رزق حلال سے فقیری پادشاہی ہے

ڈاکٹر شمس کمال انجم

یہ سوشل میڈیابھی عجیب وغریب شے ہے۔ یہ وہ دو دھاری تلوار ہے جس سے خیر وشر دونوں کا کام لیا جاسکتا ہے۔ کئی بار کئی مفیداور اہم معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ آج مجھے واٹس اپ کے ایک گروپ میں ایک ایسا واقعہ پڑھنے کو ملا کہ بچپن میں سنے ہوئے ایک عجیب وغریب حقیقی واقعے کی یاد تازہ ہوگئی اور میں دیر تک اس کے مالہ وما علیہ پر غور کرتا رہا۔
میں نے سنا تھا اور بڑوں نے بیان کیا تھا۔ کئی لوگوں نے اسے حقیقی واقعہ بتایا تھا کہ ایک بہت بڑے بازار میں ایک تاجر کا روپیوں سے بھرا ہوا تھیلا گم ہوگیا۔ ایک صاحب کو وہ تھیلا ملاجسے لے کر وہ اپنے گھر آگئے۔ اس تاجر کو پتہ چلا کہ اس کا تھیلا فلاں صاحب کو ملا ہے۔ وہ تلاش کرتا ہوا ان صاحب کے پاس پہنچا جو کہ اپنے علاقے کے بڑے بارسوخ اور پرہیزگار مسلمان کی حیثیت سے عزت واحترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ تاجر ان کے پاس گیا، رویا دھویا اور سارا ماجرا سنایا اور اور اپنا تھیلا واپس دینے کو کہا مگر انھوں نے صاف انکار کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد انھوں نے اپنے کچے مکان کی پختہ تعمیر کرائی۔ اردگردکے گاؤں میں یہ بات مشہور تھی کہ یہ مکان اسی پیسے سے بنایا گیاہے۔ ہم بھی جب با شعور ہوئے تو کچھ اسی طرح کی باتیں ان کے بارے میں سنیں۔ وہ حضرت صاحب اولاد کثیر تھے ۔ بھرا پڑا گھر تھا۔ خوش حالی تھی اور اطراف وجوانب میں ان کی عزت واحترام کا شہرہ تھا۔ مگربڑھاپے میں وہ فالج کا شکار ہوگئے اور کئی برسوں تک اپنے اسی گھر میں لاچاری وبے بسی کی زندگی گذار کر دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ بال بچے بھی منتشر ہوگئے۔ اس مکان کی بھی حالت بد سے بدتر ہوگئی۔
آج میں نے واٹس اپ پر کچھ اسی طرح کا ایک واقعہ پڑھا جسے صاحب تفسیر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ تلاش کے بعد مجھے وہ واقعہ ابن الجوزی کی کتاب صفوۃ الصفوۃ میں ملا۔

امام محمد بن جریر کہتے ہیں کہ میں ۲۴۰ھ میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ میں نے خراسان کے ایک شخص کو دیکھا وہ آواز لگا رہا تھا:

“اے حاجیو سنو! میرا تھیلا گم ہوگیا ہے۔ اس میں ایک ہزار دینار ہے۔ اگر کسی کو ملا ہو تو وہ مجھے واپس کر دے اللہ اس کو اس کا دوہرا ثواب عطا کرے گا”۔

اس کی بات سن کر مکہ کے ایک بزرگ کھڑے ہوئے۔ کہا:

“خراسانی صاحب! آپ جانتے ہیں ہمارے یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں۔ فقر وغربت کا شکار ہیں۔ لوگوں کے مالی حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ تھیلا کسی ایسے شخص کو ملا ہو جو مومن ہو اور وہ چاہتا بھی ہو کہ وہ تھیلا آپ کو واپس کردے لیکن اس کی یہ بھی خواہش ہو کہ اس میں سے اسے بھی تم کچھ دے دو”۔

