یوم بدکاری

محمد غفران عبیدالرحمان سلفی

آج ہر چہار جانب برائی و بے حیائی، بدکاری و زناکاری کا دور دورہ ہے، انٹرٹینمنٹ اور تفریح کے نام پر مختلف قسم کی برائیاں سماج میں جنم لے کر اس کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور نوجوان نسل جو کہ قوم و ملت کے معمار ہوتے ہیں ان کو بے راہ روی، فحاشی و بے حیائی اور عریانیت کا عادی بنا رہی ہیں۔ انہی بے حیائیوں اور بدکاریوں میں سے ایک برائی و بے حیائی ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ بھی ہے، جس کو ’’یوم عشاق‘‘ کے نام پر ہر سال ۱۴؍فروری کو پوری دنیا میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور محبت کے نام پر بدکاری و زناکاری اور بے حیائی و فحاشی کی تمام حدیں پار کر دی جاتی ہیں اور اس لعنت کو عام کرنے میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اپنا بھر پور کردار نبھا رہی ہیں اور اس مرض میں نام نہاد لبرل اور اباحیت پسند طبقہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ملوث نظر آتی ہے۔

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر:۔
ویلنٹائن ڈے کے تاریخی پس منظر کے بارے میں مؤرخین نے تین واقعات بیان کیے ہیں:۔
پہلے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رومیوں کا ایک مذہبی تہوار تھا جسے وہ اپنے محبت کے دیوتا لوپر کالیا (Loper Calia) کے نام پر جشن لور خوشی کے طور پر مناتے تھے جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ ناچتے گاتے اور خوشی مناتے تھے۔
دوسرا واقعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ دن ’’ویلنٹائن” نامی ایک عاشق پادری کی یادگار ہے، کہ ایک راہبہ پر عاشق و فریفتہ ہو گیا تھا، اور ان کا یہ عشق و معاشقہ حد سے تجاوز کر گیا۔ بالآخر ۱۴؍فروری کو دونوں نے اپنا منہ کالا کیا جس کے پاداش میں کلیسا کے حکم پر ان کو قتل کر دیا گیا، اور پھر ایک مدت کے بعد عیاش و اوباش قسم کے نوجوانوں نے اسے ’’شہید محبت‘‘ کا خطاب دیا، اور عشق و محبت کے اظہار کے لیے ۱۴؍فروری کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے باقاعدہ طور پر منانا شروع کیا۔
اور تیسرے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نامی ایک پادری نے بادشاہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے فوجیوں کے درمیان نکاح کا سلسلہ شروع کیا اور بادشاہ کی جانب سے ممانعت کے باوجود بھی وہ اپنے کام پر قائم رہا۔ چنانچہ اس جرم کے پاداش میں اس کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے عیسائیت کو ترک کرکے رومی مذہب اختیار کرنے پر اس کے لیے معافی کا اعلان بھی کیا لیکن اس نے رومی مذہب کو اختیار کرنے کے بجائے عیسائیت پر مرنے کو ترجیح دی، بالآخر ۱۴؍فروری ۳۰۷؁ء کو اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا، چنانچہ پادریوں نے اس کو ’’بزرگ پادری‘‘ کا خطاب دیا اور ہر سال اس کی یادگار منانے کا سلسلہ شروع کیا۔
اگر ویلنٹائن ڈے کے تاریخی پس منظر کا ایک تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا تعلق خالص مذہبی نوعیت کا ہے یا پھر عشق و عاشقی اور پیار و محبت کی ایک موہوم سی داستان۔ اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جس کی بنا پر اس دن کو جشن اور خوشی کے طور پر منانے کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دے سکتا۔

