عصری جامعات اور فضلاء مدارس

عصری جامعات اور فضلاء مدارس

رفیع احمد مدنی

کافی عرصہ سے ہندوستان اور دوسرے عجمی ممالک میں عربی زبان مذہب اسلام سے جڑی ہوئی تھی۔ یہ صرف اسلام سیکھنے اور سکھانےکے لیے پڑھی پڑھائی جاتی تھی، اسی لیے اس کی تعلیم مذہبی مدارس کی چہار دیواری میں ہی محصور تھی اور علماء کرام ہی تعلیم کا ذریعہ تھے۔
کچھ علماء اپنے آپ کو پڑھنے پڑھانے تک محدود رکھتے۔ تدریس، امامت، خطابت اور دوسرے مذہبی امور کی ادائیگی ان کے ذمہ تھی۔ مسلم حکومتوں کے زمانہ میں حکومتیں اکثر کو وظائف اور جاگیریں عطا کرتی تھیں۔ اس طرح بہت سارے اچھے علماء فکر معاش سے آزاد ہوتے تھے۔ قضا اور دوسرے سرکاری محکموں میں بھی خدمات انجام دیتے تھے۔ آزادی سے پہلے تک ہندوستان میں بھی بعض مسلم ریاستوں میں یہی سلسلہ برقرار تھا۔ حیدرآباد کی اس معاملہ میں خاصی شہرت تھی کہ یہ ریاست بڑی تعداد میں علماء کو وظائف سے نوازتی تھی۔
عثمانی سلطنت کے زمانے میں مکہ مدینہ کے علماء کا گزارا سلطنت کے عطیات پر ہوتا تھا مگر عام طور سے دوسرے عرب صوبوں میں غربت اور پسماندگی کا دور دورہ تھا۔ سلاطین بذات خود عربی جانتے تھے مگر ہر جگہ دفاتر میں ترکی زبان رائج تھی۔ عربی زبان بے چاری نہایت کسمپرسی کا شکار تھی۔ مکہ مدینہ میں بھی موجود ترکی پاشا کی آفس کا سارا کام ترکی ہی میں ہوتا تھا۔
ہندوستان میں 1857 کے بعد اکثر علماء مدارس اور مساجد سے منسلک ہوکر تنخواہوں پر گزارا کرنے پر مجبور تھے، محدود آمدنی سے گزارا عسرت سے ہوتا تھا۔ غالبا یہی زمانہ تھا جب امامت وخطابت کو عار سمجھا جانے لگا اور عربی تعلیم سے دوری مزید بڑھ گئی، انگریزی نظام کے رواج کے بعد عربی پڑھنے والوں پر سرکاری ملازمت کے دروازے بھی دھیرے دھیرے بند ہونے لگے، جس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔
عربی تعلیم کے حصول کے بعد بہت سارے باصلاحیت علماء نے طب کا رخ کیا اور اسی کو ذریعہ معاش بنایا۔ حکیم اجمل جیسے معروف حکیم عربی کے اچھے عالم تھے۔ سید رشید رضا نے ان کی عربیت کا خاص طور سے ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے کہ وہ عربی میں اپنا مافی الضمیر بڑی اچھی طرح ادا کرسکتے تھے۔ ہندوستانی علماء عام طور سے عربی پڑھتے، سمجھتے اور لکھتے تھے مگر بولنے پر قادر نہیں تھے۔ عربی تعلیم کی زبوں حالی بڑھتی ہی رہی۔
عربوں کی مادی دولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی قسمت بھی جاگی، دیکھتے دیکھتے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں اس کے سیکھنے سکھانے کا چلن عام ہوگیا۔ اس کی تعلیم کے لیے عصری جامعات کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی انتظام ہونے لگا، جگہ جگہ اسی مقصد کے لیے مختلف ادارے بھی بنائے گئے۔ یہ ایک نیا میدان تھا، مدارس عربیہ کے ذہین اور نوجوان فضلاء اس سے استفادہ کے لیے سب سے بہتر پوزیشن میں تھے اور انھوں نے اس بہتر موقعہ سے فائدہ بھی اٹھایا۔ اسی مقصد کے لیے ان میں عصری جامعات سے استفادہ کا رجحان بھی پیدا ہوا اور بڑی تعداد نے اس طرف رخ کیا۔ آج بہت سارے فضلاء ان جامعات میں مختلف حیثیتوں سے جڑ چکے ہیں۔ جامعات اور عربی سکھانے والے اداروں میں عربی دین سے زیادہ کسب معاش کے مقصد سے سکھائی جاتی ہے۔ اسی لیے عربی سے انگلش / اور اس کے عکس ٹرانسلیشن کی مشق پر ہی توجہ مرکوز رہتی ہے۔
