امتحان کی تیاری کے لیے رہنما اصول

امتحان کی تیاری کے لیے رہنما اصول

ہلال ہدایت

زندگی امتحانات سے عبارت ہے جس میں انسان مختلف آزمائشوں اور پریشانیوں سے گزر تاہے، بچپن میں پاؤں پر کھڑا ہونا اور پھر انگلی پکڑ کر چلنا بڑا مشکل کام ہوتاہے۔ بچہ کھڑا ہوتا، گرتا اور چلتا ہے پھر ایک دن دوڑنے لگتا ہے۔ دودھ چھوڑنا بھی بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جس کے غم میں بچہ دبلا بھی ہوجاتا ہے اور رو رو کر اپنے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔ ایک دن ایسا آتا ہے جب والدین اسکول میں لے کر جاتے ہیں جو بظاہر سب سے تکلیف دہ وقت ہوتا ہے، بچہ بھاگتا ہے، روتا ہے، مار کھاتا ہے اور بتدریج اسکول جانے کا عمل اس کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ اسکول آنا جانا اور وہیں سے زندگی کی نئی شروعات بچے کو بڑا، جوان اور بوڑھا بنادیتی ہے۔ یہاں ہر مرحلہ میں آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے، پڑھائی اور تعلیم و تعلم کا معاملہ امتحانات کے علاوہ کچھ نہیں ہے جہاں مختلف خیالات اور متنوع مزاج و ذہن کے طلباء سے سامنا ہوتا ہے جہاں قابلیت کی پہچان اور صلاحیت کو نکھارنا ہوتا ہے، شناخت برقرار رکھنے کے لیے محنت، لگن اور وقت کو داؤں پر لگانا ہوتا ہے۔ زندگی میں دکھ، درد، تکلیف، آزمائش اور پھر اس سے اُبھر کر خوشی، شادمانی، مسرت اور امتحانات کا مقابلہ کرنا نئی جہت دکھاتا ہے اور یہی اصل ہدف ہے۔ دنیاوی آزمائش کے علاوہ امتحان کا ایک اور دن متعین ہے جس میں تمام انسانوں کی ڈائری کھلی ہوگی اور ممتحن اللہ رب العزت کی ذات پاک ہوگی۔ جو شخص امتحان میں کامیاب ہوگا اس کو پروانۂ آزادی مل جائے گی لیکن اس کے برخلاف جو شخص فیل ہوگیا اس کے لیے نامرادی لکھ دی جائے گی۔
ان دنوں پورے ملک میں امتحانات کی تیاریاں زوروں پر ہیں اور کہیں کہیں امتحانات شروع ہوچکے ہیں، طلباء امتحان کی تیاریوں کے سلسلے میں کافی پریشان رہتے ہیں اور کچھ تو حد سے زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، امتحان میں پریشانی کے کیا وجوہات ہیں؟ اس کا سد باب کیا ہے؟ ڈپریشن سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ چند رہنما اصول یہاں قلمبند کیے جارہے ہیں جس سے طلباء کو امتحان کی تیاری میں کافی تعاون حاصل ہوگا:
امتحان کی تیاری کے لیے پہلے سے ذہن بنالیں اور پھر حائطی جدول (ٹائم ٹیبل) تیار کریں۔ اس سے مختلف مضامین کے تحت مختلف کتابیں پڑھنے میں آسانی ہوگی اور وقت کا اندازہ ہوگا، ساتھ ہی امتحان کے لیے پہلے سے ذہن بنالینے سے یکسوئی حاصل ہوگی جوکہ ایک طالب علم کو علمی ماحول فراہم کرنے میں نہایت سازگار ہے۔
