عمان کے بعد کون؟

ابوعلی جامعی سیاسیات

آخر اسرائیل میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ایک ایک کرکے سب اسرائیل کے پہلو میں جائے امان تلاش کر رہے ہیں! کل مصر اور اردن نے گلے لگایا تھا تو آج عمان نے لبیک کہا ہے آگے دیکھتے جایئے کون کون بیعت کرتا ہے بس پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!!!
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد !! سچ ہی تو ہے جو ملک دوسروں کی زمینیں ہڑپ کر، نہتے عوام پر جور وستم کرکے، کمزوروں پر اپنی طاقت کا دھونس جما کر، سازشوں کے جال بن کر آن کی آن میں فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے نکال کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے ملک بدری کا حکم صادر کردے وہ بلا ہی کہلائے گا۔ دنیا کچھ بھی کہے میری نظر میں اسرائیل ایک بلا ہے اس کا وجود آفت ہے اس لئے میں اسے کوئی اور نام ہرگز نہیں دے سکتا! وہ بلا ہے فقط اک بلا !!


عمان کے حاکم اعلی سلطان قابوس نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو کو مسقط آنے کا نیوتہ بھیجا ہی تھا کہ وہ اپنی رفیقۂ حیات سارہ کو رفیقہ سفر بنا کر موساد انٹیلیجینس ایجنسی کے ڈائریکٹر یوسی کوھین، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر میر بن شباط اور وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل یووال روتیم کے ہمراہ فورا چلے آئے۔ قصر شاہی میں پورے جاہ وجلال کے ساتھ عظیم الشان استقبال ہوا، راز و نیاز کی باتیں ہوئیں اور کچھ سعادتمند گھڑیاں گزار کر عمان کے سلطان نے غاصب اسرائیلی سربراہ کو چشم پرنم سے الوداع کہہ کر رخصت کردیا۔ یہاں تک معاملہ صیغۂ راز میں رہا لیکن یہ راز ایسا تھا جس کی مہک باہر آنے کو بے تاب تھی۔ آخر کار اسرائیل بیس بائیس سالوں بعد عرب دنیا کی بھربھری مٹی سے بنی دیوار میں تیسری جگہ سیندھ لگانے میں کامیاب ہوا تھا اس کا ڈھنڈھورا کیوں نہ پیٹتا۔ مصر اور اردن کے بعد تیسری جگہ عمان کی شکل میں نمودار ہوئی۔
1994 میں اسحق رابین اور 1996 میں شیمون پیریز نے بھی عمان کا دورہ کیا تھا تب عمان نے آخر الذکر شیمون بیریز کو امن کا پیغامبر کہہ کر بڑی آو بھگت کی تھی اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات استوار کرنے کی غرض سے کچھ تجارتی لین دین کے لئے آفسیں بھی کھولی گئیں لیکن برا ہو اکیسویں صدی کے آغاز میں فلسطینی انتفاضہ کا جس نے تمام خواب چکنا چور کر ڈالا اور اس نئے نئے رشتہ و پیوند کا بخیہ ادھیڑ کر نقطۂ صفر پہ لا کھڑا کردیا۔ اب نتنیاہو کی زیارت سے دوبارہ امید جاگی ہے خدا کرے یہ مہک جوان رہے اور یہ بدنما گلاب جاگتے رہیں۔
عربوں کے قلب میں پہونچ کر نتنیاہو نے جو کامیابی حاصل کی ہے اسے تا دیر پردۂ اغماض میں رکھنا نہ اسرائیل کے بس میں تھا اور نہ ہی عمان کے۔ چنانچہ نتنیاہو نے خود اپنے ٹویٹر پر منہ بولتی تصویروں کے ساتھ اس راز کو افشا کر کے سارے عالم کے سامنے اپنے خفیہ دورے کے راز سر بستہ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس کے بعد عمانی ذرائع ابلاغ کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا کہ وہ بھی پوری تندہی سے اعلان کریں اور آگے بڑھ کر دنیا کو بتادیں کہ اسرائیل سے دوستی کرنے میں پہل انہوں نے ہی کی ہے اور یہ خفیہ ہنگامی دورہ انہیں کے احسان کا مرہون منت ہے۔ مزے کی بات یہ رہی کہ فلسطینی کیرٹیکر یعنی فلسطین کے نگراں صدر محمود عباس صرف ایک روز پہلے ہی تین دنوں کی پکنک منا کر مسقط سے لوٹے ہی تھے کہ ان کی روانگی کے فورا بعد نتنیاہو وارد ہوگئے۔
حیرت کی بات ہے جس وقت نتنیاہو مسقط میں ضعیف العمر سلطان قابوس کے ساتھ عربی ضیافت کا لطف اٹھا رہے تھے ٹھیک اسی وقت بحرین میں کچھ ہائی پروفائل یوروپین و دیگر ممالک (امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، اٹلی وغیرہ تقریبا 25 ممالک) کے وزیروں اور دفاعی امور کے ماہرین کے ساتھ خطے کی سلامتی پر غور وخوض کے لئے عرب رہنماؤں کی چوٹی کانفرنس بلائی گئی تھی جو پورے تین دنوں تک ایران کی سرکوبی اور اسرائیل سے دوستی کا دم بھرتی رہی۔ یوں تو اس کانفرنس کے ایجنڈے میں خطے کی سیکیورٹی کا موضوع اہم تھا لیکن لے دے کے سب کا ہدف ایران کو حاشیے پر کھڑا کرکے اسرائیل کے ساتھ نئے آفاق تلاش کرنا ہی رہا۔ تمام مقرروں نے ایران کو خطے میں بدامنی اور عدم استقرار کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

