سوشل میڈیا اور سماجی اخلاقیات کا بحران

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تعلیم و تربیت

اخلاق کسی بھی قوم کا وہ قیمتی سرمایہ ہوتا ہے جو اس قوم کے تہذیبی تشخص اور اقوام عالم کے درمیان اس قوم کی شناخت اور امتیاز کا پیمانہ ہوا کرتا ہے، کسی بھی قوم کے اخلاقی اقدار دراصل اس کی تہذیب کی نہ صرف ترقی کے بلکہ اس تہذیب کے دوام اور بقاء کے اسباب بھی تصور کئے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے اخلاق کو اپنے ترکیبی عناصر میں بنیادی اہمیت دی ہے، قرآن میں حامل ِقرآن کا تعارف ان الفاظ میں کروایا گیا:

{وإنک لعلی خلق عظیم }

ترجمہ : بلاشبہ آپ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں (سورۃالقلم : ۴)
اور مائی عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تفسیر یوں فرمائی:

(کان خلقہ القرآن)

آپ ﷺ کے اخلاق تو سراپا قرآن تھے (مسندأحمد : ۲۴۶۰۱)
اسلام کی نظر میں اخلاقی اقدار کا فروغ اور ان کا تحفظ دراصل دین وایمان کا تحفظ ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق اخلاقی اقدار انسانی زندگی کی حاجیات یا کمالیات کے بجائے ضروریات کے درجہ میں شمار ہوتے ہیں ۔
اسلامی اخلاقیات کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے، انسانی زندگی کے تمام شعبہائے حیات اس کے دائرہ میں آتے ہیں، بنا بریں انسانوں کے سماجی روابط بھی اسلامی اخلاقیات کا ایک اہم باب بلکہ بعض حوالوں سے زیادہ ہی اہم حصہ شمار ہوتے ہیں، سماجی اخلاقیات کے سلسلے میں اسلام اس قدرمفصل اور دقیق احکام پر مشتمل ہے کہ یہ باب خود اپنے آپ میں اسلام کی ایک روشن اور تابناک تصویر رکھتا ہے اور ساتھ ہی تہذیبوں کے تصادم اور ٹکراو ٔکے اس دور میں اسلام کی دعوت کا ایک بے مثال نمونہ بھی ہے، بلکہ آگے بڑھ کربجا طور پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دور حاضر میں جہاں جدید ذرائع نے سماجی رابطے کو انسانی زندگی میں زیادہ ہی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے اور ان ذرائع نے سماج پر بڑی مضبوط گرفت بنائی ہے اسلام کے علاوہ شایدہی کوئی دین یا کلچر دنیا میں اس وقت ایسا ہو جوسماجی اخلاقیات کے اصول واقدار پر مشتمل اس قدر واضح اور مفصل تصور رکھتا ہو جتنا کہ اسلامی نظام اخلاق میں ہمیں ملتا ہے ۔
دوسری طرف نظریاتی طور پر اس قدر مستحکم نظام کی حامل مسلم قوم کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں پر سرسری ہی نظر ڈال لیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیا اسلامی اخلاق کی برتری کی اس قدر مضبوط دعویدار قوم عملا اس قدر کمزور کردار کی حامل ہوسکتی ہے؟ کیا دعوی اور دلیل میں اتنابھی فاصلہ آسکتا ہے؟
