سلفی جامعات کے ابھرتے ہوئے ذہین قلم کار

رفیق احمد رئیس سلفی

دی فری لانسر پورٹل، ممبئی (thefreelancer.co.in) پر شائع ہونے والے میرے مضمون “نوجوان سلفی اہل قلم کی خدمت میں” کو پڑھنے کے بعد کئی ایک نوجوانوں سے فون پر رابطہ ہوا اور ان کے تاثرات سنے تو اندازہ ہوا کہ الحمد للہ سلفی نوجوانوں کی خاصی بڑی تعداد دور حاضر میں صحافت کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت سے آشنا ہے اور اس میدان میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان نوجوانوں کی ملازمت اور ان کے معاشی مسائل نوع بہ نوع ہیں، وسائل محدود ہیں، پروڈکشن کی کھپت کہیں نظر نہیں آتی پھر بھی یہ حوصلہ امید کی ایسی کرن ہے جس سے یقین ہوجاتا ہے کہ اس ملک میں منہج سلف کا مستقبل روشن ہے اور یہاں کتاب و سنت کی صاف ستھری اور سادہ آواز سننے کے لیے بے تابی بڑھتی جارہی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ملک کی تاریخ، اس میں رونما ہونے والے واقعات، اس کی موجودہ صورت حال، مسلمانوں کے بنیادی مسائل اور ملت کے اندر پائی جانے والی فرقہ پرستی اور حزبیت کا صحیح صحیح تجزیہ کیا جائے اور ایک وسیع تناظر میں اصل پیچیدگیوں کا حل تلاش کیا جائے۔
اس وقت میرے مخاطب ملک کی سلفی جامعات کے وہ منتہی طلبہ ہیں جو سال دوسال بعد میدان عمل میں اترنے والے ہیں اور جن کے اندر مضمون نویسی کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور جنھوں نے تھوڑا بہت لکھنا شروع بھی کردیا ہے۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ ہمارے بیشتر دینی مدارس میں تصنیفی تربیت یا مضمون نگاری کا کوئی الگ سے شعبہ نہیں ہے۔ طلبہ نے اپنے بعض اساتذہ کی رہنمائی میں اپنے اس فطری ذوق کو جلا بخشی ہے اور وہ اپنے ذاتی مطالعہ سے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے قلم کی دھار مزید تیز کریں گے اور اپنے ذوق صحافت اور شوق تصنیف و تالیف کو پروان چڑھائیں گے اور پھر ان شاء اللہ عصری اسلوب میں اسلام کی ترجمانی ان کی اولین ترجیح ہوگی۔
میں نے مختلف جامعات میں تدریس کے منصب پر فائز اپنے محترم دوستوں اور اساتذۂ کرام: ڈاکٹر ارشد فہیم الدین مدنی (جامعہ ابن تیمیہ)، ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری (جامعہ سلفیہ بنارس)، مولانا نثار احمد مدنی (جامعہ اسلامیہ سنابل)، مولانا نیاز احمد طیب پوری (جامعہ محمدیہ مالیگاؤں) اور شیخ عبدالعظیم مدنی (جامعہ دارالسلام عمرآباد) سے ان طلبہ کے نام معلوم کیے ہیں جو اس وقت ہماری ممتاز جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔ اس مضمون کے اصل مخاطب وہی طلبہ ہیں۔صحافت کی ایک طویل زندگی گزارتے ہوئے جن مشکلات سے میں دوچار ہوا ہوں، جن پہلووں سے اپنے اندر کمیاں محسوس کی ہیں اور جہاں جہاں اپنی بے بسی اور بے مائیگی کا احساس ہوا ہے، وہ ساری باتیں یہاں پیش کردی ہیں تاکہ یہ سلفی طلبہ خود کو مکمل کرسکیں اور جن کانٹوں سے راستے میں الجھنا ہے، ان سے کیوں کر بچا جاسکتا ہے، اس کی پہلے سے تیاری کرلیں۔ میدان عمل میں اترنے سے پہلے دعوت دین کے فریضے سے عہدہ برآ ہونے کے اصول وآداب کی تفہیم اور وسائل و امکانیات کا تجزیہ ضروری ہے۔ آئیے پہلے چند ممتاز سلفی جامعات کے ذہین ابھرتے ہوئے قلم کاروں کی فہرست پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

جامعہ دارالسلام عمرآباد
عبدالرزاق محمد ریاض الدین، عثمان الماس سلطان عبدالعزیز، عبدالصبور ایاز احمد، ثناء اللہ شفیق رامپوری، عبدالصمد محمد عزیر، محمد حسان رشید احمد، محمد اسحاق اسلم باشا، محمد منور عالم عبدالمنان، عبدالغفار عظیم راعین، سی اے عبدالرحمن عبدالتواب، سید سعد احمد سراج احمد، محمد فیضان محمد تیمور، عبدالرحمن عبدالقدیر، محمد سیف الدین سراج الدین، ولید احمد مرزا حبیب الرحمن۔

جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم)، بنارس
اعجازالحق انوارالحق، محبوب عالم عبدالسلام، ارشاد عالم ابوالحسن، شہاب الدین کمال الدین، عبدالرحمن عالم گیر، حمود حسن فضل حق، عبدالاول عرفان علی، محمد عمر صلاح الدین، ممتاز شاہد، فیاض احمد منور حسین، آفتاب عالم شکیل احمد، عبدالعزیز کیفی۔

جامعہ اسلامیہ سنابل، نئی دہلی
حسان عبدالغفار، معاذ دانش حمیداللہ، محمد سلمان محمد ہارون، محمد آصف محمد اسماعیل، محمد یوسف امانت اللہ، عبدالباسط عبدالودود، دلشاد احمد خان محمد، نثار احمد انیس الرحمن، حبیب الرحمن عبدالرحیم، محمد نوشاد محمد زبیر۔

جامعہ محمدیہ، منصورہ، مالیگاؤں
مبارک راعین قادم میاں، لقمان صغیر مرزا، فیصل خاں مطیع الحق، ملک عنبر انیس احمد، عبداللہ محمد اجمل، امیر احمد ضمیر احمد، عبدالعلیم عبدالعزیز، محمد جمشید محمد آزاد، ابوسفیان معین الدین، عمر نصیف مقبول احمد، ولید حسین، شاکر علی اکبر علی، نعمان عرفان، سرفراز احمد محمد یوسف، محمد ساجد محمد امین، عائشہ یوسف، ذکیہ نیاز احمد، سعاد عبدالوحید، الفیہ شیخ جمیل، فائزہ شکیل، ثمرین اسلم محمد اسلم، عائشہ عبدالرحمن، خوشبو ندیٰ، شائستہ۔

