نہ خوف تیرگی ہوگا نہ فکر روشنی ہوگی

سعد احمد

خاص ذہنیت والے خاص ذہنیت ہی پیدا کرتے ہیں چاہے وہ اچھائی سے متعلق ہو یا برائی سے۔ نقائص اور عیوب کا موضوع جس سوچ کا محور ہو وہ خصائص اور موجبات پہ کیوں کر توجہ دے گی۔ بعض لوگ اصلاح پہ مبنی عقلی امکانیات کو بے مقصد اور بے وجہ بتاتے ہیں۔ غالباً ان کا یہ گمان ہوتا ہے کہ آنے والی تمام باتیں شیطانی راستوں سے ہی آرہی ہیں۔ ان کا یہ گمان کس چیز پہ مبنی ہے یہ اولی النُھٰی ہی اگر موجود ہوں تو بتا سکتے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ دینی حلقوں کا رجحان ہے اور یہ اب عام رجحان ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ کچھ  بھی ہو ہم دین کی ہی بات کرنا چاہیں گے۔
دین کا ایک مضبوط تصور ہے۔ یہ دینی تصور آلام اور ہموم سے پاک اور منفی لواحقات کو بھی خاطر میں لانے کے خلاف ہے۔ لہذا اصل تصور سے واقفیت رکھنے والا دیندار بھی خوش، ہشاش بشاش رہتا ہے۔ مگر دینی تصور کی معرفت جس قدر عوام الناس میں پھیلتی ہے مزید کئی رنگ نکھر کر آتے ہیں۔ کوئی اس تصور کی وجہ سے اپنی زندگی کو خوش کن بناتا ہے۔ کوئی اپنی بود و باش کو، کوئی اپنے اطراف کو اور کوئی اس تصور سے مکمل طور سے معاشرت کو ہی قرینہ فراہم کردیتا ہے۔ دین کا تصور جس تیزی سے روشن دماغوں میں داخل ہوتا ہے اسی تیزی سے ایک ایسی جماعت کو بھی متاثر کرتا ہے جس کی بقا اور انتظام اندھیروں کی مملکت میں ہی ممکن تھی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہم آج کی جدید دنیا میں دین یا ادیان کو اندھیروں سے تعبیر کرتے ہیں اور افیونی ذوق کا پر تو بتاتے ہیں۔ مگر دین اسلام کے بیانیے کے مطابق دین کا تصور ایک روشنی سے جڑا ہے۔
ہماری الیکٹرانک روشنی کے برعکس ہماری فطرت کی روشنی جس سے دینی تصور کے رموز اور معانی جڑے ہیں ہر کسی کے لیے ہے۔ دینی تصور کی روشنی صرف ٹیکس ادا کرنے والے کے لیے نہیں بلکہ سانس لینے والی ہر مخلوق کے لیے ضروری اور لازمی ہے۔ وہ جماعت جو اندھیروں کی پروردہ ہے ہمیشہ یہ چاہتی ہے کہ دینی تصور کی یہ روشنی لوگوں تک نہ پہنچنے پائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ دن رات محنت کرتی رہتی ہے۔ یہ جماعت چیونٹیوں سے زیادہ محنت کش اور مکڑیوں سے زیادہ اچھی بُنکر ہوتی ہے۔

اس ضمن میں پہلا موضوع وجود کی آگہی ہے جسے ہمارا دینی تصور کھول کھول کر سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں اس موضوع پر غور کرنے سے پہلے ہم ان موضوعات پہ غور کرنا شروع کرتے ہیں جس کا تعلق فضائل و مناقب سے ہوتے ہوئے ایک طرح کی اجارہ داری سے منسلک ہوجاتا ہے۔ یہ اجارہ داری صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ دین کو جیسے ہم سمجھ رہے ہیں آپ نہیں سمجھ سکتے۔ اگر یہ بات صرف اس تربیت کی بنا پہ ہوتی جو دینی تعلیم گاہوں سے ملتی ہے تو کوئی بات کیوں کر ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ اس اجارہ داری نے نئی نسل کو اس بات پہ مجبور کیا ہے کہ وہ خلا کو پُر کریں۔ لہذا جیسے ہی کسی شخص نے وجود کی آگہی کی جانب قدم بڑھایا، دینی تصور کی تفہیم میں خود کو لگایا اور ایک شکل اختیار کرنے پہ غور کیا دیندار کا تصور کئی رنگوں میں بکھر جاتا ہے۔ دیندار کئی پارٹیوں میں جگہ بنالیتے ہیں۔ جن میں دو پارٹیاں نمایاں طور سے یا اس سے ملحق حق کے تصور پہ دعوی ٹھوکتی ہیں۔ اول وہ جس کا براہ راست مگر مصلحت پسندانہ تعلق سچ کے تصور سے ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جتھہ جس کا تعلق سچ کے تصور اور تصور حق سے نادیدہ طور سے ہوتا ہے، اس میں فائدہ-نقصان کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔
عہد حاضر میں جہاں مادے کی نئی شکلیں ظہور پذیر ہوئیں اور مادیت کا نیا زاویہ کھل کر آیا خاص ذہنیت بھی اپنے اپنے سانچے کے اعتبار سے ابھر کر آئیں؛ مصلحت پسند دینی ذہنیت، دینی ذہنیت مبنی  بر معرفت الہی اور تخریبی ذہنیت۔ اس کے ساتھ ہی عقیدہ توحید اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ایک ایسے دور میں داخل ہوا جہاں مادیت اور مادہ پرستی روایتی بت پرستی سے زیادہ قوی اور مکّار بن کر ابھری۔ اللہ رب العالمین شیخ محمد بن عبد الوہاب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے کہ ان کی کوششوں سے سرمایہ حیات کی تعمیر کرنے والوں کو کیمیائی ہنر ملا اور مقصد زیست واضح ہوا۔ ان  کی کوششوں کی برکت سے ہم عقیدہ کو نظری طور پہ ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی پیش کرنے لگے۔ اس سے قبل کے معاشرے میں نظری اور عملی کا اتنا باریک فرق نہیں کیا جاتا تھا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اسلامی تصور کے مطابق نظری طور پہ عقیدہ توحید ہمشہ موجود تھا جسے صرف عمل میں لانے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا مسلمانان عالم کی دسترس میں عزت و ثروت، قوت اور استحکام کی نمایاں تاریخ ہمیشہ عملی عقیدہ کے مرہون منت رہی۔
نظری عقیدہ توحید:
دنیا میں خدائے واحد کا  تصور کسی نہ کسی شکل میں بنا کسی واضح تفریق نظر و عمل کے ہر جگہ رہا ہے۔ اس کے برعکس آج ہم جس جگہ موجود ہیں وہ دَور شئی کی تفہیم میں نظر و عمل کی تبويب کے بغیر  آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ہاں اس جانب مومنین خصوصی توجہ فرمائیں تو کچھ ہونے کے امکانات ضرور ہیں۔ پھر عملی عقیدہ توحید کے لیے  اصلاحی فکر کا ایک موڈیول ابھر کر آتا ہے۔ عملی توحید اعمال مبنی بر نص قرآنی اور فرمودات نبوی ہے۔ صحیح عقیدہ والی سوچ جو خدا ڈھونڈتی ہے بنا تصور معرفت الہی ممکن ہی نہیں۔ معرفت الہی تک انسانوں کو پہنچانا علماء کا پہلے درجہ کا کام ہے۔
