میرے محسن مولانا عبدالوہاب خلجی

رفیق احمد رئیس سلفی

( یادیں اور تاثرات)

مولانا عبدالوہاب خلجی رحمہ اللہ اپنی شخصی وجاہت، تقوی وتدین اور دیانت داری اور امانت داری کے اعتبار سے ممتاز تھے۔ میں نے اٹھارہ بیس سالوں تک انھیں بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کے جذبات واحساسات کو بڑی حد تک سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں ان کا خاندانی پس منظر کیا تھا، جامعہ رحمانیہ اور پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں انھوں نے اپنے تعلیمی مراحل کیسے طے کیے اور پھر کس طرح انھیں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند میں قائم مقام ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے تقرری دی گئی۔ وہ اپنی عمر اور مرتبے کے اعتبار سے اتنے بڑے تھے کہ کبھی میں نے یہ سب معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی یہ خیال آیا کہ ان کی زندگی سے متعلق اپنی یادیں اور تاثرات مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑے گی۔ ایک بزرگ دوست کی حیثیت سے وہ ہمیشہ پیش آتے رہے اور اپنی شفقت ومحبت کاسایہ دراز رکھا۔
میرے ان سے تعلقات کی ابتدا اس وقت ہوئی جب انھوں نے دہلی میں حرمت حرمین شریفین کانفرنس منعقد کی۔ اس سے سال ڈیڑھ سال پہلے میں علی گڑھ میں ماہنامہ دعوت سلفیہ کی ادارت سنبھال چکا تھا۔ اس کے بعض مضامین اور اداریے جماعتی حلقوں میں زیر بحث آنے لگے تھے۔ رسالے کے منیجر علی گڑھ جماعت اہل حدیث کے صدر حاجی نذیر احمد رحمہ اللہ تھے۔ ہمارے یہ مخلص بزرگ ہر شمارہ دہلی سے چھپواکر لاتے اور پھر خود ہی ڈسپیچ کیا کرتے تھے۔ ان کا مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے آفس میں آنا جانا تھا، محترم خلجی صاحب سے بھی ان کی ملاقات تھی اور وہ رسالے کا ہر تازہ شمارہ انھیں دستی پہنچایا کرتے تھے۔ جب خلجی صاحب نے حرمت حرمین کانفرنس کی تاریخ کا اعلان کیا تو حاجی نذیر احمد صاحب کے ذریعے مجھے دہلی طلب کیا اور پھر یہ ذمہ داری دی کہ تم کانفرنس میں ہمارے خرچ پر شرکت کرو اور کانفرنس کی پوری روداد قلم بند کرکے دعوت سلفیہ کا خصوصی نمبر شائع کرو۔ انھوں نے ازراہ کرم خصوصی شمارے کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری بھی قبول فرمائی۔ ہمارے حاجی محترم نذیر احمد صاحب بڑے جذبے کے آدمی تھے، جماعتی کام کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے اور شاید یہی وہ اخلاص تھا جس کی وجہ سے خلجی صاحب سے ان کی قربت میں اضافہ ہوا تھا۔
استاذگرامی ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کی صدارت میں یہ کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی اور کئی ایک محترم علماء نے اپنے خطابات سے سامعین کو مستفید کیا۔ میں پورے پروگرام میں از اول تا آخر شریک رہا اور کانفرنس کی خاص اور اہم باتیں قلم بند کرتا رہا۔علی گڑھ واپس آکر دعوت سلفیہ کا خصوصی شمارہ مرتب کرنے میں مصروف ہوگیا۔ شمارہ تیار ہوا، خلجی صاحب نے اپنے وعدے کے مطابق اس کے اخراجات اٹھائے اور خصوصی شمارہ بڑی آب وتاب کے ساتھ گیارہ سو کی تعداد میں چھاپا گیا جب کہ اس کی تعداد اشاعت صرف پانچ سو تھی۔ محترم خلجی صاحب کو خصوصی شمارے کا اداریہ بہت پسند آیا اور انھوں نے کافی حوصلہ افزائی کی۔ اداریہ میں میں نے لکھا تھا کہ محترم خلجی صاحب کی اسٹیج پر سرگرمیاں دیکھ دیکھ کر جہاں مجھے خوشی ہورہی تھی کہ اب ہماری جماعت کو ایک انتہائی متحرک ناظم مل گیا ہے، وہیں جماعت کی گزشتہ تاریخ دیکھ کر بار بار شفیق جونپوری کا یہ شعر یاد آرہا تھا:
مسکراتا ہے کوئی پھول تو جی ڈرتا ہے
ڈھونڈھتی ہو نہ اسے گردش ایام کہیں
یہ شعر خلجی صاحب کو بہت دنوں تک یاد رہا اور بارہا انھوں نے میرے سامنے بعض دوستوں اور بزرگوں کو یہ شعر سنایا کہ رفیق صاحب نے میری نظامت کے بالکل ابتدائی دنوں میں یہ شعر لکھ کر مجھے خبردار رہنے کو کہہ دیا تھا۔
خلجی صاحب نے اس دور میں میری حوصلہ افزائی کی جب میں نے ابھی لکھنا شروع ہی کیا تھا۔ انھیں اگر کوئی تحریر پسند آتی تو دل کھول کر اس کی تعریف کرتے۔ بعد میں جب انھوں نے اپنا ذاتی مکتبہ قائم کیا تو کئی ایک عربی کتابوں کے ترجمے کرائے۔ میری پہلی مترجم کتاب ’’خمینیت:افکار وعقائد‘‘ خلجی صاحب نے اپنے پیش لفظ کے ساتھ شائع کی اور اس میں انھوں نے یہ لکھا کہ ترجمے کی زبان اس قدر رواں اور سلیس ہے کہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اسے عربی سے اردو میں منتقل کیا گیا ہے۔ یہ عربی کتاب سعید حوی کی تھی جو انھوں نے خمینی کی تردید میں ان کی بعض کتابوں کے اقتباسات کے حوالے سے لکھی تھی اوربتایا تھا کہ خمینی کے زیر قیادت ایرانی انقلاب کے خفیہ اور مذموم عزائم کیا ہیں۔
اس کے بعد بھی انھوں نے کئی ایک عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی ذمہ داری دی جسے راقم نے انجام دیا لیکن ان میں سے صرف دو کتابیں ’’شاہ عبدالعزیز کا پیغام‘‘ اور’’ اسلامی سیاست کی فکری بنیادیں‘‘ شائع ہوئیں باقی کئی کتابیں وہ کسی وجہ سے شائع نہیں کرسکے۔ میرے پاس ان کے مسودے کی کوئی کاپی بھی نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ ان کے بیٹوں نے ان مسودات کو حفاظت سے رکھا ہو۔ اگر وہ خود ہی ان کی اشاعت کا انتظام کرسکیں تو بہت بہتر ہے لیکن اگر ایسا نہ کرسکیں تو کسی اشاعتی ادارے کے سپرد کردیں تاکہ ان کی اشاعت ممکن ہوسکے اور ان کے والد گرامی کی حسنات میں اضافہ ہوسکے۔
