مذہبی انٹرٹینمنٹ

مذہبی انٹرٹینمنٹ

ام ہشام

ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جو بطور انٹرٹینمنٹ ملٹی پلیکسز اور مال کا رخ کرتے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ جو مذہبی قسم کا ہے اور اپنے انٹرٹینمنٹ کے لیے جلسے، جلوس، دروس وغیرہ میں گروپ کی شکل بناکر جاتا ہے۔

الحمدللہ ممبئی میں آج کل جلسے اور دینی اجتماعات کی بہار آئی ہوئی ہے جن کے شرکاء میں بکثرت ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کا مقصد اور نیت ان دروس کے لیے ایک انٹرٹینمنٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔
تعلیم یافتہ حضرات دوستوں سے ملاقات کرتے کرتے جلسہ سماپت کردیتے ہیں، کاروباری حضرات چائے اور پان کھاتے کھلاتے۔ اور جو گنے چنے نوجوان دکھائی دیتے ہیں وہ بیچارے مرد مجاہد کی طرح پورے اجتماع کی ذمہ داریاں اپنے اسمارٹ فون پر لیے انگلیوں کی کھٹکھٹاہٹ سے ادا کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ وہیں پردہ نشین بہنیں چپس، نمکین، مونگ پھلیوں اور کولڈرنکس کی بوتلوں پر ننھے منوں کے ساتھ انصاف کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ جو بہنیں ذرا سلیقہ مند ہیں وہ بڑے سلیقے سے منہ پر رومال رکھے شروع پروگرام سے لے کر ختم تک بڑے ہی محتاط انداز میں اپنی اب تک کی زندگی کی ساری روداد اپنی ملاقاتی بہنوں کے گوش گزار کررہی ہوتی ہیں۔
یہ حال ہے ہماری ان دینی مجلسوں کا ہے جنھیں اللہ کا نام لے کر شروع اور ختم کیا جاتا ہے، جہاں اخلاص، ہدایت اور توفیق کی دعائیں مانگی جاتی ہیں، جہاں للہیت اور خدا ترسی کی دعاؤں پر آمین کی صدائیں بلند کی جاتی ہیں۔
ان مجالس کی فضیلت سے کسی کو کیونکر اعتراض ہوسکتا ہے لیکن ایسی مجلسیں لگانے والے ان کے انتظامات سنبھالنے والے، کسی بھی طرح کا تعاون کرنے والے اور سامعین و سامعات بھی ایک بار خلوص دل سے اپنی نیتوں کا جائزہ لیں اور نتیجہ اخذ کریں۔
سب سے پہلے منتظمین اپنا محاسبہ کریں، جن پیشہ ور مقررین کے نام کی پبلسٹی کرکے انھیں درس پر مدعو کیا جارہا ہے کیا وہ “ریا کاری” نہیں ہے؟ کہ آئیے آئیے ایک چیخنے چلاّنے والے مسخرہ کو ہم نے دعوت خطاب دیا ہے، آئیے اور ایک جم غفیر کے ساتھ اس پروگرام کو کامیاب بنائیے۔ ذی علم، متین، باوقار علماء کرام کو ویٹننگ میں ڈال کر، چیخ چیخ کر اسٹیج ہلانے والوں اور تقابل ادیان کے نام پر ناقص علم کے ساتھ بڑی ہی بے ڈھنگی پرفارمنس کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں اور علماء کرام کے امن وامان کو داؤں پر لگانے والوں کو ترجیح دینا، یہ کون سی تبلیغ ہے اور دعوت کے نام پر دین کی کس قسم کی خدمت گذاری ہے؟
اجتماعی جلسوں میں بیچارا پہلا مقرر۔۔۔۔۔یہ وہ خطیب ہوتا ہے جو جلسوں کا اوپنر ہوتا ہے، جس کے متعلق جہلاء منتظمین نے عوام الناس کے درمیان یہ مائنڈ سیٹ بنادیا ہے کہ افتتاحی خطیب ہلکا مولانا ہوتا ہے اس لیے اسے پہلا بیان دیا جاتا ہے تاکہ لوگ سمجھ جائیں کہ مائیک بجنا شروع ہوچکا ہے۔ لوگوں کی بھیڑ جب پوری طرح کرسیوں کو پر کرتی ہے تب اسٹیج پر بڑے مہارتھیوں کو اتارا جاتا ہے۔ تاکہ سوتی ہوئی عوام کو جگایا جاسکے۔
کتنے افسوس کی بات ہے نا کہ اب علماء کرام کی ویلیو اس طور ہوتی ہے کہ جس کا خطاب سب سے آخر میں وہ سب سے بھاری اور مہنگا مولانا ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ یہ ملنا، بیٹھنا، سننا سنانا، ماکولات و مشروبات کا دور، یہ ہدیے اور لفافوں کی خفیہ ڈیمانڈ اور ڈیلنگ۔۔۔۔سارے کے سارے ہم سے مخاطب ہیں کہ اشاعت اسلام کے نام پر یہ تام جھام تو خوب لگایا ہوا ہے لیکن ان سب کی روح کہاں ہے؟ کس کے پاس اس بات کی ضمانت ہے کہ فرشتوں نے اہل مجالس کے لیے مغفرت کی دعائیں مانگی ہوں گی؟ کہاں ہے ہمارا اخلاص، حسن نیت؟ یہاں سارے کے سارے تو بیسٹ آف دا بیسٹ کا چکر کاٹ رہے ہیں۔
اللہ ہمیں اس ایک جیسا بنا جو پورے خلوص کے ساتھ ایسی مجالس میں شامل ہوتا ہے، شروع تا اخیر مواعظ حسنہ سن کر جس پر خوف کی بجائے خشیت الہی طاری ہوتی ہو
(خوف اور خشیت میں فرق ہے) اللہ ہمیں مذہبی انٹرٹینمنٹ سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Abul bayan Rifat

Bahut umda tahreer

Hamidullah

یہ ام ھشام کون ہیں؟ بھت عمدہ لکھی ہیں.

کے ایم جوہر خان

بہترین تحریر

Rasheed salafi

بہت عمدہ تحریر،بہترین تجزیہ۔