیت و خالقیت اور اسماء و صفات اور افعال کی تعریف قرآن حکیم نے نہایت سہل اور بہترین (BEST) انداز میں کی ہے جس کے افہام و تفہیم میں نہ کوئی پیچیدگی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی موشگافی۔
جب خوارج، قدریہ، جہمیہ، معتزلہ اور روافض جیسے فرقوں کا وجود عمل میں آیا اور انھوں نے اپنے گمراہ کن عقائد اور باطل افکار و نظریات کی نشر و اشاعت شروع کی تو اللہ عزوجل کے تعارف اور اس کی تعریف میں بھی کتاب و سنت کے خلاف موشگافیاں در آئیں، اشعریت اور ماتریدیت نے کچھ اصلاحات کیں لیکن مختلف امور میں ان فرقوں کی گمراہیوں سے سبک دوش نہ ہوسکیں۔
سلف صالحین نے ہمیشہ رب کائنات کی تعریف و تعارف میں، کتاب و سنت کے نصوص کو تشبیہ و تجسیم اور تاویل و تعطیل کے بغیر سمجھنے اور سمجھانے کو اولین فریضہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم نے اس پورے مسئلے کو

{لیس کمثلہ شئ وھوالسمیع البصیر} [الشوری:۱۱]

کے متفق علیہ اصول کے ذریعہ حل کر دیا ہے۔
اس پس منظر میں سلف صالحین اور قیامت تک آنے والے ان کے متبعین کی کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحتوں کو ’’الٰہیات کے تراشیدہ لات و منات‘‘ سے تعبیر کرنا ایک طرح رب کائنات کی شان میں گستاخی، سلف صالحین کے مساعی جمیلہ کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش اور باطل افکار و نظریات کی حوصلہ افزائی ہے۔ الٰہیات کی یہ تعبیر غیر مناسب ہے جو استعمال الفاظ کے سلسلے میں عدم ِتوفیق پر دال ہے۔

’’یہ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات‘‘:
بسا اوقات انسان دوسروں کی تقلید میں کفریہ کلمات کے استعمال کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں علامہ اقبالؔ کی مشہور نظم ’’ابلیس کی مجلس شوری‘‘ ہے اس میں ابلیس اپنے مشیروں سے مخاطب ہوکر چند عقائدی اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات!
ابنِ مریم مر گیا یا زندہء جاوید ہے؟
ہیں صفاتِ ذاتِ حق حق سے جدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
ابلیس کے خطاب میں وارد شدہ عقائد کی موشگافیوں کا سلف صالحین نے بھی کتاب و سنت کی روشنی میں تصفیہ کیا ہے۔فرقوں کے عقائد باطلہ کو بالائے طاق رکھ کر سلف کی توضیحات کو ہی ’’الٰہیات کے تراشیدہ لات و منات‘‘ کے دائرے میں لے آنا ابلیس کی ترجمانی ہے سلفیت کی نہیں۔
اس کا شرعی حل یہ ہے کہ جس طرح بڑے طمطراق سے اس لقب کا استعمال کیا گیا ہے اسی طرح بے باکی سے توبہ بھی کر لی جائے۔ (ذلک خیر و أحسن تأویلا)

لات و منات کا استعمال شعراء بھی کفر اور کفریہ امور کے بارے میں اظہار کے لیے کرتے ہیں۔ شورش کاشمیری کا شعر ہے:
حرم کو بندۂ لات و منات کیا جانے
خدا کے گھر کو سکندر حیات کیا جانے

تعبیر کی غلطی کے اسباب:
ان جیسے مسائل میں غلط تعبیر کے تین اسباب ہوتے ہیں:
(۱) یا تو انسان کتاب و سنت کے نصوص میں غور و فکر اور تدبر کی نعمت سے محروم اور غفلت کا شکار ہوتا ہے۔
(۲)یا تو اپنے ماحول کی اثرپذیری یا کم علمی کے سبب غیر معمولی اہمیت کے حامل مسئلے کو بالکل معمولی سمجھتا ہے۔
(۳) یا تو وہ پھر اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا۔
میری نظر میں یقیناً یہاں نصوص میں تدبر و تامل کی نعمت سے محرومی یا زیر بحث مسئلے پر عدم ایمان کی بات نہیں بلکہ غیر معمولی کو معمولی سمجھ لیا گیا ہے۔

