بے اعتدالی اور حد سے تجاوز کرنا

رفیق احمد رئیس سلفی


عربی تحریر: ڈاکٹر عبد الرزاق البدر
ترجمہ: رفیق احمد رئیس سلفی


ایک حددرجہ قبیح اور بری عادت جس کی مذمت قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کی ہے ،جس سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے،جس کے مرتکبین کو برا کہا گیا ہے اوران سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ نے دنیا وآخرت میں ان کے لیے تیار کررکھی ہیں،وہ بری عادت ہےبے اعتدالی اور حد سے تجاوز کرنے کی۔قرآن کریم میں بیس سے زیادہ مقامات پر “مُسرِفِینَ” (بے اعتدالی اور حد سے تجاوز کرنےوالوں) کو تنبیہ کی گئی ہے اور ان کی مذمت کی گئی ہے ۔ اللہ نے بتایا ہے کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والوں اور بے اعتدالی کی زندگی گزارنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ چنانچہ اس کا ارشاد ہے:

وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (1)

“اور حد سے مت نکلو۔بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا”۔
بزرگ وبرتر اللہ نے یہ بھی خبر دی ہے کہ حد سے تجاوز کرنے والے جہنم میں جائیں گے چنانچہ ارشاد ہے:

وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحٰبُ النَّارِ (2)

“اور حد سے گزر جانے والے ہی(یقیناً) اہل دوزخ ہیں”۔
اللہ عزوجل نے یہ بھی بتادیا ہے کہ حد سے تجاوز کرنا اور بے اعتدالی کی زندگی گزارنا اہل وعیال کی بربادی کا سبب اور دنیا وآخرت میں عذاب کا موجب ہے۔جیسا کہ فرمایا ہے:

ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَيْنٰهُمْ وَمَنْ نَشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ  (3)

“پھر ہم نے ان سے کیے ہوئے سب وعدے سچے کیے،انھیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کردیا”۔
اسی حقیقت کو ایک دوسرے مقام پر اس طرح واضح کیا گیا ہے:

وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَاتَدْمِيرًا (4)

“اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوش حال لوگوں کو (کچھ)حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی )بات ثابت ہوجاتی ہے ،پھر ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں”۔
اللہ عزوجل نے یہ بھی بتایا ہے کہ حد سے تجاوز کرنے سے برائیوں پر ابھارنے والےنفس کو زینت حاصل ہوتی ہے ، اسی طرح شیطان بھی اس سے فرحت محسوس کرتا ہے۔اللہ کا ارشاد ہے:

كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (5)

“ان حد سے گزرنے والوں کے اعمال کو ان کے لیے اسی طرح خوش نما بنادیا گیا ہے”۔
حد سے تجاوز کرنے والا ہدایت ربانی سے محروم رہتا ہے اور اسے اللہ کی طرف سے کسی کار خیر کی توفیق نہیں ملتی۔اللہ کا ارشاد ہے:

إِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ  (6)

“اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزرجانے والے اور جھوٹے ہوں”۔
ایک دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے:

كَذَلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ (7)

“اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک وشبہ کرنے والا ہو”۔
مختصر یہ کہ اس مفہوم کی آیات بہت سی ہیں۔
اسراف ، میانہ روی اور حد اعتدال سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں ۔یہ صرف کھانے پینے میں اسراف تک محدود نہیں ہے جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں بلکہ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:حکم الٰہی سے تجاوز کرنا اسراف ہے۔اسراف کی کئی شکلیں اور اس کی مختلف قسمیں ہیں ، اسراف کا دائرہ صرف گھر کے اخراجات اور کھانے پینے تک محدود نہیں ہے۔
سب سے خطرناک اور بدترین اسراف اللہ رب العالمین کا انکار کرنا،اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ،اس کا کوئی ہم سر ٹھہرانا اور نبیوں اور رسولوں کی تکذیب کرنا ہے۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے:

وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيٰتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقٰى  (8)

“ہم ایسا ہی بدلہ ہر اس شخص کو دیا کرتے ہیں جو حد سے گزرجائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور بے شک آخرت کا عذاب نہایت ہی سخت اور باقی رہنے والا ہے”۔
اسی طرح قتل میں بھی اسراف ہوتا ہے یعنی ایسے شخص کو قتل کردیا جائے جو قاتل نہ ہویا قاتل کے متعلقین پر ظلم وزیادتی کی جائے یا حد سے تجاوز کرتے ہوئےخود قاتل کا مثلہ کیا جائے ،اسراف کی یہ تمام شکلیں حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا (9)

“اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے،ہرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مارڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے پس اسے چاہئے کہ مارڈالنے میں زیادتی نہ کرے بے شک وہ مدد کیا گیا ہے”َ۔
فحش کام کرنا اور ذلیل ورذیل حرکات کا مرتکب ہونا بھی اسراف ہے ۔اسی لیے لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے اور انھیں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا:

إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ  (10)

“تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر،بلکہ تم تو حد ہی سے گزرگئے ہو”۔
اللہ عزوجل نے قوم لوط پر عذاب نازل کیے جانے کے سلسلے میں فرمایا:

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ  قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُجْرِمِينَ لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِينٍ مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِينَ  (11)

“(سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے)کہا:اللہ کے بھیجے ہوئے(فرشتو)تمھارا کیا مقصد ہے؟انھوں نے جواب دیا:ہم گناہ گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں جو تیرے رب کی طرف سے نشان زدہ ہیں،ان حد سے گزر جانے والوں کے لیے”۔
مختصر یہ کہ ہر قسم کے گناہوں،خطاؤں اور کارہائے معصیت کا ارتکاب اسراف ہے اور اس کا مرتکب مستحق سزا وعذاب ہے۔جہاں تک سوال اس اسراف کا ہے جو مالیات میں ،کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے وغیرہ میں کیا جاتا ہے تو یہ ایک مشہور بات ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (12)

“اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو ۔بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا”۔
امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا فِي غَيْرِ مَخِيلَةٍ وَلَا سَرَفٍ۔(13)

“جو چاہو کھاؤ پیو،صدقہ کرو اور پہنو بس فخر وتکبر نہ کرو اور نہ اسراف کرو”۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے تعلیقاً روایت نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:

كُلْ مَا شِئْتَ وَالبَسْ مَا شِئْتَ مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ أَوْ مَخِيلَةٌ ۔(14)

“بس دو غلطیوں تکبر اور اسراف کا ارتکاب نہ کرو ،اس کے بعد جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو”۔
مال ودولت،اشیائے خورد ونوش اور لباس میں اسراف کا تعلق اسی موضوع سے ہے ،چاہے اس کو حاصل کرنے میں اسراف ہو،چاہےاس کو استعمال کرنے اور خرچ کرنے میں اسراف ہو کیوں کہ دونوں ہی صورتوں میں شرعی حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے ،خواہ مال حاصل کرنے میں ہو یا اسے خرچ کرنے میں اور ایسا شخص سزا اور عذاب الٰہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔
لہذا سود کھانا،رشوت لینا،جوا کھیلنا اور خرید وفروخت میں حیلہ بازی اور فریب دے کر لوگوں سے ان کا مال لینا سب کے سب مال کمانے میں اسراف کے ذیل میں آتا ہے۔اسی طرح کھانے اور پینے میں وہ چیزیں استعمال کرنا جن کو اللہ نے حرام کیا ہے جیسے نشہ آور چیزیں استعمال کرنا،شراب پینا اور سگریٹ وغیرہ استعمال کرنا سب اسراف میں داخل ہے ۔ان حرام چیزوں کے خریدنے اور بیچنے میں کس قدر دولت ضائع کی جاتی ہے ؟یہ سب اسراف ہے اور اس گناہ کا مرتکب سزا اور عذاب الٰہی کا حق دار ہے۔
لباس کے معاملے میں بہت سے لوگ کس قدر اسراف میں مبتلا ہیں ، کیسی کیسی حرام صورتوں کے مرتکب ہورہے ہیں اور اللہ کی حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔خواہ ایسی چیزیں پہنی جائیں جو حرام ہیں جیسے مردوں کے لیے سونا اور ریشم پہننا ،خواہ شریعت کی حد سے تجاوز کیا جائے جیسے ٹخنوں سے نیچے کپڑے لٹکانا اور ریاونمود کا لباس پہننا وغیرہ۔یہ سب حرام اسراف میں شامل ہے اور اس گناہ کا مرتکب سزا اور عذاب الٰہی کا حق دار ہے۔
اسراف سماجی تقریبات خاص طور پر نکاح اور ولیمے کی تقریبات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ان تقریبات میں اسراف کی کیسی کیسی قبیح شکلیں نظر آتی ہیں ،حرام کاموں کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور منکرات کے مظاہرے ہوتے ہیں۔یہ سب اس اسراف میں داخل ہیں جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہوا کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ اسراف کا دائرہ بہت وسیع ہے اور زندگی کے کئی ایک شعبے اس سے متاثر ہیں۔اگر ہماری دینی بصیرت زندہ ہے اور ہم غور وفکر کی صلاحیت سے محروم نہیں ہیں تو اسراف کی تمام شکلوں کا بآسانی ادراک کرسکتے ہیں اور اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ہمیں اللہ کا تقوی اختیار کرنا چاہئے جو ہمارا بزرگ وبرتر رب ہے،ہمیں یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ عزوجل کے سامنے ایک دن کھڑا ہونا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوالوں کے جواب دینے ہیں۔لہذا ہم سوالوں کے جوابات کی تیاری کریں اور صحیح جوابات تیار کریں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کی ایک آیت میں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قرآن کی سب سے پُر امید آیت ہے، اپنے بندوں کو اسراف کی تمام شکلوں اور اس کی تمام قسموں سے توبہ کرنے کی دعوت عام دی ہے اور یہ خوش خبری دی ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کی توبہ اور اس کی طرف جھکنے والوں کی انابت کو قبول کرتا ہے خواہ انھوں نے کتنے ہی بڑے گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو اور کتنے بڑے جرم ان سے کیوں نہ سرزد ہوئے ہوں۔وہ امید بھری آیت یہ ہے:

