عروس البلاد ممبئی میں تین روز

راشد حسن مبارکپوری سفریات

ممبئی تجارتی وصنعتی حوالے سے بین الاقوامی شہرت کا حامل قدیم ترین شہر ہے، مگر یہاں علم وفن کے دریا بھی بہتے ہیں، فکر ودانش کی باد بہاری بھی چلتی ہے، کاروان شعور و آگہی کے قافلے بھی گزرتے ہیں، عرفانی انجمنیں بھی سجتی، سنورتی اور بکھرتی ہیں، یہاں ساغران جذب ومستی بھی خیمہ زن ہیں، مجنونان لیلایے علم وہنر بھی، تشنہ لب اپنی اپنی بساط بھر جواہر پارے بھی سمیٹتا ہے خزف ریزے بھی.

عرصہ سے خواہش بساط دل پر سجدہ ریز تھی کہ ایک سفر ایسا بھی ہو جو صرف ہم نفسوں، ہم خیالوں اور کچھ سریر آرایے مملکت آہوان شعور کی نذر ہو، ایک ناگزیر ضرورت نے طبیعت کو آمادہ کرنے کی تدبیریں کرلیں، سو دل کی کشتی عزم کے ساحل پر لنگر انداز ہوکر سوئے بزم ارجمنداں روانگی کے ہچکولے بھر پڑی-
24 ستمبر کو چل کر 25 کو پہونچے، کچھ ضروری کاموں سے چھٹی کے بعد (بڑے ابو) مولانا عبدالجليل مکی کے بزرگانہ اصرار پر بائیکلہ جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ حاضر ہوگیا، یہ بڑی عظیم اور تاریخی مسجد ہے، اس کے میناروں پر مولانا مختار احمد ندوی کے زور خطابت کے جلوے نقش ہیں، مولانا داؤد راز کی مخلصانہ جدوجہد کے آثار ثبت ہیں، مولانا عبداللطيف جوناگڑھی کی سعی پیہم کی بازگشت سنائی دیتی ہے، مولانا ندوی مرحوم نے اس مسجد کے بام و در کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے، اپنے طوفانی عزائم سے اس کے منبر ومحراب کو آفاقی پیرہن دیا، اس کے مکینوں کو ایمان ویقین کی تپش دی ہے، یہ وہ آواز تھی جس کی بازگشت ہندوستان کے چپے چپے میں سنائی دیتی ہے، چار سو مسجدیں تعمیر کرنے والے شخص کے جلائے ہوئے منہج ویقین کے چراغ ممبئی کے ہر ہر موڑ پر نظر آئے، یہ انہیں کا فیض ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر عظمت کے ایسے چراغ جلے، کوہساری حوصلوں کی ایسی قندیلیں روشن ہوئیں!