جامعہ امام ابن تیمیہ، بہار
اشتیاق احمد افتخاراحمد، شمیم اختر عبدالغنی، فضیل انور اختر حسین، محبوب عالم حبیب الرحمن، ریاض اختر شفیق، گلزارعالم عبدالباری، انظارعالم ظہیرالدین، شاہنواز صادق عبد اللہ، نذیر حسین ابوسعید، کوثر تسنیم محمد مصطفی، رحمت اللہ عبدالحکیم، شکیل اختر منظار الحق، محبوب عالم فیروز عالم۔
یہ چند جامعات کے ابھرتے ہوئے باصلاحیت قلم کاروں کی ایک مختصر فہرست ہے، طوالت کے خوف سے میں نے جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو، جامعہ عالیہ عربیہ مئو، جامعہ اثریہ دارالحدیث مئو، جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر، جامعۃ الامام البخاری کشن گنج، دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ، جامعہ اسلامیہ دریاباد سنت کبیر نگر میں زیر تعلیم ابھرتے ہوئے ذہین قلم کاروں کا نام شامل نہیں کیا ہے۔ یقیناً ہماری ان جامعات میں بھی کئی ایک قلم کار ہوں گے جو مستقبل میں ایک اچھے مصنف اور کامیاب صحافی کی صورت میں ہمارے سامنے آئیں گے، ان تمام طالبان علوم نبوت سے معذرت کرتے ہوئے یہ درخواست کروں گا کہ اگرچہ آپ کا اسم گرامی اس فہرست میں شامل نہیں ہے لیکن اس مضمون کے مخاطب آپ بھی ہیں۔ آپ اپنا قلمی سفر جاری رکھیں اور مستقبل میں جماعت اور ملت کا بیش قیمت سرمایہ بن کر اس کی خدمت کریں۔ اللہ آپ کے عزائم اور حوصلوں کو بلند رکھے۔ آمین

