بدرالدین اجمل سے دارالعلوم دیوبند اپنی سند واپس لے

رفیق احمد رئیس سلفی

ایک عالم دین اور اس قدر غیر ذمہ دارانہ بیان سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آدمی نے دین پڑھا بھی ہے یا نہیں۔ مسلک کی حمایت کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ غیراللہ کو رب بنانے کی اس سے بدترین کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی۔ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے صحیح فرمایا تھا کہ فقہ حنفی پر عمل کرکے کوئی مہذب سماج زندہ نہیں رہ سکتا۔ مولانا آزاد کی یہ بات ’’حواشی مولانا ابوالکلام آزاد‘‘ نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں انھوں نے مولانا شبلی کی کتاب ’’سیرۃ النعمان‘‘ پر حواشی لکھے ہیں۔ طلاق ثلاثہ کو نافذ کرکے حلالہ ملعونہ کا چوپٹ دروازہ کھولنا ایک ایسا غیر مہذب عمل ہے، جس سے اسلام کی عصمت تار تار ہوسکتی ہے، دنیا میں  اسلام کی اس سے بڑی کوئی رسوائی ہو نہیں سکتی۔

اہل حدیث جماعت طلاق ثلاثہ والے موجودہ قضیہ میں خاموش رہی کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ حکومت وقت کی نیت درست نہیں ہے۔ وہ طلاق ثلاثہ کے حوالے سے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا راستہ تلاش کررہی ہے۔ ورنہ کسے نہیں معلوم کہ قرآن اور حدیث میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ صحیح مسلم میں موجود حدیث ابن عباس اور مسند احمد میں حدیث رکانہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اسلامی تاریخ کے کئی ایک معتبر علماء ہمیشہ اس بات کی وکالت کرتے رہے ہیں کہ اللہ نے جس مسئلے میں میاں بیوی کو غور وفکر کرنے کے لیے تین ماہ کی مہلت دی ہے، بندے کو یہ حق کہاں سے مل جاتا ہے کہ اس مہلت کو ختم کردے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس، زبیر بن عوام، عبد الرحمن بن عوف، ایک روایت کے مطابق حضرت علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کابھی یہی فتویٰ ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ تابعین میں سے حضرت عکرمہ، طاوس اور تبع تابعین میں محمدبن اسحاق، خلاص بن عمرو، حارث عکلی، داود بن علی اور بعض اہل ظاہر، بعض مالکیہ، بعض حنفیہ اور بعض حنابلہ کا بھی یہی موقف رہا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔ (اعلام الموقعین ۳؍۴۴ ، اغاثۃ اللھفان ۱؍۳۳۹۔۳۴۱)

یہ بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ 1929ء میں مصر میں حنفی، مالکی، شافعی او ر حنبلی اہل علم کی ایک جماعت کی سفارشات پر وضع کیے جانے والے ایک قانون کے ذریعے ایک وقت کی متعدد طلاقوں کو قانوناً ایک ہی طلاق شمار کیاجاتا ہے۔ اسی قسم کا قانون سوڈان میں 1935ء میں، اردن میں 1951ء میں، شام میں 1953 ء میں، مراکش میں 1958ء میں، عراق میں 1909ء میں اور پاکستان میں 1961ء میں نافذ کیا گیا۔ (ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل :ص219 ، مطبع دار السلام، لاہور)

ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے والوں میں معاصر حنفی علما میں معروف دیوبندی عالم دین مولانا سعید احمد اکبر آبادی (انڈیا)، مولانا عبد الحلیم قاسمی (جامعہ حنفیہ گلبرگ، لاہور) اور جامعہ ازہر کے فارغ التحصیل بریلوی حنفی عالم دین مولانا پیر کرم شاہ ازہری (سابق جج سپریم اپیلیٹ شریعت بنچ، پاکستان) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ معاصر علمائے عرب میں شیخ ازہر شیخ محمود شلتوت حنفی (جامعہ ازہر، مصر)، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی (دمشق، شام)، شیخ جمال الدین قاسمی، شیخ سید رشید رضا مصری اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے بھی ایک وقت کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ ان اہل علم کے تفصیلی فتاویٰ جات کے لیے درج ذیل کتاب کی طرف رجوع کریں: (ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل، حافظ صلاح الدین یوسف)

نومبر ۱۹۷۳ء میں گجرات چیمبر آف کامرس ہال (احمد آباد) میں مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی رحمہ اللہ کی صدارت میں طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں سیمینار ہوا تھا جس میں مولانا محفوظ الرحمن (فاضل دیوبند)، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، مولانا مختار احمد ندوی، مولانا عبدالرحمن رحمانی مبارک پوری، مولانا سید احمد عروج قادری، مولانا سید حامد علی اور مولانا شمس پیرزادہ نے علمی مقالات پیش کیے تھے۔سیمینار کے بعد حضرت مفتی صاحب کی صدارت میں جو متفقہ قرار داد منظور کی گئی تھی، وہ یہ ہے:

(۱)  ایک مجلس میں تین طلاق کے طلاق مغلظہ بائنہ ہونے کا مسئلہ اجماعی اور قطعی نہیں ہے۔ اس میں سلف ہی کے زمانے سے اختلاف موجود ہے۔

