کتاب ’’تیسیر مصطلح الحدیث‘‘ کا منہجی مطالعہ

کتاب ’’تیسیر مصطلح الحدیث‘‘ کا منہجی مطالعہ

راشد حسن مبارکپوری

احادیث وآثار کی چھان بین، تحقیق وتدقیق اورجستجو وجانکاہی کی راہ کتاب الٰہی قرآن مجید کی اس آیت کریمہ نے دکھائی ہے :

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَo
(الحجرات:۶)

’’اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسانہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچادو پھر اپنے کئے پر پشیمانی اٹھائو۔‘‘
اسی طرح نبی ﷺ نے بھی ان لوگوں کیلئے شاداب زندگی اور باتنعم زیست کی دعا فرمائی ہے جو آپ ﷺ کے اقوال وافعال اور آپ کی تقریر ات کے حوالے سے صیانت وحفاظت کے کشت زاروں کو خون جگر سے سینچتے اورسیراب کرتے ہیں ۔ارشاد ہے :

نضراللہ امرئًا سمع مناّ شیئاً فبلغہ کما سمع فرب مبلغ أوعی من سامع (۱)

اس بشارت نبوی کا اثریہ ہوا کہ وہ صحابۂ کرام جو نبی ﷺ کے ادنیٰ اشارے پر اپنا سب کچھ لٹانے کو تیاررہتے تھے انہوں نے اس کی شاندار عملی تطبیق پیش کی ، آپ ﷺ کی وفات کے بعد احادیث وآثار کے حصول وتلقّی میں حد درجہ تثبت وایقان اور غایت درجہ حزم واحتیاط کرتے تھے ۔اس بات کی دلیل مقدمہ صحیح مسلم میں موجود ہے ۔امام ابن سیرین فرماتے ہیں :

لم یکونوا یسئلون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنۃ قالوا: سموالنا رجالکم فینظر إلیٰ أھل السنة فیؤخذ حدیثھم وینظر إلیٰ أھل البدع فلایؤخذ حدیثھم. (مقدمۃ صحیح مسلم ص ۱۵)

’’شروع شروع میں لوگ اسناد کے بارے میں استفسار نہیں کیا کرتے تھے لیکن جب فتنۂ قتل عثمان رضی اللہ عنہ وقوع پذیر ہوا تو وہ حدیثیں لیتے وقت کہنے لگے: رجال حدیث کے اسماء کی نشان دہی کرو، لہٰذا دیکھا جاتا اگر وہ رواۃ اہل سنت میں سے ہوتے تو ان کی حدیثیں لے لی جاتیں اوراگر اہل بدع میں سے ہوتے تو ان کی روایتیں رد کردی جاتیں۔‘‘
چنانچہ تحقیق وجستجو کی اسی جانکاہی اور انقطاع واتصال کی باریکیوں سے آگہی کے حوالے سے علم جرح وتعدیل کا چراغ نہایت دھیمی روشنی کے ساتھ ظاہر ہوا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ابتداء ً حدیث میں کذب ووضع اور مکرواختلاق کی قباحتیں نہ کے برابر تھیں لیکن شدہ شدہ اس علم نے ترقی کی راہیں طے کیں ، راوی کی کیفیت ضبط ، تحمل وادا ، ناسخ ومنسوخ اورغریب الحدیث جیسے اہم موضوعات شامل فن ہوگئے ، مگر یہ کسی خاص کتاب میں یکجا ومدون نہ کئے جاسکے اس کے معاً بعد ایک دور آیا جب فن کو حیطۂ تحریر میں لانے کی سعی کی گئی تاہم اس میں دیگر فنون حدیثیہ وفقہیہ کی طرح یکجا ئیت ،ترتیب اور تنسیق کا لحاظ نہ تھا ، اس فن پر امام شافعی کی دونوں کتابیں ’’الأم‘‘ اور ’’الرسالۃ‘‘ غیر مسبوق ہیں، اس کے بعد چوتھی صدی ہجری میں جب تمام علوم وفنون نے آسمان ارتقاء پر اپنی کمندیں ڈالیں تو ارباب فن حدیث نے مصطلحات حدیثیہ کا ایک الگ فن کی حیثیت سے تعارف کرایا، اس فن پر سب سے پہلے قاضی ابو محمد الحسن بن عبدالرحمن بن خلاّدالرامہرمزی (وفات: ۳۶۰ھ) نے ’’المحدث الفاصل بین الراوی والواعی‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی، چونکہ یہ اپنے فن میں سب سے پہلی کتاب ہے اس لئے اس میں مصطلح کے تمام مباحث کا استقصاء واستیعاب نہیں ۔
سردست یہاں ہم بعض دیگر کتابوں کا تذکرہ بھی موضوع سے خارج تصور نہیں کرتے :

معرفۃ علوم الحد یث: ابوعبداللہ محمد الحاکم النیسافوری (وفات : ۴۰۵ ھ) ۔ (۱)
المستخرج علی معرفۃ علوم الحدیث : أبونعیم أحمد بن عبداللہ الأصفہانی (وفات: ۴۳۰ھ) ۔ (۲)
الکفایۃ فی علم الروایۃ:ابوبکر أحمد بن علی الخطیب البغدادی (وفات: ۴۶۳ھ) ۔ (۳)
الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع :خطیب البغدادی۔ (وفات: ۴۶۳ھ)
علوم الحدیث: ابوعمر و عثمان بن عبدالرحمن الشھرزوری (ابن الصلاح) (وفات: ۶۴۳ھ)۔ (۴)
التقریب والتیسیر لمعرفۃ سنن البشیر النذیر: محی الدین یحیی بن شرف الدین النووی (وفات: ۶۷۶ھ)۔ (۵)
نخبۃ الفکر فی مصطلح أھل الأثر:الحافظ ابن حجر العسقلانی (وفات:۸۵۲ھ)۔
تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی :جلال الدین عبدالرحمن السیوطی(وفات: ۹۱۱ھ) ۔ (۶)
فتح المغیث فی شرح ألفیۃ الحدیث:محمد بن عبدالرحمن السخاوی (وفات:۹۰۲ھ)۔ (۷)
قواعد التحدیث محمد جمال الدین القاسمی (وفات : ۱۳۳۲ھ)

