مخلوط تعلیمی نظام اور اسلامی نظریہ

مخلوط تعلیمی نظام اور اسلامی نظریہ

محمد عرفان یونس سراجی

مخلوط تعلیم کا مفہوم:
لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ساتھ، ایک ہی وقت میں، ایک ہی طریقے سے، ایک نظام کے تحت، ایک ہی مضمون کی تعلیم حاصل کرنا۔

مخلوط تعلیم کی ابتدا:

دور حاضر میں مخلوط تعلیم کی ابتدا امریکہ سے ۱۷۷۴ء میں ہوئی۔ انگلستان میں اس کا آغاز ۱۸۷۰ء میں ہوا اور ۱۹۰۲ء میں وہاں مخلوط تعلیم کے لیے قانون پاس کیا گیا۔ فرانس میں ۱۸۶۷ء میں اسے قانونی جواز دیا گیا۔(مخلوط تعلیم اور اس کے مضمرات،ص: ۲۱)

مخلوط تعلیمی نظام کے نقصانات
مخلوط تعلیمی نظام ایک عظیم فتنہ اور فکری وعملی برائیوں کو بڑھاوا دینے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ بہت سے کالجز و یونیورسٹیوں اور اعلى تعلیمی اداروں میں اس وقت غیر اسلامی، غیر مہذب مخلوط تعلیمی نظام مروج ہے۔ جس سے اخلاقی، دینی، روحانی اور معاشرتی بگاڑ اور حیا سوز حالات پیدا ہورہے ہیں۔ شرم وحیا، لاج ولحاظ، عفت وعصمت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ بے حیائی و بے راہ روی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ سماج کی آب وتاب، رونق وتابندگی ختم ہورہی ہے اور اسے عام قضیہ شمار کیا جارہا ہے۔ حالانکہ اس کے پس پردہ مسلمان بچے اور بچیوں کو ایک جگہ بٹھا کر گمراہ، ژولیدہ فکر، آوارہ مزاج، خودکام وخود غرض، ہوس پرست، تعیش پسند بنانے کی منصوبہ بند سازش رچی جارہی ہے۔

مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں قبل ازوقت بالغ ہو جاتے ہیں۔ بلوغت کے وقت لڑکوں کے جسم میں مردانہ ہارمونز عام حالات کے مقابلے میں دس سے بیس گنا پید اہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ شدید نفسانی خواہشات وشہوات اور جنسی ہیجان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں اکثریت صنف مخالف کے بارے میں سوچتی رہتی ہے، جس سے تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذہنی و فکری اور جذباتی کج روی پیدا ہوتی ہے۔ بنا بریں اپنے صنف مخالف کے قریب جانے، باہمی گفت وشنید اور شیریں بول چال کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ شبانہ روز ہوس اور خواہشات کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ سازگار مواقع کی کھوج میں پیہم مشغول ومصروف رہتےہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ شرمیلی اور حیادار ہوتی ہیں۔ اس لیے دعوت عشق اور حصول قربت کے لیے پہل نہیں کرتیں۔ وہیں لڑکوں کے ساتھ اختلاط کے سبب دعوت عشق ومحبت کو قبول کرنے سے بھی ذرہ برابر نہیں ہچکچاتیں۔ متحقق بات یہ ہےکہ عام طور سے لڑکیاں کمرہ جماعت میں لڑکوں کے روبرو اپنے کپڑے کی شکنیں درست کرنے، زلفوں کو سنوارنے میں وقت صرف کردیتی ہیں جس کے سبب تعلیم پر بھر پور توجہ نہیں دے پاتیں۔ بسااوقات ٹیچر بھی ناروا ماحول اور غیر فطری مصاحبت کے سبب اپنے ہی اسٹوڈنٹ سے پیار کر بیٹھتا ہے۔ ایسا گاہے بہ گاہے اخبارات و رسائل کے وساطت سے مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ مرد و زن کے اختلاط کے سبب اس گناہ سے دوچار ہونا فطری شے ہے۔

مخلوط تعلیم کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں مردوں کی تعلیم، قابلیت وصلاحیت میں دن بدن کمی ہوتی جا رہی ہے۔مغربی ممالک میں لڑکوں کی کثیر تعداد سکولوں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کالجوں اور یونیورسٹیوں تک اعلی تعلیم کے حصول کے لیے نہ پہنچ سکی۔

امریکی صحافی خاتون مشال کونن اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں: ”مخلوط تعلیم میں لڑکوں کو غیر فطری اور اکثر اوقات زنانہ ماحول میں تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے کئی لڑکے اس ماحول سے مایوس ہو کر سوسائٹی میں ناجائز طریقے سے جرائم کرکے اپنی مردانگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے بعد سے امریکہ میں جیسے جیسے مخلوط تعلیم میں اضافہ ہوا ہے، نوجوان لڑکوں کی خود کشی کرنے کی شرح میں تین گنا اضافہ ہوا“۔ (مخلوط تعلیم اور اس کے مضمرات)

تعلیمی کونسل کے سربراہ سپیلن کے الفاظ یہ ہیں: ”اس بات کا ثبوت وافر مقدار میں موجود ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں بالکل مختلف انداز میں علم حاصل کرتے ہیں“۔ تعلیم غیر مخلوط ہونی چاہیے ورنہ لڑکے لڑکیاں دونوں پڑھائی میں کمزور ہوتے چلے جائیں گے اور اس کا خمیازہ مستقبل میں معاشرہ کو بھگتنا پڑے گا۔ (بحوالہ سابق)