الٰہیات کے تراشیدہ لات و منات کا مفہوم:
’’الٰہیات کے تراشیدہ لات و منات‘‘ کے پجاری کفار و مشرکین اور یہود و نصاری ہیں، قرآن حکیم نے ان کے اس عمل کو بیان کرکے اس کی خطرناکی اور ہولناکی کو جس پیرائے میں واضح کیا ہے اس سے دل دہل جاتا ہے:

{وَقَالَتِ الْیَہُودُ عُزَیْْرٌ ابْنُ اللّہِ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّہِ ذَلِکَ قَوْلُہُم بِأَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِؤُونَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَہُمُ اللّہُ أَنَّی یُؤْفَکُونَ* اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِیَعْبُدُواْ إِلَہاً وَاحِداً لاَّ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ سُبْحَانَہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ} [التوبہ:۳۰۔۳۱]

(ترجمہ:یہود کہتے ہیں: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں: مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے، اللہ انھیں غارت کرے وہ کدھر بہکے جا رہے ہیں۔
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی، حالانکہ انھیں صرف اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔) (جوناگڑھی)

{أَفَأَصْفَاکُمْ رَبُّکُم بِالْبَنِیْنَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ إِنَاثاً إِنَّکُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلاً عَظِیْماً} [بنی اسرائیل:۴۰]

(ترجمہ: کیا بیٹوں کے لیے تو اللہ نے تمھیں چھانٹ لیا اور خود اپنے لیے فرشتوں کولڑکیاں بنا لیں؟ بے شک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو۔)
’’الٰہیات کے لات و منات‘‘ تراشنے والے کفار و مشرکین اور یہود و نصاری کے ان اقوال پر تبصرہ، ان کی خطرناکی اور ان کے بدبختانہ نتائج پر تنبیہ اور دل دہلانے والا بیان قرآن حکیم کی زبان میں:

{وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً* لَقَدْ جِئتُمْ شَیْْئاً إِدّاً* تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھدّاً* أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَداً* وَمَا یَنبَغِیْ لِلرَّحْمَنِ أَن یَتَّخِذَ وَلَداً} [مریم:۸۸۔۹۲]

(ترجمہ: ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمن نے بھی اولاد اختیار کی ہے۔یقیناً تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ کہ وہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے۔ شانِ رحمان کے لائق نہیں کہ اولاد رکھے۔)

منہج سلف پر اس کا انطباق:
توحید عبادت، توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات کی قرآن و سنت کی روشنی میں توضیح و تشریح اور تصفیۂ عقائد کے سلسلے میں سلف صالحین کے اس عظیم کارنامے کو ’’الٰہیات کے تراشیدہ لات و منات‘‘ کا نام دینا ناقابل معافی جرم ہے۔ جس کی تلافی توبہ ہے۔ سب کچھ برداشت لیکن ذات الٰہی کے اوصاف و کمالات کے سلسلے میں ایسے کلمات کا استعمال ناقابل برداشت ہے، مزید برآں ایسے امور کو اپنی بے باکی اور حق گوئی کے دائرے میں لانا اور ’’اپنے مشاہدات و تجربات کا حاصل‘‘ قرار دینا غیر دانشمندانہ جسارت اور خود ستائی کا بدترین نمونہ ہے۔
کہاجارہا ہے کہ’’صرف ایک تحریر سے میرے جغرافیہ کی پیمائش کر ڈالی گئی‘‘، یاد آرہا ہے کہ ایسے ہی موقع کے لیے عربی مقولہ ہے:

’’سکت دھراً و نطق کفراً‘‘

(ایک زمانہ تک خاموش رہا اور بولا تو کفریہ بات کہہ دی)
رہ گئے زیر بحث دیگر امور تو ان کے بارے میں بحث و تحقیق کا دروازہ بالکل کھلا رہنا چاہیے تاکہ مضطرب طبیعتوں اور بیٹھے ہوئے دلوں کو سہارا مل سکے اور اصلاح و خود احتسابی کا جذبہ پیدا ہو۔ (اللہ ہم سب کو حق کہنے سننے اور اس پر عمل کی توفیق سے نوازے)

’’سبحانک اللھم و بحمدک، و أشھد أن لاإلہ إلا أنت و أستغفرک و أتوب إلیک.‘‘

آپ کے تبصرے

3000