سوشل میڈیا کے مفید یا مضر پہلوؤں پر بڑی مفصل گفتگو ہوسکتی ہے مگراس کی افادیت یا نقصان سے قطع نظر اس کا استعمال کرنے والوں میں سے بہت ساروں کے اندر نظر آنے والا اخلاقی بحران انتہائی تشویشناک امر ہے، ایک طرف سوشل میڈیا نے گونگوں کو زبان، ٹنڈوں کو قلم تھما کر احادیث میں وارد قیامت کی ان نشانیوں کا مظہر اورعملی تصویر بنادیا ہے جنہیں کہیں قیل وقال کی کثرت تو کہیں قول کے ظہور اور کہیں (ویتکلم الرویبضۃ) سے تعبیر کیا گیاہے، اب ہر کوئی لکھتا ہے، بے دریغ لکھتا ہے، بے تکان لکھتا ہے، بے لگام لکھتا ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا تک ہر نفس کی رسائی کا اثر اس شکل میں بھی نظر آتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں دوسطر لکھنے کا ادب نہیں، بات رکھنے کا سلیقہ نہیں، بڑی مستعدی کے ساتھ صبح و شام سوشل میڈیا پر تبصرہ نگاری کے فرائض نبھائے جارہے ہیں، ان کی تحریر، تحریر کے الفاظ، اس کا اسلوب، اور اس کی روح پر نظر ڈالئے تو ایسا لگتاہے جیسے یہ حضرات یہ بات جانتے تک نہیں کہ سماجی اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے، سوشل میڈیا پر ایک طرف تو ایک طبقہ ایسا ہے جو زبان وبیان کے ادب سے بے بہرہ نظر آتا ہے تودوسری طرف ایک بڑی تعداد ایسے لکھاریوں کی بھی ہے جو معاملات کے ادب اور سماجی روابط سے متعلق اسلامی اخلاق سے اس قدر عاری نظر آتے ہیں کہ یہ صورت ِحال کسی بحرانی کیفیت سے کم نہیں لگتی، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، اسلوب کی شائستگی، مزاج کی گرمی کے باوجود لہجہ کی نرمی، الفاظ کا حسن ِانتخاب، مخاطب کا احترام، فرق ِمراتب کا لحاظ، دوسروں سے متعلق حسن ِظن، مخاطب کی بات کے لئے بہتر محمل تلاش کرنا، حسن ِتعلیل، ذاتی معاملات میں برحق ہونے کے باوجود جھگڑے سے بچنے کی خاطر حق سے دستبردار ہوجانا، صاحب ِتحریر کا مدعا واضح ہوجائے تو جانبی پہلوؤں کو موضوع بحث نہ بنانا، گروپ میں دوسرے شرکاء کی موجودگی کا لحاظ کرنا، بحث و مباحثہ کے دوران تحمل مزاجی کاثبوت دینا، بدکلامی اور گالی گلوچ سے احتراز، دوسرے کی نیت سے متعلق فیصلے صادر کرنے سے بچنا وغیرہ جیسے اخلاق کا مظاہرہ عنقاء ہے، ایسا لگتا ہے جیسے ان میں سے کوئی چیز نہ ان کے پلے پڑتی ہے اور نہ وہ خود پر اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری عائد ہوتی دیکھ پاتے ہیں ۔ جیسے زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوں “قلم میرا ہے میں جو چاہوں لکھوں، جیسے چاہوں لکھوں”۔
سماجی اخلاقیات کے باب میں بالخصوص شائستہ الفاظ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے، الفاظ نہ صرف یہ کہ معانی کے ترجمان ہوتے ہیں بلکہ اکثر معانی کے ساتھ جذبات اور احساسات کے بھی غماز ہوتے ہیں، ایک سلجھے ہوئے قلمکار کو یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ تقریر کے مقابلے اس کی تحریر میں اس کے الفاظ ہی اس کی شخصیت کا بھرم رکھتے ہیں اور شخصیت کے بھرم کے ساتھ ساتھ یہی الفاظ اس تہذیب اور ماحول کے بھی عکاس ہوتے ہیں جس ماحول میں اس لکھنے بولنے والے کی پرورش وپرداخت ہوئی ہے، فکر ونظر کے کس دھارے سے اس کی وابستگی ہے اور اس فکر کا اس شخص کی تربیت میں کس قدر اثر ہے ۔ ایک مسلمان کی زبان وبیان اور اس کے اسلوب کواسلام سے جوڑ کر بھی دیکھا جائے گا، کسی بھی دعوت کے علمبردار کے لب ولہجہ کو اس کی دعوت سے جوڑ کر دیکھا جائے گا، دنیا میں بہت سارے نظریات کاغذ پر بڑے پرکشش نظر آتے ہیں مگر زمین پرجب ان کے نفاذ کی بات آتی ہے تبھی دراصل دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا ہے، اصل اعتبار تو میدان کی سچائی کا ہے، سچے نظریات کاغذ سے زیادہ زمین پر اچھے لگتے ہیں، گفتار سے بڑی کردار کی دعوت ہے، دعوت سچی ہو مگر اس کے علمبردار کا کردار اس دعوت سے میل نہ کھائے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ یاتو یہ دعوت اس بیش بہا خزانہ سے خالی ہے یاپھر اس شخص کو داعی وعلمبردار بننے سے قبل خود کو اس دعوت کا مدعو اور مخاطب بنانا چاہئے۔
یاد رہے ہمارا مقصود یہ بالکل بھی نہیں کہ ہم “ْمیٹھا بول زہر گھول‘‘ کی دعوت دیں، شرک کو شرک لکھا جائے، بدعت کو بدعت اور گمراہی کو گمراہی ! اور بوقت ضرورت مخاطب کی ٹھیک ٹھاک خبر بھی لی جائے مگر اس’’خبرگیری‘‘ کا بھی اپنا ایک سلیقہ ہے، بقول اقبال:
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اور اگر کسی کے اندر یہ قرینہ نہیں پایا جاتا تو اس کو چاہئے کہ ذرا اپنے بزرگوں کی تحریروں کو پڑھے، ان کے علم کے ساتھ ان کے اخلاق اور مخاطب کی بھول پر اس کی چٹکی لینے کا وہ انداز بھی سیکھے جو مقصد کی تکمیل بھی کرتا ہے اور دوسری طرف فریق مقابل کی ’’دھلائی‘‘ بھی سلیقہ سے کرتا ہے، اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر اپنا قلم توڑ دیں، گھر بیٹھے رہیں کہ یہ قلمی جہاد فرض ِعین نہیں ہے کہ آپ قلمبردار میدان میں کود پڑیں، خاص طور پر اس وقت جب آپ ’’غیر مستطیع‘‘ ہیں ۔
یاد رہے حق گوئی کا مطلب بداخلاق ہونا نہیں ہے، الفاظ کو تول کر بولیں، جب آدمی تول کر بولے تو اس کے بول کا بھی ایک مول ہوتا ہے، سماج میں اس کی بات کا ایک وزن ہوتا ہے، کس قدر نادان ہے وہ شخص جو اپنی بداخلاقی کی وجہ سے خود اپنی برحق بات کو بے وزن کرلے ۔
سوشل میڈیا پر بعض لوگوں کی تحریر پڑھیں تو (پیشگی معذرت کے ساتھ عرض ہے) ایسا لگتا ہے جیسے ان کا حال ویسا ہی ہے جیسے کسی شخص نے کھانے پینے میں بداحتیاطی کرلی ہو جس کے نتیجہ میں وہ بدہضمی کا شکار ہوگیا ہو اور اب پیٹ کی اینٹھن اور مروڑ اس قدر شدید ہے کہ آدمی قابو سے باہر ہوا جارہا ہو اور بے اختیار جہاں تہاں فارغ ہولے۔ واقعی اگر کسی کو بدہضمی کا ایسا ہی عارضہ لاحق ہوجائے تب بھی اس شخص کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اسے اس بات کا اختیار بالکل بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی مجبوری کو سب کی مجبوری بنادے، ایسی تحریر لکھنا اس کی مجبوری ہوسکتی ہے مگر اس کو پڑھنے پر دوسروں کو مجبور کرنے کا حق اسے حاصل نہیں ہے، مذکورہ صورت حال سے دوچار شخص کوشریعت اسلامیہ کا حکم ہے کہ