سردست یہ کہہ کر مخلوط نظام تعلیم کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو سماج میں دوش بہ دوش چلنے، ترقی کا سفر طےکرنے کا پورا حق ہے۔ دنیوی مجالات میں جو کام لڑکے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، لڑکیاں بھی استقلال واستحکام کے ساتھ اس کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

مخلوط نظام تعلیم اور اسلامی نقطہ نظر
اسلامی نظام تمام انسانیت کے لیے فلاح وبہبود کا شاہکار ذریعہ ہے۔ اسلام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اس دنیا میں سکونت پذیر تمام لوگوں کے لیے بلاتفریق سر چشمہ ہدایت ہے۔ جس کام سے سماج میں بے حیائی اور بد چلنی عام ہونے کا خدشہ ہو نیز فحاشی وعریانیت، حیا کش طریقوں اور طرز عمل سے فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو اسلام مذکورہ قسموں کی ایمان کش اعمال کا بائکاٹ کرتا ہے۔ ان سے پیدا ہونے والے مفاسد اور فتنوں کے انسداد اور سدباب کے لیے معقول اور مصلحت آمیز قانون نافذ کرتا ہے۔ انہی میں سے ایک عظیم فتنہ مخلوط تعلیمی نظام ہے۔ اس کے سلبی پہلوؤں اور منفی سرگرمیوں کے پیش نظر اسلام نے صراحتا حرام قرار دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اختلاط کے باعث آنے والی نسلیں خراب ہو کر غیر اخلاقیات کو مزید بڑھا وا دینے کا باعث ہوں گیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ذہنی وفکری تناو، ڈپریشن اور جسمانی اضطرابات پیدا ہونے کے ساتھ حصول تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی حرمت سے متعلق قرآن وحدیث کی نصوص مندرجہ ذیل ہیں:۔

اللہ تعالى کا فرمان ہے:

”وإذا سألتموهن متاعا فاسألوهن من وراء الحجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن“.(سوره احزاب: 53)

ترجمہ: ”جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو، تمھارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے“۔

ابن کثیر رحمہ اللہ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جیسے اللہ تعالى نے تمھیں عورتوں کے پاس علیحدگی میں جانے سے روکا ہے، اسی طرح ان کی طرف کلی طور پر دیکھنے سے منع کیا ہے۔ اگر تمھیں کوئی ضرورت پیش آجائے تو ان کو دیکھے بغیر پردے کے پیچھے سے طلب کرلیا کرو۔ (تفسیر ابن کثیر )

پردے کا حکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواست وخواہش پر نازل ہوا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہرقسم کے لوگ آتے ہیں۔ اگر آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں تواچھا ہوتا۔ جس پر اللہ تعالى نے آیت حجاب نازل کیا۔ (صحیح بخاری،ح:۴۷۹۰۔صحیح مسلم ،ح:۲۳۹۹)

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

”فاتخذت من دونهم حجابا…“.(سورہ مریم: ۱۷)

ترجمہ: ”اور ان لوگوں کی طرف سے پردہ کرلیا “۔حضرت مریم علیہا السلام نے علیحدگی اور حجاب عبادت کی غرض سے اختیار کیا تاکہ انھیں کوئی دیکھ نہ سکے۔

حضرت اسید بن خضیر انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے نبیﷺ کو بیرون مسجد فرماتے ہوئے سنا جب مردوزن کا راستے میں اختلاط ہوگیا، تو آپ ﷺ نے خواتین سے عرض کیا:

”استأخرن؛ فإنه ليس لكن أن تحققن الطريق، عليكن بحافات الطريق“. فكانت المرأة تلتصق بالجدار، حتى إن ثوبها ليتعلق بالجدار من لصوقها به.

”تم رک جاؤ، پیچھے رہو، اس لیے کہ خواتین کے لیے راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، تم کنارہ کو لازم پکڑو“۔ بعد ازاں عورتیں دیوار سے لگ کر چلنے لگیں تا اینکہ ان کے دیوار سے لگ کر چلنے کی وجہ سے ان کے کپڑ ے دیوار سے ٹکرارہے تھے۔ (سنن أبی داود،ح: ۵۲۷۲)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان گرامی ہے:

”لو تركنا هذا الباب للنساء“.فقال نافع: فلم يدخل منه ابن عمر حتى مات.

ترجمہ: ”اگر یہ دروازہ خواتین کے لیے خاص کر دیں (تو کیا اچھا ہو)“۔ نافع فرماتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ سے مرتے دم تک داخل نہیں ہوئے۔ (سنن ابی داود،ح:۴۶۲)

نبی کریم ﷺنے مردوزن کے اختلاط کے باعث واقع ہونے والے فتنوں کے پیش نظر اسلامی نظام قائم کیا تاکہ دو مختلف صنفوں کی صفیں عبادات میں بھی علیحدہ ہوں۔ اس تعلق سے نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:

”خير صفوف الرجال أولها، وشرها آخرها.وخير صفوف النساء آخرها، وشرها أولها“.

ترجمہ: ”مردوں کی سب سے اچھی پہلی صف ہے اور سب سے بری آخری صف ہے، اور عورتوں کی سے سے بہتر آخری صف ہے اور سب سے بری پہلی صف ہے“۔ (صحیح مسلم،ح:۴۴۰)

متذکرہ بالا دلائل وبراہین کی روشنی میں یہ حقیقت طشت از بام ہوگئی کہ مخلوط تعلیمی نظام غیر شرعی، ماڈرن رہن سہن کا پروردہ اور آزادانہ خیال کا ناروا نتیجہ ہے۔ اسلام سے اس کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ بار الہا اسلامی تعلیمات کو سیکھنے اور اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی توفیق ارزانی عطا فرما۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
sana

makhloot taleem or is k muzammarat ks author ki book hai.. ye reference kahan sy dala ap ny?