مولانا آزاد کا ’قول فیصل‘ اور آج کے مسلمان

سہیل انجم

مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ میں ۱۹۲۱ء میں اپنی پہلی گرفتاری پر برطانوی حکومت کی جانب سے دائر مقدمۂ بغاوت میں مجسٹریٹ کے سامنے اپنا تحریری بیان پیش کیا تھا۔ یہ بیان ’قول فیصل‘ کے نام سے پوری دنیا میں اور بالخصوص تعلیم یافتہ حلقوں میں مشہور ہے۔ یہ بیان اپنے اوپر عاید کیے جانے والے الزامات کی صفائی کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ ہندوستان کی آزادی کا ایک منشور تھا اور ہر آزادی پسند شخص کی صدائے دل تھی۔ انھوں نے دنیا کے سامنے اس منشور کو پیش کرکے ہندوستان کی آزادی کی جد و جہد کو ایک نیا رخ عطا کیا تھا۔ یہ خاصا طویل ہے مگر اس کی زبردست تاریخی اہمیت ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی۔
مولانا نے اس طویل بیان میں جن نکات کو اٹھایا تھا ان میں سے بیشتر آج بھی تشریح طلب اور قابل غور ہیں۔ اس طویل بیان کے ایک پہلو سے متعلق جستہ جستہ حصے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں جو کہ مسلمانان عالم کی شانِ حق گوئی کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اس کی روشنی میں ہم اپنے گریبانوں میں جھانک سکتے ہیں اور اپنے اسلاف کی جرأتمندی کی یادیں بھی تازہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ ہندوستان میں حکومت و عدلیہ کے کردار کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہ بیان تقریباً ایک صدی قبل دیا گیا تھا لیکن یہ موجودہ دور کے حالات پر بھی منطبق ہوتا ہے۔
مولانا نے اپنے بیان میں بعض معروف واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا:
’’…پہلے دور کے مسلمانوں کی حق گوئی کا یہ حال تھا کہ دار الخلافت کی ایک بڑھیا عورت خلیفۂ وقت سے برسرعام کہہ سکتی تھی کہ اگر تم انصاف نہ کرو گے تو تکلے کی طرح تمھارے بل نکال دیں گے۔ لیکن وہ مقدمۂ بغاوت چلانے کی جگہ خدا کا شکر ادا کرتا کہ قوم میں ایسی راست باز زبانیں موجود ہیں۔”
“عین جمعہ کے مجمع میں جب خلیفہ منبر پر خطبہ کے لیے کھڑا ہوتا اور کہتا کہ سنو اور اطاعت کرو تو ایک شخص کھڑا ہو جاتا اور کہتا کہ نہ تو سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ تمھارے جسم پر جو چغہ ہے وہ تمھارے حصے کے کپڑے سے زیادہ کا بنا ہوا ہے اور یہ خیانت ہے۔ اس پر خلیفہ اپنے لڑکے سے گواہی دلاتا کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی اپنے باپ کو دے دیا تھا…”
” ہشام بن عبد الملک نے طاؤس یمانی کو بلایا۔ وہ آئے مگر اس کا نام لے کر سلام کیا امیر المومنین یعنی قوم کا سردار نہ کہا جو مسلمان خلفاء کا لقب تھا۔ ہشام نے سبب پوچھا تو کہا قوم تیری حکومت سے راضی نہیں۔ اس لیے تجھے امیر کہنا جھوٹ ہے۔ ہشام نے کہا نصیحت کیجیے۔ فرمایا خدا سے ڈر کیونکہ تیرے ظلم سے زمین بھر گئی۔”
“مالک بن دینار بصرہ کی جامع مسجد میں اعلان کرتے تھے کہ ان ظالم بادشاہوں کو خدا نے اپنے بندوں کا چرواہا بنایا تھا تاکہ ان کی رکھوالی کریں۔ پر انھوں نے بکریوں کا گوشت کھا لیا اور صرف ہڈیاں چھوڑ دیں۔”
“سلمان بن عبد الملک جیسے ہیبت ناک خلیفہ سے ابو حازم کہتے تیرے باپ داداؤں نے تلوار کے زور پر لوگوں کو مقہور کیا اور بلا قوم کی رائے اور انتخاب کے مالک بن بیٹھے۔ سلیمان نے کہا کہ اب کیا کیا جائے۔ جواب دیا جن کا حق ہے انھیں لوٹا دے۔ کہا میرے لیے دعا کیجیے خدایا اگر سلیمان حق پر چلے تو اسے مہلت دے لیکن اگر ظلم سے باز نہ آئے تو پھر تو ہے اور اس کی گردن۔”
“سعید بن مسیب بہت بڑے تابعی تھے۔ وہ اعلانیہ برسربازار حکام کے ظلم و جور کا اعلان کرتے اور کہتے کتوں کا پیٹ بھرتے ہو مگر انسانوں کو تم سے امان نہیں۔”
“منصور عباسی کے خوف و ہیبت سے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ کانپا کرتے تھے۔ سفیان ثوری سے ایک بار اس نے کہا مجھ سے اپنی کوئی حاجت بیان کیجیے۔ انھوں نے جواب دیا خدا سے ڈر زمین ظلم و جور سے بھر گئی ہے۔”
“مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید نے انہی سفیان ثوری کو اپنے ہاتھ سے اشتیاقِ ملاقات کا خط لکھ کر بھیجا۔ خط میں لکھا کہ میں نے تخت نشینی کی خوشی میں بے شمار مال و دولت لوگوں میں تقسیم کی ہے تم بھی مجھ سے آکر ملو۔ سفیان کوفہ کی مسجد میں ایک بڑے مجمع کے اندر بیٹھے تھے کہ یہ خط پہنچا۔ انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جس چیز کو ایک ظالم کے ہاتھ نے چھوا ہے میں اسے چھونا نہیں چاہتا۔ جب پڑھ کر سنایا گیا تو اس کی پشت پر جواب لکھوایا کہ خدا کے مغرور بندے ہارون کو جس کا ذوق ایمان سلب ہو چکا ہے، معلوم ہو کہ تو نے قوم کا مال بلا کسی حق کے اپنی تخت نشینی میں لٹایا اور اس کا حال لکھ کر اپنے گناہ پر میرے ساتھیوں کو بھی گواہ ٹھہرایا۔ پس ہم سب کل کو اللہ کے آگے اس کی گواہی دیں گے کہ اے ہارون تو نے حق و انصاف سے کنارا کیا۔ تو نے پسند کیا کہ ظالم بنے اور ظالموں کی سرداری پائے۔ تیرے حاکم بندگان خدا کو ظلم و جور سے پامال کر رہے ہیں اور تو تخت شاہی پر عیش و عشرت کر رہا ہے۔ ہارون نے جب یہ خط پڑھا تو بے اختیار رونے لگا اور کہا کہ یہ خط ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔”
“منصور عباسی ایک دن کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ آواز آئی کہ کوئی شخص دعا مانگ رہا ہے خدایا میں تیرے آگے فریاد کرتا ہوں کہ ظلم غالب آگیا ہے اور حق اور حق داروں کے درمیان روک بن گیا ہے۔ منصور نے اس شخص کو بلا کر پوچھا وہ کون ہے جس کا ظلم روک بن گیا ہے۔ کہا تیرا وجود اور تیری حکومت۔”
“حجاج بن یوسف کا ظلم و ستم تاریخ اسلام کا نہایت مشہور واقعہ ہے۔ لیکن اس کی بے پناہ تلوار بھی مسلمانوں کی حق گوئی پر غالب نہ آسکی۔ حطیط جب گرفتار ہو کر آیا، پوچھا: اب میرے لیے کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: تو خدا کی زمین پر اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پوچھا: خلیفہ کے لیے کیا کہتے ہو۔ کہا: اس کا جرم تجھ سے بھی زیادہ ہے۔ تیرا ظلم تو اس کے بے شمار ظلموں میں سے ایک ظلم ہے۔”
“مامون الرشید کے عہد میں ایسے مسلمان موجود تھے جو پکار پکار کر برسر دربار کہتے کہ اے ظالم! میں ظالم ہوں اگر تجھے ظالم کہہ کر نہ پکاروں‘‘۔
عدالتوں کے کردار کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں کہ ’’تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمراں طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلے میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان او ربے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور ناانصافی دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور ناانصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔ تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہی ہوئی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیان مذہب سے لے کر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو‘‘۔
مولانا آزاد بیان کے آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’میں اس درد انگیز اور جانکاہ حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ اس انقلابِ حالت کے ذمہ دار مسلمان ہی ہیں۔ انھوں نے اسلامی زندگی کے تمام خصائص کھو دیے اور ان کی جگہ غلامانہ زندگی کے تمام رذائل قبول کر لیے۔ ان کی موجودہ حالت سے بڑھ کر دنیا میں اسلام کے لیے کوئی فتنہ نہیں۔ جبکہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو میرا دل شرمندگی کے غم سے پارہ پارہ ہو رہا ہے کہ اسی ہندوستان میں وہ مسلمان بھی موجود ہیں جو ایمانی کمزوری کی وجہ سے اعلانیہ ظلم کی پرستش کر رہے ہیں‘‘۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے ان زریں مگر دل کو چیر دینے والے خیالات کی روشنی میں ہم غور کریں کہ کیا ہم اپنے اسلاف کے جانشین کہلانے کے حقدار ہیں اور کیا ہم نے غلامانہ زندگی اختیار نہیں کر لی ہے۔ کیا آج کے سیاسی ، سماجی و عدالتی حالات تقریباً ویسے ہی نہیں ہیں جیسے کہ برطانوی دور میں تھے۔ کیا آج مولانا آزاد کے یوم پیدائش پر ہم اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر غور و فکر کر سکتے ہیں؟

آپ کے تبصرے

3000