خراسانی نے پوچھا: “اس کو کتنا چاہیے؟”

بزرگ نے کہا: “ہر سو دینار پر دس دینار”۔

خراسانی نے کہا۔ “نہیں! بالکل نہیں۔ میں اس میں سے کچھ نہیں دوں گا۔ میں اسے اللہ پر چھوڑتا ہوں”۔ اور وہ دونوں اپنے اپنے راستے چلے گئے۔
امام طبری فرماتے ہیں کہ بزرگ کی بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ یہ باتیں اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں اور انھیں کو وہ تھیلا ملا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کا پیچھا کیا تو جیسا میں نے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ وہ بزرگ ایک پرانے دروازے والے بوسیدہ سے مکان میں داخل ہوئے۔ میں نے سنا انھوں نے آواز دی: لبابہ!- لبابہ نے کہا: لبیک! ابو غیاث۔ بزرگ نے کہا: “مجھے وہ تھیلے والا آدمی ملا۔ وہ آواز دے رہا تھا اور اپنے تھیلے کی تلاش کررہا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ جسے وہ تھیلا ملا ہے اسے بھی تم کچھ دے دو۔ اس نے پوچھا کتنا؟ میں نے کہا ہر سو پر دس دینار۔ اس نے کہا نہیں۔ میں اس میں سے اسے کچھ نہیں دوں گا۔ میں یہ معاملہ اللہ پرچھوڑتا ہوں۔ اب تمہیں بتاؤ لبابہ! ہم کیا کریں؟۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ تھیلا اسے واپس کردیا جائے”۔

لبابہ نے کہا: “ابوغیاث! ہم پورے پچاس سال سے تمہارے ساتھ فقر وفاقہ کی زندگی جی رہے ہیں۔ تمھاری چار بیٹیاں اور دو بہنیں ہیں۔ میں ہوں اور میری ماں ہے۔ تم نوویں فرد ہو ہماری فیملی کے۔ اس پیسے سے ہمیں آسودہ کرو۔ ہمارے رزق اور لباس کا انتظام کرو۔ جب اللہ تمھیں نواز دے گا تو تم اسے واپس کردینا”۔

ابوغیاث نے کہا۔ “نہیں پورے چھیاسی سال کے بعد میں اپنے پیٹ کو حرام کی آگ سے نہیں بھروں گا”۔
پھر دونوں خاموش ہوگئے اور میں بھی واپس آگیا۔ اگلے روز پھر خراسانی نے آواز لگانی شروع کی:

“اے حاجیو! اے گاؤں، دیہات اور شہروں سے آنے والے اللہ کے مہمانو! اگر کسی کو ایک ہزار دینار سے بھرا کوئی تھیلا ملا ہو تو وہ مجھے واپس کردے۔ اللہ اسے اس کا بھرپور ثواب عنایت کرے گا”۔

ابن جریر کہتے ہیں کہ وہ بزرگ پھرکھڑے ہوئے اور کہا: “خراسانی صاحب! میں نے تمہیں کل کہا تھا کہ ہمارے یہاں فقر وفاقہ عام ہے۔ یہاں نہ تو کھیتی باڑی ہے نہ مال مویشی۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ جسے وہ تھیلا ملا ہو اسے تم سو دینار دے دو۔ ہو سکتا ہے کسی ایسے مومن کے ہاتھ لگا ہو جسے اللہ کا خوف ہو تو وہ تمہیں واپس کردے گا”۔ اس نے پھر انکار کیا۔ بزرگ نے کہا: “اچھا سو کے بجائے اسے دس ہی دینار دے دو۔ وہ اسی دس دینار سے اپنی عزت کی حفاظت کرلے گا”۔ خراسانی نے کہا: “نہیں! میں اس مسئلے کو اللہ پر چھوڑتا ہوں”۔ پھر دونوں چلے گئے۔
امام ابن جریر کہتے ہیں کہ آج میں نے دنوں میں سے کسی کا پیچھا نہیں کیا نہ تو اس بزرگ کا نہ ہی خراسانی کا۔ اور میں بیٹھ کر زبیر بن بکار کی کتاب النسب لکھنے میں مصروف ہوگیا۔