محترم خلجی صاحب کو میری تحریروں پر بڑا اعتماد تھا اور وہ جب بھی کسی سیمینار یا کانفرنس کے لیے کوئی مقالہ لکھوانا چاہتے تھے تو فون کرکے یا دہلی طلب کرکے اپنے خیالات اور مقالے کی روپ ریکھا سے متعلق ہدایت دے دیتے تھے اور پھر تیار ہونے کے بعد وہ اسے اسٹیج پر پیش کردیا کرتے تھے۔ ایک بڑے منصب پر فائز شخصیت کو اتنا موقع نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنی انتظامی ذمہ داریوں سے وقت بچا کر لکھنے پڑھنے کا کام کرسکے، اس لیے اس خدمت کی سعادت میرے حصے میں آتی تھی اور وہ حق خدمت بڑی خوشی سے ادا کیا کرتے تھے۔ مجھے خود یاد نہیں ہے کہ ان کی نظامت کے ماہ وسال میں کتنے مقالات میں نے تحریر کیے اور نہ اس کا کوئی ریکارڈ میرے پاس محفوظ ہے۔ میں نے ایک بار ان سے درخواست کی تھی کہ میرے تحریر کردہ بیشتر مقالات شائع شدہ ہیں، بہتر ہوگا کہ ان کا کوئی مجموعہ آپ شائع کردیں تاکہ وہ محفوظ ہوجائیں لیکن اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے شاید وہ ایسا نہیں کرسکے۔
اسی طرح ترجمان کے کئی ایک خصوصی شمارے ان کے دور نظامت میں نکلے، ان کی ترتیب وغیرہ کی خدمت میں بھی انھوں نے مجھے شریک رکھا۔ کہیں انھوں نے اس کا ذکر کیا ہے اور کہیں کسی وجہ سے ذکر نہیں کرسکے ہیں۔ وہ بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہا کرتے تھے کہ جب بھی میں تصنیفی وتحقیقی کاموں کے لیے بنائے گئے کسی مشاورتی بورڈ میں تمھارا نام شامل کرتا ہوں تو بعض لوگوں کی پریشانی بڑھ جاتی ہے لیکن میری خواہش ہے کہ تم جماعت کے علمی وتصنیفی کاموں میں حسب معمول تعاون کرتے رہو۔ یہ ان کا میری علمی زندگی پر بڑا احسان ہے کہ اسی وسیلے سے میں جماعت کے علمی وتصنیفی کاموں سے نہ صرف قریب رہا بلکہ تنظیم کی ساخت، اس کی تاریخ اور اس کے کام کرنے کے انداز کو بھی سمجھنے کا موقع ملا۔ یہ خلجی صاحب کی وسیع الظرفی تھی کہ تنظیم کے تعلق سے جب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا اور کچھ تجاویز پیش کرتا تو اس کو غور سے سنتے بھی تھے اور اگر موقع ملتا تو ان کو دوسروں سے شیئر بھی کرتے تھے۔
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کا جو آفس جامع مسجد کے قریب ہے، اس کی وسیع عمارت جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ محمدیہ مالیگاؤں کے نام ہے۔ حکیم اجمل خاں صاحب نے اپنے دور نظامت میں بڑی جد وجہد کے بعد اسے حاصل کیا تھا۔ اس سلسلے میں میری معلومات یہ تھیں کہ مرکزی جمعیۃ کے پاس سرمایہ نہیں تھا جس کی وجہ سے ہمارے ان دو عظیم اداروں نے اپنا سرمایہ لگاکر اس وعدے کے ساتھ خرید لیا تھا کہ جب مرکزی جمعیۃ یہ رقم ہمیں دے دے گی تو عمارت اس کے نام منتقل کردی جائے گی لیکن شاید ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔ (گزشتہ دنوں دہلی جانا ہوا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مولانا اصغر علی امام مہدی صاحب امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند نے اس کی تعمیر شروع کردی ہے اور ان شاء اللہ جلد ہی مرکزی جمعیۃ کے شایان شان عمارت کی تعمیر مکمل ہوجائے گی۔ اللہ کرے کہ قانونی خانہ پری کرلی گئی ہو اور پھر آیندہ اس کی ملکیت کے حوالے سے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو)۔ جب یہ باتیں میرے علم میں آئیں تو میں نے دعوت سلفیہ میں ایک مضمون لکھا جس میں یہ تحریر کیا کہ ہماری جمعیۃ کی موجودہ عمارت ایک تین اور تین ایک کا معمہ بنی ہوئی ہے، اللہ جانے تثلیث سے توحید تک کا لمبا سفر کتنے مراحل میں اختتام پذیر ہوگا۔ محترم خلجی صاحب کو یہ بات لگ گئی۔ اس وقت کے خازن جمعیۃ حافظ نورالٰہی صاحب سے دہلی میں میری ملاقات ہوگئی، انھوں نے فرمایا کہ یہ بات تم نے کیوں لکھی۔ میں نے عرض کیا: جو لکھا گیا ہے، اگر وہ غلط ہے تو جماعت کو مطمئن کردیں۔ خلجی صاحب نے کہا کہ میں اس مسئلے کو ضرور حل کروں گا لیکن اس سلسلے میں انھیں کامیابی نہیں ملی۔ ایک مجلس میں جس میں خلجی صاحب کے ساتھ مولانا عبدالحکیم مدنی (ممبرا) بھی موجود تھے، میں نے خلجی صاحب سے پوچھا کہ کسی نے مجھے یہ بتایا ہے کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے عمارت کی پوری رقم ادا کردی تھی، پھر اس کی ملکیت کیوں نہیں منتقل کی گئی تو مولانا عبدالحکیم صاحب نے فرمایا کہ اتنے عرصے سے مرکزی جمعیۃ کا آفس اس عمارت میں ہے، وہ رقم کرایے میں وضع کرلی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس جواب سے کسے شرح صدر ہوسکتا ہے، مجھے بھی اطمینان نہیں ہوا۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا تھا کہ خلجی صاحب نے اس گستاخی کو انگیز کیا اور ان کی شفقت ومحبت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
کرناٹک میں جب مولانا عبدالوہاب جامعی حفظہ اللہ کی سرکردگی میں ہسور نامی جگہ پر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقد ہوئی تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ جماعت کی طرف سے تمھارا ٹکٹ بنوادیا گیا ہے، تم کانفرنس میں شرکت کروگے اور ہر دن کی روداد قلم بند کرکے وہاں کے مقامی اخبارات کو اشاعت کے لیے دو گے اوراس ہدایت کے ساتھ خطبہ استقبالیہ لکھنے کا حکم دیا کہ جماعت کا لائحۂ عمل کیا ہونا چاہیے اور ترجیحی طور پر اسے کن علمی اور دعوتی پروگراموں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ان کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق ایک طویل خطبۂ استقبالیہ میں نے تحریر کیا اور جماعت کے کاموں کا ایک تفصیلی خاکہ پیش کیا۔ خلجی صاحب نے اسے پڑھا اور خوشی ظاہر کی۔ کانفرنس میں انھوں نے جب اسے پیش کیا اور افتتاحی اجلاس کے ختم ہونے کے بعد ہم لوگ ایک خیمے میں خلجی صاحب کے پاس بیٹھے تھے تو کئی لوگ تشریف لائے اور انھوں نے خلجی صاحب کو خطبۂ استقبالیہ کے حوالے سے مبارک باد پیش کی۔ خلجی صاحب نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ان جیسے نوجوانوں کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ مقامی اخبارات میں روزانہ میری تحریر کردہ روداد شائع ہوتی رہی۔ اس سے جہاں مجھے اخبارات میں رپورٹنگ کا تجربہ ہوا وہاں اپنے اوپر خود اعتمادی بھی پیدا ہوئی۔ صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا ہنر خلجی صاحب کو آتا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ عین شباب میں مجھے ان کی صحبت میسر آئی اور انھوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی اور ہمیشہ آگے بڑھاتے رہے۔