٭ کتاب ’’تیسیرمصطلح الحدیث‘‘ ڈاکٹر محمود الطحان کی تصنیف ہے، ہمارے پیش نظر نسخہ ریاض کا طبع شدہ ہے، کل ۲۹۶؍ صفحات پر مشتمل ہے ،ڈاکٹر محمود الطحان ہمارے لئے کوئی نامانوس شخصیت نہیں، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں حدیث اور علوم حدیث کے استاذ رہ چکے ہیں پھر اس کے بعد جامعہ کویت میں ’’کلیۃ الشریعۃ‘‘ اور ’’دراسات علیا‘‘ میں حدیث و علوم حدیث کے تدریسی فرائض انجام دے چکے ہیں، بلاشبہ ان کی یہ کتاب اہم ہے اس کی مقبولیت نے اس فن کی معاصر کا وشوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اس کی شہرت کا حدود اربعہ عرب کے ریگزاروں سے متجاوز ہے ، برصغیر ہندو پاک کے مشاہیر مدارس نے اسے اپنے تعلیمی نصاب میں جگہ دی ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر عربی جامعات کے درجہ (عالمیـت) میں اس کتاب کا نصف اخیر داخل نصاب ہے.
اب سے چند سال قبل جب علوم وفنون کے حصول کے طریقہ ہائے کار میں اس قدر ترقی نہ تھی تو فن مصطلح الحدیث میں امام ابن الصلاح کی ’’علوم الحدیث‘‘ اورامام نووی کی ’’التقریب‘‘ جو کہ ’’علوم الحدیث‘‘ کا اختصار ہے مدارس وجامعات میں داخل نصاب تھیں اورخود جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں داخل تھیں۔(۱)
اس صورت حال میں ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس میں اس فن کے مباحث نہایت خوب صورتی کے ساتھ مختصراً جمع کردیے گئے ہوں ، اس ضرورت کو صاحب کتاب نے محسوس کیا ، خود ان کے الفاظ میںـ :ان دونوں کتابوں ’’علوم الحدیث اور التقریب‘‘ کی جلالت شان اور بے پناہ اہمیت و فوائد کے باوصف کچھ کمیاں تھیں، مثلا امام ابن الصلاح کی کتاب میں بعض بحثوں میں ضرورت سے زیادہ طوالت وتفصیل ،اسی طرح نووی کی کتاب میں ضرورت سے زیادہ اختصار ،جس کی وجہ سے عبارت کا سمجھنا مشکل ، اسی طرح بحثوں کا نامکمل ہونا ، کبھی کبھی تعریف و مثال سے اغفال واہمال برتنا ، مشہور تصانیف کا ذکر نہ کرنا وغیرہ ، اس کے علاوہ متقدمین کی بھی معتدد کتابیں تھیں مگر ان میں ترتیب و تنظیم کا خیال نہیں رکھا گیا ۔یہ عین ممکن ہے کہ زمانہ کی لیاقتوں اورمتنوع ومختلف تقاضوں کے سبب ان اہل علم نے بعض بحثوں میں تطویل وتفصیل اوربعض میں ایجاز واختصار ملحوظ رکھا ہو ۔
الحاصل مذکورہ ضرورتوں کے پس منظر میں مؤلف کا یہ احساس کافی حد تک درست بھی تھا ،چنانچہ انہوں نے اپنے علم و تجربات کی روشنی میں نہایت عمد ہ اسلوب بیان اورواضح وآسان عبارت میں اس کتاب کو حسن ترتیب وجمع کا دلکش لبادہ دیااور اس کے نام ہی میں یہ سارے نقوش ثبت کردیئے ۔
فاضل مؤلف کا یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ یہ کتاب متقدمین کی کتابوں سے بے نیاز نہیں کرسکتی ، یہ تو فقط ایک کنجی ہے جس کے ذریعہ طول طویل بحثوں کو آسان پیرایۂ بیان اورکم وقت میں سمجھا جاسکتاہے ۔یہ کتاب تفصیل واختصار کی درمیانی راہ ہے اس کی ترتیب میں تین چیزوں کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے :
۱۔تقسیم: یعنی ہر بحث کو مرقّم فقرات میںالگ الگ کردیا گیا ہے جس سے طالب علم کوسمجھنے میں کافی آسانی ہوگی ۔
۲۔بحث میں ہمہ جہتی وہم آہنگی: عمومی ساخت کے اعتبار سے بحثوں میں ہمہ جہتی وہم آہنگی کی کوشش کی گئی ہے۔ جیسے پہلے تعریف، شرح تعریف پھر اس کی مثال وغیرہ ۔
۳۔استیعاب: فن مصطلح کی تمام بحثوںکو مختصر ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تبویب وترتیب میں امام حافظ ابن حجر سے استفادہ کیا گیا ہے، اسی طرح علمی مواد کیلئے امام ابن الصلاح کی ’’علوم الحدیث‘‘ اس کے اختصار ’’التقریب للنووی‘‘ اور اس کی شرح ’’تدریب الراوی للسیوطی‘‘ پر اعتماد کیا گیا ہے، اس طرح یہ کتاب ایک مقدمہ اور چار ابواب پر مشتمل ہے، ترتیب اس طرح ہے :
پہلا باب: حدیث اور اس کی مختلف تقسیمات
دوسراباب: جرح وتعدیل
تیسرا باب : روایت کے اصول وضوابط
چوتھا باب: اسناد اور معرفت رواۃ
خیال تھا کہ کتاب کا ایک چھوٹا سا مبحث بطور مثال ذکر کیا جاتا مگر بخوف طوالت ہم اسے قلم انداز کرتے ہیں امید کہ قارئینِ محترم اصل کتاب کی طرف رجوع کریںگے یااسے سامنے رکھیں گے ۔
سابقہ سطورسے کتاب کی فنی معنویت اورعلمی کمال کا انداز لگانا کچھ مشکل نہیں مگر ان تمام اہمیتوں اور معنویتوں کے باوصف اہل علم نے کچھ استدراک کئے ہیں اوریہ کوئی نقص وعیب نہیں ، اس سے کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوتی، اس لئے کہ لغزشوں کے امکانات انسانی کاوشوں میں ہوا کرتے ہیں صرف اللہ کی کتاب اس سے محفوظ ہے اور تاقیامت رہے گی ۔یہ شعر اس باب میں اہم ہے :

ومن ذاالذی ترضی سجایاہ کلھا
کفی المرئَ نبلاً أن تُعَدَّ معایبہ

’’کون ہے جس کے تمام امتیاز ات وکمالات بسروچشم قبول کئے جاتے ہیں، انسان کی شرافت ،عظمت اور بلند قامتی کے لئے کافی ہے کہ اس کے نقائص ومعائب گنے جائیں۔‘‘
اس کتاب کے حوالے سے ہمارے ذہن میں کچھ استدراکات تھے۔ حسن اتفاق جامعہ اسلامیہ سنابل میں اس کتاب کی تدریس کی ذمہ داری ناچیز کے سپر د کی گئی ،اس دوران اس نے کتاب پر ایک نگاہ ڈالی ،زہے قسمت جستجو کے اس سفر میں شیخ طارق بن عوض اللہ ؍حفظہ اللہ کی کتاب ’’إصلاح الإصطلاح‘‘ ہاتھ لگی جس سے ذہن میں موجود استدراکات کی تحقیق ہوگئی ، اس کتاب کی مدد سے ہم بعض مثالیں اردوخواں طبقہ تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ حقائق سے آگہی کا تجربہ ہو ۔
٭’’أشھر المصنفات فی علم المصطلح ‘‘ کے باب میں فاضل مؤلف لکھتے ہیں :
’’نظم الدرر فی علم الأثر‘‘اس کتاب کی تصنیف زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی (وفات ۸۰۶ھ)نے کی ہے اور ’’ألفیہ عراقی‘‘ کے نام سے معروف ہے اس میں امام ابن الصلاح کی کتاب ’’علوم الحدیث‘‘کو نظم کے پیرائے میں پیش کی گیا ہے ساتھ میں کچھ اضافات بھی کئے ہیں۔ ‘‘
مذکورہ عبارت میں فاضل مؤلف نے واضح کیا کہ ’’نظم الدرر‘‘ ألفیہ عراقی کے نام سے معروف ہے یہ بات مؤلف نے اپنے ماسبق اہل علم کی اتباع میں لکھی ہے ، حالانکہ فی الحقیقت ’’نظم الدرر‘‘ اصلاً امام سیوطی علیہ الرحمہ کا ألفیہ ہے اور ’’ألفیہ عراقی‘‘ کا نام ’’التبصرۃ والتذکرۃ ‘‘ہے اور اس کی طرف امام عراقی علیہ الرحمہ نے اپنے ’’ألفیہ‘‘میں اشارہ کیا ہے ۔ فرماتے ہیں :

