ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں

ہلال ہدایت

سوشل میڈیا پر ٹرول کرنے کا سلسلہ اب ہمارے لیے نیا نہیں رہ گیا ہے، آئے دن کسی نہ کسی بات کو لے کر ٹرولنگ شروع ہوجاتی ہے، کسی کے ضمیر کی آواز اور آزادیٔ اظہار رائے کا بھی خیال نہیں کیا جاتا۔ یہ ٹرولنگ سسٹم نہایت ہی خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے جس کا شکار خاص و عام سبھی ہورہے ہیں، گزشتہ سال وزیر خارجہ سشما سوراج کو لکھنؤ کے ایک جوڑے تنوی سیٹھ اور انس صدیقی کے پاسپورٹ معاملہ میں ٹرول کیا گیا۔ اسی طرح مرکزی وزیر داخلہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے اور آئے دن اپوزیشن لیڈران کو ٹرول کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ وہیں دوسری طرف فلمی اداکار بھی اپنی حق بیانی کے سبب ٹرول کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح جو بھی اپنی بات بیباکی سے رکھنے کی کوشش کرتا ہے سوشل میڈیا سے وابستہ شدت پسند عناصر انھیں ملک اور حکومت مخالف کہہ کر پریشان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں نصیرالدین شاہ کو بھی اپنی رائے کے اظہار کے سبب ٹرول کیا گیا جس کا پوری تندہی سے انھوں نے مقابلہ کیا اور کئی اہم شخصیات بھی ان کے دفاع میں سامنے آئیں علاوہ ازیں بہت سی زبانیں اسی خوف سے اب تک خاموش ہیں۔
ٹرولنگ کا یہ سلسلہ سیاست سے پُر ہے جس سے کوئی محفوظ نہیں۔ دو تین دن قبل جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والی پربھاراج نامی ٹویٹر صارف نے اپنا ٹویٹر پروفائل نام اردو زبان میں لکھ دیا کیونکہ انھیں اردو میں لکھا گیا نام کافی پسند آیا حالانکہ وہ اردو زبان پوری طرح لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتی ہیں۔ اب کیا تھا فرقہ پرست عناصر مشتعل ہوگئے اور انھیں ٹرول کرنا شروع کردیا۔ پربھا انصاف پسند اور سیکولر ذہنیت کی حامل ہیں، سیاست میں بھی کافی دلچسپی رکھتی ہیں اور بیباکی سے اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔ سنگھی ان کو مسلمانوں والی شناخت اپنانے کا الزام لگا کر گالی گلوچ کرنے لگے۔ اس کے بعد ٹویٹر پر پربھا کی حمایت میں سیکڑوں لوگوں نے اپنا پروفائل نام بدل کر #MyNameInUrdu مہم چھیڑی جو تیزی سے مقبول ہوا اور تحریر لکھے جانے تک ہزاروں لوگ ہیش ٹیگ ’’مائی نیم ان اردوـ‘‘ کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کی حمایت میں ہیش ٹیگ کا یہ سلسلہ کافی طویل ہوتا جارہا ہے۔
دراصل یہ وہی ٹولہ ہے جو فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر پر نام نہاد وطن پرستی کا دم بھرتا ہے اور دوسروں کو ملک مخالف گرداننے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا ہے جیسے ہی کوئی بات ان کی زبان میں حکومت مخالف سامنے آتی ہے فوراً یہ سرگرم ہوجاتا ہے اور ٹرولنگ شروع کردیتا ہے۔ یہ فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ یونیورسٹی کے فارغین ہیں جو دیش بھگتی کا سرٹیفیکیٹ تقسیم کرتے پھر رہے ہیں۔ پربھاراج نے اگر اپنا پروفائل نام اردو زبان میں لکھ دیا تو اس میں کسی کو چیخنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اردو زبان صرف مسلمانوں کی زبان ہے یا‌‌ اردو زبان بھی بیرونی زبان ہے جیسا کہ فرقہ پرست گمان کررہے ہیں۔ دراصل یہ لوگ تاریخ سے ناواقف ہیں، ان کی تعلیم بس اتنی ہے کہ کوئی چیخ رہا ہے تو سر میں سر ملادیا جائے، جس کی تازہ مثال مدھیہ پردیش میں سامنے آئی ہے کہ میڈیا والوں نے فرقہ پرستوں سے ’’وندے ماترم ‘‘ گانے کو کہا تو سب کی زبانیں گنگ رہ گئیں، کوئی بھی دو سطر سے زیادہ نہیں سناسکا۔ فرقہ پرستوں کو نہیں معلوم کہ جس طرح دیگر ہندوستانی زبانیں؛ ہندوستانی ہیں اسی طرح اردو زبان بھی؛ ہندوستانی زبان ہے، یہیں پیداہوئی، اس کی پرورش و پرداخت ہندوستان میں ہوئی لیکن کیا کہا جائے گندی سیاست کا جس نے ہر چیز کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے اور اس تہذیب و ثقافت، اتحاد و یگانگت کی شیریں زبان کو ایک خاص مذہب سے جوڑ دیا ہے۔
اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے (صدا ابنالوی)
مرکز میں زعفرانی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹرولنگ کی آندھی ایسی چلی ہے کسی کے بھی آزادیٔ اظہار رائے کاخیال نہیں رکھا جاتا بلکہ سب کے منہ میں اپنی زبان ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے، جب بھی کوئی صحافی، انصاف پسند طبقہ، سیکولر شخصیات حق بات بولتی ہیں انھیں ٹرول کیا جاتا ہے تاکہ وہ خاموش ہوجائیں اور آئندہ گودی میڈیا کی طرح دیش بھگتی کی گیت گائیں، لیکن بھلا ہو سیکولر شخصیات کا؛ کہ وہ اپنی بات بلاخوف و خطر کہتی رہتی ہیں۔یہی جمہوریت کی خوبی ہے کہ جس میں سب کو اپنی بات رکھنے کا حق حاصل ہو، تاہم اس مسموم فضا میں سب پر جبراً روک لگانے اور اپنی با ت منوانے کادباؤ بنایا جارہا ہے جس میں کہیں نہ کہیں مین اسٹریم میڈیا کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ سیاسی بیان بازیاں اور ان کی ٹرولنگ کچھ حد تک تو سمجھ میں آتی ہے لیکن کسی زبان کو کسی خاص مذہب سے جوڑ کر اور پھر اس کے بارے میں غیردستوری باتیں کرنا نہایت ہی افسوسناک ہے۔ خیر سیکولر صارفین نے پربھاراج کا ساتھ دیا، اپنے پروفائل نام اردو میں کررہے ہیں، اردو زبان نہ جاننے والے اردو کو گوگل کی مدد سے سیکھ رہے ہیں اور اپنا نام اردو میں لکھ کر پربھا کی حمایت کررہے ہیں۔ اردو زبان اور پربھا کے خلاف چلائی گئی اس مہم میں شر کے بجائے خیر کا پہلو سامنے آگیا ہے، لوگ ببانگ دہل اپنا پروفائل نام بدل رہے ہیں اور اردو سے والہانہ لگاؤ اور جذبات کا اظہار کھلے دل سے کررہے ہیں۔
جہاں جہاں کوئی اردو زبان بولتا ہے
وہیں وہیں مرا ہندوستان بولتا ہے
اردو زبان نہ تو کسی خاص مذہب کی زبان ہے اور نہ ہی کسی خاص طبقہ کی بلکہ یہ پورے ملک کی زبان ہے جس نے برسوں ہندوستانیوں کے دلوں پر راج کیا ہے اور آج بھی اردو میں کہی گئی شعر و شاعری میں وہ مٹھاس اور چاشنی ہے کہ کوئی بھی اس کا گرویدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

آپ کے تبصرے

3000