مسافر نامہ: گھر سے مئو تک

کاشف شکیل سفریات

ہمارے ایک‌ دوست ہیں ان کے بقول شرفاء کی زبان میں جسے سفرنامہ کہتے ہیں وہ عام زبان میں “داستان آوارہ گردی” کہی جا سکتی ہے۔ اب یہ حضرات قارئین کے مزاج پر منحصر ہے کہ وہ خاکسار کی اس تحریر کو کیا نام دیں گے۔
ہمارے گاؤں سانتھا کے جوار میں ایک علمی و تہذیبی گاؤں “کرنجوت” ہے۔ جہاں عظیم شاعر، خطیب اور مناظر جناب مولانا حامد الانصاری انجم متوفی 2013 ء نے علم کی کرنیں بکھیریں اور ادب کی جوت لگائی۔
اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست دانش جمال ہیں جو مولانا انجم صاحب کے نواسے ہیں اور اپنے نام کی مناسبت سے دانش و جمال کا مہکتا مجموعہ ہیں۔
مؤرخہ 10/9/2017 کو ہم دونوں ایک ساتھ گاؤں سے نکلے۔ مجھے جامعہ عالیہ مئو جانا تھا اور موصوف کو بنارس۔ 9 بجے شب گورکھپور ریلوے اسٹیشن نے ہمارا استقبال کیا ، وہاں کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر میں نے کہا کہ ٹرین کا وقت 10:30 بجے ہے اس لیے ذرا اسٹیشن سے باہر نکل کر…..

شہر کی رات اور ہم ناشاد و ناکارہ پھریں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھریں

میرے مشورے پر عمل ہوا۔ مگر افسوس شہناز لالہ رخ تک رسائی نہ ہوسکی۔
10 بجے رات ٹرین اسٹیشن پر کسی طرح دار حسینہ کی طرح کمر لچکاتی ہلکے سے قہقہہے کے ساتھ آ دھمکی اور ہمارے لیے اس نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔
ہم نے اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسکے نہاں خانہ دل میں تھوڑی سی جگہ حاصل کرلی۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرین میں جمالیاتی یا “مالیاتی” ماحول نہ مل سکا اس لیے لذت کام و دہن کے لیے بس گفتگو ہی واحد ذریعہ تھی۔
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
مختلف موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔
کہتے ہیں کہ شب اگر نیم ہو جائے تو نیند بڑی میٹھی آتی ہے چنانچہ نیند نے رفتہ رفتہ ہمارے وجود کو ڈھانک لیا۔ مرشد فرماتے ہیں کہ خواب نیم شب اور تیر نیم کش دونوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ دونوں ہی انسان کو مدہوش کر دیتے ہیں۔ ہم تو مدہوش ہونے سے رہے اس لیے کہ مسافرین کی تعداد بھی زیادہ تھی اور نشست بھی آرام دہ نہیں مل سکی۔ نیم خوابی میں مختلف قسم کے خواب دیکھتے رہے۔ نیند اور ٹرین کے ہچکولوں کی آپسی کشمکش جاری رہی۔ یہاں تک کہ تین بجے شب ٹرین مئو پہونچی اور میں دانش جمال کو الوداع کہتے ہوئے ٹرین سے اتر گیا۔
راتوں رات ہماری قوم کی تاریخ بدل گئی۔ یعنی میں دس ستمبر کو گھر سے نکلا تھا اور یہ گیارہ ستمبر ہو چکا تھا۔ رات کا وقت تھا۔ بڑی مشکل سے ایک رکشہ ملا اور اس نے بھی شبخون مارا یعنی دس روپیے کے بجائے پچاس روپیے کرایہ وصول کیا۔
صبح 3:30 پر میں جامعہ عالیہ پہونچا۔ جامعہ کے دربان نے جوہر شناسی کا ثبوت دیا یعنی مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ پرندہ ایک سال قبل یہیں کے در و بام کو اپنا آشیانہ بنائے ہوئے تھا۔
یہاں میں مدرسوں کے سلسلے میں اپنا شکوَہ بالفاظ مجاز مع مختصر ترمیم ذکر کردوں۔ کہ

مدارس کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہے
قوانینِ کہن ، آئینِ فرسودہ سے شکوہ ہے۔

جامعہ عالیہ مئو میں:

