جامعہ سلفیہ میں گزرے چند یادگار لمحے

ہلال ہدایت

بموقع 29/28 نومبر 2018ء دو روزہ اجتماع ابنائے قدیم
لمحہ کوئی بھی ہو یادگار ہی ہوتا ہے بس انسان ہی کچھ خاص مواقع کو یادگار لمحہ کے طور پر مانتا ہے۔ پہلے ہر شخص اپنی زندگی کے کچھ خاص لمحے؛ پیدائش، شادی، وفات، کسی خاص شخصیت سے ملاقات یا سفر نامے کو ڈائری اور کتابوں کے حاشیہ میں بطور یادگار قلمبند کردیا کرتا تھا۔ اب وقت ہے ان لمحات کو کیمرے کی نظر میں قید کرنے کا، لوگ ہر چیز کو اپنے موبائل فون میں مقید کرنا چاہتے ہیں اور کررہے ہیں، بچے کی پیدائش کو فیس بک پر شیئر کرکے ہر برس سالگرہ مناتے ہیں اور اسفار و ملاقات کو بھی سوشل میڈیا کی زینت بناتے ہیں۔ کیمرے کی نظر اتنی تیز ہوتی ہے کہ سیاق وسباق سمیت تمام چیزوں کو ایسے اتار لیتی ہے کہ جوں ہی نظر پڑے وہ لمحہ اور وہ پل فوراً جوں کا توں آشکارا ہوجاتا ہے۔