ہماری جماعت میں ایک وقت ایسابھی آیا جب بہت سے نوجوانوں کے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ ہماری اپنی جماعت کی بھی طلبہ ونوجوانوں پر مشتمل کوئی تنظیم ہونی چاہیے۔ جماعت کے کئی ایک بزرگ اس کے خلاف تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس طرح تنظیم میں نوجوانوں کی مداخلت بڑھے گی اور وہ بسااوقات اپنی جذباتیت کی وجہ سے جماعت کے سامنے مسائل کھڑے کریں گے۔ لیکن جب ارباب جماعت کو نظر آیا کہ اگر نوجوانوں کی تنظیم نہ بنائی گئی تو نوجوان خود ہی آگے بڑھ کر کچھ کرگزریں گے۔ محترم خلجی صاحب نوجوانوں کی تنظیم کے حق میں تھے ۔چنانچہ اس کے قیام کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی گئی، اس سے پہلے اس کا ایک دستور مرتب کیا گیا جس میں تمام ممکنہ خدشات کو پیش نظر رکھ کر دفعات کی تعیین کی گئی تھی۔ میں نے نہ صرف دعوت سلفیہ کا اس سلسلے میں اداریہ لکھا بلکہ خلجی صاحب کے حکم پر اس کانفرنس کے لیے خطبۂ استقبالیہ بھی تحریرکیا جسے خلجی صاحب نے کانفرنس میں پیش کیا۔ علی گڑھ سے میرے ساتھ محترم پروفیسر محمد معین فاروقی رحمہ اللہ اور مولانا عبدالمنان اثری حفظہ اللہ بھی شریک ہوئے تھے۔بعد میں پہنچنے کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہیں مل سکی تھی، میں اپنے دونوں بزرگوں کے ساتھ پیچھے کھڑا افتتاحی اجلاس کے خطابات سن رہا تھا۔ قریب ہی میرے ہم درس ساتھی رحمت اللہ سلفی (بہار) بھی کھڑے تھے۔ جب خلجی صاحب نے خطبہ استقبالیہ پڑھا تو میرے اس ہم درس ساتھی نے کہا کہ رفیق یہ تمھاری زبان ہے، تم نے اپنے جذبات واحساسات کو خطبۂ استقبالیہ میں شامل کردیا ہے۔ میرے یہ ہم درس ساتھی طالب علمی کے زمانے سے میرے خیالات سے اچھی طرح واقف ہیں، بہت آسانی سے سمجھ جاتے ہیں کہ کون بول رہا ہے اور کس کی تحریر سماعتوں سے ٹکرارہی ہے۔ اللہ ہمارے تمام ہم درس ساتھیوں کو خوش رکھے۔ وہ آج بھی مجھ ناچیز سے پہلے جیسی محبت رکھتے ہیں۔ بعض اہم منصوبوں اور ضرورتوں کی تکمیل کے لیے میرے ہم درس ساتھیوں نے کچھ پروگرام بنائے ہیں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اخلاص کے ساتھ ان منصوبوں میں رنگ بھرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔آمین

مولانا محمد امین اثری رحمہ اللہ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ کے شاگرد اور ان کے تربیت دادہ تھے۔ وہ علی گڑھ میں ایک ذمہ دار عالم دین کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔ فتوے بھی دیا کرتے تھے اور اس تعلق سے جو الجھنیں انھیں پیش آتی تھیں، ان کو شیخ الحدیث کی رہنمائی میں دور کیا کرتے تھے۔ شیخ الحدیث کے بہت سے خطوط ان کے پاس محفوظ تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق استفتا سے تھا۔ جب شیخ الحدیث کی وفات ہوگئی تو انھوں نے شیخ الحدیث سے اپنے اس تعلق کا تذکرہ کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ شیخ الحدیث کے سلسلے میں اپنی یادیں قلم بند کردیں اورخطوط کو مدون کرنے کی ذمہ داری مجھے دے دیں، میں اسے مرتب کردوں اور پھر خلجی صاحب سے درخواست کروں گا کہ اسے شائع کردیں۔ چنانچہ وہ راضی ہوگئے۔ شیخ الحدیث پر ان کا تحریر کردہ مقالہ ماہنامہ زندگی میں شائع ہوا اور ’’مکاتیب رحمانی‘‘ کے نام سے خطوط کا یہ مجموعہ خلجی صاحب نے مرکزی جمعیۃ سے شائع کیا اور اس پر تفصیلی مقدمہ لکھا اور اپنے مقدمے میں مالیر کوٹلہ کے اس تاریخی واقعہ کا بھی ذکر کیا جس کا تعلق مولانا اثری سے تھا اور جس کے سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کو حکم مقرر کیا گیا تھا اور مولانا آزاد کے فیصلے کے مطابق مولانا اثری کو اہل حدیث مسجد کی امامت وخطابت سے دست بردار ہونا پڑا تھا کیوں کہ وہ جماعت اسلامی کے رکن تھے۔
خلجی صاحب کے بہت سے عزیز پڑوسی ملک پاکستان میں تھے جن سے ملاقات اور جن کی خوشیوں کی تقریبات میں شرکت کے لیے لاہور جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ جب بھی مولانا محمد اسحاق بھٹی سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ تمھارا تذکرہ ضرور کرتے ہیں اور بار بار پوچھتے ہیں کہ رفیق صاحب سے کب ملاقات ہوئی تھی، وہ آج کل کیا کررہے ہیں، علی گڑھ میں ان کی مصروفیات کیا ہیں۔ تم نے ان کے اوپر کیا جادو کردیا ہے کہ ملاقات ہوتی ہے تو سب سے پہلے تمھارے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میں جواب میں کہتا کہ ان سے صرف میری خط وکتابت ہے، کبھی کبھی فون پر بھی بات ہوجاتی ہے، ان کی کتابیں بڑی محبت سے پڑھتا ہوں اور ان کے تبصرے اور تجزیے میرے دل کو بہت بھاتے ہیں، وہ چوں کہ خود محبت کے انسان ہیں اور جو بھی ان سے تعلق رکھتا ہے، اخلاقی طور پر اس کے بارے میں باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے آپ سے وہ میری خیر وعافیت معلوم کیا کرتے ہیں۔ بعد کے حالات نے مجھے یہ سمجھنے پر مجبور کردیا کہ واقعی محترم بھٹی صاحب مجھ سے تعلق خاطر رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بار بار اصرار کرکے مجھ سے میری زندگی کے حالات تحریر کرائے، حالانکہ میں کیا، میری زندگی کیا اور میری علمی بساط کیا، اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے میں اچھی طرح واقف ہوں۔ پھر اسے اپنی زبان میں لکھ کر اپنی آخری کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘ کا حصہ بنایا۔ ہمارے بعض ’’کرم فرماؤں‘‘ کو بھٹی صاحب کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور انھوں نے بھٹی صاحب پر بھی ہاتھ صاف کردیا۔ واقعی حسد مصیبت عظمی ہے، نیکیوں کو اسی طرح بے نام ونشان کردیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے۔یہ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہے، اس میں ہر رنگ کے لوگ مل جاتے ہیں۔ فرق صرف اپنی بصیرت وبصارت کا ہے کہ آپ کس رنگ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اپنی پسند اور ترجیحات کو زبردستی دوسروں کی پسند اور ترجیحات بنادینا کہاں کا انصاف ہے اور سلفی منہج کے کس چوکھٹے میں اسے فٹ کیا جاسکتا ہے۔
محترم خلجی صاحب کے اندر جماعتی حمیت اور غیرت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ جہاں بھی جاتے، اپنی اور اپنے مسلک کی پہچان چھوڑ آتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملت کی تمام دینی تنظیموں اور ان کے سربراہوں سے قربت اور وابستگی رکھتے تھے اور ان کی دعوت پر ان کے پروگراموں میں شرکت کرتے تھے اور اپنی بات علانیہ کہہ کر آتے تھے۔ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند پر یہ خلجی صاحب کا بڑا احسان ہے کہ انھوں نے اپنے اس ادارے کو ملک وملت سے جوڑدیا اور اس کی اپنی علاحدہ پہچان بنادی۔ اللہ کرے کہ موجودہ ذمہ داران ہمارے اس ادارے کو ملک وملت سے وابستہ رکھنے کی کوششیں جاری رکھیں اور اپنی اس تنظیم کو عام مسلمانوں کے لیے مفید سے مفید تر بنانے کی جد وجہد جاری رکھیں۔ ہندوستان کی ملت اسلامیہ اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے اور اس کی تہذیب وتشخص کو جس قسم کے خطرات لاحق ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلکی حزبیت سے اوپر اٹھ کر ساری ملت کو سیسہ پلائی دیوار بنانے کی ضرورت ہے۔
خلجی صاحب نے اپنے دور نظامت میں وہ دور بھی دیکھا جب کچھ لوگ ان کے خلاف طرح طرح کی باتیں کرنے لگے، جو لوگ ان کے پروردہ تھے، وہی ان کے خلاف کتابچے شائع کرنے لگے جن میں ایسے الزامات بھی لگائے گئے جس کا تصور بھی محال ہے۔ خلجی صاحب نے ان تمام باتوں پر صبر کیا اور اپنے کسی مخالف سے کوئی ذاتی انتقام کبھی نہیں لیا۔ مجھے ایک صاحب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ خلجی صاحب کی نظامت کے ابتدائی دنوں میں بے روزگار تھے اور اس لالچ میں ان کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے کہ ان کو کسی قسم کی ملازمت عطا فرمادی جائے۔ ان کی مجبوری دیکھ کر خلجی صاحب اپنی نرم طبیعت کی وجہ سے موم بن گئے اور ان کو مرکزی جمعیۃ کے آرگن ’’ترجمان‘‘ کی دیکھ ریکھ کے لیے رکھ لیا لیکن یہی صاحب بعد میں خلجی صاحب کے ایک دوسرے بدخواہ کے ساتھ مل کر پمفلٹ تیار کررہے تھے کہ میں اچانک پہنچ گیا، میری سمجھ میں قصہ آ تو گیا لیکن اس وقت انھوں نے اسے یہ کہہ کر چھپالیا کہ یہ تمھارے کام کی چیز نہیں ہے۔
خلجی صاحب نے اپنے دور نظامت میں اپنی ذات اور اپنے بچوں کے لیے کچھ نہیں کیا، دریا گنج میں انھوں نے جو فلیٹ لیا، اس کی کہانی مجھے میرے ہم درس ساتھی مولانا شمشاد احمد سلفی، مئو نے بتائی کہ وہ ان دنوں ریاض میں ڈاکٹر عبدالرحمن پریوائی صاحب کے یہاں کوئی علمی کام کررہے تھے۔ خلجی صاحب تشریف لائے اور ان کے ساتھ دارالافتاء ریاض پہنچے جس کے ہاتھوں انھوں نے اپنی شائع کردہ کچھ کتابیں فروخت کی تھیں۔ ایک معتد بہ رقم انھیں کتابوں کی قیمت کے طور پر ادا کی گئی اور وہی رقم فلیٹ خریدنے کے کام آئی۔ مالیات میں خرد برد کا الزام ایک سنگین الزام ہے، جو حضرات اس قسم کے الزامات دوسروں پر عائد کرتے ہیں، انھیں اندازہ نہیں کہ بغیر کسی ثبوت کے زبان سے اس طرح کی بات نکالنا کتنا سنگین جرم ہے۔
جب جمعیۃ کی نظامت سے انھیں علاحدہ کیا گیا تو میرے ایک محترم بزرگ دوست مولانا سلطان احمد اصلاحی رحمہ اللہ نے جو خلجی صاحب سے تعلق خاطر رکھتے تھے اور ان کو جماعت اہل حدیث کا مخلص خادم سمجھتے تھے، مجھ سے کہا: رفیق! یہ کیا بات ہوئی، اپنی جوانی کے بہترین ماہ وسال جس آدمی نے جماعت کی خدمت میں لگادیے، اب علاحدگی کے بعد وہ کیا کرے گا، جماعت کو چاہیے کہ انھیں پرموشن دے کر امارت کے منصب پر فائز کرے تاکہ وہ جماعت کی حسب سابق خدمت کرتے رہیں۔ لیکن منہج سلف کی اتباع کا دعوی کرنے اور دم بھرنے والی اپنی جماعت سے میں کیا کہاں اور کس سے اس کی شکایت کروں۔ کبھی کبھی میں یہ سوچنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ ملحدین اور بے دینوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کا جو انتظام کررکھا ہے اور وہ کسی کی جوانی کو استعمال کرکے اس کی ضعیفی کا بندوبست کرنا نہیں بھولتے، ہم اسلام کے نمایندے انسانیت کا اتنا بھی درد اپنے سینے میں نہیں رکھتے۔ کیسے باور کرلیا جائے کہ ہماری ساری جد وجہد انسانیت کی خدمت اور اس کی نجات و فلاح کے لیے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج اسلام خود اس کے نمایندوں کے ہاتھوں دوسرے درجے کی چیز بن گیا ہے اور مسائل حیات کو حل کرنے کی اس کی جو صلاحیت ہے، اس کا اظہار کہیں نہیں ہوپاتا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے اس بندے کو اس کے صبر کا بدلہ عطا فرمائے اور اس کے بچوں کی خبر گیری فرمائے اور ان کی اہلیہ محترمہ جو خود صاحب فراش ہیں، ان کو صحت وعافیت بخشے۔ مجھے اپنی جماعت کی تاریخ معلوم ہے کتنے لوگوں نے ہماری تنظیم کو بطور زینہ استعمال کیا اور عروج واقبال سے شاد کام ہوئے۔ جماعت جہاں تھی وہیں رہی، اس کے دن نہیں پھرے لیکن اس کے ’’خادموں‘‘ کی دنیا میں بہار آگئی اور انھوں نے اپنی کئی ایک نسلوں کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرلیا۔ یوم حساب قریب ہے، اجتماعیت کا خون کرکے اس کے جنازے پر جو لوگ اپنا تاج محل کھڑا کرتے ہیں، ان کا انجام کچھ بہتر نہیں ہوگا۔
