ہندوستان کے موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داری

عامرسہیل

ایک لمبے عرصے سے ہندوستانی مسلمانوں کے دگرگوں حالات پر بحث جاری ہے، نت نئی کمیٹی تشکیل پاتی ہے اور تبصرے و جائزے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ وقفے وقفے سے نتائج پیش کیے جاتے ہیں لیکن حالات جوں کے توں بنے ہوئے ہیں۔ بیماری کی تشخیص ہوجاتی ہے لیکن علاج ٹھنڈے بستے میں پڑا رہتا ہے۔ مسیحائی کا چولا پہنے مداری مسلمانوں کے بیچ آتے ہیں اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور جھولا اٹھا کے چل دیتے ہیں۔
مجھے بچپن کا واقعہ یاد آتا ہے کہ ایک دن محلے میں ایک شعبدہ باز کی آمد ہوئی اس نے مختلف قسم کے کرتب دکھائے اور اخیر میں ایک حسین گلدستہ تیار کیا اور بچوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اپنے اپنے گھروں سے روپیہ، پیسہ، گیہوں، چاول لے کر آؤ بدلے میں آپ لوگوں کو گلدستے کے پھول دیے جائیں گے۔ بچوں کو جو میسر ہوا خوشی خوشی لے کر پہنچے لیکن گلدستہ غائب تھا بچے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
آج ہندوستانی مسلمان ان معصوم بچوں سے بھی زیادہ بھولے پن کا ثبوت دے رہے ہیں۔ بچے تو خیر گلدستہ دیکھ رہے تھے ان کی امیدوں کا مرکز ان کے سامنے تھا لیکن ہمارے بڑے وعدوں کے بہکاوے میں (جو کہ صرف زبان سے نکلی ہوئی بات ہے) آکر جمہوری طاقت کو ضائع کردیتے ہیں پھر حالات کا رونا روتے ہیں۔
اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو عمومی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ کامیابی و کامرانی اور شکست و ہزیمت میں خود قوم کے ہی افراد کا ہاتھ رہا ہے۔ باہری افراد پر اعتماد ایسی بیساکھی کا سہارا ہوتا ہے جس سے قدم قدم پر لڑکھڑاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم بارہ یا تیرہ صدی پیچھے جائیں تو دنیا کے نقشے پر دو عظیم قوتیں نظر آتی ہیں، دونوں ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھیں، ایران کے ساسانی حکمران روم کی قیصریت کا خاتمہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لینے کی تگ و دو میں تھے۔ ایک ایسا وقت آیا کہ ساسانی حکمران خسرو پرویز اپنی قوم کا مضبوط ہیرو بن کر ابھرا، وہ فتوحات کے جھنڈے گاڑتا آگے بڑھ رہا تھا، اس کے کبر و نخوت کا یہ عالم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو پرزے پرزے کردیا تھا، قریب تھا کہ یہ خوں خوار ازدہا روم کو نگل جائے کہ قیصر روم ہرقل نے نئی حکمت عملی سے کام لیا، اپنی قوم کا اعتماد جیتا اور ایک نئے جوش و ولولے سے آگے بڑھ کر اپنے زوال پذیر وقار کو بحال کیا اور اپنی قوم کا نام روشن کیا۔
دوسری جانب ماضی قریب میں میر جعفر و میر صادق نے اپنی صفوں کے اندر رہ کر ہی مسلمانوں کی لٹیا ڈبو دی۔
اجتماعی طور پر ہم نے آزادی کے بعد سے ہی باہری طاقتوں کو اپنا نجات دہندہ گردانا اور ان کے پرفریب وعدوں میں اپنا روشن مستقبل دیکھنے کی کوشش کی، آنکھیں پتھرا گئیں لیکن تاریکی کے بادل چھائے ہی رہے جو بھی رپورٹ پیش کی گئی اس کے تناظر میں ہم نے نہ اپنے حالات کا جائزہ لیا اور نہ ہی مناسب حل نکال سکے۔
ہمارے اندرون سے کچھ افراد قیادت کا نعرہ لے کر اٹھے جن میں سے کچھ تو اپنی نا اہلی کا ثبوت پیش کررہے ہیں اور جو اہل ہیں ان کو ہماری شک بھری نگاہوں نے راندہ درگاہ کردیا ہے۔