جامعہ عالیہ کا سوا سال بعد دیدار نصیب ہوا۔ وہ جامعہ جس سے نہ صرف میرے جذبات، محبتیں اور عقیدتیں وابستہ ہیں بلکہ آج تک فکر و نظر بھی اسی کی اسیر، ذہن و دماغ اسی کا قیدی اور قلب و جگر اسی کا پابند ہے، وہ جامعہ کہ

محبت جب چھلک اٹھتی تھی اس کی چشم خنداں میں
خمستانِ فلک سے نور کی صہبا چھلکتی تھی

خیر وقتِ سحر جامعہ پہونچنا ایسا محسوس ہوا کہ یہ برسوں کی آہِ سحر کا نتیجہ ہے، سالوں کی شب بیداری کا ثمرہ ہے. آنکھوں کو ایک ناقابل بیان ٹھنڈک نصیب ہوئی۔
جامعہ عالیہ کے سلسلے میں گزشتہ سال خاکسار نے کچھ اشعار کہے تھے جو حاضر ہیں۔

عالیہ اے مادرِ علمی، گلستانِ وطن
علم و عرفاں کے مہ و انجم کی تو ہے انجمن

تیرے سنگ وخشت سے اٹھتی ہے علم و فن کی بو
تو ہے تہذیب و ثقافت کے بدن کا پیرہن

تیری بزمِ ارجمنداں، علم کا سیل رواں
ہم نے سیکھے ہیں تری محفل سے آداب سخن

تو نے پالا ہے ہمیں اپنی حسیں آغوش میں
ہم کواکب ہیں ترے اور تو ہمارا ہے گگن

ہم خزاں آلود تھے اور تو تھی باد جاں فزا
تیرے گہوارے میں ہم سب مدتوں سے تھے مگن

خوشہ چیں کاشف ترا محسوس کرتا ہے الم
تجھ سے دوری پر عجب سی دل میں پاتا ہے چبھن

میں نے گیٹ کے اندر قدم رکھتے ہی خود کو جامعہ کی آغوشِ محبت میں محسوس کیا۔
ہوگئی تشنہ لبی آج رہینِ کوثر

برادرم تاج الدین کو فون کیا اور وہ مجھے ریسیو کرنے گیٹ تک آ پہونچے

خیر مقدم کو مرے کوئی بہ ہنگام سحر
اپنی آنکھوں میں لیے شب کا خمار آ ہی گیا۔

واضح رہے کہ جامعہ عالیہ کی تاسیس 1868ء میں مولانا فیض اللہ مئوی استاد علامہ شبلی نعمانی کے ذریعہ عمل میں آئی۔
یہاں سے کسب فیض کرنے والوں میں شیخ الحدیث نعمان اعظمی، مولانا مجاز اعظمی، فضا ابن فیضی، مولانا عبدالسبحان اعظمی، مولانا فضل الرحمن اعظمی، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، مولانا محمد اعظمی اور استاد محترم مولانا اسعد اعظمی وغیرہم قابل ذکر ہیں

جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں پر برسے گا ہر کوہِ گراں پر برسے گا

1995ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کی چار روزہ کانفرنس جامعہ عالیہ ہی میں منعقد ہوئی جس میں مشاہیر اکابرین نے شرکت کی۔
اور آج بھی
“یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں”

