تندرستی کا حصول ایک چیلنج

تندرستی کا حصول ایک چیلنج

یاسر اسعد

مصروفیت اور گہما گہمی کی زندگی میں اپنی صحت کا خیال رکھنا اور ایک متوازن ومتناسب تندرستی کا حصول ایک چیلنج بن گیا ہے۔ حالانکہ صحت کی نعمت اللہ رب العزت کے تمام انعامات میں سرفہرست ہے، کیوں کہ دیگر نعمتوں کا حصول اس نعمت کے وجود پر موقوف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مناسب غذائی نظام پر توجہ نہ دینے اور یومیہ متوازن حرکت وعمل نہ ہونے کے سبب اکثر لوگ مثالی صحت سے محروم بلکہ زیادتئ وزن کا شکار ہو چکے ہیں جو بتدریج موٹاپے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف لوگوں کے لیے انواع واقسام کے کھانے کی بہتات ہے اور اس کے سبب ان کی صحت متاثر ہورہی ہے وہیں دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بے تحاشہ بھاگتے وزن کو کنٹرول کرنے کے لیے لوگ مختلف مصروفیات اور ورزشوں کا سہارا لیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کا خاطر خواہ فائدہ دیکھنے کو نہیں ملتا، حتی کہ ان جسمانی ورزشوں پر مداومت کے بعد بھی عمر کے ایک حصے میں انھیں وہ تمام عوارض پیش آتے ہیں جن سے صحت کے حوالے سے غافل لوگ بھی جوجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہے متوزان غذائی نظام کا نہ ہونا۔

