نفرت وعداوت الفت و محبت میں تبدیل ہوگئی

شکیب الرحمن سلفی

اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو رہبر انسانیت اور رحمۃ للعالمین بنا کر ایک ایسے دور میں مبعوث فرمایا جس دور میں انسانیت ضلالت و گمراہی کے عمیق غار میں گری ہوئی تھی۔ ہرسو قتل وغارت گری، لوٹ مار، چوری وڈاکہ زنی، ظلم وزیادتی، جنگ وجدال اور اختلاف وانتشار کا دور دورہ تھا۔ پورا معاشرہ ذات پات، اونچ نیچ، حسب و نسب، کنبہ وخاندان کی بنیاد پر امتیاز، قومی وعلاقائی، خاندانی وقبائلی عصبیت کی بنیاد پر منقسم تھا۔ محض حسب ونسب کی بنیاد پر ایک کنبہ وخاندان کے افراد خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھتے تھے۔ معمولی حادثہ کی بنیاد پر جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے اور انتقام در انتقام کی آگ نسل در نسل شعلہ زن رہتی۔
ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرما کر شرک وکفر کے دلدل میں پھنسی انسانیت کو توحیدِ ربانی کی شاہراہ پر گامزن فرمایا اور ان کے عقائد واخلاق کا تزکیہ کرنے کے ساتھ اس بات کو ذہن نشین کرایا کہ تمام انسان ایک آدم کی اولاد ہیں۔ اللہ کی نظر میں اشرف وبرتر، حقیر وکمتر ہونے کا معیار کنبہ وقبیلہ، رنگ ونسل، زبان ومکان نہیں بلکہ تقویٰ وطہارت ہے:

(یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْر)(سورۃ الحجرات: ۱۳)

’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو (پھر) کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقیناًاللہ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔
عربیت وعجمیت، رنگ ونسل کی بنیاد پر فضل وبرتری کے موہوم تصور کو ختم کرتے ہوئے حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’یَا أَیُّھا النَّاسُ، إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَی عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَی عَرَبِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَی أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَی أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَی، إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ أَتْقَاکُمْ، أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟ ”، قَالُوا: بَلَيیَا رَسُولَ اللہ،ِ قَالَ: ” فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ‘‘(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۲۷۰۰، الترغیب والترھیب للحافظ المنذري:۲۹۶۴)

’’اے لوگوں! بے شک تمھارا رب ایک ہے اور تمھارے والد ایک ہیں، خبردار نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر اور نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو سرخ پر کوئی برتری حاصل ہے مگر تقویٰ کے ذریعہ بے شک تم میں کا سب سے باعزت اللہ کے نزدیک تم میں کا سب سے متقی ہے۔ خبردار کیا میں نے تبلیغ کردی؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ نبی ﷺ نے فرمایا پس حاضر شخص غائب تک پہنچا دے۔
فضل وبرتری کے اس عالمی منثور اور آفاقی تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ مدینہ میں ایک ایسا مسلم معاشرہ وجود میں آیا جس میں بلال حبشی، سلمان فارسی، عداس نینوائی، صہیب رومی، ضماد ازدی، طفیل دوسی، ابوذر غفاری، ابوعامر اشعری، کرفہری، ثمامہ نجدی اور سراقہ مدلجی وغیرہ پہلو بہ پہلو بیٹھے نظر آتے ہیں۔ سالہا سال سے اوس وخزرج کے درمیان جاری جنگ کی آگ بجھ گئی۔ انصار ومہاجرین اسلامی اخوت وبھائی چارگی کے رشتے سے اس طرح منسلک ہوگئے کہ نسبی اخوت کی حمیت اس کے سامنے ماند پڑگئی۔
قارئین کرام! تاریخِ عالم پر نظر دوڑائیں تو کسی رہنما کے دربار میں اتنی قوموں اور نسلوں کے افراد ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہرگز نظر نہیں آئیں گے۔ اتنا ہی نہیں یہ سب آپس میں میل ومحبت سے رہتے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے، ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے اور کوئی کسی کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا، اپنی ضرورت وحاجت پر اپنے دینی بھائی کی ضرورت کو مقدم کرتے اور

(وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ )(سورۃ الحشر:۹)

’’خود اپنے اوپر انھیں( مہاجرین کو) ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو‘‘ کے عملی پیکر تھے۔ یہ مثالی اتحاد واتفاق اور ایثار وقربانی کا جذبہ صرف اور صرف اسلامی الفت ومحبت، اخوت وبھائی چارگی کی بنیاد پر پیدا ہوا۔ کلمۂ توحید کے اثرات اور اسلامی تعلیمات کا یہ نتیجہ تھا جس نے دلوں کی کدورت ونفرت کو الفت ومحبت میں، عداوت ودشمنی کو اخوت وبھائی چارگی میں تبدیل کردیا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

(وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون)(سورۃ آل عمران:۱۰۳)

’’اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا، اللہ اسی طرح تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ یہ مثالی اتحاد واتفاق، الفت ومحبت، اخوت وبھائی چارگی، ایثار وقربانی کا جذبہ کلمۂ توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت، شرائط وتقاضے کی بجاآوری کی بنا پر رونما ہوا۔ اخوت اسلامی کے اس عالمی منثور سے ہٹ کر دنیا کے مختلف وسائل کو استعمال کر کے بھی اگر اتحاد واتفاق کی کوشش کی جاتی تو ایسے اتحاد واتفاق کا حصول نا ممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ*وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللّٰہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم)(سورۃ الانفال:۶۲-۶۳)

’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مسلمانوں کے ذریعہ آپ کی تائید کی اور ان (صحابہ کرام) کے دلوں میں الفت ڈال دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ خرچ کر ڈالتے جو اس زمین میں موجود ہے تو بھی آپ ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے تھے یہ اللہ ہی ہے جس نے ان میں الفت ڈال دی کیوں کہ وہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔
امتِ اسلامیہ آج تفرق وتشتت، اختلاف وانتشارکے بدترین دور سے گزر رہی ہے، ان کے درمیان اتحاد واتفاق اور بھائی چارگی پیدا کرنے کی محنت ومشقت بھی کی جارہی ہے لیکن ایسی کوششیں رائیگاں اور ایسی آوازیں صدا بصحرا ثابت ہورہی ہیں، کیوں؟ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عہد نبوی میں جو اتحاد واتفاق اور اخوت وبھائی چارگی اور الفت ومحبت کا رشتہ قائم ہوا تھا تو کلمۂ توحید کی بنیاد پر تھا اور آج دلوں کے جوڑنے کے لیے جو کوششیں ہورہی ہیں اس میں کلمۂ توحید، معنی ومفہوم شرائط وتقاضے کو پسِ پشت ڈال کر رطب ویابس ہر طرح کو جمع کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس کی وجہ سے اس قسم کی سعی پیہم رائیگاں ہورہی ہے کیوں کہ فرمان الٰہی کی رو سے کلمۂ توحید کی بنیاد سے ہٹ کر جس بنا پر بھی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی وہ بار آور ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں امتِ اسلامیہ کے صحیح نکتہ الفت ومحبت اور اتحاد واتفاق کی صحیح بنا کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000