امتحان کے لیے دوران اسباق ہی تیاری کرتے رہیں اس کا طریقہ یہ ہے کہ اساتذہ کے ذریعہ پڑھائی گئی چیزیں ڈائری میں محفوظ کرلیں اور دوسرے دن کلاس جانے سے پہلے پہلے اس کا اعادہ بہرصورت کرلیں، اس طرح پڑھی ہوئی چیز ذہن نشین ہوگی اور اگلے سبق کو سمجھنے میں ممد و معاون ہوگی، مزید برآں امتحان کے ایام میں ڈائری سے کافی مدد ملے گی اور اسباق جو ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہوں گے بہت جلد یاد آجائیں گے۔
دوران تدریس کلاس میں زیادہ سے زیادہ حاضر رہیں تاکہ کوئی مضمون فوت نہ ہو کیونکہ استاد کسی بھی موضوع پر مکمل مطالعہ اور دسترس حاصل ہونے کے بعد طلباء کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں چھوٹے ہوئے سبق کو حاصل کرنا بڑا مشکل مسئلہ ہوتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے ’’کلاس میں ایک دن غیر حاضر رہنے سے چالیس دن کی برکتیں ختم ہوجاتی ہیں‘‘۔ یہ حقیقت ہے اور تجربہ و مشاہدہ سے بات معلوم ہوئی ہے کہ اس کا اثر بعد کے اسباق پر پڑتا ہے۔
امتحان کی تیاری کے لیے اساتذہ، سینئر طلباء اور کلاس ساتھیوں سے مدد لیں، علم کے حصول میں کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہ کریں۔
مطالعہ میں گہرائی و گیرائی پیدا کریں، رٹ کر پڑھنے سے ذہن تھک جاتا ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں، مراجعہ کی عادت ڈالیں۔ رٹنا کوئی برا عمل نہیں ہے بسااوقات رٹنا ہی کارگر ہوتا ہے تاہم اسی پر مکمل اعتماد نہ کریں۔
اسباق کو بلند آواز سے پڑھنے کی عادت ڈالیں، اس سے زبان صاف ہوتی ہے اور پڑھی ہوئی چیزیں ذہن میں جلدی بیٹھ جاتی ہیں۔ تاہم کچھ مضامین کا پڑھنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ مشق ضروری ہے جیسے ریاضی، فزکس وغیرہ۔
ایک مضمون ایک وقت میں پڑھیں، دوسرا مضمون شروع کرنے سے پہلے درمیان میں کچھ وقفہ رکھیں اور ذہن کی تکان کو دور کرنے کے لیے کچھ تفریح کرلیں۔ ماہرین کے مطابق مطالعہ بیٹھ کر کریں، لیٹ کر مطالعہ کرنے سے آنکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کچھ چیزیں لکھ کر یاد کرنے میں بآسانی ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں وقت رہتے اس کا بھی اہتمام کریں۔
جو کچھ پڑھا ہو کتاب بند کرکے دل ہی دل میں اس کا اعادہ کریں یا پھر لکھ کر دہرائیں کہ آپ کے ذہن نے کتنا قبول کیا، اس سے املا بھی درست ہوگا اور یہ اندازہ بھی ہوگا کہ کس سوال کو حل کرنے میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے۔
کتابوں کی تیاری کے لیے کھلی فضا اور صاف ستھرے ماحول کا انتخاب کریں، شوروغل والی جگہوں سے دور رہیں۔
امتحان گاہ میں جانے سے پہلے ممکن ہو تو ہر سبق کا خلاصہ دیکھ لیں۔ سوال کا منہج جاننے کے لیے پرانے پرچے حل کرلیں، اسی طرح مکمل تیاری ہوجانے کے بعد وقت رہنے پر ساتھیوں سے مناقشہ کرنا زیادہ کارآمد ہے۔
امتحان گاہ میں وقت پر پہنچیں، پورے سکون و اطمینان کے ساتھ سوال کو از اول تا آخر پڑھیں، سوال کا سمجھنا ہی آدھے جواب کو حل کرنا ہوتا ہے، اور کبھی کبھی سوالات میں ہی جواب مخفی ہوتے ہیں۔
