کنویں میں گرا پڑا اونٹ

کنویں میں گرا پڑا اونٹ

ابوالمیزان منظرنما

بہت سارے جانداروں کو ہم نے پر لگتے دیکھا ہے۔ بھیگے پروں کو دھوپ دکھائی ہے۔ مڑے ہوئے ڈکھنوں کو سیدھا کیا ہے۔ کئی تو ایسے بھی ملے جنھیں لگتا تھا ان کے پر بس جھاڑ جھنکار کی صفائی کے لیے ہیں، غلط فہمی دور کی تو اڑان بھی بھرنے لگے۔ اہلیت ایک چیز ہے، حسب اہلیت کارکردگی الگ چیز۔

درحقیقت احساس اور شعور ہی محرک اعمال ہوتے ہیں۔ پھر پیاس محسوس ہو تو بندے کو یہ شعور بھی ہونا چاہیے کہ وہ کیا پیے۔ پانی پیے گا تو اس کے بدن میں موجود سسٹم درست رہے گا۔ خون پینے لگا تو انفیکشن لازمی ہے۔

دراصل خون پینے والا خون چوستا ہے۔ پینا تو شریفوں کا کام ہے اور وہ بھی پانی۔ اب یہ ضرورت، عادت، ذوق اور تسکین کی ماترا پر نربھر ہے کہ کون کیا پیتا ہے۔

عموما‌ ایسا ہوتا ہے جو حضرات یا خواتین ڈپریشن کے شکار ہوتے ہیں، علاج کے لیے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے، نجی زندگی میں سکون کا کوئی سامان نہیں ہوتا، سماجی زندگی میں کوئی کردار نہیں ہوتا، اندرون میں آگ ہوتی ہے مگر بھیگی بھیگی سی، کھرچتے ہیں مگر جلتی نہیں۔ نہ جلنے کا احساس اندر اندر سب کچھ بجھانے لگتا ہے۔ پھر وہ حالت ہوتی ہے جو دسمبر کے آخری دنوں میں آدھی رات کے کوڑے کی ہوجاتی ہے۔ بجھی ہوئی آگ کی راکھ سی، آسمان سیت ٹپکاتا ہے اور زمین نمی اگاتی ہے۔ پھر دونوں کے بیچ دبی ہوئی چنگاری ایسے سمٹنے لگتی ہے جیسے سینڈوچ کے پیٹ میں پڑی ہوئی چٹنی۔

حال جب ایسا ہوجائے تو ڈپریشن بڑا ہونے لگتا ہے، اچھا بھلا بدن سے توانا انسان شکل سے سوکھا اور نظر سے آدھا سویا آدھا جاگا سا لگنے لگتا ہے۔ پھر بھنوؤں کے سایے میں سیاہی ایسے پسرتی ہے جیسے دن ڈھلے اندھیرا۔ آنکھوں کے نیچے چھپی ہوئی یہ مہر صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ ضروری نہیں ایسا شخص علم و عمل سے دور ہو، سلوک و سعادت سے عاری ہو۔ نفیس طبیعت اور خوش لباس بھی ہوسکتا ہے، باتوں سے تجربے کی بو بھی آسکتی ہے۔ مگر ایسے شخص کا نقصان اس کے فائدے سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ بیمار کی جگہ اسپتال ہے سماج نہیں۔

یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو جاہلیت کی آواز لگاتے ہیں۔ ایک ہی سانس میں اینا‌ مینا ڈیکا سب کو بلالیتے ہیں۔ اپنی سوچ، اپنی سمجھ، اپنی رائے، اپنی بات، اپنی زبان، اپنا قلم، اپنا ساتھی، اپنا ہم خیال، اپنا ادارہ، اپنا رسالہ، اپنا مدرسہ، یہ اور ایسے امراض تفوق جس کو بھی لاحق ہوجائیں وہ متعصب ہے۔ جو ناحق اپنی قوم کی مدد کرے وہ کنویں میں گرے پڑے اونٹ جیسا ہی ہے:

حدثنا عبد الملك بن عمرو ، ومؤمل ، قالا : حدثنا سفيان ، عن سماك ، عن عبد الرحمن ، عن عبد الله ، قال : انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في قبة حمراء . – قال عبد الملك : من أدم – في نحو من أربعين رجلا ، فقال : إنكم مفتوح عليكم ، منصورون ، ومصيبون ، فمن أدرك ذلك منكم ، فليتق الله ، وليأمر بالمعروف ، ولينه عن المنكر ، وليصل رحمه ، من كذب علي متعمدا ، فليتبوأ مقعده من النار ، ومثل الذي يعين قومه على غير الحق ، كمثل بعير ردي في بئر ، فهو ينزع منها بذنبه[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 401]

اس کی سند صحیح ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے ، دیکھئے :
[ سلسلة الأحاديث الصحيحة 3/ 371، رقم 1383]

واضح رہے کہ کسی ناحق بات پر مدد طلب کرنے کے لیے فیس بک یا واٹس اپ پر اپنے ہم پیالوں کو ٹیگ کرنا بھی عصبیت ہے۔ اور یہ مسلمانوں والا کام‌ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من دعا الی العصبیة فلیس منا
اللہ سے دعا ہے ہمیں تعصب اور تعصب کے ماروں سے بچائے۔ جو افراد ایسی جاہلی بیماری میں مبتلا ہیں انھیں شفا دے اللہ۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Rizwanullah abdul rahman

لا جواب…
اصل مضمون آخری پیراگراف میں ہے. واقعی یہ بیماری ہم میں سے اکثر و بیشتر میں موجود ہے، ہم اپنی غلط باتوں پر بھی اکثر لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور کتنے ہی صاحب جبہ و دستار ایسے ملیں گے جو صرف مصاحبت کے خاطر اپنے ہمنشیں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں،

Abdul Rehman Abdul Ahad

مضمون میں ہندی الفاظ کا استعمال جوڑ معلوم ہوتا ہے ۔حدیث کا ترجمہ کر دیا جاتا تو ہم جیسے عامی کے علم میں اضافہ ہو جاتا

Abdul Rehman Abdul Ahad

مضمون میں ہندی الفاظ کا استعمال بے جوڈ ہے حدیث کا ترجمہ کرتے تو بہتر ہوتا