أؤلئك آبائي فجئني بمثلهم
إذا جمعتنا يا جرير المجامع

ان خیالات کے دوش پر تیرتے ہوئے مسجد پہونچے، وہاں کی انتظامیہ نے محبت آمیز استقبال کیا، مولانا اسلم صیاد اور مولانا ظہیر الدین سنابلی دونوں ہی وہاں امام ونائب امام ہیں، مولانا ظہیر کا خیال ہے کہ میں ان کا استاد ہوں، یہ ان کی اعلی ظرفی اور اعتراف ہے، استفادہ وافادہ کی راہیں میں نے کبھی بند نہیں کیں، مگر میں نے باقاعدہ انہیں درس میں نہیں پڑھایا، بایں ہمہ انہوں نے آداب شاگردی بجالانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، بشمول شیخ عبدالجليل مکی تینوں کا اصرار تھا عشاء کی نماز کے بعد مختصر درس ہو، میں نے انہیں ہر چند سمجھانے کی کوشش کی کہ میں درس وتقریر کا آدمی نہیں ہوں مگر ان کا اصرار غالب رہا، عشاء کے بعد مولانا ظہیر کے تعارف کے بعد تقریباً پندرہ منٹ ایک قرآنی آیت کی تشریح کی، فراغت کے بعد لوگ شفقت ومحبت سے ملے، جس سے اندازہ ہوا کہ ان کو میری باتیں سمجھ میں آگئیں، پھر شیخ مکی اور ڈاکٹر ذاکر کی محبتوں کے طفیل ایک پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا-
مغرب بعد قاری نجم الحسن فیضی بڑی محبتوں سے اپنے آفس لے گئے، آفس مسجد سے متصل ایک عمارت میں ہے جہاں مولانا آزاد نامی اسکول بھی چلاتے ہیں، قاری صاحب بڑی نفیس اور سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک ہیں، ڈھیر ساری باتیں کیں، ابو محترم سے وابستہ کچھ گزشتہ یادیں شئیر کیں، اور اپنے گہرے روابط کے کچھ تراشے دیئے، بڑی اپنائیت کا مظاہرہ کیا، میرا اور چھوٹے بھائی حمید حسن سلمہ کا حلیہ اور سر پر ٹوپی دیکھ کر خوش ہوئے، معاصر طلبہ کے رویے پر دو تین منٹ کی تقریر بھی کی، دعائیں دیں، اور با اعزاز رخصت کیا، مولانا عاطف سنابلی اور مولانا نصب العین بھی قریب تھے آمد کی اطلاع پا کر وہ حضرات بھی آگئے اور علیک سلیک ہوا، دوسرے دن صبح ہم یہاں سے روانہ ہوگئے، گزشتہ سفر میں محدود وقت کےلیے آئے تھے اس لیے مولانا مکی کا اصرار تھا کہ اس بار ضرور آئیں، چنانچہ ان کی محبتیں ہمیں یہاں کھینچ لائیں، مولانا دراصل مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہیں، جامعہ سلفیہ اور ام القری مکہ کے فیض یافتگان میں سے ہیں، جماعتی غیرت اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ فراواں ہے، ابھی گزشتہ دنوں “مولانا داؤد راز: حیات وخدمات” کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا، بڑی کامیابی سے مقالات لکھے گئے اور وقت سے پہلے ایک ضخیم جلد میں انہیں شائع کیا گیا، جس میں مولانا مکی اور محترم اکرم مختار کی کاوشیں قابل تحسین رہیں، اس سیمینار کے پورے عرصے میں مولانا مجھ خاکسار سے برابر رابطے میں رہے، ان کا خیال ہے کہ اس حوالے سے خاکسار کا بڑا علمی تعاون رہا ہے، یہ مولانا کا ظرف اور بڑکپن ہے کہ خوردوں کی ٹوٹی پھوٹی باتیں بھی لائق اعتناء سمجھتے ہیں، اللہ انہیں شاداب رکھے!

اسی دوران محترم اکرم مختار صاحب کا فون آیا کہ ظہرانہ ان کے ساتھ ہوگا مگر شدید خواہش کے باوجود میری کچھ ناگزیر مصروفیات کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا.
مومن پورہ میں ہمارے بہت سے نانیہالی اقرباء رہائش پذیر ہیں، کچھ لوگ آئے، عقیدت سے ملے، مگر ظاہر ہے یہ شکلیں ہمارے لیے نامانوس ہی رہیں، اللہ ان حضرات کو شادمان رکھے.
اگلے دن محب گرامی محترم عبدالنور ملک محمدی کے یہاں عشائیہ طے تھا، آفتاب ڈھلتے ہی جمعیت آفس کرلا آگئے، جہاں سے فاضل دوست سرفراز فیضی کے ساتھ ممبرا جانا تھا، کچھ ہی دیر میں شیخ کفایت اللہ سنابلی بھی آگئے، اس طرح چار لوگوں پر مشتمل ہمارا یہ قافلہ ممبرا کی طرف چل پڑا، راستے میں مختلف علمی موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں، ایک گھنٹہ کی مسافت طے کرکے محترم عبدالنور نملی محمدی صاحب کے گھر پہونچے، وہاں ارباب ذوق وشعور کا ایک انبوہ تھا-

محترم ریاض الدین مبارک، پروفیسر شمس الرب سلفی، محترم عبدالقیوم سنابلی (دہلی)، شیخ عامر مدنی انصاری، محترم جاوید اختر خان، محترم ابن کلیم، شیخ رشید سلفی، حافظ خلیل الرحمن، عزیزم کاشف شکیل وغیرہم بڑی محبتوں سے ملے، سبھوں نے اپنائیت کا اظہار کیا، یوں محسوس ہوا کہ میں اپنے گھر میں آیا ہوں اور کوئی گنگنا رہا ہو:

