والدین کی وفات کے بعد

رفیق احمد رئیس سلفی

 

عَنْ أَبِي أَسِيدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَاعِدَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللّٰهِ ! إِنَّ أَبَوَيَّ قَدْ هَلَكَا ، فَهَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّهِمَا شَيْءٌ أَصِلُهُمَا بِهٖ بَعْدَ مَوْتِهِمَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، بِأَرْبَعَةِ أَشْيَاءَ : الصَّلاةُ عَلَيْهِمَا ، وَالاسْتِغْفَارُ لَهُمَا ، وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِمَا ، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا ، وَصِلَةُ رَحِمِهِمَا الَّتِي لا رَحِمَ لَكَ إِلا مِنْ قِبَلِهِمَا . قَالَ : مَا أَكْثَرَ هٰذَا وَأَطْيَبَهُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ ،قَالَ : فَاعْمَلْ بِهِ ، فَإِنَّهٗ يَصِلُ إِلَيْهِمَا .
“سیدناابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبیلۂ بنوساعدہ کا ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میرے والدین وفات پاچکے ہیں، کیا ان کی وفات کے بعد بھی حسن سلوک کی کوئی صورت ہے جو میں کر سکوں؟ آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہاں، چار چیزیں ہیں جن کے ذریعے تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرسکتے ہو:
(1) اللہ سے ان پر رحم فرمانے کی درخواست اور ان کے لیے دعائے مغفرت۔
(2) وفات کے بعد ان کے ان وعدوں کی تکمیل جو انھوں نے اپنی زندگی میں کیے تھے۔
(3) ان کے دوستوں کی تکریم واحترام۔
(4) ان کے ان رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی جن سے تمھارا رشتہ صرف انھیں کی وجہ سے ہے۔
آپ ﷺ کا جواب سن کر اس شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ تو حسن سلوک کی بہت سی صورتیں ہیں اور بہت عمدہ بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: حسن سلوک کی ان صورتوں پر عمل کرو، ان کا ثواب تمھارے والدین کوملے گا”۔
والدین اور اولاد کے درمیان جو رشتہ ہے وہ فطری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ رشتہ قائم کیا ہے اور اسی نے ان کے درمیان الفت ومحبت پیدا کی ہے۔ سعادت مند اولاد زندگی بھر اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے، ان کی اطاعت وفرماں برداری کرتی ہے، ان کی کڑوی باتوں کا بھی برا نہیں مانتی اور ان کی ضعیفی وبیماری میں ان کے لیے مضبوط سہارا بن کر کھڑی رہتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں والدین اور اولاد کے حقوق وفرائض پر بڑی مفصل بحثیں ملتی ہیں۔ ہماری دینی مجالس اور اجتماعات میں بھی خطباء اور مقررین ان باتوں پر زور دیتے ہیں اور معاشرے کو پرامن بنائے رکھنے کے لیے اس کو ضروری قرار دیتے ہیں۔
والدین دنیا میں ہمیشہ نہیں رہتے- کبھی ان کی وفات ضعیفی کی عمر میں ہوتی ہے اور کبھی اس سے پہلے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔دونوں صورتوں میں سعادت مند اولاد کے دل میں یہ خواہش رہتی ہے کہ کاش ان کی خدمت کرنے کا کچھ اور موقع مل جاتا لیکن اللہ نے ہر ایک کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے اور وہ اسی مقررہ وقت پر دنیا چھوڑ جاتا ہے۔ والدین کی تربیت سے فیض یاب سعادت مند اولاد کےدل میں ابھرنے والی اس فطری خواہش کی تکمیل زیر مطالعہ حدیث میں کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور کئی ایک کام ایسے ہیں جن کو انجام دے کر ان کی نیکیوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور انھیں ثواب پہنچایا جاسکتا ہے۔صحابی رسول نے جب آپ سے یہ سوال کیا کہ والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ نیکی کرنے کی کوئی صورت ہے تو آپ نے نفی میں نہیں بلکہ اثبات میں جواب دیااور انھیں بتایا کہ والدین کو ثواب پہنچانے کی کئی ایک صورتیں ہیں۔