قواعد، نظام اور ڈسپلن زندگی کے تمام شعبوں میں ضروری ہیں۔ نظام صحت میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہماری تندرستی میں زیادہ حصہ غذائی نظام کا ہے نہ کہ ورزش کا۔ ماہرین کے مطابق ایک بہترین صحت کے حصول میں ڈائٹ پلاننگ ستر فیصد سے زائد اہمیت رکھتی ہے، جبکہ ورزش ودیگر مصروفیات کا عمل دخل محض بیس سے تیس فیصد ہے۔ گویا اگر کوئی شخص اول الذکر پر عمل پیرا ہوتا ہے اور ورزش کا زیادہ اہتمام نہیں کرتا تو اس کی صحت اس شخص سے بہت بہتر ہوگی جو بے تحاشہ ورزش تو کرتا ہے مگر کھانے کے معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیتا۔
علمائے صحت نے جسم کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے غذائی عناصر کا ایک مثلث تیار کیا ہے جسے غذائی اہرام (Food Pyramid) کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں پانچ اہم غذائی مجموعوں کی تحدید کی گئی ہے۔ یہ مجموعے گوشت، دودھ، پھل فروٹس، سبزیوں اور اناج پر مشتمل ہیں۔ علاوہ ازیں تقریباً (50) غذائی عناصر کو چھ مجموعوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کے مقدار کی تحدید بھی کی گئی ہے۔
ان عناصر میں پہلا نمبر پروٹین (لحمیات) کا ہے، یہ جسم کے خلیوں کی بڑھوتری، توڑ پھوڑ اور ڈی این اے بنانے میں معاون ہوتا ہے۔ پروٹین کی جسمانی نشو ونما میں اس قدر اہمیت ہے کہ اس کی کمی کے باعث بچوں کے قد اور وزن میں کمی آجاتی ہے۔ یہ پروٹین امینو ایسڈ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ زندگی کے لیے ہر انسان کو20؍ امینو ایسڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر گرام ایسڈ میں چار کیلریز ہوتی ہیں۔ سو گرام چکن میں تقریبا 30؍ پروٹین پائے جاتے ہیں، گویا ۱۲۰؍ کیلریز ہوتی ہیں۔
انسانی صحت اور جسمانی خد وخال کا دار ومدار عموماً کیلریز پر ہی منحصر ہے۔ یومیہ ایک انسانی جسم 1500سے 2000؍ کیلریز استعمال کرتا ہے۔ اگر یومیہ غذا سے حاصل ہونے والے کیلوریز کی تعداد اس سے زیادہ ہوتی ہے تو یہ چکنائی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور ان چربیوں کا تجمع جسم کے درمیانی حصے پر ہونے لگتا ہے جو توند نکلنے کا سبب بنتا ہے۔
دوسرا اہم غذائی عنصر کاربوہائڈریٹ ہے جو میوہ جات اور آلو میں پایا جاتا ہے۔ یہ غذائی مواد ہضم ہونے کے بعد خون میں گلوکوز یا شکر کی شکل میں تحویل ہوجاتے ہیں۔ اس کا واحد گرام ۴؍کیلریز پر مشتمل ہوتا ہے۔ امراض قلب سے دفاع میں اس کا اہم رول ہوتا ہے۔
تیسرا عنصر Lipids یعنی چربی کا ہے۔ یہاں قوت کا تجمع ہوتا ہے۔ عموماً یہ مکھن، بھیڑ کے گوشت اور غذائی کریم میں موجود ہوتا ہے۔ ایک گرام Lipids کے اندر 9؍کیلریز ہوتی ہیں۔
وٹامین اس نوعیت کا چوتھا غذائی عنصر ہے جو سبزیوں اور تازہ پھلوں میں موجود ہوتا ہے۔ جسم کو اس کی زیادہ مقدار کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ امراض سے دفاع اور جسم کی نشو ونما میں بہت معاون ہے۔
نمک اور معدنی عناصر کی بھی جسم کو ضرورت ہوتی ہے، البتہ ان کی زیادتی خطرناک ہوسکتی ہے۔
چھٹا اور سب سے اہم عنصر پانی کا ہے جو جسم کے داخلی درجہ حرارت کے ثبات کے لیے انتہائی اہم ہے، اسی طرح کھانے کے ہاضمے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ یومیہ ہر شخص کے لیے چھ سے آٹھ گلاس پانی پینا ضروری ہے۔ ہمارے یہاں گلاس مختلف ساخت کے آنے لگے ہیں اس لیے مطلوب پانی کی کمیت کی تحدید تقریباً 2؍لیٹر پانی سے کی گئی ہے۔ یہ واحد عنصر ہے جس کے اندر کوئی کیلری نہیں موجود ہے، اسی طرح پانی کی کثرت جسم کے لیے بالکل نقصان دہ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں عموماً یہ بات مشہور ہے کہ کھانے کے درمیان، یا کھانے کے فوراً بعد پانی پینا صحت کے لیے مضر ہے، حالانکہ جدید طبی تحقیقات کے رو سے اس میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ یہ عمل ہاضمے کے لیے حد درجہ مفید بھی ہے۔
وزن کی کمی کے خواہاں حضرات کو ان عناصر میں موجود کیلریز پر دھیان دینا چاہیے اور اسی لحاظ سے ڈائٹ پلان کرنا چاہیے۔ اگر انسان یومیہ پندرہ سو سے کم کیلریز استعمال کرتا ہے، جو کہ جسمانی ضرورت سے کم ہے، تو جسم بقیہ کیلریز چربی کے تجمع سے حاصل کرتا ہے۔ گویا اگر انسان کے کھانے میں کیلریز کم ہوں اور وہ ورزش کا اہتمام نہ بھی کرے تو اس کا وزن بتدریج کم ہوتا رہتا ہے۔
اس بات کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے کہ غذائی قاعدے میں کسی طرح کی تبدیلی یا مخصوص ورزش اختیار کرنے سے قبل اپنا BMI چیک کرلیا جائے۔ یہ ایسا عمل ہے جس میں وزن کو لمبائی کے مربع پر تقسیم کرکے سو سے ضرب دیا جاتا ہے۔ مربع ایک ریاضیاتی اصطلاح ہے جس میں عدد کو اسی عدد میں ضرب دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص کا قد 1.60؍میٹر ہے اور اس کا وزن 70؍کلو ہے تو اس کا بی ایم آئی 27٫34 برآمد ہوگا، جو کہ وزن کی زیادتی پر دال ہے۔ 18.5-24.9 کا اندراج فطری وزن میں ہوتا ہے، جبکہ ۲۵۔ ۹،۲۹ وزن میں زیادتی پر دلالت کرتا ہے۔ 30-34.9 میں آدمی خفیف فربہ مانا جاتا ہے، جبکہ 35-39.4 کو فربہی کا متوسط معیار شمار کیا جاتا ہے۔ جن کا بی ایم آئی40سے زائد ہو وہ موٹاپے میں افراط کے شکار مانے جاتے ہیں جو کہ سراسر خطرناک ہے۔ اس عمل سے اپنے جسمانی معیار کی تحدید کے بعد ہی غذائی نظام یا ورزش اختیار کرناچاہیے۔
گوشت خور گھرانوں میں عموماً دیکھا جاتا ہے کہ سبزی بہت ہی کم مقدار میں تناول کی جاتی ہے، حالانکہ گوشت خوری میں افراط بھی کئی امراض کا سبب بن سکتا ہے۔
افراط وتفریط سے پاک غذائی نظام ایک طرف ہمیں جسمانی طور سے متناسب اور خود اعتماد بناتا ہے وہیں امراض سے بچاؤ میں بھی معاون ہوتا ہے۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ام ھشام

منفرد موضوع
بے شک مفید مضمون ہے لیکن کچھ باتیں پیچیدہ ہوگئ ہیں جنہیں عام قاری سمجھنہیں سکتا
غذائی عناصر کو اور بھی آسان زبان میں ڈیفائن کیا جاسکتا تھا
کاربوہائڈریٹ کی بات جہاں کی گئ وہیں پر کامپلیکس اور سمپل پر مزید روشنی ڈالنا قارئین کو اور بھی فائدہ دے سکتا تھا ۔
B.m.r اور b.m.i ریٹس نکالنے کا طریقہ اور بھی آسانی سے بتایا جاسکتا تھا
بارک اللہ ایسے مضامین کی
ضرورت ہے

Kashif Shakeel

ہمارے یہاں عموماً یہ بات مشہور ہے کہ کھانے کے درمیان، یا کھانے کے فوراً بعد پانی پینا صحت کے لیے مضر ہے، حالانکہ جدید طبی تحقیقات کے رو سے اس میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ یہ عمل ہاضمے کے لیے حد درجہ مفید بھی ہے۔
جانی! ذرا مذکورہ بالا دعوے کی دلیل پیش کردو

کے ایم جوہر خان

بہترین مضمون