جسٹس سین کا متنازعہ فیصلہ اور ہندوستان کا مستقبل

جسٹس سین کا متنازعہ فیصلہ اور ہندوستان کا مستقبل

سہیل انجم

میگھالیہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سدیپ رنجن سین نے یہ کہہ کر کہ ہندوستان کو تقسیم ملک کے وقت ہی ہندو راشٹر اعلان کر دیا جانا چاہیے تھا، نہ صرف یہ کہ ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے بلکہ فسطائی قوتوں کے ہاتوں کو اور مضبوط کر دیا ہے۔ انھوں نے میگھالیہ کے ایک شہری کو ڈومیسائل سرٹی فکٹ یعنی مستقل رہائش کے سرٹیفکٹ سے متعلق ایک مقدمہ میں فیصلہ سناتے ہوئے کئی متنازعہ باتیں کہیں ہے۔ ان کے منصب اور عدلیہ کے وقار و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے فیصلے میں دو باتیں ایسی کہی ہیں جو انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر گھوشت کر دینا چاہیے اور دوسری بات جو اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض ہے یہ ہے کہ ’’میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی کو بھی ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ورنہ وہ دن ہندوستان اور دنیا کے لیے قیامت کا دن ہوگا‘‘۔ پہلے اسی بات پر گفتگو کر لی جائے۔ ان کو آخر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ کسی کو بھی ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ کیا کوئی بھی شخص ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے اپنی اس بات کی دلیل میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
ہندوستان کا ایک بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جو یہ کہے کہ وہ اس ملک کو اسلامی ملک بنانا چاہتا ہے۔ عام طبقات کو تو چھوڑیے علما کے طبقے نے بھی کبھی ایسی بات نہیں کہی۔ نہ ہی کسی نے اس کی کبھی کوئی کوشش کی۔ بلکہ علما کی اکثریت نے تو ہندوستان کو دار الامن قرار دیا ہے، دار الحرب نہیں۔ اور دارالامن میں جنگ نہیں ہوتی۔ کیا جسٹس سین یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہاں کے مسلمان آئین و قانون کے پابند نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان آئین و قانون کے دوسروں سے زیادہ پابند ہیں۔ اسلام میں وطن سے محبت کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے۔ یہاں کے مسلمان اس ملک کو اپنا ملک مانتے ہیں اور سیکولر ملک مانتے ہیں۔ کیا جسٹس سین یہ بتا سکتے ہیں کہ دشمن طاقتوں کے لیے جاسوسی کرنے والوں کی اکثریت میں کوئی مسلمان بھی ہے۔ یہاں کی بڑی شخصیات کے بہیمانہ قتل میں کیا کسی مسلمان نے بھی حصہ لیا ہے۔ کیا مسلمانوں کی کوئی ایسی جماعت یا تنظیم ہے جو ہندوستان کو اسلامی مملکت بنانے کے لیے کوشاں ہو۔
کیا جسٹس سین یہ بتائیں گے کہ یہاں کے مسلمانوں نے ہندوستان کے علاوہ کسی اور ملک سے اپنی وفاداری باندھ رکھی ہے۔ آخر ان کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑی کہ ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کے اس تبصرے سے ہندوتو برگیڈ کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ فیصلے کے اگلے روز انھوں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیکولرزم کے خلاف نہیں ہیں اور ان کی باتیں تاریخ کے حوالے کے ساتھ ہیں۔ ان کی یہ وضاحت عذر گناہ بد تر از گناہ کے مثل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخ کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ لیکن کیا یہی باتیں وہ ان لوگوں سے کہیں گے جو ناموں کی تبدیلی اور نئے سرے سے تاریخ لکھ کر مخصوص حکمرانوں سے وابستہ تاریخ کو مٹانا اور بدلنا چاہتے ہیں۔ جسٹس سین ایک فاضل جج ہیں اور آئین و قانون کو ایک جج ایک عام آدمی کے مقابلے میں زیادہ سمجھتا ہے۔ لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا دینا چاہیے تھا تو کیا ان کی یہ بات کسی نہ کسی شکل میں آئین اور سیکولرزم کے منافی نہیں معلوم ہوتی۔ اگر کچھ اسی قسم کی باتیں کوئی مسلمان کرتا تو اب تک پورے ملک میں طوفان آگیا ہوتا۔