ہماری تنظیم یوں تو دستور کی دہائی دیتی ہے لیکن غیر دستوری طور پر خلجی صاحب کو نظامت سے ہٹایا گیا اور پھر دہلی کے امیر محترم نے بے ہوش ہوکر سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر جس طرح جماعت کو آگے بڑھایا، اس کی کہانی بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ اراکین شوری وعاملہ دم بہ خود تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے لیکن درہم ودینار کی ہماری ضرورتوں نے ہمیں بے اصولی کی زندگی گزارنے کا عادی بنادیا ہے۔ آج تک میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ جو محترم حضرات ملک میں نہیں رہتے، باہر رہ کر اپنی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ ہماری اس تنظیم کے انتخاب میں کیوں مداخلت کرتے ہیں۔ اگر مداخلت کرنے کی وجہ زروجواہر ہے تو ہمیں بدوی زندگی کی طرف لوٹ جانا چاہیے کہ اس میں غریبی تو ہوگی لیکن عزت نفس متاثر نہیں ہوگی۔ ہم پیڑوں کے سایے میں اپنی تنظیم کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں لیکن وہ ایرکنڈیشن ہمیں منظور نہیں جس کے حساب پر ہم ضابطہ اور دستور کو بالائے طاق رکھ کر اپنی دعوت اور رفاہی خدمات کو شور اور ہنگامے میں تبدیل کردیں۔ وطن سے دور رہنے والے بزرگوں اور دوستوں کی یہ مداخلت ہماری تنظیم کو کمزور کرچکی ہے۔ اللہ کے واسطے درہم ودینار کے حوالے سے اپنی پسند وناپسند ہماری تنظیم پر نہ تھوپیں، ورنہ اللہ کی راہ میں دیا ہوا یہ چندہ اور عطیہ بے معنی بن جائے گا اور منّ واذی کے ذیل میں شمار ہوکر ہباءا منثورا ہوجائے گا۔
جمعیۃ سے علاحدہ ہوکر محترم خلجی صاحب کی زندگی سمٹ گئی اور آہستہ آہستہ ان کی سرگرمیاں محدود ہوگئیں۔بعد میں اصلاح کے نام پر کچھ لوگوں نے دوسری جمعیۃ بنا ڈالی اور اس جمعیۃ کے آس پاس وہ لوگ جمع ہوگئے جو کسی طرح کی محرومی یا مایوسی کا شکار تھے۔ خلجی صاحب کو اس میں بھی گھسیٹ لیا گیا۔ ان ایام میں میری ان سے فون پر طویل گفتگو ہوا کرتی تھی اور وہ دوسری جمعیۃ کی ساری روداد مجھے سنایا کرتے تھے اور اپنی حد درجہ بے زاری کا اظہار کرتے تھے۔ کئی ایک شخصیات کے تعلق سے اپنے تحفظات کا ذکرکرتے تھے لیکن ایک درد تھا جو انھیں چین سے نہیں رہنے دیتا تھا۔ جس تنظیم کو انھوں نے ایک ملکی سطح کی تنظیم بنادیا تھا اور جسے تمام ملی اداروں میں باعزت نمایندگی دلائی تھی، اس کو یوں سمٹتا دیکھ کر وہ سرد آہیں بھرا کرتے تھے۔ یہی وہ جذبہ اور مسلک سے محبت تھی جس نے ان تمام زخموں کو بھلادیا تھا جو دوران نظامت ان کے جسم پر لگے تھے۔
جمعیۃ کو دولخت کرنے کی حمایت جماعت کے سنجیدہ طبقے نے کبھی نہیں کی۔ اس کارروائی کے پیچھے جو محترم شخصیات تھیں، ان کو ان کے بزرگوں، معاصرین، ہم درس ساتھیوں اور بعض خوردوں نے بھی مشورہ دیا تھا کہ جمعیۃ سازی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت ان دعوتی اور علمی کاموں کی ہے جن کی ملت وجماعت کو ضرورت ہے۔ اکیڈمک ادارے بنائے جائیں، دعاۃ کی تربیت کے لیے سنٹر کھولے جائیں اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ مصنفین اور دعاۃ کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ لیکن کسی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا اور آخر کار دوسری جمعیۃ توڑ دی گئی۔ یہ ایک اچھا اور مناسب قدم تھا البتہ بعض حضرات جو ان معاملات سے راست تعلق رکھتے تھے، ان کو اعتماد میں لیے بغیر اس قسم کا اعلان قطعی مناسب نہیں تھا۔ اس اقدام سے اگر کچھ لوگ سرخ رو ہوئے ہیں تو بہت سے چہروں پر مایوسی چھاگئی ہے۔سیاست میں دین داخل ہو تو باعث خیر وبرکت ہوتا ہے لیکن اگر دین میں سیاست داخل ہوجائے تو پامال حرمتوں کا میزانیہ کوئی ماہر ریاضی داں بھی ترتیب نہیں دے سکتا۔ اب امید کی جاتی ہے کہ طرفین وسیع الظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون ثابت ہوں گے اور اجتماعی اداروں کو اپنی ذاتی ترجیحات کی بنیاد پر نہیں بلکہ شورائیت کے اصولوں پر چلائیں گے۔
خلجی صاحب کے ساتھ ان کے دسترخوان پر کئی بار کھانا کھانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ وہ حددرجہ مہمان نواز تھے۔ اگر آفس کی ضرورت سے مجھے دہلی بلایا تو اس وقت بھی قیام وطعام کا بہتر سے بہتر انتظام کیا۔ ان کے ساتھ کئی بار سفر کرنے کا بھی موقع ملا اور سفر میں بھی ان کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوا۔ فیروزآباد میں مغربی یوپی کی جمعیۃ کی سربراہی میں ایک دینی جلسہ تھا۔ فیروزآباد کی مقامی جمعیۃ نے یہ پروگرام مغربی یوپی کی جمعیۃ کے امیر مولانا محمد سلیمان میرٹھی حفظہ اللہ کی صدارت میں منعقد کیا تھا۔ ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ محترم خلجی صاحب، مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ میرے غریب خانے پر تشریف لے آئے۔ میں حیران تھا کہ بغیر کسی اطلاع کے یہ دونوں محترم حضرات کیسے آگئے۔ انھوں نے بتایا کہ فیروزآباد جلسے میں جارہے ہیں، تمھیں بھی ساتھ چلنا ہے لیکن علی گڑھ سے نکلنے سے پہلے مولانا عبدالواسع مرحوم کے والد سے ملاقات کرکے تعزیت کرنی ہے۔