مکافات عمل ہمارے سامنے ہے، ایک مسلمان کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے دہشت گردی سے متصف کیا جاتا ہے، وہیں غیر مسلم ہزار گناہوں کے باوجود ملزم ہی رہتا ہے۔ مسلمان وطن کے لیے اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود عضو ناکارہ ہیں وہیں غیر مسلم غداریوں کے باوجود وطن پرست ہیں۔
ہم نے تن تنہا اپنی بے گناہی کا ثبوت دیا، وطن کے لیے اپنی وفاداری پیش کی لیکن ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر کبھی اجتماعی طاقت کا مظاہرہ نہ کرسکے، وقت کے اتار چڑھاؤ نے ہمارے ذہن و دماغ کو اس درجہ معطل کردیا کہ ہم شعبدے اور حقیقت میں فرق نہ کر سکے، ہم اپنے اندرون سے اتنا خوف زدہ ہیں کہ باہری کمزور حصار ہمیں تحفظ کا موہوم احساس دلاتے ہیں۔
خود اعتمادی ایک بڑی طاقت ہے جس سے انسان کو جینے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے، ہمیں بذات خود اپنے اندر اس احساس کو زندہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک بڑی اور مضبوط طاقت ہیں۔ ہماری اجتماعیت کرسی دلا سکتی ہے تو چھین بھی سکتی ہے۔
ملی قائدین اور رہنماؤں سے بدگمانی ایک بڑی کمزوری ہے جو ہمیں ایک جھنڈے تلے جمع ہونے سے روکتی ہے، ہمارے رہنما انسان ہی ہیں، غلطیاں ضرور کریں گے، کون سا ایسا انسان ہے جو غلطیوں سے مبرا ہے؟ کون ہے جس کا دامن بھول چوک سے پاک ہے؟ ہم خود اپنی ذات کا ایمانداری سے جائزہ لیں تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اسی لیے بھول چوک اور غلطی کی وجہ سے بدگمانی سے بچیں اور غلطی کرنے والے کو کنارے پر لگانے کے بجائے اس کی خیر خواہی کا جذبہ پیدا کریں۔
قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے بجائے ایک جگہ جمع ہوں اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھیں، یہ چند افراد اگر متحد ہوگئے تو پوری قوم کا متحد ہونا چنداں مشکل نہیں ہے، لیکن علیحدہ طور پر اگر ہر قائد کی یہ خواہش ہو کہ پوری قوم صرف انہی کی پیروی کرے تو یہ ایسا خواب ہے جس کی کوئی ممکنہ تعبیر ہی نہیں ہے۔
حالات کی خرابی اور مسلسل ناکامی نے ہمارے اندر ناامیدی پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے ہم خوش کن نتائج کے بارے میں سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں جبکہ جہد مسلسل اور عمل پیہم کبھی رائیگاں نہیں جاتے۔ اس کی زندہ مثال ہمارے سامنے سید ارشد مدنی حفظہ اللہ کی ہے جنھوں نے جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے نوجوانوں کی پیروی کی اور مسیحائی کا حق ادا کیا، مسلکی عصبیت ہمیں بعض اوقات قربانیوں کی ستائش سے روکتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
باہری افراد پر ہمارا جو اعتماد ہے وہی ہم اپنے قائدین پر کریں، مختلف ڈگر پر رواں رہنماؤں کو ایک ڈگر پر اکٹھا کرنے کی کوشش کریں، روشنی کی نئی کرن جگائیں، عزم و جد و جہد کو اپنا شعار بنائیں، مستقبل قریب کی تعمیر جدید کے لیے خود کو تیار کریں تاکہ پھر سے کوئی شعبدہ باز ہمارے بھولے پن کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد عرفان شیخ یونس سراجی

ماشاءالله! بہت بہتر چشم کشا تحریر ہے – اللہ کرے زور قلم اور زیادہ – آمین