اس حدیث سے ایک اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بندے کے کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب اسے وفات کے بعد بھی ملتا ہے۔نیک اور صالح اولاد بھی ان میں سے ایک ہے۔ اولاد انسان کی کمائی ہے جس طرح ایک شخص کو اپنی کمائی سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے، اسی طرح والدین کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اس اولاد سے فیض حاصل کریں جس کی ولادت، پرورش اور تعلیم وتربیت میں انھوں نے اپنی پوری زندگی لگا دی ہے۔قرآن مجید کی بعض آیات کی من مانی تفسیر کرکے بعض حضرات کا یہ دعوی درست نہیں ہے کہ انسان کو صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کا اجر ملے گاـ سوال یہ ہے کہ کیا نبی اکرم ﷺ کے سامنے یہ آیات نہیں تھیں، پھر کیوں آپ نے وفات کے بعد بھی اس کے بعض اعمال کے تعلق سے یہ بات ارشاد فرمائی کہ اسے فلاں فلاں کاموں کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔ اگر غور کیا جائے تو اس مسئلے میں قرآن اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اولاد کی دعائیں اور ان کی صالحیت ان کے والدین کے ثواب میں اضافے کا موجب ہیں اور اولاد انسان کی اپنی کمائی اور زندگی کا حاصل ہے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ مسلم معاشرے میں کسی کے انتقال کے بعد جو رسمیں مروج ہیں، ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ جیسے قرآن خوانی، تیجہ، دسواں اور چالیسواں وغیرہ۔ آپ ﷺ نے چند متعین صورتیں بتائی ہیں، ہمیں چاہئے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہدایات پر عمل کریں اور صرف وہی کام کریں جن کے کرنے کا آپ ﷺ نے حکم دیا ہے۔ سوال کرنے والے صحابی کے جواب پر غور کریں کہ انھوں نے نبی اکرم ﷺ کی باتیں سن کر کہا کہ یہ تو ثواب پہنچانے کے مقصد کے لیے کافی ہیں اور بہت اچھی ہیں۔افسوس ! آج ہم نہ ان باتوں پر عمل کرتے ہیں اور نہ ان کی اہمیت سمجھنے کے لیے تیار ہیں البتہ بدعات اور رسومات کے سلسلے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ یاد رکھیں ! بدعت صرف ضلالت اور گمراہی ہے، اسے کسی اجتہاد اور منطق سے سنت نہیں بنایا جاسکتا۔ اللہ امت کے علماء پر رحم فرمائے اور وہ صحیح دین اور شریعت عوام تک پہنچائیں۔
اب آئیے ان چاروں صورتوں پر ایک سرسری نظر ڈال لیں جن سے والدین کو ان کی وفات کے بعد بھی ثواب پہنچتا ہےـ پہلی بات نبی اکرم ﷺ نے یہ فرمائی کہ اللہ سے ان پر رحم فرمانے کی درخواست اور ان کے لیے دعائے مغفرت۔ یعنی والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی جائے۔ دعا دل سے کی جاتی ہےـ اولاد جس محبت، عاجزی اور آہ وزاری کے ساتھ اپنے والدین کے لیے دعا کرسکتی ہے، دنیا میں کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا۔ جو لوگ چالیسویں کی بدعت میں شریک ہوکر گرم گرم روٹیوں اور صحت مند بوٹیوں کی مانگ کریں، کیا ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آپ کے والدین کے لیے عاجزی کے ساتھ دعا کریں گے۔ افسوس! شیطان نے کتنی بڑی گمراہی میں ہمارے ناخواندہ اور دین سے ناواقف مسلمانوں کو مبتلا کررکھا ہے۔ وہ اسے دنیا کا سب سے بڑا کارخیر سمجھتے ہیں اور والدین کی محبت اور ان سے تعلق کا ایک بڑا مظہر قرار دیتے ہیں۔ اہل وعیال غربت سے دوچار ہیں، ان کی تعلیم کے لیے پیسہ نہیں ہے لیکن والدین کی وفات کے بعد ان کو ثواب پہنچانے کے لیے برادری اور دوست احباب کی دعوت ضرور کریں گے خواہ اس کے لیے قرض ہی نہ لینا پڑے۔
دوسرا طریقہ نبی اکرم ﷺ نے یہ بتایا کہ وفات کے بعد ان کے ان وعدوں کی تکمیل جو انھوں نے اپنی زندگی میں کیے تھے۔ اسلام میں ایفائے عہد کی سخت تاکید کی گئی ہے اور اسے اہل ایمان کی ایک اہم صفت قرار دیا گیا ہے۔ بسااوقات ایک شخص اپنے کیے ہوئے وعدے کی تکمیل کا پختہ ارادہ رکھتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے، اس کی مہلت حیات ختم ہوجاتی ہے۔ بعض وعدوں کا تعلق دوسرے انسانوں کے حقوق سے ہوتا ہے۔ اگر وہ ادا نہ ہوئے تو انسان کی آخرت تباہ ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اب اگر والدین یا دونوں میں سے کسی ایک نے کوئی وعدہ کررکھا ہے اور اس کی ادائیگی نہیں ہوپائی ہے تو سعادت مند اولاد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ماں باپ کے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کردے۔اس سے انھیں ثواب بھی ملے گا اور وہ آخرت کی جواب دہی سے محفوط بھی رہیں گے۔