ملت کے درد مند اور غیور نوجوانو!
آپ اس وقت جن شرعی علوم و فنون کی تحصیل میں مصروف ہیں، ان کے اغراض و مقاصد اور نتائج پر جب آپ نگاہ ڈالیں گے تو احساس ہوگا کہ اللہ کے آخری دین ’’اسلام‘‘ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ دنیا اس طرح گزاری جائے کہ وہ آخرت کی کامیابی کی ضمانت بن جائے۔ آخرت کی منزل، دنیا کی منزل عبور کرنے کے بعد ہی آسکتی ہے، دنیا کو نظر انداز کرکے آخرت کی دہلیز پر قدم نہیں رکھا جاسکتا۔ دنیا میں زندگی کس طرح گزاری جائے، اس کی تفصیلات کتاب و سنت میں موجود ہیں۔ آپ کی ذمہ داریاں دوسروں سے کہیں زیادہ ہیں، جن اسلامی تعلیمات پر آپ خود عمل پیرا ہیں، ان کی طرف دنیا کو بھی دعوت دینی ہے اور ایک بہتر سماج کی تشکیل کے لیے تاحیات سرگرم عمل رہنا ہے۔ کتاب و سنت کی اصطلاح میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسی کا نام ہے جو آپ کا ایک دائمی فریضہ ہے اور جس کی ادائیگی کے بعد ہی آپ خیر امت اور امت وسط کے القاب سے سرخ رو ہوسکتے ہیں۔
قرآن اور حدیث آپ کے سامنے ہے، اس کی تعلیمات پوری زندگی کو محیط ہیں، وقت اور حالات کی مناسبت سے ان میں تقدیم و تاخیر تو ہوسکتی ہے لیکن کسی ایک کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات میں کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں جسے موضوع بحث نہ بنایا جائے۔اسی طرح معاشرت، معیشت اور سیاست کے تمام گوشے وحی الٰہی کی گرفت میں ہیں۔ انسانی زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق ڈھالنا ہی تو اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ اسلامی تعلیمات کا اس پہلو سے مطالعہ کیے بغیر آپ کے فکر و نظر میں وسعت اور آفاقیت کبھی پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ دنیا کی دکھی انسانیت کے زخموں پر آپ مرہم رکھنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ریسرچ اور تحقیق کی موجودہ دنیا میں اسلام کے یہ تمام گوشے جو نصوص کتاب وسنت میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں، اب وہ مستقل موضوع اور مضامین کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ آپ کا مطالعہ اسلام کے ان تمام گوشوں پر فن اور موضوع کی حیثیت سے ہونا ضروری ہے تاکہ آپ پورے اعتماد کے ساتھ عصری اسلوب میں اسلام کے موقف کی ترجمانی کرسکیں اور دنیا کو دین رحمت کی طرف دعوت دے سکیں۔
بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست دکھانا آپ کی ذمہ داری ہے، اسی طرح دنیا کو بھٹکانے کے لیے جو شیاطین اور فراعنہ شب و روز ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیں، ان کو قابو میں رکھے بغیر مظلوم انسانیت کو راحت نہیں پہنچائی جاسکتی۔ رہبانیت سے جو خانقاہی نظام ہمارے یہاں در آیا ہے، اگر اس سے ظلم و ستم کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا تو بدر واحد کے معرکے سیرت نبوی کا حصہ نہیں بنتے۔ دنیا سے استعمار کے سمٹنے کے بعد اسلام اور سیاست کے باہمی تعلقات پر مشرقی ممالک میں جو مکالمہ شروع ہوا ہے، اس کے منظر اور پس منظر کا مطالعہ آپ کی دینی ترجیح ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں جو دینی لٹریچر تیار ہوا ہے، وہ لازمی طور پر آپ کے زیر مطالعہ آنا چاہیے۔ یہی مطالعہ آپ کو بتائے گا کہ موجودہ دنیا میں اصل کھیل کیا ہے، طاقت ور ممالک، کمزور ممالک کا کس کس انداز میں استحصال کررہے ہیں، اپنے افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کو دوسروں پر تھوپنے کے لیے کس قسم کی تدبیریں اختیار کررہے ہیں اور عقیدہ و فکر کے لحاظ سے مسلمانوں کو کس بات پر قانع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شاعر مشرق نے ابلیسی نظام کے علم برداروں کی سعی و جہد اور ان کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات
ملت کے ابھرتے ہوئے قلم کارو!
یہ ملک جس میں ہم رہتے ہیں اور آئینی اعتبار سے جس کے ہم ذمہ دار شہری ہیں، اس کی تہذیب اور ثقافت کی تفہیم ہماری دعوتی زندگی کی ایک اہم ترجیح ہے۔ پراچین بھارت میں دھرم کا مقام کیا تھا؟ دھرم کی بعض تعبیرات نے کس طرح انسانوں کو اونچ نیچ کے مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ہے؟اونچی ذات والوں کی نفسیات کیا ہیں؟ جن کو نیچا بنادیا گیا ہے، ان کی زندگیاں کن اذیتوں سے دوچار ہیں؟ کیرالہ میں اسلام کے آنے کے بعد یہاں کیا کچھ بدلا؟ درۂ خیبر سے ہونے والی رزم آرائیوں نے یہاں کیا اثرات مرتب کیے؟ مغلوں سے پہلے جن مسلم حکمرانوں نے یہاں حکومت کی، ان کی ترجیحات کیا تھیں؟ ایک طویل عرصے تک اس ملک پر مغلوں کی حکومت رہی، ان کے دور میں کس طرح کے واقعات رونما ہوئے اور ہندوستانی سماج پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ کم و بیش ایک ہزار سالہ مسلم حکومت میں علماء اور صوفیاء کا کیا کردار رہا؟ اسلامی دعوت کی توسیع و اشاعت کے لیے کیا جدوجہد ہوئی؟ آخری دور میں مغل حکم رانوں کی کیا حالت ہوئی اور کس طرح یہاں طوائف الملوکی پھیلی؟ انگریزوں نے اس ملک پر کس طرح غلبہ و اقتدار حاصل کیا؟ کن کن مسلم اور غیر مسلم حکم رانوں نے ان کے خلاف جنگ کی؟ ۱۸۵۷ء کا منظر و پس منظر کیا تھا؟ کس طرح ایک منصوبہ بند سازش کے تحت مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلموں کو آگے بڑھایا گیا اور پھر آزادی کی تحریکوں میں کس کا کیا اور کتنا رول رہا؟ ملک کی تقسیم کے کیا نتائج سامنے آئے؟ ہندو مسلم فسادات نے کیا تباہی پیدا کی اور آج کی تاریخ میں مسلمانوں کی سماجی، سیاسی اور معاشی صورت حال کیا ہے؟ یہاں ان کی تہذیب، ان کے تشخص اور ان کے وجود کو کیا خطرات لاحق ہیں؟ ملت اسلامیہ کی بقا اور تحفظ کے لیے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟
یہ تمام موضوعات آپ کے درس نظامی کا حصہ نہیں ہیں لیکن ان موضوعات پر آپ کی گرفت مضبوط ہونی چاہیے۔ یہی مطالعہ آپ کو بتائے گا کہ اس ملک میں اسلام کی دعوت کے امکانات کیا ہیں؟ مسلمانوں کی اندرونی اصلاح کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ مختلف فرقوں اور مسالک کو ایک دوسرے کے قریب کیسے اور کن بنیادوں پر لایا جاسکتا ہے؟ یہاں کتابوں کی ایک فہرست کی ضرورت ہے تاکہ ایک ترتیب سے آپ مطالعہ کرسکیں۔ اس سلسلے میں اپنے اساتذہ کرام سے رہنمائی حاصل کریں۔ لائبریریوں میں جائیں، کتابیں تلاش کریں۔ اگر خدانخواستہ ان موضوعات پر آپ کا مطالعہ کمزور یا ناقص رہتا ہے تو وہ حکمت عملی آپ نہیں اختیار کرپائیں گے جو اس وقت کی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اسلام کی دعوت کے لیے جس وسعت نظری اور علمی آفاقیت کی ملت کو ضرورت ہے، اس کی تکمیل کے لیے ان موضوعات کا گہرا مطالعہ درکار ہے۔

