”شرک کا لٹکن“

سعد احمد

شرک اک بہت بری شئ ہے؛ نمیرہ یہ کہتے کہتے رک گئی۔
حکومت کی پالیسیاں بلاوجہ انڈے کھانے پہ زور دیتی ہیں؛ نمیرہ کے ابو نے یہ کہتے ہوئے ٹی وی آف کر دیا۔
نمیرہ نے فوراً جوتے پہنے اور دادو کے کمرے کی طرف بھاگی، دادو کسی کو نصیحت کر رہے تھے؛ ”شرک و طاغوت ہی شر کا اصل منبع ہیں“ اس کی شاخیں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔ نمیرہ گفتگو میں مخل ہوئی اور پوچھا: دادو، پھر ہم ایسا گھر کیوں نہیں بناتے جہاں شرک داخل نہ ہو سکے؟ یہ ٹی وی جو ہے جھوٹی باتوں کا پلندہ ہے۔ یہ میڈیا جس میں طباعتی اور نظری دونوں شامل ہیں ان کا کیا کہیں گے، یہ بھی تو جھوٹے ہیں۔ سرکاری کرسی سے لٹکتے ہیں اور جمہوریت کا ایک مضبوط ستون سمجھے جاتے ہیں مگر جھوٹ کی تجارت خوب کرتے ہیں۔ دادو! ایسا لگتا ہے یہ جمہوریت کا ستون نہیں بلکہ آستانوں پہ چھوڑی ہوئی تعویذیں ہیں جو کب کس کی گردن پہ لٹکیں کسی کو کیا خبر!!!
دادو آج پیپر والا پیپر نہیں دے گیا۔
ارے واہ، پیپر والا آ بھی گیا،۔۔۔۔ دادو یہ کیا آج پیپر نے اپنی ہی خبر کی تردید کی، شام کا خونی ابھی زندہ ہے، تہذیبوں کا بھنبھوڑیا ہنس رہا ہے اور مسکرا کر اپنے پیچھے کے دلدل سے ڈراتا ہے۔ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ فاتحانہ ہے۔
دادو آج شام میں کیا کھائیں گے؟ کیا، گوشت نہیں کھائیں گے؟ دادو آپ بھی ڈرتے ہیں!
اچھا، میں نہیں سمجھی کہ شام اور گوشت میں کیا تعلق ہے!
ہاں خدایا! خبر ہے یا میز پر سجی ہوئی پلیٹیں جس میں انسانی گوشت ہو۔ یہ بین السطور کیا لکھا ہے، جیسے ٹھنڈی سوکھی رات میں آدم خور وفا دار کتا ہڈی چبا رہا ہے۔ سناٹے کا رجسٹر آج قلمزد کرنے کا تاب کھو چکا ہے۔
دادو! یہ طاغوت کسے کہتے ہیں؟ اور یہ مجاہد انسان کب بنتا ہے؟
تبھی زور کے شور نے نمیرہ کو کھڑکی سے جھانکنے پہ مجبور کر دیا۔ ایک شریف دکھنے والے شخص کو تین سانڈوں نے گھیر رکھا تھا۔ داروغہ کے پِیک بھرے منہ سے مغلظات کا کریہہ رساؤ جاری تھا۔ شریف دکھنے والے شخص کی آنکھوں میں ہیبت کے بجاے بلا کی حقارت اور حد درجہ غیرت تھی جو عوام الناس میں شرافت کی جرات کا تعارف کرا رہی تھی۔
تبھی ابو نے ٹی وی آن کیا۔ ٹی وی پہ برانڈیڈ خبروں نے لوگوں کے سروں کی سواری کرنی شروع کر دی تھی۔
ارے، ان خبروں نے اپنے گلے میں کیا لٹکا رکھا ھے؟ شاید تعويذ ہے، تعويذ لٹک رہی ہے۔
یہ ہیبت ناک دانتوں والا کون ہے؟ کتنا خوبصورت لباس اس نے پہن رکھا ہے! یہ کس کلچر کا لباس ہے؟ ارے اس کے سر پہ سینگیں بھی اگ رہی ہیں۔ یہ کیا بلا ہے؟
ارے ساری برانڈیڈ خبروں کا تعويذ کہاں گیا؟ ان کے ٹیگ پہ تو زیادہ قیمت چسپاں ہے! چھوڑو؛ ایٹریکٹیو نہیں ہیں۔
کتنا اچھا بولتا ہے یہ، سارے خواب زندہ ہو جاتے ہیں، دیو ہے شاید، لوگ اس سے کتنا خوش لگتے ہیں۔ اچھا ہی لگتا ہے یہ دیوتا۔۔۔ دیومالائی نہیں لگتا۔
ارے اس کے سر پہ سینگوں کے بیچ چھوٹا سا گیند نما کیا ہے، شیشہ سا جھلکتا ہے۔ یہ نئے طور کا ٹی وی ہے، جس کا اسکرین گول ہوتا ہے..شاید! اس ٹی وی میں کتنی تصویریں چلتی ہیں!!!
واہ واہ.۔۔۔ دیووں کا لوک ہے، اوہ۔۔ دیومالائی پرلوک بھی ہے۔ اَپسرائیں .. تیروں کا زناٹا، ترشول، ڈمرو، ناچ، ننگا، ننگ، گندھ، چیر، ودھ، ھرن، جٹا، جھن جھن، جھنّ، جھنن،،،، دھرم، شنکا، استری، کام، یوگ، نیوگ، پریوگ، شودر؛ شترو، چھما، وناش، کارتک، آستِک، ناستِک، وِرام، وِرام یودھ ورام،؛ دھوَست۔،…
نمیرہ تم یہ کیا کہہ رہی ہو، ہذیانی نہ ہو، یہ تو ٹی وی میں تصویریں چل رہی ہیں، نہیں ابو مجھے ڈر لگ رہا ہے!!! کہ اچانک جھناکے کی آواز کے ساتھ اسکرین ٹوٹا، سب دیکھنے لگے۔
دادو کمرے میں کسی سے کچھ کہہ رہے تھے، شرک کا تعويذ مت لٹکانا یہ نیچے کی جانب لٹکتا ہے مگر اثر اوپر کی جانب ہوتا ہے۔ ادھر اسکرین پہ تصویریں پھر چلنے لگتی ہیں۔ لٹکی ہوئی چیز میں لکھا منتر دھوں دھوں کرکے چھا جاتا ہے۔ تصویریں نشر ہونے لگتی ہیں۔
شرک…. شرک کا میوزیم۔۔۔ ہیولٰی۔۔ لٹکتی تعويذیں ۔۔۔ منجمد سر۔۔ سانپوں کی سرسراہٹیں۔۔۔سترنگی کہانیاں، بھوتوں کی کانا پھوسی، کنکال کی چیخیں، چغد کی ہوٹنگ اور سو ابلیسیائی تہذیب کی روحیں زندہ ہونے لگتی ہیں۔