(اتقوا اللاعنین) (مسلم :۲۶۹)

عوامی مقامات پریا عوامی پلیٹ فارم پر گند پھیلا کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتاکہ ’’میں نے لکھ دیا ہے آپ چاہیں تو نہ پڑھیں‘‘۔
رد وقدح اور جرح کے باب کو سب سے زیادہ محدثین کرام نے استعمال میں لایا ہے، محدثین کرام نے حدیث ِرسول کے تحفظ کی خاطر راویان حدیث کی جرح کی ہے اور ان کے حسب حال مناسب الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے جن میں بعض الفاظ کذاب، دجال، خبیث جیسے بھی ہیں مگر راوی کے حالات بیان کرنے سے آگے بڑھ کر ان محدثین کی زبان، ان کے اسلوب اور طرز تحریر کو دیکھئے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان سے زیادہ مؤدب شاید ہی کوئی ہو، یہ در اصل اس سنہرے اصول کی ترجمانی ہے کہ (الضرورات تقدر بقدرھا) یہی وجہ ہے کہ آپ فن جرح وتعدیل کی پوری ایک کتاب پڑھ لیجئے آپ کی طبیعت میں انقباض یا تکدر کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوگی جو کیفیت بعض لوگوں کی چند سطری تحریر پڑھ کر ہوتی ہے ۔
فن جرح وتعدیل کی مذکورہ ضرورت کے باوجود بعض محدثین کا طرز عمل یہ بھی تھا کہ راوی پر جرح کا وہ مقصود اگر ایسے سخت الفاظ کے بغیر بھی حاصل ہوجاتا تو ان الفاظ کے اختیار کرنے سے گریز کرتے اور بہتر الفاظ کوپسند فرماتے تھے، امام شافعی کے شاگردِ رشید امام مزنی (۲۶۴؁ھ) فرماتے ہیں : ایک دن امام شافعی نے مجھے کہتے ہوئے سنا کہ فلان کذاب (فلاں راوی جھوٹا ہے) تو فرمایا :

یا أباإبراھیم اکس ألفاظک أحسنہا

(اپنے الفاظ میں سے بہتر الفاظ کا انتخاب کرو)
یہ نہ کہو فلاں کذاب ہے بلکہ یہ کہہ دو :

حدیثہ لیس بشيء

(اس کی روایت کردہ احادیث کا اعتبار نہیں ہے) (فتح المغیث :۲-۱۲۸)
راویوں پر جرح کے سلسلے میں بالکل یہی روش امام بخاری نے بھی اختیار فرمائی ہے ۔
سوشل میڈیا پر مشغول افراد کو اس صورت حال کی نزاکت کو محسوس کرنا چاہئے، عوامی رابطے کے ذرائع جن وجوہات سے عوام الناس میں دوریوں کا سبب بن رہے ہیں ان میں سے ایک اہم وجہ سماجی اخلاقیات کا فقدان یا ان کی عدم رعایت بھی ہے، وقت رہتے بندھ باندھ لیا جائے تو سیلاب آنے سے روکا جاسکتا ہے ورنہ جب صورت حال سیلابی ہوجائے گی تو بہت کچھ بہہ جائے گا جو شاید ہی پھر کبھی دوبارہ ہاتھ آئے۔
ساتھ ہی قرآن وسنت کے ان ارشادات کو بھی مد نظر رکھیں :

(ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید)

ترجمہ : انسان منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر یہ کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے (ق :۱۸)
اور بنی اسرائیل کو حکم ہوا:

(وقولوا للناس حسنا )

ترجمہ : اور لوگوں سے اچھی باتیں کہو(البقرۃ :۸۳)
اور اہل جنت کا وصف ہی یہ بیان ہوا

(وھدوا إلی الطیب من القول )

ان کو پاکیزہ بات کی رہنمائی کردی گئی (الحج :۲۴)
اور نبی أمی ﷺ نے فرمایا:

(من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت)

ترجمہ : اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو تو خیر کی بات کرویا خاموش رہو (متفق علیہ)

6
آپ کے تبصرے

3000
6 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
6 Comment authors
newest oldest most voted
سراج احمد جامعى مدنى

ماشاءاللله
الله شيخ محترم كى زبان وقلم میں مزید تأ ثیر عطا فرمائے

ندیم اصغر عمری

بہت ہی ذبردست تحریر…یہ بات کہ “یہی وجہ ہے کہ آپ فن جرح وتعدیل کی پوری ایک کتاب پڑھ لیجئے آپ کی طبیعت میں انقباض یا تکدر کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوگی جو کیفیت بعض لوگوں کی چند سطری تحریر پڑھ کر ہوتی ہے ۔”
پہلے سے موجود تھی مگر نئی لگی

جی ظہیر احمد عمری

با ادب قلم اور تحریر کی ایک نادر مثال شیخ محترم کا یہ مضمون

ثناءاللہ صادق تیمی

بارك الله فيكم و نفع بهذا المقال القيم

زبیر خان سعیدی العمری

بہت عمدہ تحریر

محمد اشتیاق نعمانی

ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر ہے