جب سوالات پڑھ چکے ہوں پھر قلم کو جنبش دیں۔ سب سے پہلے وہ سوال حل کریں جن کے جواب پختہ یاد ہوں اور آسان ہوں، پھر اس کے بعد کا، پھر اس کے بعد کا۔
سوالات میں کون لازم ہے اور کس پر کتنا نمبر ہے اس کا خیال رکھیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ طلباء آسان سوال حل کرنے کے چکر میں لازمی سوال ترک کردیتے ہیں یا وہ سوال سہوا چھوڑ دیتے ہیں جن پر نمبرات زیادہ ہوتے ہیں۔
سوال کو پوچھنے کے لیے کچھ وقت متعین ہوتے ہیں اس درمیان میں جو بات سمجھ نہ آئے، ممتحن سے اس کا تصفیہ کرلیں۔
پورے اعتماد اور سکون سے امتحان گاہ میں بیٹھیں، حوائج ضروریہ کی تکمیل امتحان ہال میں جانے سے پہلے کرلیں تاکہ دوران امتحان خلل کا خدشہ نہ ہو۔
آپشن والے سوالات میں اگر جواب یاد نہ ہو، تاہم بطور اندازہ جس جواب پر پہلے وہلے میں ذہن جائے اسی کو جواب سمجھیں بسااوقات شک کرنے اور پھر دوسرے کو منتخب کرنے کی صورت میں غلطی ہوجاتی ہے۔
جوابات لکھتے وقت یہ خیال رہے کہ جس سوال یا جزء کا جواب کاپی پر لکھ رہے ہوں وہی نمبر کاپی پر تحریر کریں، خوش خطی کا خاص خیال رکھیں تاکہ ممتحن کو زیادہ دقت نہ اٹھانی پڑے اور اچھا تاثر لے۔
رف کے لیے رف صفحہ کا استعمال کریں، صاف صاف اور عمدہ پیرائے میں جواب قلمبند کریں۔
جواب مکمل کرنے کے بعد دو تین بار یا اس سے زائد مرتبہ اعادہ کریں تاکہ لفظی خامی نہ رہ جائے۔
امتحان ہال کے اصول و قوانین کا خاص خیال رکھیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ رب العالمین سے اپنا واسطہ برقرار رکھیں۔ نماز اور ذکر واذکار کی پابندی کریں، زیادہ سے زیادہ دعائیں مانگیں، علم میں زیادتی اور ہدایت کے لیے، اس سے بڑھ کر کوئی وسیلہ نہیں ہوسکتا ہے۔
یہ کچھ رہنما اصول ہیں جن پر طلباء عمل کرکے اپنے امتحان کی تیاری کرسکتے ہیں۔ تاہم بعض طلباء کی جانب سے یہ شکایت عام ہے کہ کچھ طلباء کافی محنت کرتے ہیں اس کے برخلاف کچھ طلباء سیر و تفریح میں وقت ضائع کرتے ہیں لیکن امتحان میں زیادہ نمبر حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے، اللہ نے سب کے ذہن کو ایک جیسا نہیں بنایا ہے کچھ لوگ فطری طور پر ذہین ہوتے ہیں اور ان کاحافظہ مضبوط ہوتا ہے ایک بار دیکھ اور پڑھ لینے سے ان کو ازبر ہوجاتا ہے اور کچھ کو بار بار یاد کرنے سے۔ اس سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پورے لگن، محنت اور دلچسپی کے ساتھ امتحان کی تیاری کرنی ہے۔ محنت ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
ھلال ھدایت

بہت بہت شکریہ
جزاکم اللہ خیرا مدیران صاحب

عامر انصاری

ماشاء اللہ
طلباء کے لئے اچھی نصیحتیں ہیں ۔

بچوں کے اندر مطالعہ کی ترغیب اور دار المطالعہ کا قیام بھی بڑی اہم چیز ہے ۔ اس پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔

خبیب حسن

خوب
شکریہ برادرم

عاصم حسن

بہت عمدہ تحریر لکھی ہے آپنے ماشاء اللہ۔