سحر کا وقت تھا اور میں بے حد تھکا ہوا تھا۔ بستر پر دراز ہوتے ہی سو گیا۔
بحالت نیند سحر سے صبح کا مرحلہ طے ہوا۔ جامعہ عالیہ میں صبح کا منظر بہت خوشنما ہوتا ہے۔ سورج کی اولین سنہری کرنیں جب جامعہ کے تالاب میں پڑتی ہیں تو کسی گورے صراحی نما گردن میں طلائی زیور کا احساس ہوتا ہے۔ کرنیں پانی کے قطروں میں تحلیل ہونے کے لیے بیتاب، شعاعیں بڑی لالچی نظروں سے روئے آب کو گھورتی ہوئی، سورج از طلوع تا غروب تالاب کے صمیمِ قلب میں اپنا عکس جاگزیں کرنے کی کوشش کرتا ہوا…..
تالاب میں بڑے بڑے بطخ بازو پھیلائے آپس میں چہ می گوئیاں کرتے ہوئے پانی کو اپنی بانہوں میں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں…
ٹھہر ٹھہر کہ بہت دلکُشا ہے یہ منظر۔
سات بجے کلاسز شروع ہوگئی تھیں۔ طلباء اپنی کتابیں پہلو میں سمیٹے اپنی اپنی کلاسوں کا رخ کر رہے تھے۔ جامعہ عالیہ میں کلاس کے وقت ہاسٹل مقفل کردیا جاتا یے اس لیے طلبہ بادل ناخواستہ 7:00 بجے کلاس روم پہونچ جاتے ہیں.
ساڑھے سات بجے میں نے مولانا عبدالرحمن رفیع انصاری شیخ الجامعہ جامعہ عالیہ کے آفس میں حاضری دی۔ آپ نے بہت ہی پُرتپاک استقبال کیا، آپ کے خلوص کی خوشبو نے میرا سارا وجود معطر کردیا،
دراصل مئو کا یہ سفر آپ کی دعوت پر ہوا تھا۔ میں شیخ الجامعہ صاحب کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے ہر قدم پر میری حوصلہ افزائی کی ہے اور مفید مشوروں سے نوازا ہے۔ تواضع و انکسار اس درجہ کہ اکثر آپ نے ہی مجھ سے رابطے میں پہل کی ہے۔ خاکساری، ملنساری، خوش بیانی اور خندہ لبی میں اپنی مثال آپ، اردو و فارسی کے سیکڑوں اشعار آپ کی نوکِ زبان پر، گفتگو میں ان کا ایسا برمحل استعمال کرتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے آپ ہی کے لیے وہ شعر کہا تھا، ساتھ ہی وقار و تمکنت اور رعب داب ایسا کہ اچھے اچھوں کو پسینہ آ جائے۔
دراصل آپ ایک دینی وعلمی تشخُّص رکھنے کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی میدان کے بھی شہسوار ہیں، آپ کے والد جناب حبیب الرحمن پہلوان جامعہ عالیہ کے رکن رکین ہیں اور سوشل اور پالیٹکل کیریئر رکھتے ہیں۔
آپ کو جامعہ عالیہ کا شیخ الجامعہ ہوئے ابھی ایک برس ہوا۔ اس سے قبل آپ نائب شیخ الجامعہ تھے
(یادش بخیر سابق شیخ الجامعہ استاد محترم مولانا شریف اللہ سلفی ہم لوگوں کو مسلم شریف پڑھاتے تھے اور مجھے کافی عزیز رکھتے تھے)
اس ایک برس میں آپ نے جامعہ کو کافی کچھ ترقی دی ہے۔ ہرطرف خوشگوار تبدیلی آنکھوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔
آپ نے 7:30 سے ظہر تک اپنے آفس ہی میں مجھے بٹھائے رکھا اور ضیافت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ڈھیر ساری گفتگو ہوئی۔ مختلف مسائل پر آپ نے رائے زنی کی اور کچھ پرانی یادوں پر پڑی گرد صاف کی گئی۔

“گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را”

آفس ہی میں اساتذہ گرامی قدر مولانا عبدالرحمن ریاضی، مولانا ضیاء الحسن سلفی، مولانا عطاء الرحمن مدنی، مولانا شفیق احمد ندوی اور مولانا محمد مظہر اعظمی مصنف سلسلہ روحانیات(روحِ تجارت، روحِ تعلیم وغیرہ) وغیرھم سے ملاقات ہوئی.
ابھی تک میں نے سند فضیلت نہیں حاصل کی تھی چنانچہ اسکو بھی شیخ الجامعہ صاحب کے بدست حاصل کیا۔
الحمد للہ ناچیز نے اول اور ممتاز پوزیشن سے فضیلت کی تکمیل کی ہے۔
شیخ الجامعہ صاحب نے اپنے توصیے کے ساتھ ناظم اعلی جناب مولانا مظہر احسن ازہری حفظہ اللہ (سابق مدرس التربیۃ السلامیہ سعودیہ عربیہ) سے تزکیہ بھی دِلایا، جزاہ اللہ خیرا
مولانا عبدالرحمن ریاضی صاحب (مشرف مجلہ افکار) نے افکار عالیہ کے دوشمارے مجھے عطا فرمائے۔
دوپہر کا کھانا شیخ الجامعہ صاحب کے ساتھ نصیب ہوا۔ آپ نے خاصی ضیافت فرمائی۔ آپ نے بہ اصرار دو دن کے لیے مجھے اپنے پاس روکنا چاہا مگر ضرورتیں کچھ اور ہی تقاضا کر رہی تھیں لہذا میں ان کے حکم‌ کی‌ تعمیل نہ کر سکا۔