“نحن الضيوف وأنت رب المنزل”-

پھر کیا تھا مجلس جمی، شعور کی برکھا برسی، آگہی کے سوتے پھوٹے، دانش وبینش کے خیمے تن گئے، فکر وفن کی موجوں میں تھپیڑے کھاتے رہے، تاآں کہ بساط خوان سمرقند بچھا دی گئی، سب کھا پی کر سیر ہوگئے، گھر سے باہر آکر ہم نفسان بساط کو ایک ایک کرکے الوداع کہا، رات گہری ہورہی تھی، کھلے آسمان تلے عامر بھائی (شیخ عامر انصاری مدنی، جن کا مطالعہ منہج وتاريخ پر قابل رشک ہے)، ریاض بھائی، ابن کلیم بھائی اور عبدالنور بھائی دیر تک بوسیدہ کتابوں کے اندرونی اوراق میں گم رہے، مشروب کی سرد آمیزی، آسمان میں جھلملاتے ہوئے تارے، اس کے دریچوں پر رقص کرتے ہوئے بادل کے ٹکڑے، خنک ہوائیں، پشت کی طرف کہساری سلسلے، پھر ان سب کے رو برو کتابوں کی الماری میں بند بصیرت کی خوشبو کو بکھیرنا کس قدر لذت انگیز ہوتا ہے، ان میں خفتہ موتیوں کو تراشنا اور تراش کر انجمن عرفانی میں منتشر کرنا کس قدر “جان سوز” ہوتا ہے، کبھی اسحاق بھٹی، کبھی مولانا آزاد، کبھی حنیف ندوی،… کبھی کشیدہ حالات سے رستے ہوئے لہو کی خونچکاں کہانی- تیرہ وتاریک رات میں گھڑی کی رفتار ٹک ٹک آگے بڑھ رہی تھی، بزم سمیٹ دی گئی، یاران خیال کی آخری لڑی بھی بکھر گئی، تسلیمات کے بعد سب کی راہیں الگ ہوگئیں-
عبدالنور بھائی نے بتی گل کردی، گھپ اندھیرے میں عمر رفتہ کو آواز دی، عہد گزشتہ کے بھیگے ورق پلٹے، 92 کے بعد ممبئی میں ہونے والے فسادات کے لامتناہی سلسلے اور کشت وخون کی گرم بازاری کے خونچکاں واقعات سنائے، دل میں سالوں تک برقرار غیر یقینی صورتحال کا نقشہ کھینچا، موت کے آہنی پنجے کو نگاہوں کے سامنے دیکھا، ایک عرصہ بعد وہ خود ان آہنی سلاخوں میں جکڑے جا چکے تھے، دار ورسن کی سنت تازہ کر آئے تھے، زنجیروں کی کھنک، مغرور جوتوں کے ٹاپ، زبان سے نکلتے ہوئے شرارے، غراتے ہوئے لہجے، ضمیر کو پاش پاش کردینے والے آوازے، یہ اس داستان کی لہو میں ڈوبی ہوئی کہانی کا ایک ورق ہے، یہ ایک عبدالنور نام کی کہانی نہیں، اس عنوان کی نہ جانے کتنی روح فرسا کہانیاں تاریخ کے ویران قبرستان میں دفن ہیں، ان چیرہ دستیوں کے مکافات کا ایک دن مقرر ہے، جہاں ہر ظالم بلکتا اور چیختا ہوگا اور مظلوم مسکراتا اور چہکتا ہوگا. تاریخ کے ان بے نشان جزیروں میں سرگرداں تھکی تھکی نگاہیں جانے کب بند ہوگئیں، اندازہ نہ ہوسکا، آنکھ کھلی تو باد نسیم کے تازہ جھونکوں کے درمیان کسی مسجد سے تلاوت کی آواز آرہی تھی-
صبح کا وقت بھی کس قدر خوبصورت ہوتا ہے، دم سحر جب دنیا خواب غفلت میں سرمست ہو، قرب الہی، یاد الہی، اس کے حضور آہ وزاری میں کس قدر لطف آتا ہے، کیا دنیا کی کوئی لذت اس لذت کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ لذت کام ودہن ہو یا لذت شب وصل، لذت جستجو ہو یا لذت عقدہ کشائی لاینحل، یہ تمام لذتیں اس ایک لذت آشنائی پر نچھاور، تمام راحتیں اس ایک راحت پر قربان، تمام تنہائیاں سحر کی تنہائی کے آگے سجدہ ریز، الہی اسی ایک لذت آشنائی کی خفتہ خو بیدار کردے.
نماز سے فراغت کے بعد پو پھٹتے ہی شیرازی دسترخوان سے سیراب ہوئے، پھر کچھ ضروری کاموں کے لئے چل دیئے، دن ڈھلے کام کا بوجھ ہلکا ہوا، کچھ ناو نوش کے لئے ایم یو کی کیمپس کینٹین میں شیخ ابوذر مدنی، برادرم عبدالباری شفیق اور عزیزم حمید حسن کے سنگ بیٹھ رہے، میخانے میں بیٹھ کر بادہ وساغر لنڈھانے کا جو تہذیبی رویہ شمالی خطے میں ہے اس کا لطف الگ ہے، ہم “لا پلادے ساقیا پیمانہ پیمانے کے بعد” پر ایمان رکھتے ہیں، وہاں تو عالم یہ ہے کہ ان لفظوں کے حصار سے پہلے ہی طبیعت ڈھیر ہوجاتی ہے-
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوسکا
سورج بادلوں کے اوٹ میں چھپ کر آسمان پر سیاہی بکھیرنے کی جد وجہد میں مصروف تھا، فون کی گھنگھناہٹ کی آواز آئی، اسکرین پر محترم سرفراز فیضی کا نام طلوع ہوا، “ابوالمیزان بھائی یہیں آفس میں ہیں، یاد کررہے ہیں”، یہ میرے لیے بہت پرکشش جملہ تھا، مجھے ہر حال میں اس نام کے البیلے شخص سے ملنا تھا، گزشتہ سفر میں وعدہ تھا کہ آئندہ سفر میں ایک مجلس آپ کے ساتھ سجے گی، سو شوق ملاقات نے ملنے کی ٹھان لی، چلے اور کچھ دیر میں جمعیت کی آفس پہنچ گئے، برادرم سرفراز فیضی اور برادرم ابوالمیزان بیٹھے تھے، محبت آمیز استقبال کیا، کچھ دیر اس پیارے دوست کے چہرے کا خاموش مطالعہ کرتا رہا ہمت اور ذہانت کی کلیاں چہرہ سے چٹخ رہی تھیں، باتیں ہوئیں، یادیں دہرائی گئیں، شوق و وارفتگی کا کیف آگیں تبادلہ ہوا.