دنیا بھر میں آج بہت سے غیر مسلم خالص یورپین، مصری اقباط، لبنانی ماروني، يا دوسرے ارتھوڈکس عرب کرسچین (نصاری) یا عراقی اسیرین کے ساتھ ساتھ یہودی بھی عربی پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔ دراز نفسی کا مطلب یہ ہے کہ عربی اب مذہبی سے زیادہ کسب معاش کا ذریعہ بن چکی ہے۔ خلیجی ممالک سے بزنس یا وہاں تجارت یا کام کرنے والوں کے لیے تو یہ ضرورت ہے ہی، دوسری جگہوں میں بھی اس کی معاشی اہمیت بہت واضح ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کیا اس معاشی پہلو نے مذہبی پہلو کو بالکل ثانوی بنادیا ہے یا کم ازکم نظروں سے اوجھل کردیا ہے؟ یا ایسا کچھ نہیں۔ ایک مسلمان کے لیے عربی زبان دانی کا جہاں بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ دین کے اصل ماخذ سے استفادہ کی قدرت حاصل ہوتی ہے، وہیں دین پر سچے معنوں میں عمل، تقوی طہارت اور اللہ کی خشیت میں اضافہ کا سبب بھی ہوتی ہے۔ انما يخشى الله من عباده العلماء
پہلے عام طور سے عربی کے فضلاء سے توقع کی جاتی تھی کہ یہ دین کو زیادہ بہتر سمجھتے ہوں گے، اور اس پر عامل بھی ہوں گے۔ اس لیے اگر کسی عالم یا عربی داں کے یہاں اسلامی شعائر کی ادائیگی میں کوتاہی دیکھی جاتی تھی، یا عقیدہ میں کسی طرح کا فتور ہوتا تھا، تو اس کا ذکر خاص طور سے بطور عبرت کیا جاتا تھا۔ مقصد صرف یہ نہیں ہوتا تھا کہ اس شخص کے اس رویہ کی مذمت کی جائے، بلکہ زور اس پر ہوتا تھا کہ دوسرے متنبہ ہوجائیں اور وہ اس راستہ پر گامزن ہونے سے بچیں۔
آج لگتا ہے معیار بدل چکا ہے، اسی لیے کسی شخص کی سوانح میں اس کے مذہبی رجحانات کا ذکر غیر ضروری اور بے محل سا لگتا ہے۔
اس سے قطع نظر کہ جامعات کے اساتذہ کی دینی حالت اور ان کی فیکلٹیوں کا دینی ماحول کیسا ہے؟ ہمارے فضلاء جو ان میں جاکر ترجمہ، اور خاص طور سے عربی /انگلش اور انگلش/ عربی کی مشق کرتے ہیں۔ وہ بہت اہم دینی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ مرعوبیت کا شکار نہ ہوں تو اپنی دینی تعلیم اور خاص تربیت کی وجہ سے امتیازی مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
قومی پریس (خاص طور سے انگریزی) میں اسلام اور مسلمانوں کی صحیح نمائندگی کا میدان آج بھی یکسر خالی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ فضلاء اس فریضہ کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
اسی طرح سوشل میڈیا کے اس دور میں زیادہ سے زیادہ لوگ انگلش کا استعمال کرتے ہیں، اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ بھی اسی زبان میں زیادہ ہورہا ہے۔ اس لیے بجا طور سے امید کی جاسکتی ہے یہ فضلاء ان شاء اللہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کا دفاع اور تعارف کرانے کے لیے آگے قدم بڑھائیں گے، اور اس فریضہ کو احسن طریقہ سے ادا کرین گے۔