سلفی منہج فکر کے نونہالو!
اسلام امن وآشتی، انسان کے بنیادی حقوق کے تحفظ وسلامتی، عدل و مساوات اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔ نفرت و تشدد سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں، لیکن اعدائے اسلام نے ایک طویل عرصے سے اسلام کی تصویر بگاڑ رکھی ہے اور وہ کئی ایک حوالوں سے اسلام کی اساسی تعلیمات، اس کے قوانین اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم حکم رانوں کے بعض رویوں اور فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں اب خاصی شدت بھی پیدا ہوچکی ہے۔ دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں، مسلمانوں کو ایک خونخوار قوم کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ ان کو دنیا میں پھیلی موجودہ دہشت گردی کا سرغنہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس مسئلے پر اصل گفتگو تو ہماری مسلم حکومتوں کو کرنی تھی اور وہی اس خارجی دباؤ کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ بیشتر مسلم حکومتوں کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر ان کا اپنا اختیار اختلال و تشتت کا شکار ہے۔ اعدائے اسلام نے خود ان کے مابین اتنے فاصلے بنادیے ہیں کہ ان کا ایک دوسرے کے قریب آنا مشکل معلوم ہورہا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی مجبوریاں بھی سد راہ بنی ہوئی ہیں اور بہت سے غیور مسلم حکمراں چاہتے ہوئے بھی، ملت کے حق میں کچھ اچھا کرنے سے عاجز ہیں۔
ان تمام پریشانیوں کا کسی حد تک ازالہ مثبت مکالمے سے ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ معاصر دنیا اور اس کے تہذیبی، سیاسی اور معاشی نظام کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور اظہار رائے کی جس آزادی کی دنیا بات کررہی ہے، اسی راستے سے اس کے ذہن و فکر تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ہماری ایک مشکل یہ بھی ہے کہ انگریزی زبان ہماری اتنی کمزور ہے کہ ہم اس زبان میں اپنا مافی الضمیر ادا نہیں کرپارہے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں محنت کرنا پڑے گی تاکہ ہم دنیا کی اس اہم ترین زبان میں اپنی باتیں اس کے سامنے پیش کرسکیں۔ عام طور سے ہماری جامعات میں بی۔اے کی سطح تک انگریزی کی تعلیم کا انتظام ہے لیکن ہماری سستی ہمیں اس اہم زبان سے دور رکھے ہوئے ہے، عربی اور اردو کی طرح اس زبان پر بھی آپ اپنی گرفت مضبوط کریں۔ محض امتحان میں پاس ہونے کے لیے یہ زبان نہ پڑھیں بلکہ اس ارادے سے اس زبان میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ آپ صحیح معنوں میں اس زبان میں بھی اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ اسی طرح ہندی زبان اور اپنی اپنی علاقائی زبانوں پر بھی ضرورت کے تحت ہماری توجہ مطلوب ہے۔
اسلام پر ہونے والے اکیڈمک حملوں کا جواب بھی اکیڈمک انداز میں دیا جانا چاہیے۔ تاریخ کے جن حوالوں کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے، ان کی صحیح اور واقعی تصویر دنیا کے سامنے رکھنی ہے۔ علمی دنیا میں جذباتیت اور غیض و غضب سے بھرا ہوا لہجہ قطعی قابل قبول نہیں ہے۔ سامنے والا خواہ کتنی ہی سخت بات کہہ رہا ہو یا اسلام کی غلط تعبیر و تشریح کررہا ہو، اس کا جواب بڑی متانت اور سنجیدگی سے دینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ فتوے کی زبان استعمال کرکے یا بولنے والے کو محض جھوٹا کہہ کر بات نہیں بنے گی، اس کے لیے ہمارے پاس معقول دلائل ہوں، منطقی اور معروضی طرز استدلال ہو کہ مخالف کو بولنے کا موقع نہ مل سکے اور اس کے بھاگنے یا بچ نکلنے کے سارے راستے آپ بند کردیں۔ دور حاضر کا علم کلام یہی ہے۔ آپ اس پر جتنا عبور حاصل کرلیں گے، اسلام کی اتنی ہی بہترین ترجمانی کرسکیں گے۔

