کس لیے سوچوں کہیں اور میں جانے کے لیے

سحر محمود شعروسخن

کس لیے سوچوں کہیں اور میں جانے کے لیے

دل سے بہتر تو نہیں کچھ بھی ٹِھکانے کے لیے


میں تو تیار ہوں دل، دل سے ملانے کے لیے

ان سے دیوارِ انا کہہ دو گرانے کے لیے


کوئی ملتا نہیں یہ بار اٹھانے کے لیے

میں ہوں بے تاب دل و جان لٹانے کے لیے


آ بھی جاؤ کہ تمھارا ہی سہارا ہے مجھے

” شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے”


دل کے ارمان مچلتے رہے دل میں میرے

تم تو آئے تھے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے


وقت کس موڑ پہ لے آیا ہے ہم دونوں کو

کچھ بچا ہی نہیں اب سننے سنانے کے لیے


میں تو حیران ہوں اس طرزِ تعیُّش پہ سحر

لوگ کیا کچھ نہیں کرتے ہیں دکھانے کے لیے


آپ کے تبصرے

3000