اگلے روز پھر خراسانی نے وہی آواز لگائی۔ وہ بزرگ کھڑے ہوئے اور کہا: “خراسانی صاحب! میں نے پرسوں کہا تھا کہ اسے سو دینار دے دو۔ کل کہا چلو دس ہی دینار دے دو۔ آج کہتا ہوں کہ اسے ایک ہی دینار دے دو۔ آدھے دینار سے وہ چمڑے کا ایک تھیلا خریدلے گا جس سے وہ اہل مکہ کو اجرت پر پانی پلایا کرے گا۔ اور آدھے دینار سے ایک بکری خرید لے گا جس کا دودھ نکال کر اپنے اہل وعیال کے رزق کا سامان کرے گا”۔ خراسانی نے پھر کہا۔ “نہیں! میں اس مسئلے کو اللہ کی ذات پر چھوڑتا ہوں”۔
اتنا کہنا تھا کہ بزرگ نے خراسانی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اس سے کہا: “آؤ تم اپنا تھیلا لے لو اور مجھے رات میں آرام کی نیند سونے دو”۔

چنانچہ خراسانی اور وہ بزرگ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ بزرگ گھر میں گئے اور تھوڑی دیر میں باہر آئے اور کہا خراسانی آؤ۔ وہ بھی اندر گیا اور میں بھی۔ اس نے کوڑے کرکٹ کے نیچے سے کھدائی کی اور اس کے نیچے سے کالے تھیلے کو نکالا اور کہا: “لو تم اپنا تھیلا”۔

اس نے اس تھیلے کی طرف دیکھا اور کہا: “ہاں ہاں یہی میرا تھیلا ہے”۔

پھر اس نے اسے کھولا۔ دینار کو اپنی گود میں الٹا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد کہا ہاں یہی میرے دینار ہیں ۔ پھر اس نے بائیں ہاتھ سے اس تھیلے کا منہ کھولا اور دائیں ہاتھ سے اس میں دینار واپس ڈال دیے۔ پھر اسے باندھ دیا۔ اپنا تھیلا اپنے کاندھے پر رکھا اور جانے لگا۔ گھر کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ وہ واپس آیا اور بزرگ سے یوں گویا ہوا:

“اللہ میرے والد کو غریق رحمت کرے ۔ ان کا انتقال ہوا تو انھوں نے تین ہزار دینار ورثے میں چھوڑا۔ انھوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ اس کا ایک تہائی حصہ میں سب سے مستحق لوگوں میں تقسیم کردوں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں ان کی سواری بیچ کر اس پیسے سے حج کے لیے جاؤں۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے ان کے پیسے کا ایک تہائی نکالا اور اسی تھیلے میں رکھا۔ خراسان سے لے کر یہاں تک آپ سے زیادہ محتاج شخص میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔ اس لیے میں یہ سارے دینار آپ کو دیتا ہوں۔ یہ لیجیے۔ اللہ آپ کو اس میں برکت عطا کرے۔”