(۲)فقہی جزئیات و تفصیلات سے قطع نظر مندرجہ ذیل دو صورتوں کے بارے میں مجلس مذاکرہ کی رائے یہ ہے:

(الف) اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے طلاق، طلاق، طلاق کہتا ہے اور کہتا ہے کہ میری نیت صرف ایک طلاق دینے کی تھی۔ میں نے طلاق کا لفظ تاکید کے لیے دہرایا تھا تو اس کی اس بات کو باور کیا جائے گا اور یہ طلاق، طلاق مغلظہ بائنہ شمار نہ ہوگی۔

(ب) اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے: ’’تجھے تین طلاق‘‘۔ مگر وہ حلفیہ بیان دیتا ہے کہ میری نیت تین طلاقیں دینے کی نہیں تھی، میں تو یہ سمجھتا تھا کہ تین طلاق کا لفظ کہے بغیرطلاق واقع نہیں ہوتی، اس لیے میں نے تین طلاق کے الفاظ استعمال کیے تھے، تو اس کی بات باور کی جائے گی اور یہ طلاق، طلاق مغلظہ بائنہ شمار نہ ہوگی۔

(۳) اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو طلاق کا صحیح طریقہ بتایا جائے اور ان پر واضح کیا جائے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے کا طریقہ بدعت و معصیت اور عورت کے حق میں ظلم و زیادتی ہے۔ طلاق کے اس غلط طریقے سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہیے اور طلاق دینا ضروری ہی ہو تو ایک طلاق پر بس کرنا چاہیے اور یہ طلاق بھی عورت کی پاکی کی حالت میں دینی چاہیے جس میں شوہر نے اس سے مقاربت نہ کی ہو۔

مسلکی عصبیت کا برا ہو کہ آج اس فیصلے کو پینتالیس(۴۵) سال گزرچکے ہیں لیکن ہم جہاں تھے، وہیں کھڑے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی اگر فقہ حنفی کے بعض مسائل کو چھوڑ کر اقرب الی الکتاب والسنۃ والے قول اور مسلک پر عمل کرسکتے ہیں اور فتوی دے سکتے ہیں اور ان کی حنفیت متاثر نہیں ہوتی تو آج فقہ حنفی کے کسی جزئیہ کو کالعدم قرار دے دینے سے فقہ حنفی کی عمارت کیسے متزلزل ہوجائے گی۔ دارالعلوم دیوبند کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

ہندوستان میں ہم مسلمان جس نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں، بدرالدین اجمل قاسمی کو بتانے کی ضرورت نہیں، مسلمانوں کی ایک جماعت کے تعلق سے اتنا گھٹیا بیان دیتے ہوئے اسے ذرا بھی اللہ کا خوف نہیں ہوا۔ جماعت اہل حدیث اس قضیہ میں خاموش رہی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس قسم کے سنگین الزامات جماعت اہل حدیث پر لگائے جائیں۔

دارالعلوم دیوبند کی موقر مجلس انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اس شخص سے اپنی سند واپس لے اور قاسمی کا لاحقہ لگانے کی ممانعت کرے۔ جمعیۃ علمائے ہند کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ اس شخص کو جمعیۃ کے تمام عہدوں سے فی الفور ہٹائے اور جب تک یہ شخص معافی نہ مانگے، اسے مسلمانوں کا نمائندہ ہرگز تسلیم نہ کیا جائے۔ آسام کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ آیندہ یہ شخص آپ کا ترجمان نہ بن سکے جو مسلمانوں میں مسلکی جنگ کرانا چاہتا ہے۔جماعت اسلامی کے امیر محترم مولانا سید جلال الدین عمری سے درخواست ہے کہ اس شخص کے حق میں جماعت اسلامی کی طرف سے مذمت کی قرار داد منظور کرائیں اور پریس کانفرنس کرکے اس کے بے ہودہ بیان کی تردید کریں۔ اسی طرح دارالعلوم ندوۃ العلماء کی محترم انتظامیہ سے درخواست ہے کہ بدرالدین اجمل کے اس بدبودار بیان کی تردید کرے اور آیندہ کسی موقر مجلس میں اس شخص کو مدعو نہ کیا جائے۔

جماعت اہل حدیث کے خلاف بدرالدین اجمل کا یہ بیان محض ایک سیاسی بیان نہیں ہے بلکہ اس سے اس کی ذہنیت کی ترجمانی ہوتی ہے۔ جماعت اہل حدیث کی مجلس شوری اور مجلس عاملہ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے اور بدرالدین اجمل کے اس بے ہودہ بیان سے ملک کی عوام تک جو پیغام پہنچا ہے اور اس کے جو منفی اثرات متوقع ہیں، ان کے ازالے کے لیے اپنے تمام وسائل کا استعمال کرے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

Masha Allah
Bahot umda mazmoon

Salaam Khaan

ہر وہ شخص جو امت میں پھوٹ ڈالنے کی نہ پاک کوشش کرے اس کی مذمت اسی شد و مد کے ساتھ ہونی چاہئے
موضوع پر انتہائی موقّر تحریر ہے