نظمتھا تبصرۃً للمبتدی
تذکرۃً للمنتھی والمُسنِد

امام حافظ سخاوی اس شعر کی تشریح میں لکھتے ہیں :اس شعرمیں ’’التبصرۃ والتذکرۃ‘‘سے اس ’’منظومہ ‘‘کے لقب کی طرف اشارہ ہے۔ (فتح المغیث :۱/۹)
اسی طرح شیخ الانصاری بھی لکھتے ہیں :اس میں ’’التبصرۃ والتذکرۃ‘‘اس کے نام کی طرف اشارہ ہے اوراس کی وضاحت اس کی شرح کرتے وقت مقدمہ میںکی ہے ۔
اور امام سیوطی نے اپنے ’’ألفیہ ‘‘کے شروع میں لکھا ہے:

وھذہ ألفیۃ تحکی الدرر
منظومۃ ضمنتھا علم الأثر

مزید لکھتے ہیں :

’’وبعد فإنی نظمت فی علم الحدیث ألفیۃ،سمیتھا نظم الدرر فی علم الأثر۔‘‘

میں نے علم حدیث میں ’’الفیہ ‘‘کو نظم کیا ہے جسکا نام ’’نظم الدرر‘‘رکھا ہے۔ (۱/۲۲۳، الاصلاح: ص۱۲ )
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ عراقی کے ألفیہ کا نام ’’التبصرۃ والتذکرۃ‘‘ ہے اور سیوطی کے ’’ألفیہ‘‘ کا نام ’’نظم الدرر فی علم الأثر‘‘ ہے۔ واللہ أعلم۔
ایک دوسری جگہ فاضل مؤلف ’’مرسل‘‘کے سلسلے میں رقم طراز ہیں :

تعریفہ:(ب) اصطلاحاً: ھوما سقط من آخر إسنادہ مَن َبعدَ التابعی۔۔۔۔ صورتہ أن یقول التابعی: سواء کان صغیراً أو کبیراً-قال رسول اللہ ﷺ کذا، أو فعل کذا، أو فُعِلَ بحضرته کذا، وھو صورۃ المرسل عند المحدثین ۔
مثالہ: ما أخرجه مسلم فی صحیحه فی کتاب البیوع قال: حدثنی محمد بن رافع، ثنا حُجین، ثنا اللیث، عن عقیل، عن ابن شھاب، عن سعید بن المسیب، أن رسول اللہ ﷺ نھی عن المزابنة۔
(صحیح مسلم :کتاب البیوع ،رقم :۵۹)
۔۔۔۔۔ المرسل عند الفقھاء والاصولیین:
ماذکرته من صورۃ المرسل ھوالمرسل عند المحدثین، أما المرسل عند الفقھاء والأصولیین فأعم من ذالک، فعندھم أن کل منقطع مرسل علی أی وجه کان انقطاعه وھذا مذہب الخطیب أیضاً۔

مذکورہ عبارت میں مؤلف نے پہلے ’’مرسل حدیث ‘‘کی تعریف کی پھر صورت اورمثال بیان کی اورپھر فقہاء اور اصولیین کے یہاں اس کا فرق واضح کیا ۔
غورطلب بات یہ ہے کہ مؤلف نے یہاں مرسل حدیث کی ’’مثال ‘‘کے لئے ’’صحیح مسلم ‘‘کا انتخاب کیا جبکہ صحیح مسلم کا نام ’’المسند الصحیح۔۔۔۔۔‘‘ ہے اور مؤلف جانتے ہیں کہ ’’المسند‘‘ مرسل کے بالکل منافی ہے۔ ایسے ہی مرسل صحیح کے منافی ہے اس طرح ’’مرسل ‘‘مسند وصحیح دونوں کے منافی ہے ، مزید لطف کی بات یہ ہے کہ مؤلف نے ’’أشھر المصنفات‘‘ کے ذیل میں المراسیل لأبی داؤد، المراسیل لابن أبی حاتم اور جامع التحصیل للعلائی کا تذکرہ بھی کیا ہے، کاش مؤلفِ فاضل ان کتابوں سے ’’مرسل حدیث‘‘ کی کوئی ایک مثال پیش کردیتے۔ مؤلف کے اس عمل سے بادی النظر میں یہ وہم ہوتا ہے کہ صحت اور ارسال کے درمیان کوئی تناقض نہیں اور پھر جب قاری دیکھے گا کہ مؤلف موصوف نے ’’مرسل‘‘ کی مثال صحیح مسلم سے دی ہے اور اس مرسل حدیث کو صحیح مسلم سے نقل کرنے کی کوئی وجہ بھی بیان نہیں کی ہے یہ جانتے ہوئے کہ صحیح مسلم، صحیح بخاری کے بعد صحیح ترین کتاب ہے تو یاتو عام ذہن یہ سوچے گا کہ مرسل حدیث صحیح ہوتی ہے یا اس کے برعکس یہ سوچے گا کہ صحیح مسلم میں مرسل حدیثیں بھی ہیں ۔
اب ہم یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ مؤلف کی یہ حرکت شعوری ہے یا غیر شعوری ، اس کا فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ مؤلف تحریکی شعور کے حامل ہیں اورتحریکیت و اخوانیت میں صحیحین کی حدیثیوں کے ساتھ یہ رویہ بالکل عام ہے، ان کے خاکستر میں اس نوع کی چنگاریاں سلگتی رہتی ہیں کہ جنہیں محسوس کرنے کیلئے راکھ کا ڈھیر ہٹا نا پڑتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو جگہ کیوں دی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ایک مسند ومتصل روایت کے ساتھ ایک ہی سیاق میں آئی ہوئی ہے، لہٰذا امام مسلم نے اسے جیسے سنا تھا بعینہ اسی طرح بلا اختصار وتقطیع ذکر کردیا ان کا اصل مقصد ’’مسند روایت‘‘ ذکر کرنا ہے، مرسل حدیث کی تخریج مقصد نہیں کہ یہ اتفاقیہ طورپر اس کے ساتھ آگئی ہے ۔لہذا اس صورت میں یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ اس مرسل حدیث کو بلا کسی قید وتقیید کے صحیح مسلم کی طرف منسوب کردیا جائے۔ اب ذیل میں یہ ذکر کرنامناسب ہے کہ صحیح مسلم میں اس روایت کا سیاق کیا ہے ؟تاکہ اس عقدۂ لاینحل کا کشود ممکن ہوسکے :

حدثنی محمد بن رافع، حدثنا حجین، ثنا اللیث عن عقیل عن ابن شھاب عن سعید بن المسیب أن رسول اللہ ﷺ نہی عن المزابنة والمحاقلة، والمزابنة: أن یباع ثمرالنخل بالتمر، والمحاقلة: أن یباع الزرع بالقمح واستکراء الأرض بالقمح.
قال :وأخبرنی سالم بن عبدالله عن رسول اللہ أنه قال :لاتبتاعوا التمر حتی یبدو صلاحه، ولاتبتاعوا التمر بالتمر۔۔۔۔۔وقال سالم أخبر نی عبداللہ عن زید بن ثابت عن رسول اللہ ﷺ أنه رخص بعد ذالک فی بیع العریة بالرطب أو بالتمر ولم یرخص فی غیر ذلك.

امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو اسی طرح ذکر کیا ہے۔
شیخ رشید العطار لکھتے ہیں : اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ امام مسلم نے مرسل کو اپنی صحیح میں جگہ دے کر انصاف نہیں کیا جبکہ یہ ان کی شرط کے بھی خلاف ہے ؟تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ امام مسلم کی یہ عادت ہے کہ وہ حدیث جیسے سنتے ہیں بعینہٖ اسی طرح ذکر بھی کردیتے ہیں ۔امام مسلم نے یہ حدیث محمد بن رافع کے طریق سے بالکل ایسے ہی سنی تھی لہٰذا اسی انداز سے ذکر بھی کر دیا جیسے سنا تھا ۔
امام صاحب کا احتجاج ’’حدیث مرسل ‘‘سے نہیں بلکہ دوسرا ٹکڑاـ:

وقال سالم :أخبرنی عبداللہ عن زید بن ثابت عن رسول اللہ ﷺ أنہ رخص بعد ذالک فی بیع العریۃ۔۔۔۔۔الحدیث‘‘

آپ کا مستدل ہے، ابتدائی حدیث سے آپ کا استدلال نہیں۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ امام مسلم نے کیوں نہیں مرسل حدیث کو حذف کرکے صرف ’’مسند ‘‘پر اکتفاء کیا، جبکہ یہ ان کی شرط بھی نہیں۔ تواس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ اصلاً اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر ایک حدیث میں متعدد احکام بیان کئے گئے ہوں اور ہر حکم مستقل حیثیت رکھتا ہو تو اس ایک حدیث کی تقطیع (الگ الگ ٹکڑوں میںکرکے مختلف ابواب میںذکر کرنا )جائز ہے۔ جیسا کہ مسئلہ حج کے سلسلے میں جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث ہے ،مگر بعض اہل علم تقطیع حدیث کے قائل نہیں، ظاہر ہے امام مسلم تقطیع و اختصار کے قائل نہیں بلکہ پوری حدیث کو اس کے صحیح سیاق کے ساتھ ذکر کرنے کے قائل ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی صحیح میں’’ یہ حدیث فلاں کے مثل ہے‘‘ جیسی کوئی بات نہیں کہی۔
یہ تو رہی گفتگو ’’حدیث مرسل‘‘ کی مثال کی بابت، اب آگے اس کے معاً بعد مؤلف نے ’’المرسل عند الفقہاء والأصولیین‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے اس سے متعلق گفتگو حوالۂ ذیل ہے:
مؤلف موصوف رقم طراز ہیں :(عربی عبارت گزرچکی ہے)
’’مرسل حدیث کی جو شکل ہم نے بیان کی ہے اس کے قائل محدثین ہیں جبکہ فقہاء واصولیین کے نزدیک مرسل حدیث اس سے زیادہ عام ہے، ان کے نزدیک ہر منقطع مرسل ہے خواہ انقطاع کہیں بھی ہو اوریہی مسلک امام خطیب بغدادی علیہ الرحمہ کا بھی ہے۔ ‘‘
اس عبارت میں دو چیزوں پر کلام ہے ۔
۱۔پہلے کا تعلق خطیب بغدادی کے مسلک سے ہے، مؤلف کی عبارت سے پتہ چلتاہے کہ مرسل حدیث کے سلسلے میں فقہاء و اصولیین کا جو نقطہ ٔ نگاہ ہے وہی مذہب خطیب بغدادی کا بھی ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ، خطیب دونوں معانی پر مرسل کا اطلاق کرتے ہیں بلکہ اکثر پہلے ہی معنی پر اسکا اطلاق کرتے ہیں اور اسکی تصریح انہوں نے اپنی کتاب ’’الکفایۃ‘‘میں کی ہے ،لکھتے ہیں :

وأما المرسل :فھو ما انقطع إسنادہ بأن یکون فی رواته من لم یسمعه ممن فوقه، إلا أن أکثر مایوصف بالإرسال من حیث الاستعمال: ما رواہ التابعی عن النبی ﷺ۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ ؍خطیب بغدادی ص۵۸)

’’مرسل حدیث :اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند میںانقطاع پایا جاتاہے اس طور پر کہ حدیث کے رواۃ میںکوئی ایسا راوی ہو جس کا سماع اپنے سے اوپر راوی سے ثابت نہ ہو البتہ بحیثیت استعمال اکثر مرسل ہر اس حدیث کو کہا جاتاہے جسے تابعی نبی ﷺ سے روایت کرتاہے۔ ‘‘
یہاں قارئین نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ خطیب بغدادی نے دونوں معانی بیان کئے ہیں۔اورپہلے معنی (مارواہ التابعی عن النبی ﷺ )کی نسبت اکثر اہل علم کی طرف کی ہے ،لہذا انکے اس کلام سے کیسے مان لیا جائے کہ وہ فقہاء واصولیین کی طرف منسوب مرسل کے عام معنی ’’انقطاع کہیں بھی ہو‘‘کو راجح قرار دیتے ہیں، بلاشبہ اس عبارت سے یہ مفہوم نکالنا تقاضائے انصاف کے خلاف ہے ۔
۲۔مؤلف کتاب کی عبارت پر دوسرا کلام یہ ہے کہ محدثین علیہم الرحمہ نے مرسل حدیث کو پہلے معنی ’’مارواہ التابعی‘‘ کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے البتہ محدثین مرسل پر اس معنی کا اطلاق بکثرت کرتے ہیں لیکن اسے اس معنی میں ’’مارواہ التابعی‘‘ کے ساتھ ہرگز خاص نہیں کرتے بلکہ فقہاء واصولیین کی طرح عموم اختیار کرتے ہوئے ہر اس حدیث کو مرسل قراردیتے ہیںجس میں کسی طرح کا کوئی بھی انقطاع پایا جائے اور’’کتب رجال وعلل ‘‘میں اس کی تصریح موجود ہے ، محدثین اکثر کہتے ہیں ’’فلان عن فلان مرسل ‘‘فلاں شخص فلاں سے روایت کرنے میں مرسل ہے وغیرہ۔
چنانچہ کتاب’’ المراسیل‘‘ جو عظیم محدث امام ابن ابی حاتم کی تصنیف ہے اس سلسلے میںدلیل ہے ،انہوں نے اپنی کتاب کا نام مراسیل تو رکھا ہے لیکن اس کا موضوع عام ہے، اس میں ان حدیثوں کو بھی اکٹھا کیا ہے جس میں کسی بھی طرح کا کوئی انقطاع پایا جاتاہے اوراکثر اس قبیل کی روایات پر مرسل کا حکم اپنے والد یا امام ابوزرعہ الرازی سے نقل کرتے ہیں ۔اوریہ اصطلاح متقدمین محدثین کے یہاں بھی متداول تھی بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں :
یحییٰ بن القطان، احمد بن حنبل، علی بن المدینی، ابن معین، اسی طرح امام بخاری اپنی کتاب’’ التاریخ‘‘ میں اکثر نقل کرتے ہیں اور امام ترمذی اپنی دونوں کتابوں جامع ترمذی اورالعلل میں، اور اس کا احساس ہر وہ شخص کرسکتاہے جو ان اہل علم کی کتابوں سے شغف اوران پرنگاہ رکھتا ہے ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے الاصلاح ؍۲۰۹تا ۲۱۵)

 

گزشتہ سطور میں تیسیر مصطلح الحدیث کے حوالے سے چند معروضات پیش کئے گئے تھے جن کا بنیادی مقصد طلبۂ علم حدیث کو فائد ہ پہونچانا تھا اسی سلسلہ کی مزید توسیع کرتے ہوئے چند محل نگاہ اورقابل غور پہلو پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے ۔
فاضل مؤلف صفحہ نمبر ۱۵ پر رقمطراز ہیں:

٭الحدیث:
(ب)اصطلاحاً:ماأضیف إلی النبی ﷺ من قول أو فعل أوتقریر أوصفة.

