زندگانی لہو آشام ہوئی جاتی ہے

کاشف شکیل شعروسخن

زندگانی لہو آشام ہوئی جاتی ہے

موت تو ایسے ہی بدنام ہوئی جاتی ہے


صبح افکار پریشاں کی کشاکش ٹھہری

درد میں ڈوبی ہوئی شام ہوئی جاتی ہے


وصل بھی بن نہ سکا باعث تسکیں آخر

زندگی آپ میں کہرام ہوئی جاتی ہے


خواب محشر ہے مرے پارہ جگر گوشوں کا

نیند میرے لیے انعام ہوئی جاتی ہے


آتش عشق میں افراط کی حالت مت پوچھ

جیسے دنیا مری کہرام ہوئی جاتی ہے


جس کو سمجھا تھا کبھی میں نے وفا کی مورت

بے وفا وہ بھی سر انجام ہوئی جاتی ہے


اضطراب دل نادان جُنوں میں مت پوچھ

وحشت اب لرزہ بر اندام ہوئی جاتی ہے


خود فراموشی کا عالَم ہے یہ کیسا کاشف

جستجوئے دل نا کام ہوئی جاتی ہے

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
Parwez Sadaf

بہت خوب کاشف یہ غزل میری زبان پر رہتی ہے

عطاء الله سلفی

بہت خوب، زبردست کاشف بھائی

Adeeb📚✒ ادیب اللہ ادیب

Masha allah awesome bro

فیض حمیدی

کیا کہنے ہیں کاشف بھائی بہت عمدہ کمال است کمال است

فیضان انجم

ماشاءاللہ بہت زببببردست