توحید جو نبی کریم کی زندگی میں معرفت الہی تھا شیخ محمد بن عبد الوہاب کے ذریعے بھی معرفت الہی کی طرف دوڑنا ٹھہرا۔ اسلام کے آنے سے پہلے نبی کریم کے زمانے میں معاشرہ میں مادیت کی اصل کڑی بد اعتقادی اور بت پرستی سے ملتی تھی۔ ان کا معاشرہ مبنی بر شرک معاشرہ تھا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے زمانے میں معاشرہ میں بھی مادیت کی کڑی بد عقیدگی سے ملنے لگی مگر نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے کچھ ڈگری کم۔ وہ اس طور سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرہ اولا کافر اور مشرک تھا جو ذلت کی بڑی سی وادی میں گرنے کے قریب تھا مگر شیخ محمد بن عبد الوہاب کا معاشرہ أولا مسلم تھا جو کفر اور شرک کی جانب سرپٹ بھاگا جارہا تھا۔ نبی کریم صلي اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بت پرستی اور قومیت معاشرہ کا ایتھکس تیار کرتی تھی۔ مادیت اس زمانے میں مشرکانہ ایتھکس کے زیر سایہ تھی جب کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کے زمانے میں ایتھکس جس سے وہ نبرد آزما تھے من چاہی فقہیات پلس غلیظ بدعتوں کے ماتحت تھا گرچہ تصور حق کی وضاحت بھی موجود تھی۔ شیخ محمد عبد الوہاب کا کام نبی کریم ﷺکے کام سے کہیں زیادہ آسان تھا کیونکہ شیخ کا کام صرف اندرون کی صفائی تھی۔ اندرون کے صفائی کے نام پہ تصور اسلام کو کینڈی سمجھنے والے صوفیاء، علماء شر اور پاکھنڈی گروہوں کی قلعی کھولنی تھی۔ دینی ذہنیت کو جو علم و علماء کے نظام کو سنبھال کر رکھنے کے نام پہ دین اسلام کے تصور کو ہی گُھن کی طرح کھائے جا رہی تھی اسے آئینہ دکھانا تھا۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ شیخ کی دعوت کو ہم ہمارے لیے ہلکا پھلکا کہہ رہے ہیں بلکہ شیخ محمد بن عبد الوھاب نے توحید کی سادگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاریخ کی جہت کو بدلا ہے۔ مادی سیاق کی سب سے مضبوط سواری کی کونچیں کاٹیں ہیں۔ انھوں نے باذن اللہ ایک زوال پذیر مادیت اور دوسری ابھرتی ہوئی مادیت کے سیاق کو نظر انداز کرنے کے مناہج ہمارے ہاتھوں میں تھمائے ہیں۔ ان کے زمانے میں مادیت بھی دوسرے درجہ پہ ہی تھی۔
اللہ رب العالمین کا بے انتہا شکریہ کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ اندرون معاشرہ کو صاف ستھرا اور نتھرا بنایا۔ ساتھ ہی معاشرے کے خارجی ساخت کو واضح اور اصلاحی بنایا اور ایک اچھی سمت کی جانب لگایا۔ ہماری مذہبی سوچ جبلی رجحان کے نام پہ باطنیت اور خارجیت کی دنیا میں گھومنے کے بجائے ایک ایسی سوچ کی حامل ہوئی جو اعتدال پہ مبنی تھی۔ یہ سوچ سچی تھی۔ اس سوچ کی نفسیات صاف ستھری تھی۔ بڑے سے بڑے طرم اور شیخ کبیر صاف ستھری سوچ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیوں کہ نفسیات میں بد نیتی اور تاویلیں بھی نہیں اور جب تاویلیں نہیں تو دماغ صرف اور صرف سچی اور اچھی باتیں پیش کرتا ہے۔ اسی لیے مسلم شخص کی نفسیات غیر مسلم سے زیادہ مضبوط اور اچھی ہوتی ہے۔ اس سے اوپر کی ڈگری ایمان اور مومن کی ہے۔ مومن جس قدر خدا سے قریب ہوتا ہے ہمیں اس کی نفسیات کا روحانی پہلو بھی مضبوط ہوتا نظر آتا ہے۔ ایسا شخص حق کے معنوں کی تعبیر ہے۔