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلٰى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهٗ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (15)

” (میری جانب سے)کہہ دو کہ اے میرے بندو!جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ،بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ،واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے”َ
قرآن کریم میں اللہ نے اپنے بندوں کو جن دعاؤں کی تعلیم دی ہے،ان میں سے ایک دعا یہ بھی ہے:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِينَ  (16)

“اے پروردگار!ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے ،اسے بھی معاف فرما اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر مدد دے”۔
صحیح مسلم میں یہ حدیث موجود ہے کہ ہمارے نبی ﷺ اپنی نماز میں تشہد اور سلام پھیرنے کے درمیان یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

أللهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ ، وَمَا أَسْرَفْتُ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهٖ مِنِّي ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ۔ (17)

“اے اللہ!میرے ان گناہوں کو بھی بخش دے جو میں نے پہلے کیے ہیں اور ان کو بھی جو بعد میں کریں گے،ان کو بھی جومیں نے کھلے عام کیے ہیں اور ان کو بھی جو میں نے چھپ کر کیے ہیں،میری بے اعتدالیوں سے بھی درگزر فرما اور ان گناہوں کو بھی معاف کردے جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔تو ہی آگے بڑھانے والا اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے۔تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں”َ
اللہ ہم سب کی خطاؤں سے درگزر فرمائے،ہمارے حالات درست کردے۔اسی کی ذات بابرکت اور بلند ہے،وہی دعاؤں کو سننے والا ہے ،وہی تمام امیدوں کا مرکز ہے ،وہی ہمارے لیے کافی ہے اور وہی سب سے بہترین کارساز ہے۔)

حواشی
(1) الأعراف:/731
(2) غافر: 43/40
(3) الأنبياء 9/21
(4) الإسراء:16/17
(5)  يونس:/1012
(6) غافر:/4028
(7) غافر:/4034
(8) طه: 20 /127
(9) الإسراء:17/33
(10)الأعراف:/781
(11)الذاريات:51/31-34 .
(12)الأعراف:/731
(13)مسند احمد178/10۔رقم الحدیث:6695،6708۔ مسند کے محقق احمد محمد شاکرنے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
(14)صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب : قول اللہ تعالیٰ: قل من حرم زینۃ اللہ التی أخرج لعبادہ۔ امام بخاری نے اسے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ اسے امام ابن أبی شیبہ نے “المصنف”(217/8)میں موصولاً نقل کیا ہے۔علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :ھدایۃ الراوۃ الیٰ تخریج أحادیث المصابیح والمشکاۃ،رقم الحدیث:4306
(15) الزمر:/3953
(16) آل عمران:147/3
(17) صحیح مسلم،رقم الحدیث:771

آپ کے تبصرے

3000