ابوالمیزان، ابن کلیم، شعبان بیدار، سرفراز فیضی اور شمس الرب سلفی، یہ وہ نام ہیں جنہوں نے ممبئی کی سلفی صحافت کو زندگی کی روح دی، فرسودہ خیالات اور تہذیب کہن کے بتوں پر پتھر پھینکے، بزدلی اور کم کوشی کے کہساروں کو کچل کر حوصلے، عزم اور یقین کے سپاٹ راستے تراشے، تنقیدی رویوں کو مثبت رخ دیا، حالات کی ناہمواری میں جینے کا حوصلہ سکھایا، نوجوان قلم کاروں کو فکر ونظر کی نئی جہتیں دیں، دینی صحافت کے گلستان میں شجر کاری کرکے معاصر منظر نامے کو اس سے جوڑنے کی خو پیدا کی، سماجی بندشوں اور غیر ضروری مسلکی حصار بندیوں کو سبوتاز کرنے کی کھڑکیاں وا کیں، اس ابوالمیزان سے ملنا اور باتیں کرنا چاہتا تھا، جب چہرے پر نگاہیں گہری کیں تو یہ شعر لکھا دیکھا:
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
خیالات کی انہیں موجوں میں مغرب کی اذان ہوئی، نماز کے بعد امیر جمعیت شیخ عبدالسلام سلفی، نائب امیر شیخ مقیم فیضی اور شیخ عنایت اللہ مدنی بڑی محبت اور والہانہ تپاک سے ملے، مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں، امیر صاحب نے کیرلا کے سفر کی کچھ روداد بتائی، وہاں بڑے بھائی شیخ صہیب حسن مدنی مبارکپوری (لکچرر جامعہ الہند) سے ملاقات کا ذکر خیر کیا، اللہ ان حضرات کو خوش رکھے-

