آزادی اور آزادئ افکار

شمس ودود

ہندوستان آزاد ہو گیا تھا، پاکستان عالم وجود میں آتے ہی آزاد ہو گیا تھا لیکن انسان اِن دونوں مملکتوں کا غلام تھا، تعصب کا غلام، مذہبی جنون کا غلام، حیوانیت وبربریت کا غلام”۔ (منٹو)
ہم آزاد ہوئے، اس قدر کہ ہمارے درمیان غلامی کی زنجیروں کا نشان بھی باقی نہ بچنے پائے لیکن خدا نے بھیڑنما بھیڑوں کی اگوائی کے لیے ایک طرف گیدڑ اور دوسری طرف بھیڑیا لا کھڑا کیا۔آگے کنواں، پیچھے کھائی کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے اپنی مرضی کے مطابق فطرت کو ساجھی مان کر اپنا اپنا قائد و رہبر چن لیا۔ اور ہم دنیا کی نظروں میں آزاد ہو کر لکیروں کی حدود میں آبسے۔ لیکن “دونوں” یا یوں کہا جائے کہ “تینوں” طرف ہم محبت میں مارے گئے۔ایک خطہ میں عقیدت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور دوسری طرف ہم “باپو” کے تین بندر بن بیٹھے، یا شاید بنائے گئے۔ تیسری طرف کا ذکر پھر کبھی، کیونکہ وہاں کے ذکر پہ “زبان گُدّی سے کھینچ لی جاتی ہے”۔  کیا ہم آزاد ہو گئے؟ کیا فطرت نے ہمیں آزاد پیدا نہیں کیا تھا؟
گو “ہم آزاد کرائے گئے” یا یوں ہی سہی کہ “ہو گئے”۔ پھر۔۔۔ پھر عشق۔ یعنی بات پوری ہوگئی کہ مارے گئے محبت میں، وہ بھی مفت۔
ہم نے اپنی آزادی کا مظاہرہ کیا اور اک ذرا قید سے فرار ہو چلے۔ آنکھ، کان اور منہ جو بند کرایا گیا تھا، وقفہ وقفہ سے کھولتے رہے۔ بالفاظ دیگر “ہم بنائے ہوئے راستے سے بھٹکنے لگے”۔ اسی گمرہی میں بلند اذہان کو یہ کہتے ہوئے سنا اور بعض دفعہ دیکھا بھی کہ “ہم آزاد ہیں”۔ اپنی سوچ میں، اپنی کرنی دھرنی میں، اپنےکھانے پینے اور مرنے مارنے میں۔ نہیں نہیں! ابھی اس آزادی کی کاغذی کاروائی باقی ہے۔ کھانے پینے کے ثبوت گو کاغذی ہیں لیکن ان کا کیا؟ کاغذ کی ناؤ بھلا چلتی ہے کیا؟ پھر سنا کہ قلم کی آزادی، فکر اور فہم کی آزادئ اظہار کی اجازت گو پہلے نہ تھی، پر اب ہے۔ کبھی یہ دیکھنے کو بھی ملا اور پھر بولنے کی جرات بھی آئی لیکن پھر یوں ہوا کہ ؎
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
(فیض)
زمانہ ہوا ان قصوں پہ، دو نسلیں گزر گئیں، اب تیسری نسل جدوجہد میں مصروف ہے لیکن روٹی، کپڑا اور مکان کی طلب انھیں نگل گئی۔ وہ آزادی جس کا انتظارتھا، جس کے خواب دیکھے گئے تھے، اس کی طلبی کہیں اور ہو گئی۔ ان کا وجود تو باقی رہا لیکن آزادی اور آزادئ افکار کے درمیان پانی پھرتا رہا۔ یعنی یوں سمجھیں کہ وہ دونوں ندی کے دو کنارے کی طرح اب بھی باقی ہیں۔ ان کا وجود بھی باقی ہے (کاغذی ہی سہی) لیکن ان کا ملن نہ ہو سکا۔ آزادی اور آزادئ افکار کے درمیان کا خلا (تا وقت تحریر) پر نہیں ہوا۔
آج آزادی کا سکہ چلتا ہے۔ سکۂ رائج الوقت۔جس میں آزادئ افکار کی گنجائش تو ہے لیکن خدا کی طرح غائب۔ جو ظاہر ہو رہا، وہ خدا کیسا۔۔۔؟ پھر تو وہ اوتار ہو جاتا ہے۔ اس تیسری نسل کی آزادی روٹی، کپڑا اور مکان سے بھی آگے بڑھ کر اب سلب کی جانے لگی ہے۔ اور یہی ہے وہ آزادی، جس کے سہانے خواب اب بکھر کر رہ گئے۔ اور بکھرے بھی کیوں نا۔۔۔ بھلاجبر میں آزادی اور آزادئ افکار کی بیداری اپنا رنگ دکھا پائی ہے ؟   ؎
سو شرط یہ ہے، جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم، قتل گاہ میں رکھ دو
( احمد فراز)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Ammar shahid

Aasman waale ye sun kr huns pade Aadmi aazad hona chahta hai Jnab rqeeb sahb aazadi ek lfz hai jis ki aadayegi hr zmane me ki jati rahi hai aur tareekh gwah hai ki kisi bhi zmane me ye lfz maadoom nhii huwa chahe wo kisi ka ahd ho ye lfz apne mokamml mafhoom ki adayegi se mazoor hai aap jise azadi khyal krte hain doosra tbqa use pabandi se taabeer krta hai is lfz ke kseerul jehat mtalib ne insan ko mjboor kr diya hai sochne pr ki is lfz ke asl maane ky hain is lfz ke zriye… Read more »