یہ ناسور زباں بندی

جلال الدین محمدی

ادارتی نوٹ:

چوراہے اب بڑے ہوگئے ہیں۔ پہلے المیے زیادہ دن تک نہیں جیتے تھے، بہت دور تک جا بھی نہیں پاتے تھے۔ اب المیہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی رسائی بہت بڑی ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے بڑے بڑوں کو بڑی چنوتی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یا تو اپنی پوزیشن صاف کریں وضاحت کرکے یا برداشت کا پہاڑ بن جائیں۔
دنیا ہے تو حادثے ہیں۔ مگر کچھ گھٹنائیں ایسی ہوتی ہیں جو اپلچھ کی طرح گریر لیتی ہیں۔ چھبیس سالہ درخت کو اکھاڑنے کا ساہس بڑا ہوتا ہے، اس عمل سے آس پاس کی زمینوں میں جو دراڑیں پڑتی ہیں وہ ناقابل شمار ہوتی ہیں، شاخوں میں آباد پرندوں کے گھر بھی اجڑتے ہیں۔ بسنے اور اجڑنے کا سلسلہ تو فطری ہے مگر بسانے اور اجاڑنے کا عمل متعلقین پر بڑا امپیکٹ چھوڑتا ہے۔
زیر نظر مضمون متعلقہ مسئلے پر کچھ فکر انگیز نکات پر مشتمل ہے۔ دور رس اثرات و نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ بھی غور کریں، فرد سے بڑا ہوتا ہے سماج کا مسئلہ جس کو خاطر میں لانا اور پھر خاطر خواہ کارروائی کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

ایڈیٹر


تعلقات، مفادات، مصلحتیں اگر خیر کے لیے ہوں تو مناسب ہیں لیکن شر کے فروغ یا تعلیم کے زوال کے لیے انھیں لب بندی کا آلہ کار بنالیا جائے تو یہ اجتماعی جرم کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔ عموما مدارس میں ہونے والی اتھل پتھل پر لوگ خاموشی اختیار کرنے کو پسند کرتے ہیں تاکہ اداروں کی بدنامی نہ ہو اور تعلقات میں دراڑ نہ پیدا ہونے پائے۔ لیکن بدنامی اور باہمی تعلقات کی خرابی کے اس خوف کی وجہ سے بیشتر مدارس میں طلباء، اساتذہ اور کارکنان بغیر مناسب سہولیات و عدم ضمانت کی زندگی گذار رہے ہیں ان کی فکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لیے اگر بڑی بڑی توپیں یا عوامی زبانیں خاموش ہوں تو یہ سوچ کر چپ رہنا مناسب نہیں ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنے گا۔ آپ بولیں کم ازکم سکوت تو ٹوٹے گا پتھر پھینکنے سے تالاب میں ہلچل تو پیدا ہوگی کچھ وقت کے لیے ہی سہی پانی کی سڑانڈ تو دور ہوگی۔