’’یعنی نبی ﷺ کی طرف منسوب کوئی بھی قول ،فعل ،تقریر اورصفت حدیث ہے ۔‘‘
بلاایں وآں اس تعریف کی صحت بے غبار ہے مگر مؤلف کا صرف اس تعریف پر اکتفا کرنا اس بات کاوہم پیداکرتاہے کہ حدیث کی کوئی دوسری تعریف نہیں خصوصا یہ شبہ اس وقت حقیقت کے رنگ وپیرہن میں نظر آنے لگتاہے جب مؤلف اس کے معاً بعد ’’خبر ‘‘کی تعریف میں تین اقوال ذکر کرتے ہیں۔
حدیث کی تعریف میں بعض اہل علم نے کہا کہ ’’حدیث‘‘کی نسبت کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا بلکہ دوسروں (صحابہ وتابعین)کی طرف بھی مطلقاً نسبت کرنا درست ہے اس اعتبار سے وہ ’’خبر‘‘کے ہم معنی ومرادف قرار پائے گی ،اس لئے بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ ’’خبر‘‘کو نبی کریم ﷺ ،صحابہ کرام اورتابعین عظام کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے ۔
امام سیوطی (وفات ۹۱۱ھ)نے اپنے ’’ألفیہ‘‘میں اسی حقیقت کی نشاندہی کی ہے :

۔۔۔۔ والحدیث قیدوا
بما أضیف للنبی قولاً أو
فعلاً وتقریراً ونحوھا حکوا
وقیل: لایختص بالمرفوع
بل جاء للموقوف والمقطوع
فھو علی ھذا مرادف الخبر
وشھروا شمول ھذین الأثر

ان اشعار کا ماحصل یہ ہے کہ حدیث کی دو تعریفیں ہوئیں:
۱۔ نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب قول ،فعل،تقریر اورصفت حدیث ہے ۔
۲۔ حدیث کا لفظ ’’مرفوع (10)، موقوف (11) اور مقطوع (12) ‘‘ سب کے لئے عام ہے ۔
اس معنی کے اعتبار سے یہ ’’خبر‘‘ کے مترادف ہوگی اورحدیث اورخبر دونوں پر’’ اثر‘‘کا اطلاق کیا جاسکتاہے ۔
قارئین نے ان اشعار میں ملاحظہ کیا ہوگا کہ امام سیوطی علیہ الرحمہ نے حدیث کی محض ایک تعریف پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اہل علم کے اختلافات کی طرف بھی لطیف اشارہ کردیا۔
بلکہ اس سے بھی آگے حدیث کا اطلاق نبی کریم ﷺ کے ساتھ دوسروں پر بھی کیاگیا ہے اس بات کی نسبت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’علماء فن‘‘کی طرف کی ہے ،چنانچہ نزهة النظر (ص۵۲-۵۳) میں لکھتے ہیں:

’’الخبر عند علماء الفن مرادف للحدیث‘‘

یعنی خبر اور حدیث دونوں کااطلاق مرفوع، موقوف اور مقطوع پر ہوگا، پھر آگے امام صاحب نے دیگر تعریفات حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھا :
بعض اہل علم نے کہا :حدیث وہ ہے جونبی ﷺ سے حاصل ہو اور خبروہ ہے جو دوسروں سے ۔
بعض نے کہا :دونوں کے مابین عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے،اس اعتبارسے ہر حدیث تو خبر ہوسکتی ہے مگر ہر خبر حدیث نہیں۔
اب ذیل میں اہل علم کی وہ عبارتیں ذکر کی جاتی ہیں جن میں ’’حدیث ‘‘کا اطلاق نبی ﷺ کے ساتھ دوسروں پر بھی کیا گیا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’أحفظ مائة ألف’’حدیث‘‘صحیح ومائتی ألف ’’حدیث‘‘غیر صحیح‘‘.

یعنی مجھے ایک لاکھ صحیح اوردولاکھ غیرصحیح حدیثیں یادہیں ۔
امام ابن الصلاح اس ضمن میں فرماتے ہیں :’’محدثین کے نزدیک اس عبارت کے تحت آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی داخل ہوتے ہیں، بسا اوقات دوسندوں سے وارد ایک حدیث دوالگ الگ مستقل حدیثیں تصور کی جاتی ہیں ۔‘‘ایسااس وجہ سے ہے کہ اگر تمام صحیح حدیثیں یکجا کردی جائیں تو اس عدد کو نہیں پہونچ سکتیں بلکہ اگر ضعیف حدیثیں بھی اس میں ضم کردی جائیں تب بھی مذکورہ عدد تک پہنچنا ناممکن ہے ۔
امام ابن جوزی رحمہ اللہ صید الخاطر (ص۴۱۳) میں لکھتے ہیں:

’’ومعلوم أنه لوجمع الصحیح والمحال الموضوع وکل منقول علی رسول اللہ ﷺ مابلغ خمسین ألفاً۔‘‘

’’یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر صحیح ،محال موضوع اورنبی ﷺ سے منقول تمام حدیثیں بھی جمع کردی جائیں تو پچاس ہزار کی تعداد کو نہیں پہنچ سکتیں۔‘‘
اس پس منظر میں امام سیوطی علیہ الرحمہ کی کتاب’’الجامع الکبیر‘‘دیکھئے ،یہ کتب حدیثیہ میں جامع ترین کتاب ہے اوراس میں صحیح ،حسن ،ضعیف اورموضوع روایتیں موجود ہیں نیز اس میں مرفوع کا خصوصی اہتمام بھی نہیں ہے بلکہ اس میں موقوفات بھی شامل ہیں اورمتون مکررہ اس پر مستزاد ،ان تمام کے باوجود اس کی حدیثوں کی تعداد ۴۷ ہزار سے زائد نہیں بلکہ اس سے کم ہی ہے اوراگر اس پر ایک تہائی احادیث کا اضافہ بھی کرلیںجن کے امام سیوطی سے چھوٹ جانے کی طرف اشارہ علامہ عبدالرؤف مناوی نے کیا ہے تو بھی احادیث کی تعداد ۶۴ ہزار سے متجاوز نہ ہوگی۔
پس معلوم ہوا کہ امام بخاری نے جو ’’حدیث‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس میں مرفوعات ،موقوفات اورمقاطیع سب کو شامل کیا ہے اورمتعدد سندوں سے وارد ایک حدیث کو متعدد گردانا ہے ، اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول بھی ہے فرماتے ہیں:

’’صح من الحدیث سبع مائۃألف حدیث وکسر،وھذا الفتی-یعنی :أبازرعۃ -قد حفظ ست مائۃ ألف حدیث۔‘‘