6
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
1 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
جاوید

براہ کرم اس کی کوئی شرح بھی ہو تو ضرور شائع کریں۔ شکرا

نورا حنبلی

سعد احمد صاحب، علامتی کہانیوں کے باریمیں میں نےصرف اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران پڑھا تھا. شرک کا لٹکن ایک خاصی علامتی کہانی محسوس ہوتی ہے. یہ کہانی کتابوں میں پائی جانے والی علامتیت سے زیادہ -سیاسی- سماجی اور عالمی صورتحال کی طرف غالباًتوجہ دلانا چاہتی ہے… روز مرہ کی زندگی میں شرک ناگزیر تو ہے نا. قاری کی حیثیت سے آپ کی تخلیق کا ادراک مجھے ہو گیا… مگر شرک اور ظلم کیا ایک ہی چیز ہیں… شرک کے ماحول اور جدیدیت کی تبلیغ میں آپ کوئی فرق نہیں کرتے؟ کیا شرک تہذیبوں میں پنپ سکتا ہے؟ میری… Read more »

ابو زینب

اسے سمجھنا شمس الرحمن فارووقی اور شب خون کے قارئین کے ہی بس کا ہے، اپنے سمجھ میں صرف اتنا آیا کہ قومی اور عالمی منظر نامہ پر کچھ لکھا گیا ہے۔

ابو زینب

نورا حنفی آپ نے جو سمجھا ہے براہ کرم اس کا خلاصہ پیش کر دیں تاکہ بشمول خاکسار دیگر حضرات بھی مستفیض ہو لیں۔

رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)

کافی عرصہ گزرا ،علی گڑھ میں اردو کے ایک اسلام پسند ادیب انجم نعیم صاحب ہوا کرتے تھے ، ان کی ادارت میں ایک سہ ماہی ادبی رسالہ جدید نسلیں شائیں ہوتا تھا۔اس کا اداریہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔میں نے ایک روز ملاقات کے وقت عرض کیا:محترم انجم نعیم صاحب ! کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا:الفاظ اور تراکیب کی صوتیات سے مفہوم نکلتا ہے ، آپ اس پر غور کریں۔اردو ادب میں جدیدیت کا باب کھولا گیا… Read more »

سعد احمد

شکریہ، میں خوش نصیب ہوں جس کی حقیر کوشش پہ اہلحدیثوں کے سب سے پڑھے لکھے اور ویل-انفورمڈ عالموں میں سے ایک عالم نے توجہ دی. ایک بار اور شکریہ کہ جدیدیت والی دم کی طرف آپ نے اشارہ کیا. اس تحریر کا پس منظر جامعہ سلفیہ کے تقریباً ایک عالم دوست ہیں جن کا اعتراض اس ٹوپی پہ تھا جو پی ایچ ڈی کی ڈگری لیتے وقت پہنی جاتی ہے وہ کہتے کہ اس میں جو جھالر ہوتا ہے دراصل وہ تعویذ ہے. اس کے برعکس وہ خود حالیہ قومی سیاست نامی طاغوت جس میں کفر، شرک کے بنا… Read more »