ویلنٹائن ڈے قرآن و سنت کی نظر میں:۔
اب آئیے ہم شرعی طور پر اس کے مفاسد و نقصانات اور شناعت و قباحت کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آخر مذہب اسلام اس مخصوص محبت کے دن کو جشن اور خوشی کے طور پر منانے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟
اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ کہ اسلام میں صرف دو ہی دن ایسے ہیں جس میں شرعی طور پر جشن اور خوشی منانے کی اجازت دی گئی ہے ایک یوم الفطر اور دوسرا یوم الأضحٰی۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو ان لوگوں کے سال میں دو دن مقرر تھے جن میں وہ کھیلتے (خوشیاں مناتے) تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ انھوں نے کہا: زمانہ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں کھیلتے اور خوشی مناتے چلے آرہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’قد أبدلکم اللہ بھما خیراً منھما: یوم الفطر و یوم الأضحٰی‘‘ ’’اللہ تعالی نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرما دیے ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عیدالأضحٰی کے دن‘‘۔
اس دن کو منانے کی دوسری قباحت یہ ہے کہ ایک خالص مذہبی اور نظریاتی عمل ہے اور اس سے یہود و نصاری اور اباحیت پسند طبقہ کی مشابہت لازمی آتی ہے (کیونکہ یہ ان کا خالص مذہبی اور نظریاتی عمل ہے جیسا کہ تاریخی پس منظر سے یہ بات واضح ہوتی ہے) اور اسلام کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کرتا ہے چہ جائیکہ ان کے افکار و نظریات اور شرعی رسم و رواج پر عمل کیا جائے۔ فرمان نبوی ہے:۔ ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ (رواہ ابوداؤد)۔
یعنی: جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث کفار کے اقوال و افعال، لباس، پہناوے، تہوار و عبادات اور ان کے علاوہ دیگر ایسے امور میں جسے ہماری شریعت نے مشروع و جائز قرار نہیں دیا ہے اس میں مشابہت اختیار کرنے پر وعید، دھمکی اور سخت ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ۱؍۳۲۸)
ویلنٹائن ڈے کے اندر تیسری خرابی یہ ہے کہ اس سے بے حیائی، فحاشی، بے غیرتی اور بدکاری و زناکاری کو فروغ ملتا ہے اور اسلام بے حیائی و زناکاری سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ ان امور و عوامل سے بھی روکتا ہے جو اس کے قریب لے جانے کا ذریعہ اور سبب بنتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے:۔ ’’ولاتقربوا الفواحش ما ظھر منھا و مابطن‘‘ (الأنعام: ۱۵۱) اور تم ظاہر و باطن خواہش و منکرات کے قریب بھی مت جاؤ۔ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:۔ ’’ولاتقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشۃ و سآء سبیلا‘‘ (الاسراء:۳۲) یعنی: اور تم زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً وہ فحش کام اور برا راستہ ہے۔
ویلنٹائن ڈے کی شناعت و قباحت میں سے یہ بھی ہے کہ اس موقع پر مختلف شکلوں میں اموال کو ضائع و برباد کیا جاتا ہے اور اسراف و فضول خرچی کی اعلی مثال قائم کی جاتی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ تہوار ہی بے حیائی و برائی اور اسراف و تبذیر کا مجموعہ ہے اور اسلام نے اسراف و فضول خرچی کرنے سے نہ صرف منع کیا ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:۔ ’’ولاتبذر تبذیرا ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین‘‘ (الاسراء: ۲۶-۲۷)
اور اسراف و فضول خرچی کرنے والے شخص سے کل قیامت کے دن سخت محاسبہ کیا جائے گا، ارشاد نبوی ہے:۔ ’’لاتزول قدما ابن آدم یوم القیامۃ من عند ربہ حتی یسأل عن خمس‘‘: ومنھا ’’ومن مالہ من أین اکتسبہ وفیم أنفقہ‘‘ (رواہ الترمذی: ۲۳۵۴ وحسنہ الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر: ۷۲۹۹)
یعنی قیامت کے دن ابن آدم کا قدم اپنے رب کے پاس سے جنبش تک نہ کر سکے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کر لیا جائے، اور انہی میں سے ایک چیز ہے: کہ اس سے اس کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا؟‘‘۔
مذکورہ بالا حدیث پر اسراف و فضول خرچی کرنے والے ذرا غور کریں کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب کو کیا جواب دیں گے؟
اور ویلنٹائن ڈے کی سب سے بڑی شناعت و قباحت یہ ہے کہ اس میں بشمول برائی و بے حیائی اور بدکاری و زناکاری کے مختلف سماجی و معاشرتی برائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اسلام نے ان جرائم کے پھیلانے والوں کو دردناک عذاب کی سزا سنائی ہے، ارشاد الٰہی ہے:۔ ’’ان الذین یحبون أن الفاحشۃ فی الذین آمنو لھم عذاب ألیھم فی الدنیا والآخرۃ‘‘ (النور:۱۹)
بیشک جو لوگ اہل ایمان کے اندر فحشکاری و بدکاری پھیلانا پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک اور سخت عذاب ہے۔
اس کے علاوہ بھی ویلنٹائن ڈے کے بہت سے مفاسد و نقصانات ہیں۔ اور یہی وہ اسباب و عوامل اور مفاسد و نقصانات ہیں کہ اسلام میں ویلنٹائن ڈے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کا منانا ناجائز اور حرام ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام و خواص مل کرکے اس لعنت کو سماج و معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کریں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب مغرب کی طرح یہاں بھی ماں باپ اور بھائی بہن کا فرق و امتیاز مٹ جائے گا اور نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ جائے گا اور ہر طرف فحاشی و بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہمارے سماج و معاشرے کو اس قسم کے قبیح اعمال سے دور رہنے کی توفیق دے۔ (آمین)

5
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Nasruddin

آمین تقبل یارب العالمین
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ انتخاب
اللہ آپ کے قلم کی طاقت کو برقرار رکھے

Mohammad gufran

شکرا جزاکم اللہ خیرا

جمال حمیداللہ خان

آمین

ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ

اللہ آپ کو مزید ترقی عطا فرمائے اور آپ کو دونوں جہاں کی خوشیاں نصیب فرمائے

Mohammad gufran

آمین
وإیاکم

خبیب حسن

بر وقت بر محل❤️❤️