پھر وہ سارے دینار دے کر چلا گیا۔ میں بھی خراسانی کے پیچھے پیچھے نکلا تو وہ بزرگ جن کا نام ابو غیاث تھا میرے پیچھے آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اب چھیاسی برس کی عمر کے ہیں۔ مجھے اپنے پاس بیٹھایا اور کہا کہ: “میں نے تمہیں پہلے روز اپنا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور تمہیں میرے بارے میں پتہ چل گیا تھا۔ میں نے احمد بن یونس یربوعی سے سنا ۔ انہوں نے امام مالک سے سنا ۔ انھوں نے نافع سے سنا۔ انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اورحضرت علی رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اگر تمھارے پاس بغیر طلب کے یا بغیر کسی کا حق مارے ہوئے کوئی شخص کوئی ہدیہ دے تو اسے تم لے لو، اسے قبول کرلو اور واپس مت کرو ۔آؤ میں تمہیں اور جتنے لوگ حاضر ہیں سب کو ہدیہ دیتا ہوں”۔
پھر اس بزرگ نے لبابہ کو آواز دی۔ اپنی بیٹیوں کو بلایا۔ اپنی بہن، بیوی اور اس کی ماں کو بلایا۔ وہ بھی بیٹھا اور مجھے بھی بیٹھایا۔ ہم کل دس لوگ ہوگئے۔ اس نے اس تھیلے کو کھولا اور کہا سب لوگ اپنا اپنا دامن پھیلائیں۔ میں نے اپنا دامن پھیلایا۔ اس کی بیوی اور بہن بیٹیوں کے پاس کوئی قمیص نہیں تھا لہذا انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے۔ بزرگ نے گن گن کر سب کو سو سو دینار دیے۔ مجھے بھی سو دینار دیے۔ مجھے ان سو دیناروں سے وہ خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی اس بزرگ کے اہل خانہ کی فقر وغربت کے خاتمے سے ہوئی۔ جب میں وہاں سے واپس ہونے لگا تو اس نے کہا: “اے نوجوان تم ایک بابرکت انسان ہو۔ نہ تو میں نے اتنے پیسے کبھی دیکھے تھے نہ کبھی اتنے پیسوں کی تمنا کی تھی۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ یہ پیسے تمھارے لیے بالکل حلال ہیں۔ لہذا ان کی حفاظت کرو۔ تم نہیں جانتے میں صبح کو بیدار ہوتا تو اسی پرانی قمیص میں فجر کی نماز پڑھتا۔ پھر میں اسے نکال کر اپنی بیوی اور بیٹیوں کو دیتا اور وہ اسی قمیص میں ایک ایک کرکے نماز ادا کرتیں۔ پھر میں اسی قمیص کو پہن کر ظہر سے عصر کے درمیان مزدوری کرتا پھر میں شام کو کجھور اور سبزیاں لے کر آتا۔ قمیص نکالتا تو وہ اس قمیص کو پہن کر مغرب اور عشاء کی نماز پڑھتیں۔ لیکن آج اللہ تعالی نے انہیں، مجھے اور تم کو یہ مال عنایت کیا ہے۔ اللہ صاحب مال پر رحم کرے اور اس مال کو لے کر آنے والے اس کے بیٹے کوبہت بہت ثواب عطا کرے”۔
امام ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ میں پھر وہاں سے رخصت ہوا اور اس پیسے سے میں نے دو سال تک علم کی خدمت کی۔ اسی پیسے سے میں کھاتا پیتا اور کاغذ خریدتا۔ اجرت ادا کرتا اور مزدوری دیتا۔

۲۵۶ھ میں میں مکہ آیا اور اس بزرگ کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ اس واقعے کے کچھ مہینے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اور دو بیٹیوں کا بھی انتقال ہوگیا۔ ملوک اور امراء و بادشاہوں کے یہاں اس کی باقی بیٹیوں کی شادیاں ہوگئی ہیں۔ میں ان کے شوہروں اور ان کی اولادوں کے یہاں مہمان ہوتا اور جب ان سے اس واقعے کی تفصیل بیان کرتا تو انہیں بہت اچھا لگتا وہ لوگ بھی میری عزت کرتے۔

۲۹۰ھ میں محمد بن حیان بجلی نے مجھ سے بیان کیا کہ ان میں سے کوئی بھی حیات نہیں۔ اللہ تعالی نے ان کی نیک نیتی کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں بہت برکت عطا کی۔ (صفوۃ الصفوۃ از امام جوزی)
٭٭٭

آپ کے تبصرے

3000