وطن عزیز میں سلفیت کی قندیلیں روشن کرنے والو!
ہم جس ملک میں رہتے ہیں، اس میں دو قسم کی مشکلات کا ہمیں سامنا ہے۔ ایک مشکل یہ ہے کہ ملک کے فرقہ پرست عناصر جو کبھی حاشئے پر تھے، اب وہ اقتدار میں ہیں اور ان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنادیا جائے اور سارے اختیارات سلب کرلیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ ان فرقہ پرست عناصر کے یہ منصوبے اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ملک میں اس کا آئین محفوظ ہے اور اس آئین کو باقی رکھنے والی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ سیکولر طاقتوں کو کسی بھی مرحلے میں کمزور نہیں پڑنا چاہیے بلکہ ان کو مسلمانوں کی تائید حاصل ہونی چاہیے۔ اس وقت ملک کی سیاسی صورت حال کچھ اس قسم کی بن چکی ہے کہ صوبوں کی مقامی سیاسی جماعتوں سے اشتراک اور تعاون کے بغیر مرکز میں کسی بھی سیاسی جماعت کا برسر اقتدار آنا محال ہے۔ مرکز میں حکومت بنانے کی اہلیت صرف دو سیاسی جماعتوں کے اندر ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی جماعت ہی مسلمانوں کی ترجیح ہونی چاہیے۔ ماضی میں اس سیاسی جماعت کا کردار کیا رہا ہے اور مسلمانوں کو کمزور بنانے میں اس کی پالیسیاں کتنی ذمہ دار رہی ہیں، ان باتوں پر بحث کرنے کا یہ وقت نہیں ہے، اس وقت تو اہون البلیتین کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہمیں سیکولر طاقتوں کو مضبوط بنانا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ صوبوں کی مقامی سیاسی جماعتیں زیادہ سے زیادہ اتحاد کا حصہ بنیں تاکہ اس سیاسی جماعت کو پیچھے کیا جاسکے جو ملک کے دستوری ڈھانچہ کو بدلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اہم کام کے لیے تمام مسلمانوں کا ایک پلیٹ فارم پر آنا ضروری ہے۔ اس کام میں مسلک اور فرقہ سے اوپر اٹھ کر ہمیں ایک دوسرے کا دست و بازو بننا ہے۔ کچھ کالی بھیڑیں ضرور سامنے آئیں گی اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ہماری صفوں میں انتشار پیدا کریں گی لیکن ان کو پہچاننا اور ان کو الگ تھلگ رکھنا، ہماری سیاسی بصیرت کی کامیابی ہوگی۔
اس ملک میں ہماری دوسری مشکل یہ ہے کہ یہاں مسلمان کئی فرقوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ فرقوں اور مسلکوں کو باقی رکھنے والے حضرات شب و روز اس کوشش میں مصروف ہیں کہ مسلمان صرف ان کی باتیں سنیں، صرف ان کی تیار کردہ کتابیں ان کے زیر مطالعہ رہیں، شادی بیاہ بھی صرف اپنے ہم مسلک لوگوں میں کریں، نمازیں بھی صرف اپنے مسلک کی مسجد یا اپنے مسلک کے امام کے پیچھے ادا کریں۔بعض فرقوں نے تشدد کی راہ پر چلتے ہوئے مخالف مسلک کے لوگوں کو کافر اور مشرک بھی بنارکھا ہے۔ ہر فرقے اور مسلک نے اپنی ترجیحات طے کررکھی ہیں، وہی ترجیحات ان کے دین کا سمبل اور اس کی علامت ہیں۔ اماموں کی تقلید کو ضروری قرار دیا جا چکا ہے۔ ائمہ کی تقلید سے انکار کو ضلالت اور گمراہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غیراللہ سے استغاثہ اور مردوں سے حاجت روائی کی امید ان کی توحید کے لیے چنداں مضر نہیں۔ توحید ربوبیت کو تسلیم کرنے کے باوجود توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات میں شرک کے کئی ایک مظاہر موجود ہیں بلکہ ان کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ زوروں پر ہے۔بدعات اور جاہلی رسوم و روایات نے زندگی کے تمام شعبوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ بعض فرقوں سے وابستہ افراد اسلام کے نام سے جو کام کرتے ہیں، ان سے اسلام کی تصویر خراب ہوتی ہے اور غیر مسلم دنیا یہ مسخ شدہ تصویر دیکھ کر اسلام سے متنفر ہوتی اور اسلام پر طرح طرح سے الزامات عائد کرتی ہے۔ کہنے کو تو تمام ہی فرقے اور مسالک کتاب و سنت پر عمل کرنے کے مدعی ہیں لیکن ان کے عقائد و افکار کتاب و سنت سے متعارض ہیں بلکہ انکار سنت اور تخفیف سنت کے کئی ایک مظاہر ان کے افکار و اعمال میں پائے جاتے ہیں۔
داعیان کتاب و سنت کے لیے سب سے پہلی ترجیح یہ طے کرنا ہے کہ اس قسم کے مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ اور سلوک کیا ہونا چاہیے؟ شرک اور بدعت کی گمراہیوں میں ڈوبے ان مسلمانوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جانا چاہیے؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان کو بدعتی اور مشرک قرار دے کر ان سے قطع تعلق کرلیا جائے، کسی طرح کا کوئی تال میل ان سے نہ رکھا جائے اور جس طرح سے انھوں نے جماعت اہل حدیث سے فاصلہ بنایا ہے، اسی طرح کا فاصلہ ہم بھی بنالیں؟ کیا مسئلے کا یہی حل ہے؟ ہمارے بعض علماء نظریاتی اور عملی لحاظ سے یہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں لیکن ہندوستان کے موجودہ مخصوص حالات میں علاحدگی کے اس رویے کو مناسب نہیں کہا جاسکتا۔ بدعات اور شرکیات کے کئی ایک مظاہر جہالت، غلط تاویلات اور غلط فہمیوں کی پیداوار ہیں۔ حکمت اور موعظۂ حسنہ سے متصف دعوت و تبلیغ ان سیاہ بادلوں کو چھانٹ سکتی ہے جو آج ملت کے سروں پر منڈلارہے ہیں۔برصغیر میں داعیان توحید و سنت کی یہ بڑی تعداد انہی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ جب ایک داعی کی حیثیت سے ہم ان مسلمانوں کو خطاب کریں گے تو ہماری ساری توجہ بیمار پر نہیں بلکہ بیماری پر ہوگی اور ہمارا کردار وہی ہوگا جو ایک ڈاکٹر کا اپنے مریض کے ساتھ ہوتا ہے۔ بدعتی، مشرک، کافر، منکر حدیث اور ملحد کہہ کر ہم کسی کو راہ راست پر نہیں لاسکتے۔ ظلمت و ضلالت کے داعی اور قائدین خواہ کتنی ہی سخت زبان استعمال کریں، ہمیں اسی لب و لہجہ میں جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ سامنے والا شخص ذہنی مریض ہے، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کسی طرح وہ ہماری دوا استعمال کرنے پر راضی ہوجائے۔ بسااوقات وہ زچ ہوکر ڈاکٹر پر ہاتھ بھی اٹھا سکتا ہے، اسے برا بھلا بھی کہہ سکتا ہے اور اس کی دوا کو ردی کی ٹوکری میں بھی ڈال سکتا ہے لیکن ہمیں کسی بھی مرحلے میں کوئی ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا ہے کہ اسے بھاگنے کا کوئی محفوظ راستہ مل جائے۔ قرآن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بعد صبر کرنے کی جو تلقین کرتا ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے۔ پرستاران ظلمت و ضلالت غصہ سے لال پیلے ہوکر ہماری دین داری کا مذاق اڑائیں گے، ہمارے اکابرین کو برا بھلا کہیں گے، طرح طرح کے الزامات عائد کریں گے لیکن جواب میں ہم یہ نہیں کرسکتے کہ ان کی دین داری کا مذاق اڑائیں، ان کے اکابرین کی پگڑیاں اچھالیں اور ان پر قسم قسم کے الزامات عائد کریں۔ اگر ترکی بہ ترکی ہم نے جواب دیا تو ہم داعی نہ بن کر مناظر بن جائیں گے اور مناظرانہ طرز عمل دعوت و تبلیغ کے لیے ہرگز مفید نہیں ہے۔ وقت اور حالات مذہبی مناظرہ بازی کی اجازت نہیں دیتے۔
دعوت و تبلیغ کے لیے ایک خاص بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہیے، وہ یہ کہ امتی خواہ کیسی ہی موثر تبلیغ کرے، وہ کسی پر اتمام حجت کا دعوی نہیں کرسکتا۔ یہ خصوصیت انبیائے کرام کی ہے۔ اتمام حجت صرف انہی کے ہاتھوں ممکن ہے اور پھر قدرت کی طرف سے مدعو قوم کا فیصلہ کردیا جاتا ہے لیکن اس طرح کا مقام کسی امتی کو حاصل نہیں ہے۔ جس طرح انبیائے کرام کو داروغہ نہیں بنایا گیا ہے، کسی امتی کو داروغہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ داعی کا کام صرف یہ ہے کہ صحیح بات مدعو تک پہنچادے، اس کے دل کی دنیا بدلنے کا کام اللہ کا ہے۔ داعی صرف مدعو کی ہدایت کے لیے دعا کرسکتا ہے، اس سے زیادہ کا وہ مکلف نہیں ہے۔ ایسی صورت میں قبیح نوعیت کا رد عمل اسلامی دعوت کے زریں اصولوں سے متعارض ہے۔ مدعو قوم کو کسی بھی حال میں بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاسکتا۔
داعی کے اندر ہم دردی کا جذبہ پایا جاتا ہے، مدعو کی خیرخواہی اسے مطلوب ہوتی ہے، وہ پوری اپنائیت اور محبت سے اسے مخاطب کرتا ہے، اس کی زبان میں حلاوت اور مٹھاس ہوتی ہے، اس پر وہ طنز نہیں کرتا، اس کے غیر مہذب طرز تخاطب اور کمزور انداز گفتگو کو زیر بحث نہیں لاتا، اس کی لفظی غلطیوں اور اس کے سہو و نسیان کو اس کی زبان بند کرنے کا حیلہ نہیں بناتا، مدعو کے اندر پائی جانے والی تمام کمزوریوں اور گمراہیوں کو بتدریج دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے اپنے قریب آنے کا موقع دیتا ہے، آڑے اور مشکل وقت میں اس کے کام آتا ہے۔ ہمیشہ اسے یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کون سا ایسا کام کیا جائے کہ اپنے مخاطب کے دل میں جگہ بنانے میں کامیابی مل سکے۔ اپنے آس پاس کے ماحول کا اسے علم ہوتا ہے اور گردوپیش کی آبادی میں رونما ہونے والے واقعات پر اس کی گہری نظر ہوتی ہے۔ وہ خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے لیے ہمیشہ خود کو تیار رکھتا ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل میں اس کی شمولیت ہوتی ہے۔ وہ بیماروں کی عیادت کرتا، بیواؤں کی خبر گیری کرتا اور یتیموں کا سہارا بنتا ہے۔ وہ صرف وعظ نہیں سناتا بلکہ اپنے سامعین کے دکھ درد کا ساتھی بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے مخالفین سے انتقام نہیں لیتا بلکہ کسی مرحلے میں اگر وہ مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے کام آتا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی داعیانہ زندگی میں اسوۂ نبوی اور صحابہ کرام کے طرز عمل سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اسلامی تراث میں موجود دعوت و عزیمت کے تمام واقعات اس کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ اپنے محترم اسلاف کی سیرت سے وہ رہنمائی حاصل کرتا ہے۔

