ارتداد کی لہر: اسباب و علاج

ارتداد کی لہر: اسباب و علاج

عامرسہیل عقائد

اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کی جانب پلٹ جانے کو ارتداد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ارتداد کی واضح اور اجتماعی شکل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد بنو فزارہ، بنواسد، بنوعامر اور غطفان وغیرہ قبائلیوں کے اندر ظاہر ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل مکہ، مدینہ اور طائف والوں کی طرح ان قبائل کے افراد کے دلوں میں اسلام نے اپنی جڑ نہیں پکڑی تھی بلکہ ان کا اسلام جزیرہ نمائے عرب کے اندر ایک مضبوط قیادت کے تئیں وفاداری کی شکل میں تھا اور وہ لوگ ایک حلیف کی حیثیت سے مسلمانوں کے ساتھ آئے تھے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو انھوں نے اس مضبوط قیادت کے خاتمے سے تعبیر کیا اور اسلام سے پھر گئے لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اسلام فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑتا آگے بڑھتا گیا۔
وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا اور اسلام کی سربلندی کے خلاف سازشوں کا بازار بھی گرم کیا جاتا رہا، اسلامی بنیادوں، اسلامی عقائد اور منہج پر حملہ بھی ہوتا رہا، اسلام کے خلاف پروپیگنڈے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تحریکات گرچہ اپنے وسائل، اسلوب اور حرکات کے اختیار میں ایک دوسرے سے مختلف رہیں لیکن سبھی کا مقصد ایک ہی رہا کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے رہا۔
اہل اسلام کے دلوں میں اسلامی منہج کے متعلق مفروضات اور وسوسوں کو پیدا کرکے ارتداد کے لیے چلائی جانے والی مہم کو کبھی وقتی کامیابی ملی تو کبھی منہ کی بھی کھانی پڑی۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئے ارتداد کا سبب قبائلی عصبیت، لالچ اور ایران و روم کا قرب پانے کے لیے خود کو اسلام کا مخالف ظاہر کرنا تھا لیکن بعد کے ادوار میں ارتداد کے مزید اسباب ظاہر ہوئے اور ان اسباب کی تنفیذ کے لیے وسیلے کے طور پر مستشرقین کے لٹریچر، انسانی خدمات کے پردے میں چھپی سازش اور اسلام کے خلاف الزام و اتہام نے کام کیا۔
دور حاضر میں جہالت ارتداد کے اہم اسباب میں سے ہے۔ کیونکہ بہت سارے مسلم افراد ایسے عقائد اور اعمال کو گلے سے لگائے رکھتے ہیں جو انھیں لاشعوری طور پر کفر کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔
ایک بڑا مغالطہ لوگوں کے ذہن میں یہ ہے کہ زبان سے تصدیق کا نام ہی اسلام ہے، کفر اسی وقت مانا جائے گا جب صراحت کے ساتھ اسلام کا انکار اور کفر کی تصدیق کی جائے ورنہ اسلام کی تصدیق کے ساتھ اسلامی بنیادوں کے انکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اسی مغالطے کا اثر یہ ہوا کہ اسلام سے منسوب اور فلسفے سے متاثر بہت سارے دانشوران نے اسلامی عقائد کو زد پہ لے لیا، عقلی بنیاد پر انھیں سمجھنے کی کوشش کی اور ناکامی کی صورت میں انکار کردیا۔ اسی طرح کم فہمی کی بنا پر بہت سارے اسلامی احکامات کا مذاق اڑایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے دائرے سے نکل کر ارتداد کے قریب ہوتے چلے گئے۔