اسی دوران شیخ کفایت اللہ سنابلی، جناب شوکت پرویز اور دیگر حضرات تشریف لائے، پھر ہماری طویل مجلس ہوئی، شیخ کفایت سے میری پہلی ملاقات تھی، شیخ کا خیال تھا کہ ان کو اس بندہ عاجز سے ملنے کی خواہش تھی، یہ ان کا حسن ظن اور محبت ہے، ورنہ “کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل”، شیخ کفایت کی علمی وشرعی مسائل پر گہری نظر ہے، کئی اہم کتابوں کے مؤلف ہیں، ان کا پسندیدہ موضوع اہل حدیث کے امتیازی مسائل ہے، علمی گفتگو کے لئے موقع اچھا تھا، میں نے گزارش کی کہ اس موضوع پر بات ہو کہ موجودہ وقت میں ہمیں کن کاموں کی ضرورت ہے اور ہم کر کیا رہے ہیں؟ بڑی اہم باتیں ہوئیں، نچوڑ یہ رہا کہ تقریبا تمام میدان ابھی تشنہ ہیں، ہر میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ کام انفرادی سے زیادہ اجتماعی ہیں، خاکسار نے بھی کچھ گزارشات اور علمی منصوبے رکھے، عشاء کی نماز پڑھی گئی-
نماز کے بعد شیخ سرفراز فیضی کی قیادت میں شیخ کفایت، برادرم ابوالمیزان اور برادرم عبدالباری شفیق کے ہمراہ عشائیہ طے تھا، مندی وہاں کا خاص ڈش ہے، یہ در اصل ایک یمنی ڈش ہے، بہت ہی لذت آمیز مگر جب یہ حیدرآباد میں تناول کریں تو اس کا مزہ ہی الگ ہے، پھر ایک ساتھ کافی پی گئی، تیرہ وتاریک رات ہو، بزم عرفانی آراستہ ہو، ارباب فکر ونظر کا جھرمٹ ہو تو لطف دو آتشہ ہوجاتا ہے، ڈھیر ساری محبتوں اور الطاف کریمانہ کے ساتھ ان حضرات نے ایئرپورٹ روانہ کردیا، خدا دو طرفہ چاہتوں کو قائم رکھے.
زمانہ طالب علمی جامعہ سلفیہ بنارس میں تین سفر نامے لکھے:
“چند ایام لکشدیپ میں”،
“شموگہ کا ایک دعوتی سفر” اور
“شموگہ میں دعوتی سرگرمیاں”،
جو محدث – بنارس میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئے، اہل علم نے انہیں یاد رکھا، وقتا فوقتاً ذکر بھی کیا، آج 2/اکتوبر کی رات کچھ ہجوم کار ہلکا ہوا تو یہ چند ٹوٹی پھوٹی سطریں زیر قلم آگئیں، ممکن ہے کسی کے لئے سامان راحت ہو اور کچھ نیکیاں ہاتھ لگ جائیں وگرنہ یہ قلمی عیاشی کے سوا کچھ بھی نہیں.

9
آپ کے تبصرے

3000
9 Comment threads
0 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
9 Comment authors
newest oldest most voted
ثناءاللہ صادق تیمی

ما شاءاللہ تبارک اللہ، رنگین ادبی اسلوب میں لکھا گیا اچھا سفرنامہ ہے. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Uzair ahmad

کیا لکھا ہے ،جواب نہیں ،پڑھا تو بس پڑھتا چلا گیا،ایسا محسوس ہورہاکہ کان میں کوئی پھونک رہا تھا اور صاحب قلم انھیں لکھتا چلا گیا ہو

حافظ خلیل الرحمن سنابلی

ما شاء اللہ خوبصورت سفر نامہ…. واقعی آپ سے ملاقات کی شام کی کہانی اور اس کی بات ہی کچھ اور تھی… ہم بھی ایک کنارے بیٹھے تھے اور اپنے بڑوں کے تجربے اور معلومات کے دریا سے چند قطرے سمیٹنے کی کوشش کر رہے تھے…

عبدالغفار سلفی بنارس

الله کرے آپ اپنے ہر سفر کہ روداد اسی دلکش انداز میں لکھ کر تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھاتے رہیں، ماشاءاللہ بہت زبردست لکھا ہے، ستائش کے لیے الفاظ نہیں ہیں، اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے

Noor Alam

ماشاء الله! تبارك الله!
ادبی پیرہن میں نہایت دلکش اور جامع سفر نامہ!!! اللہ تعالی آپ کی علمی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔

Mohammad umar khalid

ماشاء الله…. متعلقین و اردو ادب سے شغف رکھنے والوں کے لئے کے لئے سامان راحت….. اللہ تعالٰی استاد محترم کے قلم میں مزید قوت عطا فرمائے….

نسيم سعيد تيمي

ماشاءاللہ آپ کا سفرنامہ پڑھ کر محسوس ہوا کہ الفاظ وجملے اور محاورے واستعارے آپ کے سامنے قطار لگائے کھڑے ہیں اور ان میں جو خوبصورت ودلکش ہیں انہی اپنی اپنی جگہ سجا رہے ہیں‘یقینا یہ شائقین اردو ادب کے لئے سامان راحت ہے. اللہ زور قلم اور زیادہ.

ابو الفیض۔۔۔

ماشاءاللہ۔۔۔۔

چیدہ چیدہ الفاظ۔۔
حسین ترکیبوں سے مزین۔۔
دل موہ لینے والے پیراگراف۔۔
۔اور پھر مکمل مضمون
مدہوشی کا جام پلائے جا رہا تھا۔۔۔اور ہم پیئے جارہے تھے۔۔۔

ماشاءاللہ۔۔۔اللھم زد فزد۔۔۔۔

خبیب حسن

لاجواب… ❤️❤️
سلامت رہیں بھیا 😬😬