مستقبل میں سلفیت کے چاند ستارو!
اگر آپ نے اپنی تاریخ نہیں پڑھی ہے تو تیار ہوجائیے، ابھی آپ کے پاس وقت ہے۔ برصغیر میں اہل حدیث فکر کو جن شخصیات نے علمی بنیادیں فراہم کی ہیں اور یہاں پر موجود مختلف رجحانات کے حامل مسلمانوں کے درمیان اس کا فرق و امتیاز جن حضرات نے بیان کیا ہے، ان میں نمایاں شخصیات کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
شاہ محمد اسماعیل شہید، سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا حافظ عبداللہ غازیپوری، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا ابومحمد ابراہیم آروی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمن مبارک پوری، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا نذیر احمد املوی، مولانا عبیداللہ رحمانی، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، مولانا عبدالحمید رحمانی وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین۔
ان محترم علماء کی کتابیں، ان کے فتاوی، مضامین اور مقالات تفصیل سے پڑھیں۔ ان سے نہ صرف اہل حدیث کا منہج سامنے آئے گا بلکہ برصغیر کی دینی فضا اور اس کا ماحول بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ان کے علاوہ جماعت اہل حدیث کی تاریخ، اس سے وابستہ مختلف شخصیات کے سوانحی خاکے اور تراجم کا بھی مطالعہ ضروری ہے، اسی سے برصغیر میں موجود فکری انحرافات، بدعات و رسوم جاہلیت اور دعوت و تبلیغ کی مشکلات اور ماضی میں علمائے حق کی قربانیوں کا علم ہوسکے گا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی تمام کتابیں اگر ہم پڑھ سکیں تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے، ان میں وہ سب کچھ موجود ہے جو موجودہ دور میں ہماری ضرورت ہے۔
سلفی منہج یا اہل حدیث فکر و عقیدہ کے خلاف جو مواد جہاں جہاں اور جس کسی کے یہاں پایا جاتا ہے، اس سے ٹھیک ٹھیک واقفیت ضروری ہے، محض سنی سنائی باتوں پر یقین و اعتماد کرنا غیر علمی رویہ ہے۔ تقلید اعمی پر اگر گفتگو کرنی ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے داعی اپنے حق میں کیا دلائل دیتے ہیں، شرکیات اور بدعات کو فروغ دینے والے اپنے ان معتقدات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کتاب وسنت کی کن کن نصوص کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی اصل غلط فہمیاں کیا ہیں۔ انکار حدیث، تخفیف حدیث اور حدیث کے مستقل حجت شرعی کے تعلق سے بعض گروہوں کے یہاں جو اشکالات موجود ہیں، ان کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام کی حرمت، تقدس اور فہم دین میں ان کی بصیرت کے تعلق سے جو شبہات اہل تشیع نے پیدا کیے اور بہت سے سنی حضرات جن سے متاثر ہوئے، ان کی حقیقت کو علمی انداز میں پیش کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں میں جو فرقے پائے جاتے ہیں، ان کی اصل کمزوریاں کیا ہیں، پانی کہاں مررہا ہے اور کتاب و سنت کو اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر تسلیم کرنے کے باوجود ان کی یہ کمزوریاں دور کیوں نہیں ہو پارہی ہیں، ان کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ فرقوں اور مسلکوں کے خلاف جب کوئی تحریر یا کتاب لکھی جائے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دلائل پیش نظر ہوں، شخصیات کم سے کم زیر بحث آئیں، افکار و نظریات کو ٹارگیٹ کیا جائے اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلوب مکمل طور پر داعیانہ ہو، داروغہ بن کر جو تحریر لکھی جائے گی، اس میں اعتدال و توازن ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا اور وہ تھوڑے دنوں بعد ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جائے گی۔ اسی طرح غیض و غضب کے زیر اثر جو تحریر وجود میں آئے گی، اس میں انصاف کے تقاضوں کی رعایت مفقود ہوگی۔
جو کچھ لکھا جائے، اس میں زبان اور اسلوب کی تمام خوبیاں موجود ہونی چاہئیں۔ عالمانہ تحریر میں متانت ہوتی ہے، سنجیدگی ہوتی ہے، ثقاہت سے گرے ہوئے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے اور نہ مخالف کے اکابرین کو نشانۂ تنقید بنایا جاتا ہے۔ زبان سادہ اور صاف ستھری ہونی چاہیے، بھاری بھرکم الفاظ تحریر کے اثرات کو ضائع کردیتے ہیں، مشکل الفاظ سے بچنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ مخاطبین کی ذہنی اور علمی سطح پیش نظر ہو تو تحریر خود بخود آسان اور موثر ہوتی چلی جائے گی۔ اردو تحریر خالص اردو میں لکھی جائے، اس میں غیر ضروری طور پر دوسری زبانوں کے ایسے الفاظ کا استعمال جو اردو میں مروج نہیں ہیں، غیر مناسب ہے۔ اردو املا، اردو قواعد اور اردو الفاظ کی ساخت اور تراکیب پر اب کئی ایک کتابیں بازار میں ملتی ہیں، ان میں سے چند مستند کتابیں ہمارے پاس رہیں تو بہتر ہے تاکہ تذکیر و تانیث، معطوف اور معطوف علیہ، صفت و موصوف اور مضاف و مضاف الیہ، محاوروں اور ضرب الامثال کی پیشکش میں جو غلطیاں اردو تحریروں میں پائی جاتی ہیں، ان سے بچا جاسکے۔ ہمارے دینی مدارس بہ حیثیت زبان کے اردو نہیں پڑھاتے۔ مکتب تک جو اردو پڑھائی جاتی ہے، وہ ناکافی ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ تمام جماعتوں میں ہفتے میں ایک پیریڈ اردو زبان کا بھی رکھ دیا جاتا اور استاذ اپنے محاضرات کے ذریعے اردو زبان کی نزاکتوں، اس کی باریکیوں اور اس کے محاوروں سے طلبہ کو واقف کراتا رہتا۔ اس کے علاوہ جو اہل زبان ہیں، ان کی کچھ تحریریں بھی زیر درس آجاتیں اور ان کے اسلوب سے طلبہ کی ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوجاتی۔ اگر مدارس میں کسی وجہ سے یہ انتظام نہیں ہوپاتا ہے تو آپ اپنے طور پر اردو ادب کا مطالعہ کریں۔ زبان اچھی ہو تو قارئین پر اس کے اچھے اثرات پڑتے ہیں اور اچھی زبان سیکھنے کے لیے اہل زبان سے قربت اور ان کی تحریروں سے ذہنی مناسبت پیدا کرنا ضروری ہے۔