حالانکہ انھوں نے اپنی وضاحت میں کہا ہے کہ ان کا فیصلہ کسی سیاسی پارٹی کے نظریات سے متاثر نہیں ہے اور انھیں اس کی خواہش نہیں ہے کہ سبکدوش ہونے کے بعد ان کو کوئی سرکاری عہدہ چاہیے۔ اس وضاحت کے باوجود شکوک و شبہات کے سائے تو لہرا ہی رہے ہیں اور ذہنوں میں یہ سوال تو پیدا ہی ہو رہا ہے کہ آخر انھوں نے وہی باتیں کیوں کہیں جو ایک مخصوص نظریے کے حامل افراد اور جماعتیں کہتی رہتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب، ذات برادری، نسل اور زبان کی بنیاد پر اب مزید کوئی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کون ہے جو ان بنیادوں پر ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے ایسے لوگوں کی نشاندہی نہیں کی۔
جہاں تک 1947 میں تقسیم ملک کی بات ہے تو ایسے بہت سے غیر مسلم رہنما تھے جنھوں نے تقسیم کی حمایت کی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا۔ لیکن یہ تقسیم غلط تھی۔ اگر وہ مذہب کی بنیاد پر نہیں کسی اور بنیاد پر بنتا تب بھی غلط ہوتا۔ ہندوستان کو تو بٹنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس تقسیم نے برادران وطن سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو زخموں کے تحفے دیے ہیں۔ آج تک ان کو تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت تقسیم کے حق میں نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کثیر تعداد میں مسلمان پاکستان نہیں گئے۔ انھوں نے ہندوستان کو ہی اپنا ملک سمجھا اور اب بھی سمجھ رہے ہیں۔
ملک کے موجودہ حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے فیصلے پر شبہات کے بادل گھرے ہوئے ہیں۔ این سی پی کے رکن پارلیمنٹ اور ملک کے معروف قانون داں ماجدمیمن کا تو یہاں تک مطالبہ ہے کہ ان کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا جانا چاہیے۔ سی پی ایم کا کہنا ہے کہ جسٹس سین نے ہندو راشٹر کے آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق اپنے سیاسی عقیدے کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعض دوسرے سیاست دانوں نے بھی ان کے خیالات کی مذمت کی ہے۔
انھوں نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے غیر مسلموں کو یہاں شہریت دینے کا جو مطالبہ کیا ہے اس پر ہمیں کچھ نہیں کہنا ہے۔ وہ حکومت کا معاملہ ہے۔ حکومت جو مناسب سمجھے کرے۔ لیکن ان کو انسانی بنیادوں پر یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ میانمار کے متاثرین کو بھی یہاں پناہ ملنی چاہیے۔ انھوں نے ان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتوں پر شبہ کیا جا رہا ہے اور یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انھوں نے جج کی کرسی پر بیٹھ کر ایک مخصوص نظریے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
آزادی کے وقت ہمارے سیاست دانوں اور آئین کے معماروں نے ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا جس کی وجہ سے آج پوری دنیا میں یہ ملک سربلند ہے۔ اگر اسے ہندو راشٹر قرار دے دیا گیا ہوتا تو کیا گارنٹی ہے کہ آج یہاں بھی وہی سب کچھ نہیں ہوتا جو آج پاکستان میں ہو رہا ہے۔ پاکستان مذہب کے نام پر قائم ہوا تھا لیکن وہاں مذہب کے نام پر کیا کیا قیامتیں برپا کی جا رہی ہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئین ہند ترتیب دینے والے احمق نہیں تھے۔ وہ دور اندیش تھے اور مستقبل کے آئینے میں انھوں نے ہندوستان کو دیکھ لیا تھا۔ اگر انھوں نے اسے ہندو راشٹر بنایا ہوتا تو یہاں اقلیتوں پر کیا کیا قیامتیں گزرگئی ہوتیں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے مستقبل کی بقا کسی مذہبی راشٹر میں نہیں بلکہ سیکولرزم میں پنہاں ہے اور یہ بات سب کو سمجھ لینی چاہیے۔

آپ کے تبصرے

3000