’’یعنی سات لاکھ سے زائد حدیثیں صحیح ہیں اور اس نوجوان -امام ابوزرعہ الرازی-کو چھ لاکھ حدیثیں یا دہیں۔‘‘
امام بیہقی فرماتے ہیں:

وإنما أراد-واللہ أعلم-ماصح من أحادیث رسول اللہ وأقاویل الصحابۃ وفتاوی من أخذعنھم من التابعین۔‘‘

یعنی امام احمد بن حنبل نے جو امام ابوزرعہ کے بارے میں فرمایا اس سے مراد نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ ،صحابۂ کرام کے اقوال اوروہ فتاوے ہیں جنہیں تابعین نے صحابہ سے اخذکیا گویا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یہاں ’’حدیث‘‘سے مراد صرف مرفوع حدیثیں ہی نہیں لیں بلکہ ان کے اس کلام میں مرفوع وغیر مرفوع سب روایتیں شامل ہیں۔
ایک مرتبہ امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل کے نجل رشیدعبداللہ سے فرمایا :

’’أبوک یحفظ ألف ألف حدیث،فقیل لہ: مایدریک؟قال:ذاکرتہ فأخذت علیہ الأبواب۔‘‘

’’تمہارے والد رحمہ اللہ کو دس لاکھ حدیثیں یادتھیں،امام ابوزرعہ سے کہا گیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا توفرمایا :میں نے امام صاحب سے فقہی ابواب کے اعتبار سے مذاکرہ کرکے حدیثیں لی ہیں ۔‘‘(یعنی فلاں باب میں آپ کے پاس کتنی اورکون کون سی حدیثیں ہیں)
امام ذہبی رحمہ اللہ سیراعلام النبلاء (۱۱؍۱۸۷) میں فرماتے ہیں:

’’فھذہ حکایۃ صحیحۃ فی سعۃ علم أبی عبداللہ وکانوا یعدون فی ذلک المکرر والأثر وفتوی التابعین ومافسر ونحوذلک وإلا فالمتون المرفوعۃ القویۃ لاتبلغ عشر معشار ذلك‘‘.

’’امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی وسعت علم کے حوالے سے یہ واقعہ بالکل درست ہے اہل علم اس میں حدیثوں کے مکررات ،آثار صحابہ،فتاوی تابعین اور ان کی تفسیرات جیسی چیزوں کو شامل سمجھتے تھے ورنہ مرفوع قوی احادیث اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔‘‘
بعض اہل علم کہتے ہیں:(تدریب الراوی۱؍۴۲)مرفوع کے علاوہ میں ’’حدیث ‘‘کا اطلاق تقیید کے بغیر درست نہیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’حدیث‘‘کا لفظ جب مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نبی ﷺ کا ہی فرمان مبارک ہوتاہے مگر جب تقیید کردی جائے مثلا ’’حدیث أبی بکر ‘‘یاحدیث قتادۃ یا موقوف احادیث کا سیاق ہو تو یہ ایسے قرائن واشارات ہیں جو حدیث کے موقوف ہونے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ القصہ ’’حدیث‘‘کا لفظ مطلقا اول درجہ میںنبی کریم ﷺ کے لئے مستعمل ہے ۔
(ملاحظہ ہو: اصلاح الاصطلاح ۲۰ تا ۲۴)
ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ حدیث کا کوئی ایک معنی یا ایک تعریف نہیں کی جاسکتی بلکہ اہل علم نے اس کے متعدد معانی بیان فرمائے ہیں ،مؤلف موصوف نے حدیث کی محض ایک تعریف کی جبکہ اسی کے فوراً بعد ’’خبر‘‘کی تین تعریفیں کیں، اس سے یہ وہم ہونا یقینی تھا کہ حدیث کی تعریف میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیںجبکہ اس اختلاف کی طرف امام سیوطی کے اشعارکے ذریعہ اشارہ کیاگیا جس سے ذہن میں پیداشدہ ابہام کا رفع ہونا بعید ازقیاس نہیں ،کیا بہتر ہوتا کہ آں محترم ’’حدیث‘‘سے متعلق اختلاف کی توضیح فرمادیتے یا اگر اختصار مطلوب تھا تو خبر کی بھی ایک ہی تعریف پر اکتفا کرنا کیا عیب تھا ،اب اسے ہماری علمی بے بضاعتی کہئے یا کوتاہ فہمی کہ ہم نہ سمجھ سکے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ پر زبان طعن دراز کرنے والے شخص کی زبان قلم یہاں اس قدر خشک کیوں ہوگئی ۔فاللہ یھدینا
٭فاضل مؤلف ’’منقطع ‘‘(13) کے باب میں رقمطراز ہیں:

۴۔مثالہ:
’’مارواہ عبدالرزاق عن الثوری عن أبی إسحاق عن زید بن یثیع عن حذیفۃ مرفوعاً: إن ولیتموھا أبا بکر فقوی أمین‘‘
فقد سقط من ھذا الإسناد رجل من وسط وھو’’شریک‘‘سقط من بین الثوری وأبی إسحاق،إذ أن الثوری لم یسمع الحدیث من أبی إسحاق مباشرۃ وإنما سمعہ من شریک وشریک سمعہ من أبی إسحاق۔
فھذا الانقطاع لاینطبق علیہ اسم المرسل ولا المعلق ولا المعضل فھو منقطع‘‘.

ماسبق عبارت میں فاضل مؤلف نے حدیث منقطع کی مثال پیش کی ہے اور اس کے بعد حدیث کی سند میں پائے جانے والے انقطاع کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ثوری اورابواسحاق کے مابین ایک راوی ساقط ہے کیونکہ ثوری نے ابواسحاق سے بلا واسطہ یہ حدیث نہیں سنی ۔
اب اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مؤلف نے اسی بحث کے آغاز میں ذکر کیا کہ ’’سقط‘‘کی دوقسمیں ہیں :
۱۔سقط ظاہر
۲۔سقط خفی
اورسقط ظاہر راوی اورشیخ کے مابین عدم ملاقات سے ہوتاہے اوریہ دوحال سے خالی نہیں یا تو راوی اپنے شیخ کا زمانہ نہ پائے یازمانہ تو پائے مگر دونوں کا اجتماع وملاقات نہ ہو ۔پھر مؤلف نے اسی کے آگے لکھا کہ ’’سقط ظاہر‘‘کی ایک قسم ’’منقطع ‘‘بھی ہے۔
اس اعتبار سے مؤلف نے یہاں جو مثال ذکر کی ہے وہ ’’سقط ظاہر‘‘کی نہیں بلکہ یہ سقط خفی کی مثال ہے اس لئے کہ ثوری (سفیان ابن سعید)نے ابواسحاق سے نہ صرف ملاقات کی ہے بلکہ ان سے بہت کچھ سنا بھی ہے گوکہ یہ حدیث نہیں سنی ہے، لہذا یہاں ثوری کا ابواسحاق سے روایت کرنا انقطاع نہیں بلکہ تدلیس ہے اوریہاں یہ مثال فاضل مؤلف نے ابن الصلاح کی کتاب سے لی ہے کیونکہ انہوں نے اسے منقطع کی مثال میں ذکر کیا ہے (دیکھئے مقدمہ ص۷۸)جبکہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے (النکت ۲؍۵۷۲) میں اس کا نقیس تعاقب بھی کیا ہے ۔لکھتے ہیں :