سعودی عرب جو خطے میں ہر اعتبار سے شہ رگ کا درجہ رکھتا ہے اس کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ٹرمپ کی سرکار بڑی دوراندیش اور حکیمانہ اصولوں پر قائم ہے، وقتی طور پر آنے والے مد وجزر کے باوجود اس وقت سعودی امریکی تعلقات بہت راسخ ہیں۔ ان کا کہنا تھا مشرق وسطی کو درپیش مسائل پر صرف اچھی قیادت، جہد مسلسل اور دور رس وژن کے ذریعے ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس خطے پر ایران کے بڑھتے ہوئے مہیب سائے یہاں کی خودمختار ریاستوں کو آسان لقمہ سمجھ کر نگل جانے کا عندیہ دے رہے ہیں جو بہت ہی خطرناک ہے۔ اس قسم کی دخل اندازیوں سے نمٹنے کے لئے ایران کو انٹرنیشنل کمیونٹی سے معزول رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ایٹمی اسلحے کو فروغ دینے سے باز نہ آنے کی وجہ سے عالمی طاقتوں کا ایران پر اقتصادی پابندی عائد کرنا ایک خوش آئند قدم ہے۔ عادل الجبیر نے مزید کہا اگر اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے یروشلم کو فلسطینی دارالحکومت مان لے تو اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے جا سکتے ہیں۔
عمانی وزیر خارجہ یوسف بن علوی بن عبداللہ نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی اور تمام عرب وغیر عرب عمائدین کے سامنے برملا اعلان کیا کہ اس خطے میں اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سلطان قابوس فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین گرچہ ثالث نہیں ہیں تاہم دونوں کے درمیان مفاہمت پر معاون ضرور ثابت ہوسکتے ہیں۔

یوسف بن علوی نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا اسرائیل خطے میں ایک ریاست ہے جس کا ادراک ہم سب کو ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے پوری دنیا واقف ہے اور شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اسرائیل کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو دوسرے ممالک کر رہے ہیں اور ہمیں چاہئیے کہ اس ضمن میں ہم اپنی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔
یوسف بن علوی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ یہ ڈگر بہت کٹھن ہے، اس راہ میں پھول نہیں بچھے ہیں اس پر چلنا آسان ہرگز نہ ہوگا لیکن اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے ہمیں ترجیحات سے کام لینا ہوگا اور ایک نئی دنیا کی طرف پیش قدمی کے لئے ایک ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا۔

بحرینی اور سعودی وزراء خارجہ نے بلا واسطہ عمانی کوششوں کی خوب ستائش کی اور کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے امن مذاکرات کو انجام تک پہونچانا امر لازمی ہے-
عمان اس دور کا سامری طلسم ہے بس ذرا ماضی کی طرف مڑ کے دیکھئے یہ ملک کیسے کیسے پینترے بدلتا ہے!! ہمیں یاد ہے 2013 میں امریکہ اور ایران کے درمیان خفیہ مذاکرات میں عمان نے ہی مدد کی تھی جس کے دو سال بعد جنیوا میں تاریخی ایٹمی معاہدے پر دستخط کیا گیا.