ویسے تو موبائل میں بہت سے یادگاری لمحے محفوظ ہیں اور کچھ تو گوگل انکل کے کھاتہ میں جمع ہیں کہ جب جی چاہے بغیر کسی مشکل کے اوپن کرو اور آنکھ سینکو۔ فیس بک کی دنیا بھی ہر لمحہ کو ایسے ہی محفوظ رکھتا ہے جیسے گردوغبار سے اٹی ڈائری، بس جب ایک سال مکمل ہوتا ہے بطور میموری سامنے پیش کردیتا ہے جسے اس کا کمال ہی کہا جائے گا کہ ہمارے گزرے ہوئے لمحوں کو یاد دلاتا رہتا ہے۔ ڈائری یا فوٹو البم تواسی وقت یاد تازہ کرتے ہیں جب غبارکو جھاڑ پھونک کرصاف کیا جائے اور پھر اوراق کو پلٹاجائے۔ کبھی کبھی مجھے اس بات کاصدمہ کھائے جاتا ہے کہ البم میں رکھی ہوئی ہمارے بچپن کی تصاویر پر داغ دھبوں نے قبضہ جمالیا اور کچھ وقت کی نذر ہوگئیں۔ ہاں! اب یہ وقت ہے کہ تصاویر کو پی سی، لیپ ٹاپ اور موبائل میں محفوظ رکھاجائے۔ اس پر جدید ٹیکنالوجی کا جتنا شکریہ ادا کیاجائے کم ہے۔
گزشتہ 29/28؍نومبر 2018 کو ابنائے جامعہ سلفیہ بنارس کا دو روزہ پروگرام منعقد ہوا جس میں ملک و بیرون ملک کے فارغین جامعہ نے شرکت کی۔ یہ لمحہ بھی کافی یادگار اور حسین تھا جس میں سبھی ابناء بلاتکلف ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور باہم تعارف کراتے رہے، اِدھر جبہ قبہ، اُدھر اونچی کلاہ، کوئی کسی مدرسے کا ناظم و مہتمم، کوئی پروفیسر، محدث، مصنف، کوئی مفتی، مفکر، کوئی صحافی، کوئی تاجر؛لیکن ماں کی گود میں سب ایک ساتھ فرحت وانبساط سے بیٹھے ہیں۔ ناظم اعلی مولانا عبداللہ سعود سلفی حفظہ اللہ نے یہ پروگرام منعقد کرکے جامعہ کی زبوں حالی اور اس کے تعاون پر ابناء کو غور وفکر کی دعوت دی۔ جامعہ کا انتظام وانصرام الحمدللہ اپنے آپ میں مثالی اور تاریخی رہا ہے جس کی جھلک صاف دیکھنے کو مل رہی تھی۔ مختلف اوقات میں مختلف ڈش اور لذیذ پکوان کا ایسا شاندار نمونہ کہ کوئی بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، ناشتہ میں الگ، ظہرانے میں الگ، عشائیہ میں الگ پکوان سے مہمانوں کا استقبال کیاجاتارہا۔ زیر تعلیم ابناء فنجان و طہور لیے ریحان کی طرح یہ جا وہ جا پھدک رہے ہیں، سفید ملبوسات اور گلے میں نیلا پیلا قلادہ کافی جاذب نظر لگ رہا تھا، حسن انتظام کا قابل تقلید نمونہ دیکھنے کو ملا جو جامعہ کی اپنی روایت رہی ہے۔
ابناء کے پروگرام میں شرکت غیر متوقع تھی لیکن راشد بھائی اور مولانا خلیل نسیم صدیقی سلفی صاحب کے اصرار پر گھر کا ٹکٹ واپس کرکے جامعہ جانے کا پروگرام طے ہوا۔ سفر میں مولانا خلیل نسیم صاحب تھے علاوہ ازیں اسی ٹرین میں کئی اور بزرگ واجلہ ابناء بھی تھے، مولانا بہت ہی ملنسار اور جماعت کے بہی خواہ ہیں، اپنائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ سفربآسانی تمام ہوا اور غلس میں ہلکے سرد موسم میں بنارس ریلوے اسٹیشن پر پہنچے۔ صدیق سلفی بھائی، عبدالرحمن بھائی(جامعۃ الرشاد) اور شفاء اللہ بھائی باہر نکل کر ہمارا انتظار کررہے تھے، ریسیو کرنے کے لیے اسٹیشن پر جامعہ کی طرف سے دوگاڑیاں پہلے ہی کھڑی تھیں۔ جامعہ کے دیدار کی امنگیں دل میں موجزن تھیں جو گاہے بگاہے لب تک آجاتی، خوابیدہ شہر میں ہم تیز رفتاری سے کینٹ، سگرا، رتھ یاترا، لکشا گرودوارہ، شاہراہ سلفیہ سے گزر کرجامعہ کے صدر دروازے پرقدم رنجہ ہوئے۔ چار سال قبل بنارس کو جس حال میں چھوڑا تھا بالکل ویسا ہی رہا نہ تو کیوٹو میں تبدیلی اور نہ ہی کچھ آثار دکھائی دیے۔ جہاں تہاں سانڈھوں کا جھنڈ، خستہ حال سڑکیں ہاں ایک کام ہوا کہ سڑک کے درمیان میں جدید طرز کی لائٹ اور قمقمے سجادیے گئے ہیں۔ جامعہ میں پہنچتے ہی استقبالیہ میں رسمی امور کی انجام دہی کے بعد مسجد کے تہہ خانے میں جگہ دی گئی جو کہ اپنے اعتبار سے کافی سیف اور عمدہ جگہ ہے، مقابل میں حوائج ضروریہ کے مقامات ہیں۔ موقع کو غنیمت جان کر قبل از فجر غسل کرلیا لیکن سردی کھانسی زکام اور بے وقت چھینک نے نیم بیمار کردیا۔ اکبر بھائی نے توقسم کھالی کہ آج نہالیا اب ممبئی پہنچ کر ہی غسل کروں گا۔
نمازِ فجر کے بعد پورے مسجد میں ابناء کا ہجوم کیاتھا؛ ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے اساتذہ سے معانقہ و مصافحہ کررہا ہے، پرانے دوستوں اور ساتھیوں سے چمٹ کر برسوں کی یاد تازہ کررہا ہے، کسی کی آنکھ میں خوشی کے آنسو ہیں تو کوئی خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہا ہے۔ اساتذہ بھی اپنے بچوں کو دیکھ کر ایسے ہی خوش ہیں جیسے پردیس سے گھر واپسی پر والدین خوش ہوتے ہیں، محترم شیخ محمد مستقیم سلفی صاحب اپنی دہری چادر میں لپٹے بڑھ بڑھ کر سلام کررہے ہیں مانو ان میں نئی تازگی آگئی ہو۔ اساتذہ کا حال دیدنی ہے، شیخ اسعد اعظمی صاحب سے ملاقات ہوتی ہے، شیخ محمد اسلم مبارکپوری صاحب بھی وہی ہیں وہ دھاری دار کالی سفید صدری اور ٹوپی میں کافی ہشاش بشاش دکھ رہے ہیں۔ اپنے سینئر وجونیئر ساتھیوں سے ملا، عبدالکریم بھائی نیپالی ثم مدنی نے پیچھے سے آکر بھینچ لیا اور پھر گلے لگالیا جذبات سے آنکھیں ڈبڈبارہی ہیں اور چہرے پر رعنائیاں ہیں۔ ڈاکٹرعبدالغنی القوفی صاحب قدرے درازقد، سر پرخاص انداز کی گول ٹوپی اساتذہ کے درمیان گفتگو کرتے دور نظرآرہے ہیں، علیک سلیک کرتے صفوں کو چیرتے آگے بڑھا، دیکھتے ہی لبوں پر تبسم کی ہلکی سی لکیر پھیل جاتی ہے، گلے مل کرحال واحوال دریافت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، فیس بک پر کئی مہینوں اور سال سے ان کے افکاروخیالات کو پڑھتا رہا ہوں، جو اپنے آپ میں علم کا دریا ہیں، منکسرالمزاج اورخوش طبع ہیں، ٹوٹی پھوٹی زبان میں کچھ کہنا ان کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے۔
صبح بنارس اور سورج کی کرنیں جامعہ کے مناروں کو بوسہ دے رہی تھیں، صحن میں مہمانوں کے لیے کرسیاں سجائی ہوئی تھیں، جامعہ کے درودیوار کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے، گلیاروں میں جہاں برسوں چپل چٹکارے ہیں گزرتے ہوئے سیڑھیوں پر طفلانہ و طالبانہ احساس کے ساتھ اچھل اچھل کر چڑھ رہا تھا، وہی دور وہی سماں ذہن میں تھا احساس نہیں ہورہا تھا کہ اب اس چمن سے دور بہت دور نکل چکے ہیں آزاد مگر آزار اور تھپیڑوں میں جکڑ چکے ہیں۔ ثاقب کے روم میں گیا جہاں راشد بھائی اور فیضان سورہے تھے، ثاقب نے زور دار میزبانی کی، یہ کھجور وہ حلوہ ملائی، پورا ناشتہ ہوگیا۔ اس کے بعد ممتاز شاہد کے روم میں جانا ہوا، موصوف حوران بہشتان کے خواب میں مست سورہے تھے، ان کو ہلکے کچوکے سے ڈسٹرب کرتے ہوئے جگایا، نہار منہ ہونے کی وجہ سے چہرے پر بیوی کی یادیں ڈیراجمائے ہوئے تھیں (جس کو ہم جیسے نونہالان شادی شدہ ہی پہچان سکتے ہیں بیلن بلرامپوری اپنا بیلن ہرگز نہ آزمائیں) کچھ دیر گفتگو کے بعد رخصت ہوا۔ جامعہ کا طواف کیا اور دارالحدیث کے پاس دوستوں کے ساتھ کچھ یادگاری تصویریں لیں۔