’’إن ھذا المثال إنما یصلح للحدیث المدلَّس ، لأن کل راو من رواتہ قد لقی شیخہ فیہ وسمع منہ وإنما طرأ الانقطاع فیہ من قبل التدلیس۔‘‘

’’یہ مثال حدیث مدلس کے لئے درست ہے کیونکہ اس حدیث کے تمام رواۃ کا لقاء وسماع دونوں اپنے شیوخ سے ثابت ہے اس میں انقطاع تدلیس کے قبیل سے آیا ہے۔ ‘‘
منقطع حدیث کے لئے ایسی مثال درست ہوگی جس میں کوئی ایسا راوی ہو جس کی ملاقات اس کے شیخ سے نہ ہوئی ہو جیسے مالک کا ابن عمر سے اورثوری کا ابراہیم نخعی سے روایت کرنا ،اس لئے کہ مالک کا ابن عمر سے اورثوری کا ابراہیم نخعی سے لقاء ثابت نہیں ، ساتھ ہی یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ سفیان ثوری بسااوقات تدلیس کیا کرتے تھے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’طبقات المدلسین‘‘میں ذکر فرمایا ہے ۔(دیکھئے :الاصلاح ص۲۲۳)
فاضل مؤلف ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

’’المرسل الخفی‘‘
۱۔تعریفہ:
(ب)اصطلاحاً:أن یروی عمن لقیہ أوعاصرہ مالم یسمع منہ بلفظ یحتمل السماع وغیرہ ک’’قال‘‘

’’راوی ایسے شیخ سے روایت کرے جس سے لقاء یا معاصرت ثابت ہو اورایسی حدیث روایت کرے جسے اس شیخ سے نہ سنا ہوایسے الفاظ کے ساتھ جس میں سماع کا احتمال ہو یااس کے مشابہ کوئی اورلفظ استعمال کرے جیسے’’قال‘‘۔
قارئین نے مؤلف کے قلم سے ’’مرسل خفی‘‘کی تعریف میں موجود ابہام کا اندازہ کرلیا ہوگا۔ مؤلف نے ’’۔۔۔۔أوعاصرہ مالم یسمع منہ۔۔۔۔‘‘کی تعبیر استعمال کی ۔اگر مؤلف حفظہ اللہ اس کے بجائے ’’۔۔۔۔أوعاصرہ وھولم یسمع منہ۔۔۔۔‘‘ یعنی معاصرت ولقاء ثابت ہو مگر سماع ’’کلی طور پر‘‘ ثابت نہ ہو،جیسی واضح تعبیر استعمال کرتے ہیں تو شاید طلبۂ حدیث کے لئے زیادہ آسانی ہوتی اورکلام میں کسی قسم کی کوئی پیچیدگی اورغموض باقی نہ رہتا کیونکہ یہاں مؤلف کی عبارت سے تدلیس اورارسال خفی میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آرہا ہے ،خود مؤلف کا بھی رجحان یہی ہے کہ دونوں میں فرق ہے مگر یہاں فرق واضح نہیں کیا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ تدلیس اورارسال خفی کا فرق واضح کریں ، اس وضاحت کے ساتھ کہ بحیثیت اصطلاح ارسال خفی تدلیس کے دائرہ میں داخل ہے ۔ ( الاصلاح ص۲۳۹کچھ تصرف کے ساتھ)
امام ابوالحسن القطان تدلیس الاسناد اور مرسل خفی کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’تدلیس الاسناد اور مرسل خفی میں فرق یہ ہے کہ ارسال میں راوی کسی ایسے شخص سے روایت کرتا ہے جس سے اس کا سماع ثابت ہی نہیں ہوتا جبکہ تدلیس میں سماع ثابت ہوتا ہے یعنی مدلس اورمرسل (ارسال خفی) دونوں ہی اپنے شیوخ (14) سے غیر مسموع روایات بیان کرتے ہیں جبکہ الفاظ سننے کا تاثر دیتے ہیں ،مدلس نے صرف زیر بحث روایت یا روایات نہیں سنی ہوتیں،البتہ بعض دیگر روایات سنی ہوتی ہیں جبکہ مرسل (ارسال خفی) نے اپنے شیخ سے کوئی روایت بالکل نہیں سنی ہوتی ،نہ یہ زیر بحث روایت اورنہ کوئی اور ،بلکہ محض ملاقات ہوئی ہوتی ہے یااس کا زمانہ پایا ہوتاہے۔‘‘ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو شرح الألفیہ للعراقی ص۱۹۰، تدریب الراوی ۱؍۲۲۵)
اس بحث کے فورا بعد مؤلف مرسل خفی کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

۲۔مثالہ
مارواہ ابن ماجہ من طریق عمربن عبد العزیز عن عقبۃ بن عامر مرفوعاً:’’رحم اللہ حارس الحرس‘‘فإن عمر لم یلق عقبۃ کما قال المزی فی الأطراف۔

(ترجمۂ حدیث) ’’اللہ تعالی جہاد میں پہرہ دینے والے کی حفاظت فرمائے۔‘‘
اس حدیث کو امام سیوطی نے التدریب (۲؍۲۲۲) میں مرسل خفی کی مثال کے لئے ذکر کیا ہے ۔مؤلف نے بھی انہیں کے اتباع میں یہ حدیث ذکر کی ہے اورخود امام عراقی نے شرح الفیہ (۲؍۳۰۷ )میں اسے مرسل خفی ہی کی مثال کے ضمن میں لکھا ہے حالانکہ یہ مثال دو وجہوں سے درست نہیں :
۱۔ اس اسناد کی نسبت عمربن عبدالعزیز کی طرف کرنا درست نہیں کیونکہ ان سے صالح بن محمد بن زائد روایت کرتے ہیں اورصالح ضعیف اورمنکر الحدیث ہیں اوراس حدیث کی سند کا دارومدار وہی ہیں اورعمر بن عبدالعزیز نے اس حدیث کو بیان کیا یہ بات اصلا ً غیر ثابت ہوئی پس اس کو مرسل خفی کی مثال میں کیسے پیش کیا جاسکتاہے ۔
ایک اوربات غور کرنے کی ہے وہ یہ کہ پوری کتب ستہ میں عمربن عبدالعزیز کی عقبہ سے کوئی روایت نہیں اور امام مزی نے بھی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث ذکر نہیں کی اور شاید اس کے علاوہ عمربن عبدالعزیز کی عقبہ سے کوئی اورروایت ہے بھی نہیں اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر ارسال خفی کی نسبت ان کی طرف کرنا عین غلطی تصورکی جائے گی اوراس بات کی تائید مزید اس سے بھی ہوتی ہے کہ صالح بن محمد کی اس حدیث میں اضطراب واقع ہوا ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو ایک مرتبہ اورروایت کیا ہے جس میں عمربن عبدالعزیز کی عقبہ سے سننے کی صراحت کی ہے اوریہ بالکل واضح غلطی ہے کیونکہ عمربن عبدالعزیز کی عقبہ سے معاصرت بھی ثابت نہیں ۔
۲۔اگر اس حدیث کو عمربن عبدالعزیز کے طریق سے بالفرض صحیح تسلیم کرلیا جائے توبھی یہ منقطع کی مثال ہوگی مرسل خفی کی نہیں کیونکہ عمربن عبدالعزیز کی معاصرت اصلاً عقبہ بن عامر سے غیر ثابت ہے اورمرسل خفی معاصرت کے بغیر ہوبھی نہیں سکتی جیساکہ آں موصوف نے تعریف میں ذکر فرمایا ۔
عد م معاصرت کی تفصیل یہ ہے کہ عقبہ بن عامر کی وفات ۵۸ھ میں ہوئی جیساکہ خلیفہ بن خیاط نے صراحت کی ہے بلکہ ایک قول کے مطابق اس سے پہلے ہوئی ہے اور عمربن عبدالعزیز کی ولادت ان کی وفات کے تین سال بعد ہوئی بعض اہل علم نے کہا ۶۱ھ میں اوربعض اہل علم نے کہا ۶۳ھ میںہوئی ۔
پس یہ بات صاف ہوگئی کہ عمربن عبدالعزیز کی عقبہ بن عامر سے معاصرت ثابت نہیں لہذا اس حدیث پر مرسل خفی کا حکم لگانا درست نہیں ۔(15)
الحاصل :یہ حدیث مرسل خفی کے لئے بالکل موزوں نہیں ، مرسل خفی کی بے شمار مثالیں ’’کتب مراسیل ‘‘خصوصا ابن ابی حاتم میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ نے وہیں ایک اور مثال ذکر کی ہے جو مرسل خفی کی تعریف پر صادق آتی ہے فاضل مؤلف کوچاہئے تھا کہ اس مثال کو اپنی کتاب میں جگہ دیتے تاکہ اعتراض ونقد کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی ۔(تفصیل ملاحظہ ہو الاصلاح ص ۲۳۰)

اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ.
(آمین)

—–
(۱) (رواہ الترمذی فی کتاب العلم برقم (۲۶۵۷)امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے )
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ اورخوش وخرم رکھے جس نے مجھ سے کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں کے پاس بعینہ اسی طرح پہونچایا جس طرح سنا تھا ۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جس کو حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ سامع سے زیادہ محفوظ کرنے والا(ذہین وفطین) ہوتاہے ‘‘۔اسی معنی کی ایک اور روایت ہے:

’’فربّ حامل فقہ إلی من ھو أفقہ منہ وربّ حامل فقہ لیس بفقیہ‘‘۔ (ایضاً برقم۲۶۵۶)

(2) یہ کتاب عمدہ ہے مگر اسمیں بحثوں کی تہذیب نہیں اورنہ ہی مناسب فنی ترتیب قائم کی گئی ہے ۔
(3) اس کتاب میں فن مصطلح کے وہ قواعد جو امام حاکم سے چھوٹ گئے تھے انہیں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس کے باوجود بعض چیزیں رہ گئی ہیں ۔
(4) مؤلف نے اس فن کے مسائل کا جامع وشامل احاطہ کیا ہے بلاشبہ یہ کتاب ’’مصطلح الحدیث‘‘ کے اہم مصادر کے طور پر جانی جاتی ہے ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تیسیر مصطلح الحدیث از ص۹ تا۱۶
(5) ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کے نام سے معروف ہے ،فن مصطلح میں عمدہ ترین کتاب ہے لیکن مناسب وضع میں نہیںکیونکہ مؤلف نے اسے شدہ شدہ املاء کرایا ہے۔
(6) یہ مقدمہ ابن الصلاح کا اختصار ہے ۔بہترین کتاب ہے مگر عبارتیں اختصار کی وجہ سے کافی پیچیدہ ہوگئی ہیں۔
(7) یہ تقریب النواوی کی شرح ہے ۔اس کی اہمیت ارباب ذوق پر مخفی نہیں۔
(8) یہ کتاب حافظ عراقی کی الفیۃ الحدیث کی شرح ہے اوراستاذ گرامی الشیخ علی حسین السلفی حفظہ اللہ کی تحقیق سے شائع ومتداول ہے ۔
(9) بلاشبہ یہ کتابیں مدارس کے نصاب میں داخل ہونے کا کامل استحقاق رکھتی ہیں ، ان کے بغیر نصاب تعلیم کا نامکمل متصورہونا خلاف عقل وقیاس نہیں ان کی اہمیت گردش لیل ونہار ہرگز کم نہیں کرسکتی ۔

10۔مرفوع :نبی ﷺ کی طرف منسوب قول ،فعل ،تقریر یاصفت مرفوع ہے(علوم الحدیث۔معرفۃ المرفوع ص؍۴۵)
11۔موقوف:صحابی کی طرف منسوب قول،فعل اورتقریر موقوف ہے۔(علوم الحدیث۔معرفۃ الموقوف ص؍۴۶)
12۔مقطوع:تابعی یا اس سے مابعد لوگوںکی طرف منسوب قول وفعل کو مقطوع کہتے ہیں۔(النخبۃ ص؍۴۵)
13۔منقطع : ایسی حدیث جس کی سند متصل نہ ہو ،اس میں انقطاع پایاجائے خواہ انقطاع کسی بھی طریقہ کا ہو (التقریب مع التدریب -المنقطع ۱؍۲۰۷)
14- یہاں ارسال خفی کے لئے لفظ ’’شیخ‘‘ استعمال کیا گیا ،اس سے یہ خیال نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ ارسال خفی میں بھی راوی کا شیخ ہوتاہے کیونکہ اصلاً تو ارسال خفی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ اس میں راوی کا شیخ سے سماع نہیں ہوتا یہاں محض معنی کی ادائیگی کے لئے ہم نے شیخ کا لفظ استعمال کیا ورنہ فی الواقع وہ راوی کا شیخ نہیں ۔
15۔ اس اعتبار سے امام مزی کا عمربن عبدالعزیز کے بارے میں یہ قول: ’’إنہ لم یلق عقبۃ بن عامر‘‘ بالکل درست ہے اوراس جملہ کا ترجمہ سیاق کی روشنی میں ’’لم یدرک عصرہ یعنی انہوںنے عقبہ کا زمانہ نہیں پایا‘‘سے کیا جائے گا ،امام دارمی نے اپنی مسند (۳؍۲۰۳) میں اس حدیث کے ضمن میں اس کی تصریح کی ہے ۔

3
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ممتازالنوري

masha allah

ممتازالنوري

ماشاءالله تبارك الله … تقبل الله جهودكم جهد مشكور وعمل رائع لقد قمت بقراءة الرسالة كاملة …ولله الحمد وهنا أذكر بأنني قيدت بعضا من هذه الملاحظات(التي تشتمل عليه الرسالة) بعد اطلاعي على كتاب:”تقريب مصطلح الحديث” لشيخي المؤقر/عبدالله عيد الجربوعي -حفظه الله-(رئيس قسم علوم الحديث في كلية الحديث بالجامعة الإسلامية بالمدينة النبوية)… ولكن لم أتمكن من إظهاره ونشره بين الناس نظرا لمنزلة الكتاب ومؤلفه عند أهيل الفن ، … وعلى كل فالكتاب البديل “تقريب مصطلح الحديث” مقرر في جامعتي الغالية (الجامعة الإسلامية نورباغ كوسة ممبرا ممباي الهند) لطلاب صفي الثاني والثالث من الثانوية…وحبذا لو يتم تقريره في الجامعات الأخرى. وأخيرا أشكر… Read more »

راشد حسن مبارکپوری

أشكركم على هذا الاهتمام والتنويه وجزاكم الله خيرا وبارك فيكم.