ملک کے حالات، ووٹنگ اور ہماری ذمہ داری

کاشف شکیل

خطاب: حافظ عبد الحسیب عمری مدنی
تلخیص: کاشف شکیل

(مئی 2018 میں کرناٹک کے اسمبلی انتخابات فرقہ پرست طاقتوں کے طویل سیاسی منصوبے میں انتہائی اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس مناسبت سے شہر گلستان بنگلور میں کیا گیا ایک وقیع خطاب…)

حضرات!
ہندوستان ہمارا ملک ہے اور ہم اس ملک کے باشندے، ہمارا مستقبل اس ملک سے جدا کوئی الگ مستقبل نہیں ہے اور نہ ہمارے بغیر یہ ملک کبھی ایک اچھا ملک بننے والا ہے۔
انگریزوں سے پہلے اس ملک میں مسلمان حکومت کیا کرتے تھے، انگریزوں نے یہاں آ کر اپنی مکاری سے اس ملک کو غلام بنایا، اس غلامی کے خلاف حریت پسند اہل ہند کے تمام طبقے متحد ہو کر اپنی بساط بھر کوشش میں مصروف ہو گئے، اس ملک کو آزاد کرانے کی ہر طبقے نے حتی المقدور کوشش کی اور بالآخر یہ ملک آزاد ہوگیا۔
دیش کی آزادی کے بعد یہاں کی عوام نے اس کے لیے ایک “سیکولر ملک” کی شناخت کو خود اپنی مرضی سے منتخب کیا۔
ہندوستان کا سیکولرزم ایک دین پسند سیکولرزم تھا نہ کہ دین بیزار، یہاں ہر شخص کو کسی بھی مذہب کو اپنانے اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مکمل اختیار تھا،
ماضی قریب تک یہاں حکومتیں نظام اور سسٹم چلانے کے لیے بنتی تھیں نہ کہ لوگوں پر حکومت کرنے کے لیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سیکولرزم گزرتے زمانے کے ساتھ کمزوری کا شکار ہوتا گیا اور پھر وہ دور آیا جب یہاں کے حکمران خود کو عوام کا خادم سمجھنے کے بجائے عوام پر حکومت کرنے والا تصور کرنے لگے۔
جمہوریت میں یہیں سے دراصل خرابی کی ابتدا ہوتی ہے جہاں ہم ملک کو عوام کے ہاتھوں میں رہنے دینے کے بجائے چند افراد کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں کہ اب وہ ہماری قسمتوں کے فیصلے کرنے والے بن جائیں۔
ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت میں اصل قوت ہماری قوت ہے، ایک عام آدمی کی قوت ۔۔۔۔۔ ہم CM ہیں یعنی common man۔۔۔جو اصل cm یعنی chief minister سے زیادہ قوت کے حامل ہیں۔
حضرات!
بعض محققین نے یہ بات لکھی ہے کہ انگریزوں کی تعداد جو اس ملک میں حکومت کرنے آئی صرف بارہ سو تھی، بارہ سو انگریزوں نے اس ملک کے چالیس کروڑ لوگوں کو غلام بنا کر رکھا تھا، ہم نے اللہ کے فضل سے باہم مل کر اس ملک کو آزاد کروایا۔ آج پھر سے وہی صورتحال لوٹ کر آئی ہے، کچھ مٹھی بھر سازشی عناصر اس ملک کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ آج کا مسئلہ اقلیت اور اکثریت کا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ پورے ملک کو غلام بنانے کی ایک نئی سازش ہے۔
ہم نے جس طرح باہم‌ مل کر انگریزوں کی غلامی سے آزادی کی جنگ لڑی تھی آج پھر سے ملک کو مخصوص قسم کی فکر اور نظریات رکھنے والے طبقے کی غلامی سے آزادی کا مسئلہ در پیش ہے، ہمارا معاملہ مسلم و غیر مسلم اور اقلیت و اکثریت کا نہیں ہے۔ یہ اس ملک کی تقدیر اور اس کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم اس ملک کے شہری ہیں اور اس ملک کے حق کے ساتھ اپنے حق کی لڑائی لڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس ملک کے عام شہری کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ملک کی تاریخ میں کبھی بھی کسی بھی مخصوص نظریے کا حامل ایک گروہ ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہوسکتا، آج اصل مسئلہ یہی ہے کہ ایک مخصوص ذہنیت نے اس ملک پر اپنا ایسا رنگ چڑھایا ہے کہ سوا سو کروڑ کی آبادی چند ہزار لوگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنی نظر آتی ہے۔
ہمارا یہ ملک ایک مضبوط فوجی و اقتصادی طاقت کی حیثیت سے دنیا کی نظروں میں بہت اونچا مقام رکھتا ہے لیکن اپنے گھر میں یہاں کی عوام اس قدر کمزور ہو جائے کہ اس سیکولر ملک میں رہنے والی قوم کو چند مخصوص لوگ اپنی مخصوص سوچ کے تحت اپنی غلامی میں لے لیں، اس سے زیادہ مجبوری کی کیفیت کیا ہو سکتی ہے؟؟؟
ہمارے ملک میں بگاڑ کا عالم یہ ہے کہ گئورکشک اگر کسی کی جان لے لیتے ہیں تو ہمارے یہاں بحث اس پر ہوتی ہے کہ وہ جانور قانونی طور پر لے جا رہا تھا یا غیر قانونی طور پر۔۔۔۔۔
کیا ایک انسان کی جان کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟؟
اخلاق کا قتل ہوتا ہے اور پولیس تحقیق یہ کرتی ہے کہ اس کے گھر میں پایا گیا گوشت بکرے کا تھا یا گائے کا؟؟
حضرات گرامی!
اس ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ میڈیا جو کہ جمہوریت کا چوتھا ستون ہے وہ اس وقت یا تو بک چکا ہے یا ڈرا دھمکا کر اس کی آواز کو دبا دیا گیا ہے، اور اگر کوئی لالچ اور خوف کے اس جال سے آزاد ہو کر اپنی زبان کھول لیتا ہے تو گوری لنکیش کی طرح اس کو اپنی جان گنوانی پڑتی ہے۔
نظریات کی یہ آلودگی فوج اور عدلیہ تک پہنچ گئی ہے، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے تین فاضل جج پریس کانفرنس میں عدلیہ کی کارکردگی پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ صدر جمہوریہ ہند جیسا معزز اور باوقار عہدہ بھی اسی نظریے کا نمائندہ بن گیا ہے، اور ہمارے صدر جمہوریہ اپنے خطاب میں تین طلاق پر غلط قسم کے تبصرے کرتے ہیں۔
حضرات!
آزادی کے وقت سیکولرزم کی جن بنیادوں پر ملک کی تعمیر ہوئی تھی ان کو ڈھا دیا گیا ہے، اور ان بنیادوں کو ڈھانے والے وہی لوگ ہیں جن کا ملک کی آزادی میں کبھی کوئی کردار نہیں رہا ہے، کل جنھوں نے گاندھی کو قتل کیا تھا آج وہی گاندھی کے افکار و نظریات کا قتل کر رہے ہیں۔
دوسری طرف اس حقیقت کو بھی جلد ہی ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ روزانہ نئے نئے مسائل میں ہمیں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر ہمیں ان نت نئے مسائل میں زیادہ الجھنے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے مستقبل سے متعلق قومی سطح پر ایسی منظم کوشش کی جائے جو ہماری آئندہ نسلوں کو پوری عزت، آزادی اور حق کے ساتھ جینے کی ضمانت دے سکے، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارا مستقبل اسپین اور برما جیسا ہوگا۔
آج ہم سے ووٹنگ کا حق چھیننے کی بات کی جا رہی ہے، ہمیں اس ملک کا دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، ایسی نازک صورتحال میں ہمیں کیا کرنا ہے اس کا جواب ہمیں قرآن دیتا ہے:

وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (3:120)

تم اگر صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو ان کا مکر تمھیں کچھ نقصان نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا احاطہ کر رکھا ہے۔(3:120)
یعنی ہم اللہ، رسول اور دین سے اپنا رشتہ مضبوط کریں۔
موسی علیہ السلام کی قوم مظلوم و مقہور تھی، قوم نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ آپ جب تک نبی نہیں تھے تب بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب آپ نبی ہیں پھر بھی ہم ستائے جا رہے ہیں؟ اس پر موسی علیہ السلام نے جو جواب دیا اس کو قرآن نے یوں نقل کیا ہے:

قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا ۖ إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (7:128)

موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو، یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وه مالک بنا دے اور اخیر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (7:128)
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنی دینی بنیاد کو مضبوط کریں۔
ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر آنے والے الیکشن بے حد اہمیت کے حامل ہیں، اس وقت لوک سبھا میں مخصوص پارٹی کی اکثریت ہے، صدر ہند زعفرانی نظریات کا ترجمان بنا ہوا ہے، اب اگر کوئی ایسی الٹ پھیر ہوئی جس سے راج سبھا میں بھی انہی فرقہ پرستوں کی اکثریت ہو جائے تو دستور ہند میں ترمیم طے ہے، اور اس ترمیم سے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنا بھی طے ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ووٹ کی اہمیت سمجھیں، ہم اپنے ووٹ کے بل بوتے اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے شخص کو ووٹ دیں جو اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ہماری بات کر سکے۔
یہ بات بھی نہایت اہم اور ضروری ہے کہ ہم اپنے لیڈروں سے محاسبہ کریں کہ ہم نے قوم کے نام پر جو ووٹ دیے تھے اس کے لیے کتنی مرتبہ آپ نے ہمارے حق میں بات کی؟ طلاق ثلاثہ کے موقع پر جو صورتحال دیکھی گئی وہ انتہائی افسوس ناک تھی کہ سوائے ایک مسلم لیڈر کے کسی نے ہماری بات صحیح ڈھنگ سے نہ رکھی۔
ہمیں چاہیے کہ ہم قوم و ملت کی خدمت کی بات کریں، ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کا صحیح استعمال کریں، اور ہمیشہ دعا کرتے رہیں اس لیے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے تدبیر سے پہلے بھی، تدبیر کے ساتھ بھی اور تدبیر کے بعد بھی۔۔۔۔۔

نوٹ: شیخ‌ کا خطاب درج ذیل لنک سے سنا جاسکتا ہے
https://youtu.be/oG2ZSWsGkcI

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
کے ایم جوہر خان

بہترین