وطن عزیز میں مسلک اہل حدیث کے پاسبانو!
بغیر کسی تحفظ کے کتاب و سنت کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو اہل حدیث کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے جسے طائفۂ منصورہ اور فرقۂ ناجیہ کہا ہے، اس کی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اس شاہراہ مستقیم پر گامزن ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ چلتے رہے ہیں۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاقیات میں وہ مکمل رہنمائی نصوص کتاب و سنت سے حاصل کرتے ہیں۔ اسلامی تراث سے وہ استفادہ ضرور کرتے ہیں لیکن نبی اکرم ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے کی آنکھ بند کرکے تقلید نہیں کرتے اور نہ کسی کے ذہنی تحفظات کے اسیر بنتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی تمام دینی شخصیات کا احترام و اکرام کرتے ہوئے، ان کی دینی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی مغفرت اور کامیابی کے لیے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ مسلک اہل حدیث کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ورثے میں مل جائے بلکہ ایک خاص قسم کی صفت ہے جو اگر پیدا نہ ہو تو دوسرے عام مسلمانوں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس ملک میں موجود اہل حدیثوں میں بلا شبہ شرک و بدعت کے جراثیم نہیں پائے جاتے لیکن اسلام کے دوسرے شعبوں میں ان کی کمزوریاں اور کوتاہیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ عبادات، معاملات اور اخلاقیات کے پہلو سے بھی اپنے عوام کی تربیت کریں اور انھیں بتائیں کہ نماز میں سستی اور کوتاہی ایک سنگین جرم ہے، زکوۃ کی عدم ادائیگی بڑے خسارے کا سودا ہے، رمضان کے روزوں میں کوتاہی ناقابل معافی ہے اور وسائل کی فراہمی کے باوجود حج بیت اللہ نہ کرنا ایک غیر مومنانہ عمل ہے۔ اسی طرح حلال و حرام کمائی کے درمیان فرق نہ کرنا ساری عبادات کو کھاجائے گا، سود اور رشوت کلی طور پر حرام ہے، وراثت میں اسلامی قوانین کی رعایت نہ کرنا ایک غیر اسلامی رویہ ہے۔ حق گوئی، راست بازی، ایمان داری اور امانت داری ایک مومن کی شان ہے۔ بندوں کے حقوق اگر ادا نہیں کیے جائیں گے تو آخرت میں نجات مشکل ہوجائے گی۔ مختصر یہ کہ اس ملک میں دین اسلام کے صحیح ترجمانوں کی زندگیاں مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلی رہنی چاہئیں۔ اس کے لیے برابر کوشش کی جائے اور مسلک سے وابستہ افراد کو دیکھ کر دوسرے لوگ کہہ سکیں کہ ہاں یہ صحیح معنوں میں کتاب و سنت کی پیروی کرنے والے ہیں۔ ہمارے یہاں جن جن پہلووں سے کوتاہیاں پائی جارہی ہیں، ان کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنے ہم مسلک افراد کے درمیان ہمیشہ دوسروں پر خشت باری کوئی اچھی بات نہیں ہے، اسی طرح اپنی کوتاہیوں کو موضوع بحث نہ بنانا اور ان پر پردہ ڈالے رہنا اپنے گھر کو برباد کردے گا۔ دوسرے مسالک کے سلسلے میں مسلسل منفی باتیں بھی ہمارے اپنے لوگوں کا ذہنی توازن بگاڑ رہی ہیں۔
آخر میں ایک بات موبائل کے تعلق سے عرض کرنی ہے۔ بہت سے طلبہ غیر ضروری طور پر اس میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ابھی آپ زندگی کے جس مرحلے میں ہیں، اس میں اس کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ واٹس ایپ، فیس بک اور ٹیوٹر پر اپنا پرسنل اکاؤنٹ بنانا ضروری نہیں ہے۔ صرف ضرورت کے لیے اس الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کریں۔ مدرسے کے کیمپس میں اساتذہ کی رہنمائی میں انٹرنیٹ کا استعمال مفید ہے لیکن وہ بھی اس وقت جب آپ کی تعلیم خاص مرحلے میں پہنچ چکی ہو۔ سوشل میڈیا پر دوچار جملوں کا تبصرہ اور وہ بھی ناشائستہ انداز میں بہت زیادہ مضر ہے، اس سے اجتناب کریں۔الیکٹرانک میڈیا پر غیر معمولی مصروفیت آپ کی کتب بینی اور ذوق مطالعہ کو متاثر کرے گی اور میدان عمل میں بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے مطالعہ میں جس وسعت اور گہرائی کی ضرورت ہے، اس سے آپ محروم رہ جائیں گے۔
تحریر کافی طویل ہوگئی۔ اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ آپ نے ابھی قلم سنبھالا ہے، جلد ہی وہ وقت آجائے گا جب آپ ملت و جماعت کی آنکھوں کا تارہ ہوں گے، ابھی آپ کے پاس کچھ وقت باقی بچا ہے، اس میں اپنی کمیوں اور کمزوریوں کو دور کریں اور اپنے اساتذہ کی نگرانی اور رہنمائی میں آگے بڑھیں۔ ہمارے یہ دینی مدارس ملت کا عظیم سرمایہ ہیں اور آپ اس کا حاصل ہیں۔ ملت کے خوابوں کی تعبیر بن کر اس ملک میں عزت نفس اور خودداری کی زندگی گزاریں، عام مسلمانوں اور دوسرے عام انسانوں کے لیے رحمت بن کر دکھائیں۔ قناعت پسندی کی عادت ڈالیں۔ دولت کی لالچ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اگر آپ بھی لکھ پتی اور کروڑ پتی بننے کی قطار میں کھڑے ہوگئے تو پیٹ کی آگ کبھی نہیں بجھے گی اور پھر دنیا کو صحیح راستہ کون دکھائے گا۔
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہم سب کو اپنے دین کی صحیح طریقے سے خدمت کرنے کی ہمت دے اور ہمیں اللہ نے جس منصب جلیل پر فائز کیا ہے، اس کی عظمت کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