مکتبۃ الفہیم میں:

دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر موبائل چارج لگایا اور خود چارج ہونے کے لیے سنتِ قیلولہ کی ادائی میں مشغول ہوگیا۔
عصر بعد جب سورج کی نقرئی شعاعیں طلائی ہونے لگی تھیں۔ تقریبا 5:00 بجے میں برادرم حمود عبدالسمیع کے ساتھ مرزا ہادی پورہ پہونچا، وہاں سے صدرچوک کے لیے ایک رکشہ کیا گیا، رکشے کا فائدہ یہ ہے کہ ارد گرد کے مناظر نگاہ سے جلد اوجھل نہیں ہوتے اور ایک جائز نظر سو(100) “جائر” نظروں کے برابر ہو جاتی ہے
سو سنار کی، ایک لوہار کی۔
5:30 بجے ہم لوگ صدر چوک پہونچے۔
برادرم ابو اشعر فہیم کے بڑے بھائی جناب شفیق الرحمن کو فون کیا، شفیق بھائی میرے پرانے شناسا ہیں۔ ڈاکٹر بشیر بدر کی غزلیں انھیں کے لہجے میں پڑھتے ہیں۔ خوش مذاق اور سخن شناس شخص ہیں۔ ادبی ذوق انتہائی شفاف ہے۔
وہ فورا ملاقات کے لیے آگئے۔ کچھ دیر گفتگو ہوئی پھر انھوں نے ہمیں مکتبۃ الفہیم بھیج کر گھر کا رُخ کیا، دراصل آج ان کے چھوٹے بھائی کا نکاح ہوا تھا اور کل ولیمہ ہونا تھا جس کی تیاری میں آپ مشغول تھے۔
شادی کے دو دن قبل آپ نے دعوت نامہ بذریعہ واٹساپ مجھے بھیجا تھا اور آج بھی اصرار کیا کہ کم از کم ولیمہ میں ضرور شرکت کروں اور میری بھی یہی خواہش تھی مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شد

مکتبۃ الفہیم پہونچا اور یہاں برادرم ابو اشعر عزیز الرحمن فہیم سے پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی۔
آپ بڑے تپاک سے ملے اور اپنے پاس بٹھایا۔ چائے پانی کا دور شروع ہوا، میں نے حضرت جون “اولیاء” کا یہ شعر پڑھا
مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس
خاطر نہ کیجیے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے

اب میں ابو اشعر صاحب کا تعارف کیا پیش کروں کہ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔
بس اتنا جان لیجیے کہ چرخ نیلی فام کی وسعتیں آپ کی فکری وسعتوں سے شرمندہ ہیں
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق

آپ کے بارے میں ہمارے عہد کے ممتاز لکھاری اور صاحب طرز صحافی جناب ابوبکر قدوسی صاحب لکھتے ہیں:
“مکتبہ فہیم کے مالک ہیں، فیس بک پر اپنے کمنٹس سے ہی شہرت پا گئے ہیں۔ جب باضابطہ لمبے لمبے مضامین لکھیں گے تو نہ جانے کیا قیامت ڈھائیں گے
ہم جو مضمون دو گھنٹے میں لکھتے ہیں، صاحب ایک جملے میں اڑا کے رکھ دیتے ہیں …. بہت بار ایسا ہوا کہ ان کا ایک جملہ میری طویل پوسٹ پر بھاری رہا”

