عوامی قائدین کے نجی معاملات کو عوامی معاملات پر قیاس کرنا غلط ہے

ثناء اللہ صادق تیمی معاملات

کسی بڑی لیکن متاز‏ع فیہ شخصیت کی جب موت ہوتی ہے یا جب ان کے سلسلے میں گفتگو ہوتی ہے تو عام طور سے لوگ خلط مبحث کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ وہ خلوت کی چيزوں کو جلوت پر محمول کرتے ہیں ، ذاتی تعلقات کو عوامی تعلقات پر قیاس کرتے ہیں اور یوں ایک بڑے مجرم کے اندر سے بھی ایک بڑا ہمدرد اور نیک انسان ڈھونڈ نکالتے ہيں ۔
 بال ٹھاکرے جیسے لوگوں کے بارےمیں بھی اندر جاکر معلوم کیا جائے تو کئی اچھی چيزیں نکل آئیں گی اور لوگوں نے ایسا کیا بھی ۔ ان کی انسانیت نوازی ثابت کرنے کے لیے کہا گیا کہ ان کے ڈاکٹر مسلمان تھے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے کسی ڈاکٹر کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کے تئیں ان کی نفرت کی وہ سیاست جس نے لاکھوں انسانوں کو ہراساں کیا اور کتنوں کی جان لے لی ، وہ سب  کسی بھلائی میں بدل گئے ؟ وہ عوامی نقصان کسی عوامی فائدے میں ظاہر ہونے لگا ۔ انسان میں ایسا تو نہیں کہ کوئی خوبی نہیں پائی جائے گی لیکن اس کا کیا مطلب اس کی پالیسیوں اور سیاست کا جواز نکالا جائے گا یا اس کے زہر کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی ؟ اگر ایسا ہی ہے  تو دنیا میں کبھی کوئی ظالم نہيں رہا ، کوئی غیر انسانی اخلاقیات کا حامل نہیں رہا !!
اٹل بہاری واجپئی کی موت کے بعد کئی ایسی تحریریں نگاہوں سے گزریں جن میں ان کے بعض ” اعلا اخلاقی پہلوؤں “کو اجاگر کیا گیا تھا ۔ ان کی خلوت کی بعض وہ مثالیں دی گئیں تھی جن میں وہ بہت اچھے تھے ، تعلقات نبھاتے تھے ،اپنے جونیئرس کو حوصلہ دیتے تھے ، کوئی ان کے پاس پہنچ جاتا تو دلچسپی لے کر کام کردیتے تھے وغیرہ ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اس داخلی حسن کا خارجی اثر کیا تھا ؟ وہ ایک متنازع فیہ لیڈر تھے ، ایک خاص ذہنیت کے مالک تھے ، ملک میں ان کی وجہ سے فرقہ واریت کو ہوا ملی ، مسلمانوں کے بارےمیں ان کے خیالات زہریلے تھے ، بابری مسجد کے سلسلے میں ان کا کردار داغدار تھا ، وہ اس ٹولے سے آتے تھے جو دیش کے آئین میں یقین نہیں رکھتا اور وہ خود بھی بہت حد تک اس معاملے میں اس ٹولے سے الگ نہیں تھے ورنہ بابری مسجد سے متعلق اس قسم کا غیر آئينی اور غیر قانونی بیان نہیں دیتے ۔ وہ راج دھرم کی بات کرتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والوں اور ملک کو شرمسار کرنےوالوں کے خلاف کوئی کاروائی کی ہو ۔
ایسے متنازع فیہ لوگوں کے لیے اسی طرح اگر ہم نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اچھائیاں نکالنی شروع کیں تو دنیا میں کبھی کوئی ظالم نظر نہیں آئے گا ۔ ظفرسریش والا مودی کو فرقہ وارانہ ذہن کا حامل نہیں مانتے ، کچھ وہ لوگ جو مودی کے نزدیک رہے ہیں ، ان کے حساب سے ان میں ویسی کوئی ذہنیت نہیں پائی جاتی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی داخلی زندگی کے کسی حسن سے ان کی عوامی زندگی کی گندگیاں ختم ہو جاتی ہیں ، کیا ہزاروں انسان جو مارے گئے ان کی زندگياں واپس آگئيں ، ان کے غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور غیر مہذب بھاشنوں سے جو زہریلی ہوا پھیلی اس کے اثرات زائل ہوگئے ؟ فرقہ واریت نے جس طرح پاؤں پسارے اس پر قدغن لگ گیا ؟ان کی پالیسیوں سے ایک پوری ملت کا جو خسارہ ہوا وہ خسارہ کسی فائدے میں بدل گیا ؟
آپ سے اس آدمی کے تعلقات اچھے تھے ، وہ آپ کے لیے مسیحا تھا لیکن وہ پوری امت کے لیے اگر قاتل تھا تو اسے قاتل ہی کہا جائے گا ، آپ اپنے لیے اسے مسیحا ضرور کہیے لیکن اللہ کے واسطے اس کی اس مسیحائی کو امت پر تو مت تھوپیے ۔
 فکرو نظر کی کس پستی میں ہم جا گرے ہیں ، اپنے قاتلین اور دشمنوں کو بھی مسیحا ثابت کرنےمیں دیر نہیں لگاتے۔ ایسا کرکے کیا ہم ان لاکھوں لوگوں کا مذاق نہیں اڑا رہے جن پر ایسے غیر انسانی عناصر کے بد اعمال کے بلاواسطہ اثرات مرتب ہوئے۔کیا ہم ان ہزاروں انصاف پسند لوگوں کو منہ نہیں چڑھا رہے جو شب وروز انصاف کی لڑائی لڑرےہیں اور ملک و طن کو آئین کے حساب سےچلانے کی وکالت کررہے ہیں اور جنھیں ایک ایک شہری کی جان کی فکرہے ۔
یہ صرف زوال کی نہیں خطرناک زوال کی علامت ہے ۔ ہمارے ہاتھ میں اقتدار نہيں لیکن کیا ہم سے اصول بھی رخصت ہوگئے ، دلوں سے ایمان بھی رخصت ہوگیا ۔ ہم ایسے لوگوں کی موت پر جشن نہ منائیں لیکن انھیں مسیحا ثابت کرنے کی بھی تو کوشش نہ کریں ۔مرنے والے سے ہمدردی ہو جاتی ہے لیکن یہ ہمدردی اگر آپ کو وہاں لے جاتی ہے جہاں ظالم مسیحا اور مجرم منصف نظر آنے لگے تو آپ کو اپنے قلب و نظر کا علاج کرانا چاہیے ۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Abdur Rahman

مقال صغير ولكن رائع جدا

Basha

Sachchai se kaun mooh modsaktha hai