تقابل ادیان کا موضوع غیر معمولی طور سے اہم ہے، اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے انگریزی زبان کا علم ضروری ہے۔ اس سے پہلے جن علماء نے اس میں شہرت حاصل کی، ان میں اکثر کا انحصار ثانوی مراجع اور اردو ترجموں پر تھا۔ بہت کم مناظرین ایسے تھے جو خود انگریزی سے آشنا تھے اور ان کی رسائی اصل ماخذ تک تھی۔ رحمت اللہ کیرانوی صاحب نے پادری فنڈر سے مناظرہ کیا اور شکست دی، ان کی کتاب اظہار حق کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ مولانا کی خوش نصیبی تھی کہ انھیں ڈاکٹر وزیر صاحب کا بھر پور تعاون حاصل تھا۔ڈاکٹر صاحب انگریزی کے ماہر تو تھے ہی انھیں مسیحی لٹریچر سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ مولانا نے ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اس موضوع کا حق ادا کرنا انگریزی زبان کی مہارت بغیر ممکن نہیں، اسی لیے جو انگریزی خوان اس میدان میں داخل ہوئے کامیاب رہے۔ مرحوم احمد دیدات، ڈاکٹر ذاکر نائیک اور حیدرآباد کے عمران صاحب اس کی زندہ مثال ہیں۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے، غیر مسلم عوام اور دانشوروں کے اسلام پر بیشتر اعتراضات تقابل ادیان کے ہی زمرہ میں آتے ہیں۔ نصاری کے درمیان اسلامی دعوت کو کامیابی سے پیش کرنے والوں کے لیے بھی تقابل ادیان کا علم ضروری ہے۔ میری ناقص راۓ کے مطابق شدید ضرورت ہے کہ کچھ علماء دین اس میدان کا بھی رخ کریں۔ عصری جامعات سے استفادہ کرنے والے نوجوان فضلاء اس ذمہ داری کو نبھا سکتے ہیں۔ ان کے میدان میں آنے کا جہاں ایک فائدہ “دفاع اسلام” ہوگا، وہیں دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ان فکری غلطیوں سے اجتناب کر سکیں گے جن میں مرحوم احمد دیدات اور دوسرے حضرات مبتلا ہیں۔
آج انگلش میں سلفی لٹریچر، لکچرس وغیرہ زیادہ تر انگلینڈ، کینیڈا اور امریکہ سے آتا ہے۔ خود سلفی نقطئہ نظر میں اختلاف کی وجہ سے بھانت بھانت کی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہمارے فضلاء اگر اس میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے، تو بہت بڑی خدمت ہوگی۔
اسی طرح سلفی فکر پر مبنی عربی کے معتبر لٹریچر کو انگلش میں منتقل کر سکیں، تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔
یہ بھی ایک المیہ ہے نت نئے شبہات عوام کے درمیان، انگریزی زبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان پر بھی نظر رکھی جائے۔ ان پر بر وقت رد کے ساتھ ساتھ، یہ بھی مفید ہوگا کہ خود ان شبہات کو معتبر علماء تک پہنچایا جائے تاکہ ان کے علمی جوابات سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ اگر ہمارے نوجوان فضلاء تھوڑی سی توجہ دیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ایک قابل قدر خدمت ہوگی۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ام ھشام

عمدہ فکر

Shams Wadood

میں ابھی سے مصنف کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ… It’s very simple and benificial that if this portal provide translation in other languages… I would like to suggess that incourage all those peoples they can write in articles in different languages and patch them in this web site.