ناشتہ سے پہلے خبیب حسن بھائی اپنے لٹل اسٹار اور نصیر بمعروف ابوالمیزان بھائی سے ملاقات ہوئی۔ خبیب کے گفتگو کا وہی نادر انداز، لب ولہجے میں لطافت وشیرینی، چال میں میانہ روی، بڑوں سے قدرے نرم آواز میں گفتگو اس کا خاصہ ہیں۔ہاں مگر فیس بک پر کافی چنچل ہے، فیس بک کی دنیا نے ہی انھیں لٹل اسٹار جیسے مقدس لقب سے نوازا ہے۔ خبیب نے ابوالمیزان بھائی کے ساتھ مل کر کئی مقامات کی سیر و تفریح کا پروگرام بنایا تھا لیکن افسوس کہ میں ساتھ جانے سے محروم رہ گیا۔

ناشتہ کے بعد جامعہ کے وسیع وعریض صحن میں پروگرام شروع ہوا، پورا صحن سفید شامیانے سے مزین تھا، جگہ جگہ ٹی وی اسکرین اور اسٹیج کے بغل میں بڑے پردے پر پورے منظر کو دکھایا جارہا تھا۔ جامعہ کی بنیاد اور اس کے بعد کی تصاویر گاہے بگاہے چل رہی تھیں۔ ڈرون کیمرے سے ہماری نگرانی کی جارہی تھی، صحن سرخ کرسیوں سے لالہ زار اور سفید پوشوں سے اٹا ہوا تھا وہ منظر بھی دیدنی تھا جسے ہمارے کیمرے نے محفوظ کیا ہے۔ اسٹیج پر مفتی حرم مکی ڈاکٹر وصی اللہ عباس صاحب ستاروں کی جھرمٹ میں چاند کے مثل چمک رہے تھے۔ علماء کرام کے بیانات ہوئے، تاثرات کا بھی دور چلا، پروگرام ظہر تک بڑے تزک و احتشام سے چلتا رہا۔ قابل صد تعریف یہ کہ سبھی اپنی کرسیوں سے چپکے رہے۔ جن مؤقر شخصیات سے ملاقات ہوئی ان میں شیخ عبدالجلیل مکی صاحب، شیخ عبدالمنان سلفی صاحب (ناظم ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر)، استاد محترم شیخ خورشید احمد سلفی صاحب(سانتھا سنت کبیرنگر)، استاد محترم سابق شیخ الجامعہ شیخ نعیم الدین مدنی صاحب، عبدالکریم علیگ، محمد سالم علیگ، شریف بھائی(بنگلور)، میرے ہم سبق دوست سالم مبارکپوری بنارسی دوست واحباب بطورخاص شامل ہیں۔
صدر دروازے پر میرے محسن اور مؤقر رہنما شیخ محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب سے ملاقات ہوئی، بڑے تپاک سے ملے اور گلے لگا لیا، شیخ کے چہرے پر برسوں سی مسکراہٹ بکھر گئی اور ہنستے ہوئے بولے ہلال بہت موٹے ہوگئے! خیر خیریت دریافت کی۔ عصر بعد خبیب بھائی مجھے اور ابوالمیزان کو گنگا گھاٹ پر کوئی شاہی مسجد دکھانے لے جانا چاہ رہے تھے لیکن شام ہوجانے کی وجہ سے ارادہ بدل کر وہ اور ابوالمیزان بھائی بی ایچ یو (بنارس ہندو یونیورسٹی) چلے گئے اور میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ دال منڈی سیر کو چلاگیا جہاں خالد اینڈ سنس کے یہاں کچھ شاپنگ واپنگ ہوئی اور دیر شام جامعہ لوٹے تب تک مغرب کے بعد کا سیشن شروع ہوچکا تھا۔ مغرب بعد کا پروگرام بھی کافی دلچسپ رہا، عشاء بعد دستر خوان پر کئی احباب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے جس میں خبیب، ابوالمیزان بھائی، عبدالغفار بھائی کے نام میموری میں محفوظ ہیں (ویسے خبیب بھائی فوٹو بھیجے ہوتے تو سب کا نام گن گن کر لکھتا حالانکہ ان سے کئی بار ریکوسٹ کیا کہ فوٹو بھیج دو یا موبائل ہی پوسٹ کردو، جملہ حقوق کے ساتھ ریٹرن کردیا جائے گا لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں ہیں ہہہہہ)۔


