زندگی کے کئی آثار نکل آئیں گے

فیضان اسعد شعروسخن

زندگی کے کئی آثار نکل آئیں گے

بیج بوتے رہیں اشجار نکل آئیں گے


میرے احباب کے زخموں کے تحائف واللہ

ایک دو چھوڑیئے انبار نکل آئیں گے


روک رکّھا ہے فسادات سے سب کو لیکن

لے کے بارود یہ اخبار نکل آئیں گے


حسن کے دام میں آنے کی تڑپ جاگی ہے

فیصلہ کرتے ہی اغیار نکل آئیں گے


تیری یک لخت صداقت یہ تری تنہائی

ہم نہ کہتے تھے کہ بیزار نکل آئیں گے


سچ کہیں گے وہ سرِ دار پہ چڑھتے چڑھتے

ایسے پاگل بھی تو دو چار نکل آئیں گے


جو قلمکار ہیں گزرے ہیں اسی رستے سے

لکھتے رہیے نئے افکار نکل آئیں گے


سو گئے چین سے بھوکوں کی خبر سے آزاد

بلک* میں ایسے گنہگار نکل آئیں گے


میں بلندی سے گرا جن کے کرم سے اسعد

میرے اپنے ہی کئی یار نکل آئیں گے


*(Bulk)

آپ کے تبصرے

3000