کچھ ہی ماہ پہلے مولانا عبدالواسع کا مدھیہ پردیش میں ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تھا۔ علی گڑھ کے بہت اچھے اہل حدیث خطیب تھے۔ ان کی آواز میں بڑی تاثیر تھی۔ عین شباب میں یہ حادثہ پیش آیا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور اہلیہ اور بچوں کی سرپرستی فرمائے۔ بیوہ نے انتہائی غربت میں بڑی جد وجہد سے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش کی ہے۔علی گڑھ کی جماعت کے وہ اصحاب خیر شکریے کے مستحق ہیں جنھوں نے اس فیملی کو سہارا دیا اور ہمارے بعض دوست احباب بھی جنھوں نے وقتاً فوقتاً ان کی مدد کی۔الحمد للہ اب بچے جوان ہوچکے ہیں اور اپنی والدہ کی اطاعت وخدمت میں پیش پیش ہیں۔ ان کا ایک بیٹا سعود اس مسجد کی خدمت کررہا ہے جس میں گزشتہ پچیس سالوں سے میں خطبہ جمعہ دیتا ہوں۔ سعود اپنے والد کی طرح حسن صوت اور حسن قرأت میں ممتاز ہیں اور مسجد میں مغرب بعد محلے کے بچوں کو قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ بسااوقات امامت بھی کرتے ہیں۔ اللہ ان کی اس سعادت مندی کو ہمیشہ باقی رکھے اور وہ اپنی والدہ اور دوسرے بھائیوں اور بہن کا سہارا بنے رہیں۔
چنانچہ دونوں حضرات کو میں مولانا عبدالواسع مرحوم کے والد محترم عبدالمغنی صاحب کے گھر لے گیا۔ وہاں آناً فاناً انھوں نے ہم سب کی ضیافت کا انتظام کیا اور دونوں حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ علی گڑھ سے ہم تینوں کا قافلہ فیروزآباد کے لیے روانہ ہوا۔ راستہ بھر مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ مولانا خلجی اور مولانا عبداللہ مدنی بڑے بے تکلف دوست تھے اور دونوں میں بڑا گہرا تعلق تھا۔ میں ان دونوں حضرات کی نوک جھونک اور دل چسپ باتوں سے محظوظ ہوتا رہا۔ دوران گفتگو مدارس نسواں کے تعلق سے ایک بات کا ذکر آیا کہ ان کی تعلیم کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ وہ پردہ ہے جو کلاس میں مرد استاذ اور طالبات کے درمیان حائل رہتا ہے۔ طالبات پیچھے اپنی دیگر مصروفیات میں ہوتی ہیں اور توجہ سے استاذ کی باتیں نہیں سنتیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس پردے کی ضرورت کیا ہے؟ شرعی اعتبار سے برقعے میں ملبوس بچیاں اپنی ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ اگر درمیان میں لٹکے پردے کے بغیر کلاس میں حاضر ہوں تو کیا حرج ہے؟ نامحرم سے تنہائی میں ملنے کی ممانعت ہے لیکن مجمع عام میں ایک خاتون شرعی لباس میں ملبوس رہتے ہوئے کھلے چہرے کے ساتھ کسی بزرگ عالم دین سے استفادہ کرے تو کیا حرج ہے۔ مولانا خلجی صاحب نے میری تائید کی اور بتایا کہ جنوبی ہند کے تمام نسواں مدارس میں درمیانی پردہ کے بغیر تعلیم دی جاتی ہے لیکن مولانا مدنی نے فرمایا کہ آپ حضرات ایک حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ جنوبی ہند اور شمالی ہند کے حسن میں بہت فرق ہے۔ بات بڑی لطیف تھی، خلجی صاحب نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور مجھے بھی شرح صدر نہیں ہوا۔ مدارس نسواں میں یہ ایک مسئلہ ہے۔ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اگر مسلم خاتون کو چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے تو ان کے پاس اس کے مضبوط دلائل ہیں اور تعلیم وتدریس ایک سماجی ضرورت ہے۔ لہذا کلاس میں استاذ اور طالبات کے درمیان پردہ لٹکانے پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔
فیروز آباد میں عوامی خطابات ہوئے اور سامعین میں مختلف مکتب فکر اور مسلک کے لوگ موجود تھے۔ آخر میں مولانا محمد سلیمان میرٹھی نے سامعین کے سوالوں کا جواب دینے کی ذمہ داری مجھے دی۔ اچانک اعلان سے میں حیران رہ گیا، میں نے مولانا میرٹھی سے عرض کیا کہ اپنے بڑے بڑے فاضل علماء کی موجودگی میں میری یہ مجال کہاں کہ سوالوں کا جواب میں دوں۔ انھوں نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تم ہر مکتب فکر کے لوگوں کا جواب علمی انداز میں دے سکتے ہو۔یہ ان کا حسن ظن تھا، ورنہ مجھے اپنے علم کے حدود اربعہ کا علم ہے۔ خیر ایک گھنٹے تک سامعین کے سوالوں کا جواب دیتا رہا اور پھر جلسے کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔
یہاں تذکرہ مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ کا آگیا ہے تو یہ بھی سنتے جائیں کہ وہ اس خاکسار پر مکمل اعتماد کرتے تھے اور ہمارے بعض ’’کرم فرما‘‘ جو غیر ضروری تبصرے کیا کرتے ہیں، ان کی تردید کرتے تھے۔ یہ بات ایک ملاقات میں انھوں نے خود مجھ سے ذکر فرمائی تھی۔ ایک بار بہت شارٹ نوٹس پر انھوں نے چنروٹا(نیپال)میں جمعیۃ اہل حدیث کی طرف سے منعقد ہونے والے سیمینار میں ایک مقالہ پڑھنے کی دعوت دی۔ عنوان تھا: ’’چند قدیم وجدید عربی اردو تفاسیر:ایک تعارفی مطالعہ‘‘۔ چار پانچ دنوں کا موقع تھا۔ مقالہ تیار کیا اور پروگرام میں شرکت کی۔ مقالہ سننے کے بعد خوشی کا اظہار کیا اور سامعین کو بتایا کہ اتنے شارٹ نوٹس پر اتنا مفصل مقالہ پیش کرنے پر میں رفیق صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف جھنڈانگری رحمہ اللہ پروگرام میں موجود تھے۔ انھوں نے مقالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ادھر ادھر دیکھ کر اس کی تعریف کی۔ بعد میں یہ مقالہ کئی قسطوں میں مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ نے اپنے مجلہ نور توحید میں شائع فرمایا۔