مدارس و جامعات دینی قلعے اور ملی تحفظ کے سب سے اہم ذرائع میں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بقا اور فروغ کے لیے ملت ہر ممکن قربانی پیش کرتی رہی ہے تاکہ ان کے وجود سے ہمارا دینی تشخص سلامت رہے۔ ملی اعتماد اور تعاون مدارس و جامعات کی حیات کا سرمایہ ہیں لیکن اب یہ مدارس اور جامعات مکمل طور پر سرمایہ دارانہ ذہنیت کے اثرات تلے دبتے جارہے ہیں۔ اس لیے ملت کی ذمے داری ہے کہ ان دینی سرچشموں سے سیرابی حاصل کرنے کے لیے محض انتظامیہ بھروسے چھوڑ کر ان سے بے اعتنائی نہ برتے ورنہ آنے والے وقت میں اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے کیونکہ عوامی چندوں (ریال، روپئے یا مقدار سے اس کا عرف نہیں تبدیل ہوسکتا ہے) سے چلنے والے جامعات اور مدارس انتظامی لحاظ سے مکمل طور پر شخصی بنتے جارہے ہیں۔ جہاں نظام الاوقات اور معیار تعلیم کے حوالے سے اساتذہ اور طلباء کی کڑی نگرانی اور اصولوں کی پاسداری کو ان کی برقراری سے مشروط قرار دیا جارہا ہے۔ ادارتی بندشوں کی عدم تعمیل کی صورت میں طلباء، اساتذہ اور کارکنان سمیت ادارے کی چاردیواری کاہر فرد قصور وار قرار پاکر تمغہ اخراج کا حامل بنایا جاسکتا ہے۔ اور صرف فرد واحد اپنی حکمرانی کے بل بوتے معصوم عن الخطاء صاحبان کی صف میں شامل رہتا ہے لیکن کیا کوئی انتطامیہ کبھی اپنے تعلیمی اشتہاری دعووں کی بنیاد پر اپنا احتساب کرنے کی زحمت کرتی ہے؟ملت کا اتنا بڑا سرمایہ ان کی بد انتظامی یا غلط فیصلوں کی وجہ سے تباہ ہورہا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر ان کی کرسی اور منصب محفوظ رہ سکتے ہیں، تو پھر ماتحتوں پر نزلہ گرا کر کس بات کا ثبوت دیا جاتا ہے؟ جو لوگ نصاب، تربیت، انصرام پر اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں نظام تعلیم کی ناکامی پر انھیں کیوں نہیں معتوب کیا جاتا ہے؟
مدارس اور جامعات کا انصرام شخصی ہوسکتا ہے لیکن ان کے معاملات قطعی شخصی نہیں ہوسکتے ہیں اور ان اداروں کی چاردیواری میں نافذ کیے جانے والے عاجلانہ اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کو داخلی کہہ کر اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے عوامی ہیں تو فیصلوں میں یک چشمی کیسے ہوسکتے ہیں؟ہوسکتا کہ کہ فیصلوں میں یک رخی نظام کا خاتمہ کچھ لوگوں کو انتشار اور بدنظمی کا موجب لگے۔ لیکن شورائیت کی افادیت سے انھیں بھی انکار نہ ہوگا۔ فیصلوں میں شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ ڈمی انتظامیہ کے بجائے فعال اور جہاں دیدہ لوگوں کا انتخاب کرکے انھیں آزادنہ طور پر ذمے داریوں کی ادائیگی کا موقع دیا جائے۔ اور پھر خوشامد پرستی کے بجائے حقیقت پسندی اور معروضی نقد وتبصرے خوش دلی کے ساتھ قبول کیے جائیں اور انھیں قابل عمل بنانے میں ہر ممکن تعاون کیا جائے۔ کیونکہ بہتر شخصیات کا انتخاب اور مناسب ٹیم مینیجمنٹ بھی انصرام تعلیم کا ہی لازمی جزء ہے۔
جامعات اور مدارس کا سلوگن ہی فلاح دارین سے عبارت ہے۔اگر ان کی انتظامیہ فارغین کو تقوی وللہیت کے حوالے سے احتساب آخرت کی تلقین کریں اور خود دنیاوی زیب و زینت اور خوشنمائی کے لیے شرعی نظام سے لاپرواہی برتیں۔ اور اپنے ماتحتوں سے خود ساختہ نظام اور قوانین کی پاسداری کی دہائی دے کر اس پر اصرار کریں اور اس کی بنیاد پر تقرری اور اخراج کے فیصلے کریں تو ایسی انتظامیہ کو خطاء و صواب کے کس زمرے میں شامل کیا جائے؟ اور کیا جامعات سے طلباء و اساتذہ کا اخراج ہی اعلی تعلیم و تربیت کے معیار کی فراہمی کا لازمی جزء ہے؟ اور اگر ایسے طلباء و اساتذہ کو تعلیمی لحاظ سے عضو معطل سمجھ کر ان سے چھٹکارہ بھی پالیا جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دوسرے تعلیمی اداروں میں انھیں جگہ نہیں ملے گی۔ اور پھر ان کی موجودگی میں وہاں کی تعلیمی فضا محفوظ بھی رہے گی۔ اور کیا قابل برداشت غلطیوں پر طلباء و اساتذہ کو تعلیم و تدریس سے محروم کردینا ہی اس کا واحد حل ہے؟
دیار حبیب ﷺمیں رہ کر حصول علم کا موقع یقینا قابل فخر اور زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ ہے۔ لیکن اگر یہ خوش قسمتی اپنے اساتذہ سے علمی موازنہ کرتے ہوئے عجب اور گھمنڈ کا سبب بن جائے ۔ان کی ہجو اورغیبت کرنے کی تحریک دینے کا سبب بن جائے۔ انتظام اور انصرام کے نام پر ان کے سروں کو جھکا کر علمی غرور و انا کو تسکین پہنچائے۔ یا علمی پستی کو بے عیب رکھنے کے لیے بزرگ اساتذہ کے اخراج کی سازش کی ذہن سازی پر آمادہ کرنے لگے تو یہ شاید با ادب جہالت کی بے ادب علم پر فوقیت کا مقام ہے۔
مسجد انتظامیہ کی عمومی بےحسی تو اس بنا پر قابل فہم بھی ہے کہ وہ عام طور پر دینی تعلیم یا علماء کے حالات اور ان کے مقام و مرتبہ سے بے خبر ہوتے ہیں۔ لیکن نظام الاوقات کی پابندی کے نام پر عالم ہی علم و عمل کی بے قدری کے نمونے پیش کرنے لگیں تو اب گلہ کس سے کیا جائے؟
مدارس کے نصاب کی تجدید کاری کی فکر ہر ذی شعور کررہا ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق جن جامعات میں کلیلہ دمنہ شامل نصاب ہے اسے تبدیل کردیا جائے کیونکہ حالات بتلا رہے ہیں اس کتاب کی تدریس سے طالب علم ادبی بلوغت کے مراحل طے کرے نہ کرے لیکن مدارس کی انتطامی سیاست کو فروغ دینے میں یہ کتاب ذہن سازی ضرور کرتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے مشہور کردار عملی طور پر جامعات میں نظر آہی جاتے ہیں۔ جو کہانی کی طرح نہ صرف انتظامیہ بلکہ بالآخر اپنے لیے بھی نقصان کا ہی سبب بن جاتے ہیں۔
خارجی داخلی معاملات کے نعرے بلند کرکے دوسروں کے ایمان و علم کی گہرائی ناپنے والوں کی اس طرح کے معاملات میں خاموشی تعجب خیز ہے۔ ان کی فکر انگیز تحریروں کا انتظار رہے گا اس امید کے ساتھ کہ وہ کم ازکم داخلی معاملے پر بخش دیں گے اور اس بار اخوان، اخوانی اخوانی کی تکرار نہیں کریں گے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Dr Uzair