12
آپ کے تبصرے

3000
10 Comment threads
2 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
11 Comment authors
newest oldest most voted
ابو عفاف

ماشاءاللہ شیخ محترم۔ اللہ آپ کو امت کیلیے مزید نافع بنائے۔ اس مضمون میں ایک طالب علم کیلیے مکمل راہنمائی موجود ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مزید اور مسلسل راہنمائی کرتے رہیں۔ یہ خیال ہی کتنا خوبصورت ہے کہ ہم طلبہ کیلیے باقاعدہ لکھنے اور مسلسل لکھنے کیلیے آپ مواد فراہم کررہے ہیں اور باقاعدہ اصولوں کو سامنے رکھ کر لکھنے والوں کیلیے میدان بنا رہے ہیں۔

عبدالعلیم الجامعی

آمین۔
یقینا یہ کلمات ہم طالبان علوم نبویہ کے لئے مشعل راہ ہیں،ان الفاظ وجملوں پر مبنی بیش بہا اور قیمتی نصیحتوں پر عمل درامد ہم کو دینی،دنیاوی،اخلاقی،معاشرتی،انفرادی،اجتماعی،دعوتی،رفاہی الغرض تمام شعبہ حیات میں بہتر بنانے کے لئے کافی ہے۔
اللہ تعالیٰ شیخ محترم کو مزید مہمیز لگانے والا اور ہم کو اس پر عمل کرنے والا بنائے۔

شفاءالرحمن

ماشاء اللہ بہت خوب اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

ریاض الدین مبارک

ماشاء اللہ بہت عمدہ اور ضروری نصیحتیں! پہلی بار دیکھا کہ کسی قلمکار نے پورے خلوص اور ایمانی جذبے کے ساتھ اپنی تحریر میں طلبہ کو مخاطب کیا اور بیش بہا نصیحتوں سے نوازا! اس سمت میں مولانا کا یہ انداز بہت ہی عمدہ اور لائق ستائش ہے! مولانا سے امید ہے کہ مستقبل میں بھی اس طرح کے مفید مشوروں سے طلبہ کو نوازتے رہیں گے۔ اس مضمون میں طلبہ کے ساتھ ساتھ مدارس کے منتظمین کو بھی راہ دکھائی گئی ہے کہ بچوں میں تحریری اور تقریری صلاحیتیں پروان چڑھانے کے لئے زبان کا ادراک اور اسکی لطافتوں… Read more »

Kashif Shakeel

ماشاءاللہ شیخ محترم
نوجوان سلفی قلم کار آپ کی قیادت میں انشاءاللہ کامیابی کے مراحل طے کریں گے۔
اللہ آپکو جزائے خیر دے

ایم اے فاروقی

محترم رفیق صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد
تحریری ذوق رکھنے والے بچوں کو چاہیے کہ مولانا سے رابطے میں رہیں، آپ سے بھر پوراستفادہ کریں ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کنواں پیاسے کے پاس چل کر آئے
مولانا کا یہ مضمون صرف مضمون ہی نہیں ہے بلکہ رہنما اصول ہیں ، مشعل راہ ہے،

برکت اللہ محمدی مدنی

رہنمائی کے شکریہ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار کرے آمین یا رب العالمین

Abdul Noor Sanabli

جزاك الله خيرا
عبد النور سنابلي مقيم جبيل مملكت سعودی عرب

رفیق احمد رئیس سلفی (علی گڑھ)

مضمون پر اظہار خیال کرنے والے تمام ذی احترام علما اور قلم کار احباب کا شکریہ۔آنے والی ہماری نسلیں نہ صرف ہمارا سرمایہ ہیں بلکہ ان کی کامیابی اس بات کی علامت ہے کہ جانے والوں نے آنے والوں کے لیے راستے ہموار کردیے تھے۔ملک کی موجودہ فضا میں ہم اپنے بچوں کو بہت کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن ان کی ذہن سازی تو کر ہی سکتے ہیں،ذمہ داری سے اپنے تجربات اور مشاہدات کو آنے والی نسلوں تک منتقل کردینا بہت بڑا فریضہ ہے۔مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ مضمون پڑھا گیا،اس پر کچھ ایسی… Read more »

ڈاکٹر عزیر احمد

اللہ آپ کو جزائے خیر دے، بہت عمدہ نصیحتیں ہیں۔ امید کہ ہمارے نوجوان قلمکار اس سے مستفید ہوں گے۔

خطاط خلیل کرناٹکی جامعی‘ بلاری

رہنمائی کے لیے ہدیہ تشکر کے ساتھ دعا گو بھی ہوں‘ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار کرے۔۔ آمین یا رب العالمین

خطاط خلیل کرناٹکی جامعی‘ بلاری

اس حد تک رہنمائی کے لیے ہدیہ تشکر کے ساتھ دعا گو بھی ہوں‘ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار کرے۔۔ آمین یا رب العالمین