مولانا خلجی رحمہ اللہ کو علی گڑھ کی جماعت سے بڑی انسیت تھی۔ حاجی نذیر احمد مرحوم صدر جمعیۃ اہل حدیث علی گڑھ نے جب ادارہ دارالحدیث، موتی مسجد کے ذریعے یونیورسٹی کے علاقے ’’ہمدرد نگر(بی)‘‘ میں اکیس سو گز زمین خریدی اور اس میں تعمیرات کا مجوزہ پرگرام بنایا تو اس کو خلجی صاحب کی خدمت میں بھی پیش کیا۔ انھوں نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور چندے کے لیے جو اپیل شائع کی گئی، اس میں خلجی صاحب کا اسم گرامی بھی شامل تھا۔ کچھ سالوں بعد جب قدیم شہر علی گڑھ کے کچھ لوگوں نے حاجی نذیر احمد مرحوم کو یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ یونیورسٹی کے علاقے میں کوئی ادارہ بناؤ گے تو یونیورسٹی کے پڑھے لکھے اہل حدیث افراد کا اس پر قبضہ ہوجائے گا اور وہ ہمارے تسلط سے نکل جائے گا۔ حاجی نذیر احمد مرحوم جماعت کا جذبہ تو رکھتے تھے لیکن پڑھے لکھے بالکل نہیں تھے، وہ ان لوگوں کی باتوں میں آگئے اور فیصلہ یہ کر بیٹھے کہ یونیورسٹی کے علاقے میں خریدی گئی اکیس سو گز زمین فروخت کردی جائے اور اسی رقم سے شہر میں کوئی زمین خرید کر ادارے کی تعمیر کی جائے۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو میں نے خلجی صاحب کو علی گڑھ آنے کی دعوت دی اور ادارہ سے متعلق افراد کی ایک میٹنگ رکھی۔ مولانا عبدالمنان اثری حفظہ اللہ سمیت کئی حضرات نے اس میں شرکت کی اور خلجی صاحب نے یونیورسٹی علاقے کی علمی اہمیت بتائی اور خریدی ہوئی زمین کو فروخت کرنے سے منع کیا۔ اس وقت تو ان کے سامنے کسی نے بولنے کی ہمت نہیں کی لیکن آخر کار ساری زمینیں فروخت کردی گئیں اور حاجی نذیر احمد مرحوم کے ایک بھانجے شکیل احمد صاحب جو دہلی میں بڑے اچھے کاروبار سے وابستہ تھے، ان کے پاس یہ رقم محفوظ تھی۔ علی گڑھ میں یہ زمین شکیل احمد صاحب نے خرید کردی تھی۔ حاجی نذیر احمد بجاطور پر ان پر اعتماد کرتے تھے لیکن ایک دن اچانک شکیل احمد صاحب کا قتل ہوگیا اور ان کی فیملی سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئی۔حاجی صاحب جب تک زندہ تھے، شکیل احمد کی بیوہ سے ان کا رابطہ تھا، وہ کہا کرتی تھیں کہ حالات درست ہوتے ہی وہ رقم میں ادا کردوں گی لیکن حاجی صاحب کے انتقال کے بعد کسی کا ان سے کوئی رابطہ نہیں رہ گیا۔ اس طرح ایک بڑے خسارے سے علی گڑھ کی جماعت دوچار ہوگئی۔
اسی اکیس سوگز زمین میں سے کچھ زمین حاجی نذیر احمد نے مسجد کے لیے علاحدہ کردی تھی جس پر مولانا مختاراحمد ندوی رحمہ اللہ نے ادارہ اصلاح المساجد کی جانب سے مسجد تعمیر کردی تھی۔ حاجی نذیراحمد نے ایک کارخیر یہ بھی کیا تھا کہ مسجد سے متصل زمین کے ایک ٹکڑے پر کرائے کے تین مکانات تعمیر کرادیے تھے جن کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ محترم اشرف حسین فاروقی کی ایک بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں، اور امریکہ میں مقیم ہیں، انھوں نے ۱۹۹۴ء میں پچاس ہزار روپے کرائے کے ان مکانات کی تعمیر کے لیے دیے تھے۔ مسجد اشرف حسین فاروقی کی نگرانی میں تعمیر ہوئی تھی اور انھوں نے ہی اپنی بہن کے پیسوں سے کرائے کے مکانات بھی تعمیر کرائے تھے۔ابھی سال بھر پہلے کی بات ہے، کچھ حضرات نے متولی سے مل کر کرائے کے ان مکانات کو توڑ دیا اور اسکول تعمیر کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ مجھے جب اس کی اطلاع ملی تو میں نے متولی اور انتظامیہ کے دیگر افراد سے بات کی کہ پھر مسجد کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جائیداد مسجد کے لیے وقف ہے، آپ اس کی ہیئت کو تبدیل کیوں کر کرسکتے ہیں۔ متولی کی سمجھ میں بات آگئی اور انھوں نے ارداہ بدل لیا۔ اب بحمداللہ اس پر کرائے کے فلیٹ تعمیر کیے جارہے ہیں اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس کی آمدنی سے مسجد کا نظام چلتا رہے گا۔ یہاں شرعی مسئلے کے طور پر ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ ملک میں اوقاف کی جو مساجد ہیں، ان کی انتظامیہ کمیٹی صرف مسجد کا نظام چلانے کے لیے ہوتی ہے، جب اس کی جائیدادوں کی بات آئے گی تو اس کا فیصلہ تنہا انتظامیہ کرنے کی مجاز نہیں ہے بلکہ جس مسلک کی وہ مسجد ہے، اس کے ارباب حل وعقد مل کر کوئی فیصلہ کریں گے۔ اس بات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جگہ جگہ اوقاف کی مساجد میں تنازعے کھڑے ہیں اور انتظامیہ من مانی کرتی ہے اور اوقاف کی جائیدادوں کو اپنی میراث سمجھ کر جیسے تیسے استعمال کرتی ہے۔ یہ ایک بڑا فساد ہے جو ہمارے دین پسند طبقے میں پھیلا ہوا ہے۔ اللہ کا خوف جب دلوں سے نکل جاتا ہے تو اسی طرح کی حرکتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
مولانا خلجی رحمہ اللہ کے دور نظامت میں ایک وقت وہ بھی آیا جب مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے امیر استاذ گرامی مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ بنائے گئے۔ خلجی صاحب کو مولانا سے خاص عقیدت تھی اور وہ ان دنوں ریاض میں مقیم تھے۔ خلجی صاحب نے ان کو جماعت کی امارت کے لیے تیار کیا اور مولانا امیر بن گئے۔ میں نے جب کسی مجلس میں اس بات کا ذکر کیا تو مولانا خلجی صاحب نے مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ کی مقبولیت کے کئی ایک واقعات سنائے۔ ایک واقعہ یہاں ذکرکرنا چاہتا ہوں۔ خلجی صاحب مولانا مبارکپوری کے ساتھ ریاض میں کسی شیخ سے ملاقات کے لیے جارہے تھے۔ راستے میں ٹیکسی ڈرائیور سے خلجی صاحب نے پوچھا: کیا تم نے الرحیق المختوم نامی کتاب دیکھی یا پڑھی ہے۔ عرب ڈرائیور یہ کتاب پڑھ چکا تھا۔اس نے اثبات میں جواب دیا اور اس نے کتاب کی کئی ایک خوبیاں بیان کردیں۔ خلجی صاحب نے ڈرائیورکو بتایا کہ جو شیخ میرے پہلو میں تشریف فرما ہیں، الرحیق المختوم کے مصنف یہی ہیں۔ ڈرائیور نے یہ سنا تو بہت خوش ہوا، سائڈ میں گاڑی روکی اور مولانا کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور بڑی محبت وعقیدت کا اظہار کیا۔