رات دس بجے کے آس پاس سنٹرل لائبریری کی زیارت کے لیے ہر دلعزیز لائبریرین محفوظ الرحمن بھائی کے ساتھ ابوالمیزان بھائی، صدیق بھائی، خبیب اور میں گئے۔ محفوظ بھائی دبلے پتلے، منہ میں پان کی پیک، انگلی میں کترن چونا، سر پر مئوی ٹوپی، ہشاش بشاس، زندہ طبیعت کے مالک ہیں، ذہانت کی داد تو مشاہیر نے دی ہے، کس فن کی کتاب کس جگہ ہے انھیں بخوبی معلوم ہے، لائبریری کے کمپیوٹر ہیں اور ہمیشہ اپڈیٹ رہتے ہیں۔ دوران تعلیم ہمارے تعلقات کافی بہتر تھے، جب کسی مجلہ میں میرا مضمون شائع ہوتا اور وہ جامعہ میں پہنچ جاتا تو میرے لیے الگ کرلیتے، لائبریری جاتا تو فوراً بلاکر کہتے ہلال تمھارا مضمون چھپا ہے یہ دیکھو۔ ایک دلچسپ واقعہ ہے کسی موقع پر میں نے ایک مراسلہ لکھا جو روزنامہ انقلاب اور سہارا میں شائع ہوا، کسی صاحب تحریر کو اس میں کچھ زیادہ ہی نقص دکھائی دیا تو انھوں نے اپنے رسالہ کا پورا اداریہ ہی اس پر لکھ مارا اور لائبریری کے نام سے خصوصی پوسٹ کیا حالانکہ وہ رسالہ جامعہ میں نہیں آتا تھا۔ خیر جب محفوظ بھائی کی نظر سے وہ اداریہ گزرا تو انھوں نے مجھے بلا کر کہا ہلال تمھارے فلاں مراسلے کے جواب میں موصوف کا یہ اداریہ ہے، جبکہ میرا مراسلہ کئی مہینہ پہلے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اعتراف کرنا پڑا کہ محفوظ بھائی کی یادداشت کمال کی ہے کیونکہ صاحب قلم نے صرف عنوان ہی لکھ کربحث کی تھی۔ ہاں تو ابوالمیزان بھائی کو خصوصی طور سے لائبریری کی زیارت کرائی اور کتابوں کی فہرست سے لے کر قدیم وجدید اور کس فن کی کتاب کہاں ہے سرسری طور سے دکھائی، بطور یادگار وہاں بھی تصویر کشی کی گئی جو اب لٹل اسٹار کے حوالے ہے۔
عشاء کے بعد دیر رات خبیب کی معیت میں شیخ محمد ابوالقاسم صاحب کے پرانے دفتر یعنی گھنٹی والے بابا کے کمرے میں مجلس جمی، بہت سی یادیں تازہ ہوئیں، یادوں کی پرانی فائلوں کو ریفریش کیا گیا، اس محفل کے مرکزی موضوع ابوالمیزان بھائی تھے، میرے خیال سے شیخ کی ابوالمیزان بھائی سے پہلی ملاقات تھی۔ کافی دیر تک بہت ساری باتیں ہوتی رہیں، سفری صعوبت کی وجہ سے آنکھ بوجھل ہورہی تھی اس لیے ساڑھے گیارہ بجے کے بعد باجازت صدر عارضی رہائش گاہ چلا گیا، بستر پر پیر پسارتے ہی گھوڑا بیچ کر ایسا سویا کہ پھر تو مولانا خلیل نسیم صاحب نے ہی فجر کی نماز کے لیے بیدار کیا۔
دوسرے دن بعد نماز فجر گھاٹوں کی سیر کا منصوبہ تھا لیکن میں خبیب بھائی کے ساتھ نہیں جاسکا۔ ناشتہ وغیرہ سے فراغت کے بعد قاعۃ المحاضرات (کانفرنس ہال) میں اگلی نشست پانے کے لیے پہلے پہنچ گیا، آگے موجود وی آئی پی چیئر پر کچھ دیر بعد شیخ رفیق احمد رئیس سلفی صاحب آکر بیٹھے، پیچھے کی جانب سے چپکے سے میں نے سلام کرتے ہوئے اپنے منہ اپنا تعارف پیش کیا۔ شیخ سے قلمی پہچان تو تھی لیکن اس سے پہلے شاید کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا، شیخ نے اپنے بغل کی کرسی پر آجانے کا اشارہ کیا لیکن جب تک میں وہاں پہنچتا کوئی اور صاحب آکر براجمان ہوگئے۔ پروگرام شروع ہونے سے قبل شیخ نے الاتحاد کا شمارہ طلب کیا جس کے لیے میں دوبارہ کمرہ چلا گیا واپس آیا تب تک کوئی صاحب میری فائل ہاتھ میں لے کر میری کرسی پر بیٹھ چکے تھے، اب ہاتھ لگی کرسی بھی چھن گئی جس سے محترم سے ملاقات کا دورانیہ بس اتنا ہی رہا مزید کا موقع نہیں ملا۔ حسب سابق یہ سیشن بھی کافی عمدہ تھا پورا قاعۃ المحاضرات ابناء جامعہ سے کھچا کھچ بھرا ہواتھا کہیں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ناظم صاحب نے ابتدا تا حال جامعہ کا مختصر تعارف کرایا اور مستقبل کے عزائم کو حاضرین کے سامنے پیش کیا، اس سیشن کی نظامت صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر محترم شیخ عبدالسلام سلفی صاحب فرمارہے تھے، بطور ابتدائیہ امیرمحترم نے بہترین باتیں رکھیں، اخیر میں سوال وجواب اور آراء و تجاویز کا سیشن رکھا گیا تھا جس میں ابناء نے کھل کر اپنی بات ناظم اعلی تک پہنچائیں ،عمدہ تجاویز پیش کیے، بہترین مشورے دیے، اب انتظام جامعہ پر منحصر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کتنے پابند ہیں۔ پھر جامعہ کے تعاون کا عمل شروع ہوا جس میں فارغین نے اپنے علاقوں اور شہروں سے جمع کی ہوئی رقوم کو انتظامیہ کے سپرد کیا۔ ابناء جامعہ سلفیہ ممبئی و مہاراشٹرا کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی صاحب نے ایک دکتور کے مشاہرے کی ذمہ داری قبول کی، یہ پروگرام ظہر تک بحسن وخوبی چلا اور دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
گھر جانے کی جلدی تھی اس لیے بنارس سے بستی کے لیے پہلے ہی تتکال ٹکٹ بک کرلیا تھا تاکہ سفر میں پریشانی نہ ہو، گھر جاتے وقت ساتھ میں محمد راشد، فیضان، احسان الہدی، مولانا اسرار صاحب اور بھی کئی احباب تھے۔ قریب ایک بجے رات کو بستی ریلوے اسٹیشن پر اترے، جہاں ہمارے استقبال کے لیے بندر اور بندریوں کی فوج پہلے سے کھڑی تھی، فیضان بھائی فوج کو دیکھ کر دبک گئے جیسے چھوٹے بچے پولیس کو دیکھ کر اپنی ماں کی گود میں منہ چھپالیتے ہیں۔ رات اور ٹھنڈک کا قہر اس پر مستزاد، باہر نکل کر آٹو رکشا (تین پہیا ٹیمپو) بک کیے اور اللہ اللہ کرکے اسی وقت گھر کو چل دیے اور فجر سے پہلے گھر پہنچے تو والدہ کو تہجد پڑھتے دیکھ کر انتظار میں کھڑا ہوگیا، فارغ ہوتے ہی خیر خیریت دریافت کی اور دعائیں دیتے ہوئے کہا: جاؤ ابھی بہت وقت ہے سوجاؤ……!

8
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
4 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
محمد عرفان شیخ یونس سراجی

ماشاءاللہ! بہترین تحریر ہے- اللہ مزید قلم میں برکت عطا فرمائے –

ھلال ھدایت

جزاکم اللہ خیراَ

عبدالغفار زاہد

بہت بہترین روداد ہے، دیر آید درست آید، بہت اچھا لکھا، اللہ برکت دے

ھلال ھدایت

جزاکم اللہ خیراَ

خبیب حسن

😊😊❤️❤️💔💔

ھلال ھدایت

جزاکم اللہ خیرا

Kashif Shakeel

ماشاءاللہ بہت خوب
جاذب تحریر ، دلچسپ اسلوب بیان
ایسا لگتا ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ تھا
حق ادا کردیا آپ نے

ھلال ھدایت

جزاکم اللہ خیرا
آپ کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی تھی