اسلامی حکومت کا قیام نہ ہونا بھی ارتداد کے انتشار کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں ارتدادکی حدود اور سزا کا نفاذ ہوگا جس سے ارتداد کی روک تھام ہوسکے گی، اسی لیے جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں پر تعجب ہوتا ہے کہ اگر شورائیت و جمہوریت کو ایک ہی معنی میں سمجھ لیا جائے گا تو اسلامی حدود کا نفاذ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ جمہوری نمائندوں کا انتخاب تعداد کی زیادتی کی بنیاد پر ہوتا ہے اور عوام اپنی آسانی کے لیے ایسے نمائندوں کا انتخاب کرے گی جو سزاؤں کے نفاذ میں روڑا اٹکا سکیں جبکہ شوری کے نمائندوں کا انتخاب علم و معرفت اور عقل ودانش کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسی لیے ان کی موجودگی میں سزائیں طے ہوں گی، عدل و انصاف کے ساتھ ان کا نفاذ ہوگا اور اندرون ملک ارتداد جیسے اضطرابات کی روک تھام ہوسکے گی۔
قدیم اور جدید کا تصور بھی لوگوں کو اسلامی ڈگر سے ہٹانے کا ایک اہم سبب ہے۔ وہ یوں کہ بعض افراد کے اپنے گمان کے مطابق اس دور ترقی میں اسلام پرانا ہوچکا ہے، اسلامی احکامات اور حدود وقیود اس لائق نہیں کہ ان کے دائرے میں بیٹھ کر خود کو ترقی کی بھاگ دوڑ سے دور رکھا جائے، اس تصور کا سبب اسلام کی ترجمانی کرنے والوں کی سادہ دلی اور بیجا اندیشہ ہے جیسا کہ ایک زمانے میں انگریزی سیکھنے اور کمپیوٹر کے استعمال پر پابندی عائد کی جارہی تھی اور ایسے کاموں کو اسلامی احکامات سے ٹکراؤ کی نظر سے دیکھا جارہا تھا جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ آگے بڑھ کر باطل تحریکوں کے مقابلے کے لیے جائز وسائل کا پوری تندہی سے استعمال کیا جائے اور نوجوانوں کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ کسی بھی میدان میں رہ کر اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھ سکیں خود اسلامی تعلیمات سے مطمئن ہوں اور دوسروں کی بھی تشفی کا سامان کرسکیں۔ دور حاضر میں زیادہ تر اسلامی جماعتیں اسلام کی تبلیغ ودفاع سے زیادہ اپنے خاص مسلک کے دفاع میں مصروف ہیں جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ فروعات کو وجہ نزاع بناکر ہزاروں صفحات سیاہ کیے جارہے ہیں اور اسلام کے بنیادی اصولوں کی معرفت سے عوام کو دور رکھا جارہا ہے۔ مدارس سے فیضیاب لوگ کسی طرح دلائل کا سہارا لے کر خود کے بچاؤ کا سامان کررہے ہیں جبکہ ان کا فیض خود کے ہمجولیوں اور شناساؤں کو نہ پہنچ سکا بلکہ اس کے برعکس مغربی ادب، فلمس اور مختلف موضوعات پر خاص مقصد سے تیار کی گئی ڈاکیومنٹری سے متاثر ہوئے یا یوں کہیے کہ ان کی برین واشنگ ہوئی جس کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات اور تشخص سے پیچھا چھڑا کے اسلام کو صرف اسلامی نام رکھنے تک ہی محدود کردیا گیا۔ بنیاد کمزور ہوئی تو طرز حیات میں تبدیلی آئی، خطباء و واعظین نے اساس پر نہ دھیان دے کر ظاہری ڈھانچے کی اصلاح پر ساری توجہ مرکوز رکھی۔
مکہ اور مدینہ میں اسلامی دعوت کے مراحل پر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ عقیدے کی اصلاح دعوت کا اولین محور رہا ہے، دھیرے دھیرے جب نفوس میں عقیدے نے اپنی جڑ مضبوط کرلی، خالق کی معرفت اسلامی نہج پر ہوگئی اور معبود سے اخلاص کا رشتہ استوار ہوگیا تو احکام کے بیان کا مرحلہ آیا اور ان کے اعتبار سے زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا گیا۔
