دستور ہند کی ترتیب وتنظیم میں مسلم ممبران کا کردار

خبیب حسن مبارکپوری

190/برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر 15/اگست 1947 کے دن ہندوستان نے آزادی حاصل کرلی۔ اور تقریبا تین برس کی شب وروز کوششوں اور 62 لاکھ 96 ہزار 792 روپیے کی خطیر رقم صرف کرکے 26/ جنوری 1950 کو اپنا ذاتی آئین نافذ کیا اور اس طرح یہ ملک دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک قرار پایا۔
دراصل مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد لاقانونیت پھیل گئی اور یہاں کا سارا نظام درہم برہم ہوکر “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کا سا ہوگیا۔ انگریزوں کے ظلم و بربریت سے تنگ آکر1857 میں تحریک آزادی نے دوسرا رخ اختیار کیا اور ساتھ ہی انقلابیوں نے کچھ قوانین بنانے کی کوشش کی لیکن بزور بازو انگریزوں نے ان کی تمام تر سرگرمیوں کو دبا دیا، اس کے بعد بھی گاہے بگاہے یہ آواز اٹھتی گئی مگر اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوسکا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب وطن عزیز میں انگریزوں کی جڑیں کمزور ہوگئیں اور اس کو تمام لوگوں نے بخوبی جان لیا تو 1946 میں قانون ساز اسمبلی بنای گئی جس میں تمام مذاہب و مکاتب کے لوگوں نے حصہ لیا- خصوصا مسلمانوں نے جن کی تعداد سو کے قریب تھی، اسی دوران1947 میں تقسیم ہند کا المیہ پیش آیا جس کی وجہ سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر ہجرت کی، اس کے باوجود ہندوستانی قانون ساز اسمبلی میں 35 سے زائد مسلم ممبران نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اس کی تمام میٹنگوں، پروگراموں اور جلسوں میں شرکت کی اور اس کی ایک ایک شق کی خوبیوں اور خامیوں کو سامنے رکھ کر دستور ہند کو تشکیل دیا۔
لیکن افسوس آج ہمارا مطالعہ صرف چند ہی مسلم ناموں کے ارد گرد گھومتا ہے اور بقیہ مسلم ممبران جنھوں نے اپنی زبردست علمی مہارت، بے لاگ اور منصفانہ تجزیوں اور دلائل و براہین سے دستور ہند کو سجایا اور سنوارا، انھیں ہم بھول گیے اور نہ جانے کتنے مسلم ممبران مذہبی، نسلی اور قبائلی تعصب کا شکار بھی ہوگیے۔ یہ ہماری حرماں نصیبی ہے کہ ہم ان کے حیات و کارنامے کو محفوظ نہ رکھ سکے، خصوصا رفیع احمد قدوائی، بشیر حسین زیدی، محمد اسماعیل خان، قاضی سید کریم الدین، سر سید محمد سعدالله، شیخ محمد عبد اللہ اور محبوب علی وغیرہ۔ اس کے علاوہ مولانا ابو الکلام آزاد جن کی زیر نگرانی بڑے پیمانے پر آئین کی تصحیح و تخریج کی گئی۔ اسی طرح تجمل حسین جنھوں نے اقلیت کے لفظ پر سخت نکتہ چینی کی اور کہا کہ تنوع میں وحدت ہی ہماری پہچان ہے اور بیگم رسول جنھوں نے ریزرویشن کے متعلق پیش آمدہ نتائج و خطرات پر کھل کر بات پیش کی۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ باتیں لی گئیں اور کچھ کو چھوڑ دیا گیا جس کا اثر آیے دن ہم اقلیتوں اور ریزرویشن کے متعلق اخباروں میں پڑھتے ہیں۔
الغرض مسلم ممبران نے آئین ہند کو مؤثر اور قابل عمل بنانے کے لیے ہر طرح کے عملی اقدام کیے جنھیں تاریخ فراموش نہیں کرسکتی کیونکہ ان کے تذکرے کے بغیر تاریخ ادھوری اور ناقص شمار کی جایے گی۔
کیا کیا تھے لوگ آنکھوں سے اوجھل جو ہوگیے
اب ڈھونڈتے پھرو گے وہ شکلیں کہاں کہاں

خیر 1949 کے اسمائے ارکان دستور ساز اسمبلی کے مطابق بارہ فیصد مسلم ارکان قانون ساز مجلس کے ممبر تھے یعنی کل 302/اراکین میں سے 35/مسلم ممبران تھے۔ اور یہ اعداد و شمار تو ان مسلم ممبران کے ہیں جن کے تذکرے مختلف کتابوں اور مضامین میں بکھرے پڑے ہیں جب کہ کوئی نہیں جانتا کہ مزید کتنے مسلم ممبران تھے۔ بہرحال ان کے اسماء بالتفصیل بتانا تو ممکن نہیں کیونکہ کہیں کہیں بعض کے صرف نام ہی ملتے ہیں اور کہیں ان کا معمولی تذکرہ، لہذا انہی 35/ مسلم ارکان قانون ساز مجلس کے اسمایے گرامی کو ذکر کرنے کا التزام کیا جارہا ہے:
1_مولانا ابوالکلام آزاد
2_عبد القادر شیخ
3_ابو القاسم خان (5/اپریل 1905-32/مارچ 1991)
4_عبد الحمید
5_عبد الحلیم غزنوی(1876-1956)
6_سید عبد الرؤوف
7_چودھری عابد حسین
8_شیخ محمد عبد اللہ(5/دسمبر 1905-8/ستمبر 1982)
9_سید امجد علی(1907-5/مارچ 1997)
10_آصف علی(11/مئی 1888-1/اپریل 1953)
11_بشیر حسین زیدی(1898-29/مارچ 1992)
12_بی.پوکر صاحب بہادر(م 1965)
13_بیگم عزیز رسول(1908-2001)
14_حیدر حسین
15_مولانا حسرت موہانی
16_حسین امام
17_جسیم الدین احمد
18_کے.ٹی ایم احمد ابراھیم
19_قاضی سید کریم الدین (1899-1977)
20_کے.اے محمد
21_لطیف الرحمن
22_محمد اسماعیل(قائد ملت کیرلہ)
23_محبوب علی بیگ صاحب بہادر
24_محمد اسماعیل خان
25_محمد حفظ الرحمن
26_محمد طاہر
27_شیخ محمد عبد اللہ(1905-1982)
28_مرزا محمد افضل بیگ
29_مولانا محمد سعید مسعودی
30_نذیر الدین احمد
31_رفیع احمد قدوائی(پہلے وزیر مواصلات)
32_ راغب احسن
33_سید جعفر امام
34_تجمل حسین
35_سرسید محمد سعد اللہ(آسام کے پہلے وزیر اعلی)
آخر میں مشہور قول پیش خدمت ہے کہ” بھارت ایک مرقع ہے، مذہبوں کا، تہذیبوں کا اور تہواروں کا، رسموں اور رواجوں کا، روایتوں کا اور جدتوں کا، آدرشوں کا اور امنگوں کا، کاوشوں کا اور کامیابیوں کا، بھارت ایک گلدستہ ہے جس میں بھانت بھانت کے پھول آنکھوں کو بھاتے ہیں، دلوں کو لبھاتے ہیں، اگر اس کو کسی خاص رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی تو اس کی ساری خوبصورتی اور حسن و جمال برباد ہوجایے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ باہمی اخوت و محبت اور انسانیت نوازی کو فروغ دیں تاکہ ملک میں امن و امان قائم رہ سکے۔
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

بہت

ھلال ھدایت

👍👍