دور انتشار، مادیت اور خاص دینی ذہنیت:
دینی تصور اور دینی سوچ کو مہمیز عطا کرنے والے زمانے لدگئے۔ سوچ کی باتوں کو قیل و قال سمجھنے والے رہ گئے۔مصلحت اور ڈر کی گڑیا جيب ميں رکھے علماء بہت سے خانوں میں بٹ گئے؛ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا کہ بقا پہ مبنی مفادات اور گنتی کی خیریات پہ مبنی رموز پہ کان دھریں۔ مگر ہمیں کان دوسری باتوں پہ بھی دھرنا پڑے گا۔ اسے سمجھنے کے لیے مادیت کی اس شکل پہ ایک نظر ضرور ڈالی جائے جس کے وجود سے ہمارا وجود جڑ چکا ہے۔ جس کے ہونے سے خیر مر چکا ہے۔ جس کے آنے سے خیر و شر کا فرق ختم ہوچکا ہے۔ یہ نئی مادیت کا عہد ہے جو کہ ہمارا عہد ہے؛ اس کے مطابق دماغ سے لے کر دل تک، جسم سے لے کر خیالات تک سب مادیت کا مظہر ہیں۔ اب آپ کسی سے لاکھ کہیں گے بھائی یہ شر ہے اور یہ خير آپ کی بات نہیں مانی جائے گی اس لیے کہ نیا ایتھکس محض مادیت پہ مبنی ہے۔ اس زمانے کی مادیت نے بت‌ پرستی کو بھی اس بار اپنا ماتحت بنالیا ہے۔ نئی مادیت بہت سی چیزوں کا ملغوبہ ہے جس میں باطل کی تمام شکلوں نے اپنی اپنی مہار اس نئی مادیت کے سپرد کر دی ہے۔ نئی مادیت نے دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ قومیں، ملک، شہر اور گاؤں اس مادیت کے قبضہ میں پورے طور سے آچکے ہیں۔ اس کا نیا ایتھکس ایسے خواب دیکھتا ہے اور دکھا رہا ہے جو اسلام کے وحدانیت والے تصور کو بھی مادی شکلوں کا ایک حصہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ خالص دینی ذہنیت کو متحد ہونا ہے؛ سوچ میں، نظر میں اور عمل میں۔۔۔اختلاف کے ساتھ۔
اب تک کے علماء خیر ہر اعتبار سے مادے کی مادیت کے مخالف تھے۔ پھٹے حال میں رہ کر وہ شاہوں کے سینہ پہ لوٹتے تھے مگر آج علماء خوشحال رہ کر بھی ایک چیونٹی تک کے دل پہ راج نہیں کر پاتے۔ یہ علماء حق کا حال ہے۔ نئی مادیت کے لیے یقیناً علماء حق نے کچھ سوچ رکھا ہوگا، کچھ حساب بنا رکھا ہوگا۔ شاید حق کا تصور مٹنے سے پہلے کوئی معجزہ ہوگا، ہم قرآن شریف اور احادیث مبارکہ کنزیوم کریں گے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ہم احادیث اور قرآن نئی مادیت کو مد نظر رکھ کر نہ سمجھیں گے نہ سمجھائیں گے مگر مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ہم نئی مادیت کو اسلامی پہلوؤں سے نہ دیکھیں گے نہ دکھانے دیں گے پھر بھی مسئلہ حل ہو جائے گا۔  ہم اسلام کے شر اور خیر کے تصور کو نئے طور سے نہ سوچیں گے نہ جانیں گے مگر مسئلہ حل ہوجائے گا تو آؤ سوچنا چھوڑ دیں ____ تو __ نہ خوف تیرگی ہوگا نہ فکر روشنی ہوگی۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ابو زینب

تحریر عمیق مشاہدہ کی ترجمان ہے، سلیس اسلوب زیادہ موثر ہے۔