اسرائیلی کھیل اور ثقافت کی وزیر میری ریگیو نے اتوار 28 اکتوبر 2018 کو ابوظبی کی پر شکوہ شیخ زاید مسجد کا دورہ کیا اور وہاں پر موجود تاثرات کے رجسٹر میں عبرانی زبان میں اپنا ریمارک بھی لکھا، غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام واقعات کا آپس میں ایک دوسرے سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ عرب ممالک اس وقت دو بدترین دشمنوں کے دو پاٹوں کے بیچ سینڈویچ بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف خطے میں ایرانی اثر ونفوذ کا خوف ہے تو دوسری طرف اسرائیل کی در پردہ ریشہ دوانیاں اور اس کا توسیعی خواب ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟؟
اسرائیل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا کر عمان نے تو اپنا پارٹ ادا کردیا اور اپنے ہمسایوں کو بھری محفل میں بتا بھی دیا کہ اب اسرائیل کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں، گویا سلطان قابوس زبان حال سے کہہ رہے ہوں اب دیکھنا یہ ہے کہ
ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد؟
يہود کی مخالفت کے سلسلے میں واضح تعلیمات نبوی کے علاوہ قرآن میں جا بجا صریح نصوص وارد ہیں بر سبیل تذکرہ یہ آیات ہیں:

(وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَاء)

دوسری آیت ہے:

(اِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاء وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ)

ایک آیت یہ بھی ہے:

(وَلاَ يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىَ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ)

اور ایک یہ بھی ہے:

(يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوَاْ إِن تُطِيعُواْ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُواْ خَاسِرِينَ)

ان تمام آیتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ یہود روز اوّل سے مسلمانوں کے ساتھ نفرت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ کبھی بھی ان کے دام فریب میں نہ آنا اور نہ ہی ان کی اطاعت قبول کرنا یہ لوگ ہمیشہ مسلمانوں کو راہ راست سے بھٹکا کر گمراہی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

امت مسلمہ کا حالیہ مسلسل سکوت دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اب یہ آیات نا قابل عمل ہوچکی ہیں؟ ان آیتوں کا آفاقی پیغام کیا اب نا قابل تطبیق ہوگیا ہے؟ یا پھر یوں کہہ لیں کہ حالات کا تقاضا ہے کہ ان کے معانی و مفاہیم کو اپنی ضرورت کے موافق بدل ڈالیں؟
مصر، ترکی اور اردن نے تو پہلے ہی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے جمعے کے مبارک موقعے پر عمان نے بھی اسرائیل کی سیادت کا اعتراف کرکے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل خطے کا اہم ملک ہے اسے تسلیم کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ قطر اور امارات جیسے ملکوں کے تعلقات بظاہر خفیہ ہیں لیکن آواگمن علی الاعلان ہوتے ہیں۔ خطے کے بچے کھچے ملکوں کا رجحان اس کانفرنس نے بتا ہی دیا صرف اعلان باقی ہے۔ سر دست انشاء اللہ خاں کا مصرعہ بر محل یاد آیا:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
رضوان اللہ انصاری

جس شخص نے بھی یہ مضمون لکھا ہے یقیناً وہ شخص تقلید یا بغض و حسد کی آگ میں جل رہا ہے – پورا مضمون تلبیس سے بھرا ہوا ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ خطے میں اسرائیل کی کس کس سے دوستی ہے اس بات سے مضمون نگار لا علم ہے مگر مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے جان بوجھ کر کھچ ملکوں کا نام ہڑپ کر لیا ہے ورنہ عربی سرزمین پر سب سے پہلے قطر نے اسرائیل سے دوستی کا ہاتھ بڑھا تھا یہ دنیا کو معلوم ہے – دوسرے ممالک کے وزرا کا بھی بیان… Read more »