مختصر یہ کہ مولانا مبارک پوری جمعیۃ کے امیر بن گئے۔مجھے یاد ہے کہ انتخاب امیر کی یہ کارروائی مسجد فتح پوری، دہلی کے کیمپس کے ایک ہال میں پائے تکمیل کو پہنچی تھی۔ اس میں کئی ایک علماء نے جمعیۃ کو متحرک اور فعال بنانے کے لیے اپنی تجاویز اور مشورے پیش کیے تھے۔ ایک تجویز مجھے آج بھی یاد ہے اور وہ مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ نے پیش کی تھی کہ جمعیۃ کو پانچ سالوں کے لیے تحلیل کردیا جائے اور پھر نفع نقصان کا تجزیہ کرکے اگلا قدم اٹھایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس تجویز سے بہتوں کو پریشانی لاحق ہوئی لیکن مولانا عبدالواحد مدنی ہماری جماعت کے انتہائی جینیس عالم دین ہیں، ملک وملت اور جماعت کے حالات ومسائل کوبہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے قائم کردہ اداروں کی دیکھ بھال میں وہ اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ اپنی سوچ اور فکر کا اظہار تحریری طور پر بہت کم کرپاتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ان کے فکر سے کافی استفادہ کیا ہے اور ان کی صاف ستھری باتوں نے میرے دل کو بہت متاثر کیا ہے۔
مولانا مبارک پوری کے انتخاب پر کئی ایک خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ مولانا خالص اکیڈمک قسم کے آدمی ہیں، درس وتدریس اور تصنیف وتحقیق سے ان کا واسطہ رہا ہے، انتظامی امور کا انھیں زیادہ تجربہ نہیں ہے لیکن خلجی صاحب کو یقین تھا کہ چوں کہ تنظیم کو عملاً مجھے چلانا ہے، بہ حیثیت امیر مولانا کی سرپرستی جمعیۃ کو متحرک اور فعال بنادے گی لیکن عملاً ایسا ہوا نہیں۔ مولانا انتہائی ذہین اور معاملہ فہم انسان تھے۔ جمعیۃ کی ہر چیز پر ان کی نظر تھی۔ اس لیے خلجی صاحب سے زیادہ دنوں تک تال میل بن نہیں سکا۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ دونوں کے خیالات باہم ٹکرانے لگے اور جب مولانا مبارک پوری کو احساس ہوا کہ میں امارت کی ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہوسکوں گا تو انھوں نے امارت کو خیر باد کہہ دیا لیکن جاتے جاتے کئی ایک اداروں کو جمعیۃ کی کارکردگی کی تفصیل بھی لکھ بھیجی جس کی وجہ سے کئی قسم کے مالی مسائل پیدا ہوئے اور نظام چلانے میں خلجی صاحب کو کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ہماری جمعیۃ میں امیر اور ناظم کے حقوق وفرائض اور ان کے دائرۂ کار کی تعیین کردی گئی ہے اور دستور میں باقاعدہ اس کی تفصیلات موجود ہیں لیکن یہ عجیب معاملہ ہے کہ کبھی جمعیۃ کا امیر تبرک بن جاتا ہے اور کبھی اس کا ناظم۔ سابق امیر جمعیۃ حافظ یحی صاحب ایک عظیم باپ کے بیٹے تھے، ان کا تبرک بننا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ان کے دور امارت کے متحرک ناظم جب امیر بنائے گئے تو تبرک بننے کی یہ روایت ناظم کی طرف منتقل ہوگئی اور کل کے ناظم محترم نے نظامت علیا کا سارا اختیار امارت کی طرف منتقل کرلیا اور بحمد اللہ وہ آج امیر کی حیثیت میں بھی اسی طرح رواں دواں ہیں جس طرح اپنی نظامت کے دور میں رواں دواں تھے۔ دستور کی باریکیاں تو ارباب حل وعقد سمجھیں گے، یہاں تو یہ شعر لکھنے پر میں اکتفا کروں گا:
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
خلجی صاحب مہینوں صاحب فراش رہ کر مالک حقیقی کے پاس چلے گئے۔ ان کے آخری وقت کی پریشانی اور بے چارگی کسی دوست نے تفصیل سے بتائی تھی۔ سن کر بہت رونا آیا۔اللہ ان لوگوں کو اجر عظیم سے نوازے جنھوں نے اس آخری گھڑی میں ان کا ساتھ دیا اور ان کے بچوں کی ہمت بندھاتے اور ان کو دلاسہ دیتے رہے۔ اٹھارہ بیس سالوں کی رفاقت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب کھلے دل سے ہر قسم کی گفتگو کون کرے گا۔ ملت وجماعت کا جو درد ان کے سینے میں تھا اور جس کے لیے وہ تاحیات سرگرم عمل رہے، اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ اپنے مقبول بندوں میں ان کو جگہ دے، تسامحات سے درگزر فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ جماعت وملت کے مخلصین کا احترام کریں، ان کی اہمیت جانیں اور حسب مراتب ان کی توقیر بجالائیں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالقدیر

سب کو حق ہے لکھنے کا اس پر کسی کا اعتراض نہیں… ہاں ایک بات پر سخت تکلیف ہوئی اس مضمون سے… کہ زندہ تھے تو عہدے دار تھے تو لکھ کر پیسے وصولتے رہے اور مرنے کے بعد (سچ یا جھوٹ کون جانے) آپ یہ کہیں کہ جو مضامین یا مقالات مولانا کے نام سے ہوتے تھے وہ میں لکھتا تھا… یہ انتہائی گھناؤنا عمل ہے کسی بھی عالم کے لیے… افسوس کہ عنوان میں ہمارے محسن کہہ کر جسے لفظ سے جسے یاد کیا گیا ہے الحمدللہ مضمون کے اندر اسی پر ایسا الزام لگا کر بعد از… Read more »

رشید ودود

اس تحریر کو ایک بار نہیں کئی بار پڑھا ہے، رج کے پڑھا ہے، مولانا نے خوب لکھا ہے، مولانا کی یہ تحریر ایسی ہے کہ آج مجھے خود سے کیا ہوا وعدہ توڑنا پڑا، وعدہ یہ تھا کہ کسی وہاٹس ایپ گروپ میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا- مولانا کی یہ تحریر میرے لئے ‘پیمانہء صہبا، ثابت ہوئی ہے، اب غالب سا ‘گل افشانئ گفتار، کہاں سے لاؤں، البتہ میری بکواس آپ لوگ تھوڑی دیر کیلئے بُھگَت لیجئے- مولانا انتہائی منجھے ہوئے قلم کار ہیں، ان کا قلم پختہ بھی ہے لیکن اس مضمون کو چاہے جتنا ‘یادیں، اور… Read more »