جبکہ ہمارے یہاں معاملہ برعکس ہے، غیر مسلموں کو توحید کی دعوت تو دور کی بات ہے خود مسلمانوں کے یہاں توحید کی صحیح معرفت نہیں ہے اور اسی خطرناک خلل کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے ڈر، خوف اور لالچ میں آکر اسلام سے پہلو تہی اختیار کرنا شروع کردیا ہے۔
کسی بھی انسان کو اولا اگر اللہ کی صحیح معرفت ہوجائے، عقیدے کو وہ صحیح طور پر سمجھ لے اور توحید کو اس کے صحیح معنی ومفہوم کے ساتھ دل میں جاگزیں کرلے تو بقیہ احکامات پر عمل اس کے لیے آسان ہوگا، وہ اسلامی طرز حیات کو اپنائے گا تو رب کی رضا کی خاطر اپنائے گا، وہ اسلام کے قریب ہوگا تو اسے یہ خیال رہےگا کہ اسلام بقیہ ادیان کی طرح مذہبی رہنماؤں کی سوچ کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کسی مذہبی رہنما کو غلطی سے مبرا مان کر اس کے پیچھے چل پڑنے کا نام دین پسندی ہے بلکہ ہر اہل اسلام کا حق ہے کہ وہ دلائل کی اتباع سے اسلام اور منہج اسلام کو اپنائے۔ لیکن اگر کسی کے ذہن میں اللہ کی معرفت اور دل میں اس کی محبت نہیں ہے تو وہ اسلام کو آباء واجداد کے ذریعہ منتقل ایک تقلیدی منہج کے طور پر اپنائے گا ساتھ ہی اسے عقلی اعتبار سے یا زمانے کی چمک دمک کو دیکھ کر یا خوف لالچ میں آکر دوسرا کوئی منہج بھاگیا تو اسلام کو چھوڑکر دوسرا منہج اپنانے میں وہ پس و پیش سے بھی کام نہیں لے گا۔
فی الحال جن مسائل کو موضوع بحث بناکر اسلام پر زبان درازی کی جارہی ہے وہ یقینی طور پر ناقابل حل نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مسلک میں خطرے کا نشان ہیں اور اہل مسلک کے یہاں اس نشان سے تجاوز گوارا نہیں ہے کیونکہ مسلک اعتراض کی زد پر آجائے گا۔ اسلام پر انگلی اٹھتی ہے تو اٹھتی رہے بس مسلکی دوکان نہ بند ہو جبکہ دوسرے مسلک میں ان مسائل کو فقہاء کا اجتہاد مان کر ان سے درگزر کیا جاتا ہے اور تعلیمات نبوی کی روشنی میں ان کا مناسب حل تلاش کیا جاتا ہے، یہی بہتر طریقہ ہے۔
ضرورت ہے کہ سب سے پہلے عقیدے کو مرکزی اہمیت دی جائے، لوگوں کو توحید کے تقاضوں سے روشناس کرایا جائے، بچوں کی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ ابتدا ہی سے وہ اپنے حقیقی معبود کو جان سکیں، علماء کی ایسی ٹیم تیار ہو جو بین المسالک منافرت پھیلانے کے بجائے سبھوں کو توحید کی لڑی میں پرونے کی کوشش کرے، ابتدائے اسلام سے تاحال متنوع ارتدادی حملوں کے اسباب کا مطالعہ کرے اور دیکھے کہ ہر دور میں علماء کا ارتداد کے تئیں کیا کردار رہا ہے۔ اسی کردار میں عصری تقاضوں کے مطابق ضروری ردو بدل کرے اور خلوص نیت سے کوشش میں لگ جائے۔
جماعتی سطح پر عوام سے رابطہ بڑھایا جائے، ان کے دکھ درد کو جاننے کی کوشش کی جائے، مشکلات کی گھڑی میں لوگوں کا ساتھ دیا جائے، مصائب و پریشانی میں ان کی دلجوئی کی جائے، جلسے اور کانفرنس کے نام پر کروڑوں کے خرچ کے بجائے زمینی سطح پر کام ہو تاکہ عوام دوسرے مذہبی رہنماؤں کا موازنہ اسلامی مذہبی رہنماؤں سے نہ کرسکیں بلکہ پوری صراحت اور شرح صدر کے ساتھ اپنے ظن و گمان اور شکوک و شبہات کو علماء کے سامنے پیش کریں اور ان کو مناسب حل بھی ملے تاکہ ارتداد جیسی سازش کے سامنے بند باندھا جاسکے اور باغپت کے حالیہ ارتداد جیسا کوئی دوسرا حادثہ نہ رونما ہو۔

آپ کے تبصرے

3000