تیسرا طریقہ نبی اکرم ﷺ نے یہ بتایا کہ ان کے دوستوں کی تکریم کی جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔اولاد کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ وہ کون سے لوگ ہیں، جن سے ان کے والد محبت کرتے تھے، جن کو عزیز رکھتے تھے اور جن کی ہر خوشی اور غم میں برابر شریک ہوتے تھے۔اسی طرح اولاد یہ بھی جانتی ہے کہ ہماری والدہ کی کون کون سی سہیلیاں تھیں ،جن کو وہ عزیز رکھتی تھیں اور جن سے ان کا برابر ملنا جلنا رہا کرتا تھا۔اب جب کہ والدین کا انتقال ہوچکا ہے، بچوں کو چاہئے کہ والد کے دوستوں اور والدہ کی سہیلیوں کا احترام کریں اور ان کو وہی عزت اور مقام دیں جو ان کے والدین انھیں دیتے تھے۔ انھیں اپنا سرپرست سمجھیں اور اپنی تمام خوشیوں میں ان کو شریک کیا کریں۔ اولاد کے اس طریقۂ کار کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ ان کے والدین کا ذکرخیرکرتے رہیں گے اور اپنی دعاؤں میں انھیں یاد رکھیں گے۔
والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ نیکی کرنے کا چوتھا طریقہ نبی اکرم ﷺ نے یہ بتایا کہ ان کے ان رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی جن سے تمھارا رشتہ صرف انھیں کی وجہ سے ہے۔والد کے بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں اور بھانجیوں کے ساتھ وہی رشتہ رکھنا چاہئے جو والد کا تھا۔ والد جس طرح اپنے ان قریبی عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کیا کرتے تھے، اولاد بھی صلہ رحمی کے اس سلسلے کو باقی رکھے۔ اسی طرح والدہ اپنے بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں اور بھانجیوں کے ساتھ جس طرح شفقت ومحبت سے پیش آتی تھیں، وہی شفقت اور محبت اولاد بھی اپنی والدہ کے ان عزیزوں کے ساتھ کرتی رہے۔
صلہ رحمی ایک خاص اصطلاح ہے۔اس میں غریب رشتے داروں کی مدد اور ان کے ساتھ حسن سلوک بھی شامل ہے اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شرکت بھی شامل ہے۔ صلہ رحمی یہ بھی ہے کہ ان کے لیے اچھا سوچا جائے ۔ ان کے بچوں کا خیال رکھا جائے اور کاروباری معاملات میں انھیں صحیح مشورہ دیا جائے۔ لیکن عصبیت میں گرفتار ہو کر ان کے ظلم اور گناہ کے کاموں میں ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کے ساتھ خیر خواہی یہ کی جائے کہ انھیں ظلم اور گناہ سے دور رکھا جائے۔

حاشیہ:
1۔ (المسند لأحمد497-498/3، رقم الحدیث :16004، سنن أبی داود، رقم الحدیث:5142، سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:3664۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ ملاحظہ کریں: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ، رقم الحدیث:597، لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے الفتوحات الربانیۃ (106/4) میں اس حدیث کو حسن کہا ہے، شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے: اس کی سند میں علی بن عبید ہے، جسے ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور ابن حجر نے مقبول قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے بعض شواہد ہیں جو اس کی صحت پر دلالت کرتے ہیں۔(حاشیۃ بلوغ المرام،رقم الحدیث :779 )، مسند احمد کے محقق نے بھی اس کی سند کو حسن لکھا ہے۔)

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Zia

Assaalam U Alikum Brother
I would be grateful if you could kindly send me this article in word or allow me to copy I .want to share it with my friends This is a great artical

Zia

Assaalam U Alikum Brother
I would be grateful if you could kindly send me this article in word or allow me to copy I .want to share it with my friends This is a great artical

Zia

Assaalam U Alikum Brother
I would be grateful if you could kindly send me this article in word or allow me to copy I .want to share it with my friends This is a great artical