اب کچھ باتیں جو شاید ابھی تک فیسبوک کے مکینوں پر مخفی ہوں وہ زیر تحریر کر رہا ہوں۔
“ابو اشعر فہیم” فہم و شعور کے مبالغے کا نام ہے، دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر بخوبی معلوم ہے۔
آپ نے ایک عرصہ تک جامعہ عالیہ میں تعلیم حاصل کی، تحریر و تقریر بلکہ تدبیر وتقدیر میں ہمیشہ سب سے آگے رہے۔
ابو اشعر فہیم المسمی “عزیز الرحمن” کو اساتذہ بہت عزیز رکھتے تھے۔ آپ نے فضیلت کی تکمیل 1999ء میں جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو سے کی ہے۔
آپ کی دستار بندی علامہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کے دست مبارک سے ہوئی۔
آپ کی دستار باندھتے وقت ڈاکٹر مقتدی نے کہا تھا “آپکے سر پر تو دو دستار باندھنی چاہیے”
دراصل اسی طالب علمی کے زمانے میں ہی آپ پچاس کے قریب کتابیں اپنے مکتبے سے شائع کر چکے تھے اسی لیے اکابرین جماعت آپ کی خدمات کے قدر شناس تھے۔

لاتعلق نظر آتا ہے بظاہر لیکن
بے نیازانہ ہر اِک دل میں گزر رکھتا ہے

آپ نے اپنے سر پہ وہ دستار پندرہ منٹ تک پڑی رہنے دی۔ اس کے بعد اس کو اس طرح محفوظ کر کے رکھ دیا کہ آج تک آپ کے دستار تو کیا کردار پر بھی کوئی گرد نہ پڑسکی.
اب زیادہ دیر تک آفتاب کو چراغ تو نہیں دکھا سکتے اس لیے تعارف کا یہ چراغ یہیں گُل کرتا ہوں.
چائے کے بعد آپ نے ہماری تواضع کولڈ ڈرنک سے کی۔ اس لیے کہ آپ کے ایمانی حرارت اور اسلامی سرگرمی کی آنچ میں ہم لوگ تپ کر پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔
میرے ساتھی حمود عبدالسمیع کو کچھ کتابیں یہاں سے خریدنی تھیں۔ انھوں نے کہا “شیخ لڑکیوں کے مطالعہ کے لیے کوئی اچھی کتاب بتائیں”
آپ نے مسکرا کر فرمایا “لڑکیاں تو خود مطالعے کی چیز ہیں”
وہ غزل کی سچی کتاب ہے
اسے صبح و شام پڑھا کرو

آپ نے بہت سارے ذاتی تجربے ہمارے ساتھ شیئر کیے یہ کہہ کر کہ یہ چیزیں قابل نشر نہیں ہیں، اس لیے میں ان کو قلم انداز کرتا ہوں۔
جس بزم میں ساغر ہو نہ صہبا ہو نہ خم ہو
رندوں کو تسلی ہے کہ اس بزم میں تم ہو

آپ کی تحریریں بالکل برجستہ ہوتی ہیں، ان میں کبھی طنز و تنقید کے ناوک و نشتر ہوتے ہیں اور کبھی تعمیری اصول اور معاشرتی اقدار۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ خود بھی ہر وقت تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، ورنہ

ہر کوئی ناوک و نشتر کی دُکاں پوچھتا ہے
کسی گاہک کو مگر اپنا بدن یاد نہیں

تقریبا ڈھائی گھنٹے آپ کی معیت میں گزرے، مختلف قسم کی باتیں ہوئیں۔ ذکر ماضی چھڑا اور حال بھی زیر بحث آیا۔ آخر میں آپ نے کچھ کتابیں تحفہ میں دیں اور میں نے ان یادوں کو سمیٹتے ہوئے انھیں الوداع کہا۔
رات ہو چلی تھی۔ پیٹ کھانے کا تقاضا کر رہا تھا۔ سو مرزا ہادی پورہ پہونچ کر ایک ریستوران کا رخ‌ کیا اور شاہی بریانی نے فقیر شکم کو آسودگی فراہم کی۔

18
آپ کے تبصرے

3000
11 Comment threads
7 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
11 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

واہ، مولانا کاشف. اللہ آپ کی محبت مئو سے ہرروز بڑھائے. آپ کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ ایک روشن، اسلامی، پڑھے لکھے اور بالغ معاشرہ کی شبیہ اجال رہے ہیں….جو مئو میں وارد ہونے والے ہر شخص کو نظر آتے ہیں… ماشاء اللہ.