کیا تبصرہ کروں۔ یار افسوس ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے آپ نے آواز اٹھائی ہے۔ عمومیت سے مضمون کی اثر آفرینی میں اضافہ ہوا ہے۔
شخصی ادارے دراصل خاندانی دکانیں ہیں۔یہ لوگ نسل بعد نسل اس کی کمائی سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ اوپر سے قوم پر احسان بھی لادتے رہیں گے، کہ ہم نے قوم کے لئے فلاں فلاں کام کیا۔

Riyazuddin Mubarakpuri

مضمون نگار نے یہاں “یہ ناسور زباں بندی” کا جو عنوان باندھا ہے کچھ اٹپٹا سا اور نیا نیا لگا۔ بہر کیف مضمون پڑھ کر میں صرف اتنا اندازہ لگا سکا کہ کسی مدرسے سے کسی معلم کی چھٹی کر دی گئی ہے۔ مضمون کے مشمولات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نکالے گئے استاد پر ظلم کیا گیا ہے، نظام الاوقات کی عدم پابندی کا بہانہ سفلانہ ہے۔ دوسری چیز صاحب مضمون نے جس کی گُہار لگائی ہے وہ یہ کہ اب باہمت لوگ آگے بڑھیں، استاد کے اخراج پر شور وغلغلہ کریں، انتظامیہ کو… Read more »

عبدالقدیر

تضادات اور ابھام سے بھرپور مضمون۔ اگر وقت کی پابندی دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ اور کیا وقت کی پابندی اتنی غیر اہم ہے؟ مضمون نگار نے دہائی دی ہے کہ: ذاتی تعلقات اور مفادات کی وجہ سے لوگ زبان نہیں کھولتے یا ایسے ذمہ داران کی مخالفت نہیں کرتے جس کی وجہ سے ذمہ داران کو بڑھاوا ملتا ہے۔ لیکن مضمون نگار نے ہی ذاتی مفادات یا تعلقات کا بخوبی خیال رکھا ہے مضمون کے اندر۔ اشارے کنایے بھی اتنے دور کے استعمال کیے ہیں کہ اگر کبھی بات واضح بھی… Read more »

ضیاءالدین فیضی

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں آپکا تبصرہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ تیر نشانے پے لگا ہے کیونکہ مضمون کی تمام اچھی باتوں کو چھوڑ کر آپنے صرف اسی جملے کی نشاندہی کی ہے جو آپکے ذاتی تعلقات اور مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں اگر مضمون کی عمومیت آپ کی نظر میں بزدلی ہے تو آپ ہی واضح کر دیں ہم آپکی حق گوئ و بیباکی کے قائل ہو جایئنگے کیونکہ راقم نے خود اسکا مطالبہ کیا ہے اور انھوں تو بس شروعات کی ہے اور آپکا جملہ (کبھی بات واضح بھی ہو جائے… Read more »