صحافت کی حساسیت

افروز عالم گلری سلفی

یہ دور میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بالادستی کا دور ہے۔ آج نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری انسانیت کو دنیا کی ہر زبان میں ایک ایسی صحافت کی ضرورت ہے جو قلب انسانی میں نئی روح پھونک سکے، جو حق گو و حق شناش ہو جو لوگوں کو اخلاقیات کی تعلیم دے، جو صحافت کو نیا رخ دے سکے، ریا و نمود سے بالاتر اور تعصب و تنگ نظری سے پاک ہو اور نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہو۔
کیونکہ آج شمشیر و سنان کی جگہ قرطاس و قلم اور میڈیا کے غلط اور منفی پروپیگنڈوں نے اپنالی ہے۔ دشمنان اسلام بالخصوص مغربی دنیا کا صحافت اور دیگر ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضہ اور کنٹرول ہے اور اسے پوری منظم پلاننگ کے تحت منفی پہلو سے استعمال کیا جارہا ہے، اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے لوگوں کی عزت و ناموس پر تیر و نشتر چلائے جاتے ہیں، ہر چہار جانب یلغار ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ہر جگہ وہی کامیاب ہے جو کسی طرح بھی اپنا پیغام دوسروں تک پہنچادے اور وہی صحیح ہیں جو اس کے ذریعے اپنا کلمہ بلند کردے، یہی سبب بن رہا ہے نئی نسل کی گمراہی کا کہ ان کی آنکھوں پر مادیت کی ایسی عینک چڑھادی جاتی ہے کہ انھیں اخلاق و کردار کی زبوں حالی اور اپنی تہذیب و ثقافت کی پامالی کا قطعا احساس نہیں ہوتا ہے۔
جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنی زبان و قلم سے کسی پریشان حال، زخمی دل، مصائب سے نڈھال شخص کے زخموں پر مرحم رکھتے۔ اسی طرح ہم کسی پاک صاف و پاکدامن مرد یا عورت کے دل کو چھلنی نہ کرکے اس کو بے قصور بتلاتے اور انسانیت کے زخم پر مرحم کا کام کرتے مگر ہم ہیں کہ کہ بڑا صحافی سمجھتے ہوئے رائی کو پربت بنادیتے ہیں اور بلندیوں پر پہنچے شخص کو پستی میں ڈھکیل دیتے ہیں۔
سچائی، شرافت، امانت، انسانیت یہ ساری چیزیں نہ ہمیں اور نہ ہماری میڈیا کو نظر آتی ہیں۔
آسمان و زمین کے قلابے ملانا ہماری میڈیا کی سب سے بڑی خصوصیت بن چکی ہے۔
جب کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے جذبات و خیالات اور تعبیرات قلم پر کنٹرول کرتے اور اپنے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر کرتے۔
جادو وہی جو سرچڑھ کر بولے، ہمیں بیان و گفتار کی جادوگری سے انکار نہیں، میڈیا اور صحافت کی گہری چھاپ سماج و معاشرے پر پڑتی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ہم ان خبروں کو جن تک ہماری رسائی نہیں ہوتی ہے سنتے، دیکھتے اور محسوس بھی کرتے ہیں۔ مگر ایسے دور میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟
ہمارے لیے ضروری ہے کہ “خذ ماصفا و دع ماکدر” (جو صحیح ہے لے لیں جو غلط ہے چھوڑ دیں) کے اصول کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ اپنے اندر قوت گویائی اور سحربیانی پیدا کریں۔ اپنے اسلوب کو معیاری بنائیں۔ چھپنے یا نشر ہونے کا بے تکا شوق، شہرت پسندی ہماری علمی و عملی زندگی کے لیے زہر ہلاہل ہیں۔
خود اعتمادی کے ساتھ حق بات دوسروں تک پہنچائیں۔ میڈیا کی مختلف جہات کو پہچانیں۔ کسی بھی موضوع پر مالہ و ماعلیہ سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ذرائع ابلاغ کی نئی تکنیکوں سے واقفیت حاصل کریں تاکہ ہر محاذ پر کامیابی ہمارا قدم چومے۔ علاقائی، نسلی اور وطنی عصبیتوں سے ہمیں اجتناب کرنا ہوگا۔ ایک ہی مرد و عورت کے ذریعے ہم پیدا ہوئے لہذا ہم ایک دوسرے کو پہچانیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کنبے قبیلے بنائے۔ اللہ کے نزدیک باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔(الحجرات، آیت نمبر: 13)

حالات کا ہم صحیح طریقے سے مقابلہ کریں، مختلف زبانوں میں لکھنے پڑھنے کی اپنے اندر بھر پور صلاحیت پیدا کریں، شوقین اور ذہین طلبہ کی قدر کریں، اپنی خبروں کے نوک پلک درست کرکے نشر کریں، عوام کے مسائل مناسب طریقے سے حل کریں۔
ماضی قریب میں بہت ساری مثالیں ہمیں ملتی ہیں کہ کچھ شہرت پسند افراد نے میڈیا کے ذریعے ہر طرح کا مال مسالہ بھر کر ملک و قوم کو نقصان پہنچایا۔
ان ذرائع ابلاغ کے ہاتھ کا ہم کھلونا نہ بنیں انھیں نہ مسلمانوں پر رحم آتا ہے نہ ہندوؤں پر نہ دیگر برادران وطن پر، حب الوطنی کو ترجیح دیں۔ میڈیا والوں کو صرف خبر بنانی ہے اور اسے نمک مرچ لگا کر پرکشش بناکر اسے چھاپنا اور نشر کرنا ہے اب ان کا شکار کوئی بھی بنے انھیں گوارا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہماری شکایت کا اثر نہیں ہوگا کیونکہ ہماری شکایت ہی بےجا ہے پھر بھی ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم پوری احساس ذمہ داری اور سلیقے کے ساتھ بات کہیں۔ باہر کی دنیا سے جانکاری بڑھائیں، ترقیاتی منصوبے، معیشت، سائنسی پیش رفت پر جانکاری رکھیں۔ کالج اور یونیورسٹیز کے طلبہ ہوں یا مدارس کے ان کے اندر پوری صلاحیت و استعداد پیدا کریں کہ وہ صحیح اسلوب میں صحیح رنگ و ڈھنگ میں اپنے بیانات کو پیش کریں، میدان صحافت میں مضبوط قدم رکھیں، اپنے اندر زور قلم پیدا کریں، اپنے مطالعہ کو گہرا اور وسیع رکھیں، عصر حاضر کے تقاضوں اور سماجی و ثقافتی پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھیں، عقلی و نقلی دلائل سے مزین ہوں، اپنے اندر یقین کامل پیدا کریں۔ دور جدید کے نظریات، آزادی نسواں کے پردہ میں بے حجابی و عریانیت سے مرعوب نہ ہوں، اخلاقی تعلیمات کو اور صحیح و سچی باتیں عام کریں، زبان میں سادگی برقرار رکھیں، زبان کی سادگی اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہے۔
چیلنجوں کا ٹھوس اور تشفی بخش جواب دیں۔ اسی میں انسانیت کی فلاح و بہبود مضمر ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

عمدہ.
درخواست؛ مزید اس طرح کے مضامین لکھیں.