Kashif Shakeel

بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ حوصلہ افزائی کے لیے سپاس گزار ہوں

رشیدسلفی

بہت عمدہ اور بہت خوب سفرنامہ،ادب وبلاغت سے معمور،خشک مضامین پر بھی حسن تعبیر کی خلعت ایسے سجاتے ہو کہ طبعیت عش عش کراٹھے،سفرنامے کے طول وعرض میں نادر ترکیبات،محاورہ جات خوبصورت اشعار اور تمثیلات کا ایسا رنگین جال بچھایا ہے کہ صفحہ قرطاس پر ایک ادبی قوس قزح پھیل گیا ہے۔اللہ ذوق ادب اور مشق قلم میں مزید نکھار پیدا فرمائے آمین

Kashif Shakeel

بہت بہت شکریہ شیخ الجامعہ صاحب۔ حوصلہ افزائی کے لیے سپاس گزار ہوں

کے ایم جوہر خان

لکھتے کمال کے ہو یاررر

Kashif Shakeel

بہت بہت شکریہ بھائی۔ حوصلہ افزائی کے لیے سپاس گزار ہوں

Abdul hafeez

آپ کے اس دلربا دل خواہ تحریر پر میرے خاک خیالی میں جون ایلیا کا ایک شعر گردش کرہا ہے ،

شرم دہشت جھجک پر یشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتی

آپ وہ جی مگر یہ سب کیا ہے
تو میرا نام کیوں نہیں لیتی

Kashif Shakeel

بہت بہت شکریہ بھائی

ریاض الدین شاہد

ماشاءاللہ بہت خوب
سفر نامہ واقعی لاجواب ہے

Oomer riyaloo

بہت عمدہ

ماشاء اللہ

عامر انصاری ممبرا

ماشاء اللہ
کاشف بھائی !
بڑا اچھا لکھا ہے

تشبیہات خوب ہیں ۔ لگتا ہے البلاغہ الواضحہ سے اچھی دوستی ہوگئی ہے ۔

الفاظ کا جوڑ توڑ تو کمال کا ہے ۔

کچھ احباب سفر نامے لکھتے رہتے ہیں جس سے بہت سی نئی معلومات ملتی ہیں ۔

احباب میں :
ریاض مبارک
ثناء اللہ تیمی
عبد الغفار سلفی
کاشف شکیل
کے سفرنامے پڑھتا رہتا ہوں

ماضی میں ابن بطوطہ اور کسی اندلسی عالم کے سفر نامے کو خاصی شہرت ملی ۔

اسی طرح نواب صاحب کا سفر حج *رحلة الصديق الى البيت العتيق*
على ميان كى *مذكرات سائح*
اہم ہیں ۔
شکریہ

عامر انصاری ممبرا

ماشاء اللہ
کاشف بھائی !
بڑا اچھا لکھا ہے
تشبیہات خوب ہیں ۔ لگتا ہے البلاغہ الواضحہ سے اچھی دوستی ہوگئی ہے ۔

الفاظ کا جوڑ توڑ تو کمال کا ہے ۔

کچھ احباب سفر نامے لکھتے رہتے ہیں جس سے بہت سی نئی معلومات ملتی ہیں ۔

احباب میں :
ریاض مبارک
ثناء اللہ تیمی
عبد الغفار سلفی
کاشف شکیل
کے سفرنامے پڑھتا رہتا ہوں

ماضی میں ابن بطوطہ اور کسی اندلسی عالم کے سفر نامے کو خاصی شہرت ملی ۔

اسی طرح نواب صاحب کا سفر حج *رحلة الصديق الى البيت العتيق*
على ميان كى *مذكرات سائح*
اہم ہیں ۔
شکریہ

Kashif Shakeel

بہت بہت شکریہ شیخ صاحب۔
نوازش و کرم
حوصلہ افزائی کے لیے تہہ دل سے سپاس گزار ہوں

Wahidullah

aMashallah bhai bahut accha

Kashif Shakeel

Thanks bro

نظام الدین

ماشاءاللہ
بہت خوب کاشف صاحب

Kashif Shakeel

Bahot shukriya bhai

Aamir Irshad

1995 کی کانفرنس جس وسیع زمین میں منعقد ہوئی تھی اس میں کلیہ فاطمۃ الزہراء اور موجودہ مدرسہ عالیہ کی زمیں بھی شامل تھی کانفرنس کی نسبت مدرسے کی طرف نامناسب ہے. کانفرنس کے انعقاد میں جامعہ عالیہ کو کوئی خصوصیت اہمیت نہیں