کربلا صحابہ کرام پر سب و شتم کا ایک استعارہ

ابو اشعر فہیم

کربلا صحابہ کرام پر سب و شتم کا ایک استعارہ

اگر کسی کو بو بکر و عمر  و عثمان و عائشہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینا ہو، انہیں غاصب اور مرتد قرار دینا ہو تو ظاہر ہے ایسے ہی ڈائریکٹ شروع نہیں ہوجائے گا، اس کے لیے پہلے صافہ باندھے گا، پھر داڑھی میں خلال کرے گا، پھر گلہ صاف کرے گا پھر تمہید باندھے گا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے گا، پھر اہل بیت کی عظمت کے گن گائے گا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان کرے گا، پھر علی رضی اللہ عنہ کی عظمت و عبقریت پر فلسفیانہ انداز میں کچھ گفتگو کرے گا، پھر واقعہ قرطاس کا ذکر کرے گا، پھر اشاروں کنایوں میں لائن پر آئے گا، پھر بڑی لائن پکڑ لے گا-
پھر…… وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرے گا، پھر فورا “بنو ساعدہ” پہونچ جائے گا، پھر آہ کھینچے گا، پھر خلیفہ اول کا دامن کھینچے گا، پھر فاروق اعظم پر اپنا آپا کھودے گا، پھر پانچ کو چھوڑ کر سارے جاں نثاروں پر اپنی زبان اور دل سب صاف کردے گا، “حب اہل بیت” اور محبت اہل بیت کا مقدمہ چلتا رہے گا، پھر عمر بن خطاب سے ہوتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ کے خاندان پر چڑھائی کرے گا، پھر بنو ہاشم کو بنو امیہ سے لڑا دے گا، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر ساری گاج گرا دے گا، زہر کے سارے تیر ان پر استعمال کرے گا-
تھوڑی دیر کے لیے اگر آپ مان لیں کہ “کر بلا کا سانحہ” رونما نہیں ہوا لیکن ذرا آنکھ کھول کر دیکھیے تو مدح اہل بیت کی آڑ میں اس نے کتنے کربلا کے میدان بنادے ہیں اس نے کن کن لوگوں کو نہ صرف زخمی کیا ہے بلکہ انہیں ایمان سے باہر لا کھڑا کیا ہے-
یہاں تو ابو بکر سب سے بڑے منافق ٹھہرے، بنت ابوبکر شاطر و رجم کی مستحق قرار دی گئیں،  عمر بن خطاب و عثمان غنی “شیطان و ہامان و نمرود” کے خطاب سے نوازے گئے، معاویہ اور ابن معاویہ کا تو رونا ہی نہیں-
شہادت حسین ایک جذباتی بہانہ ہے، اصل کھیل اس سے پہلے ہی سے جاری و ساری ہے، کربلا  کو در اصل گالی دینے کا مر کزی دروازہ بنایا گیا ہے، ورنہ پورا اسٹیج پہلے ہی سے نہ صرف تیار ہے بلکہ ڈرامہ اور کھیل بھی جاری و ساری ہے.
ہمارے رفیع الشان مفکر کی جماعت کے احباب اپنی سیاہ غلاف والی کتاب پر کبھی غور کریں کہ آخر ہمارے “انقلابی بھائیوں” کو اسی سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
وہ الجہاد سے “پردہ” فرما جاتے ہیں، اسلام اور ضبط ولادت کی “سود” مندی کی بات وہ کبھی نہیں کرتے، وہ تفہیمات نہیں بانٹتے، وہ تجدید احیاء دین کی تنقیح کبھی نہیں کرتے وہ “سیرت سرور عالم” کو کبھی ہاتھ نہیں لگاتے، آخر وہ سیاہ غلاف میں لپیٹ کر ایک “شاہکار کتاب” ہی کو کیوں تقسیم کرتے ہیں؟؟
کیا رفیع الشان مفکر کی جماعت کے  لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے، کیا وہ لوگ اتنے ہی سادہ لوح ہیں؟

یاد رکھیں سیاہ غلاف میں لپیٹ کر تقسیم کی جانے والی کتاب اور ماتمی لوگوں کو  “ہدیہ” میں دی جانے والی اس کتاب کی تقسیم سے مقصود اہل سنت کو تقسیم کرنا ہے-
پھر بھی آپ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں لیکن کبھی شام و عراق و یمن میں اپنے ہی ہم فکر و خیال مسلمانوں سے بھی پوچھ لیں کہ ان پر کیا گزر رہی ہے تو سارے “انقلابی قارورے” کا رنگ معلوم ہوجائے گا

کربلا صحابہ کرام پر سب و شتم کا ایک استعارہ

آپ کے تبصرے

3000