بستوں کا بڑھتا بوجھ اور تعلیم کا گرتا ہوا معیار

رشید سمیع سلفی

عنوان بتاتا ہے کہ عصری اداروں، اسکولوں اور کالجوں میں وہ خرابات در آئی ہیں جنھوں نے تعلیم کو غیر معمولی ابتری سے دوچار کیا ہے۔ غور کیجیے تو تعلیمی اداروں کا پورا کل پرزہ اور سسٹم بگاڑ کا شکار ہے، ظاہری منظر نامہ بڑا دلفریب اور نظر نواز ہے۔ شاندار عمارتیں، دیوہیکل گیٹ، راستوں کے کنارے ہرے بھرے درخت اور سبزہ زار، زرق برق ڈریس اور بیگ، ڈیکوریشن، آنکھوں کو خیرہ کردینے والے بورڈ، دیواروں پر تحریر ملفوظات و تصویریں، کسی بھی نووارد کو مرعوب کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن ان خوبصورت پردوں کے پیچھے تعلیم و تربیت، علم و صلاحیت، اخلاق و کردار، امانت و دیانت کی دنیا اجڑ رہی ہوتی ہے اور زندگی کی نبض ڈوب رہی ہوتی ہے۔
اسکول کی جو اولین ترجیح اور پہلا قدم ہونا چاہیے وہ سب سے زیادہ بے توجہی اور سرد مہری کا شکار ہوتا ہے۔ اسکولوں اور اسکول مالکان کی تاجرانہ دھاندلیوں کو دیکھ کر تو دل خون ہوتا ہے۔وہ ادارے جو امانت و دیانت اور انسانیت و خدمت کی مثال ہونے چاہیے وہ غرض و مفاد کی دکان بنے ہوئے ہیں، ایثار و قربانی کی روایات کا جیسے اس کوچے میں کوئی کام ہی نہ ہو۔ یہ کون نہیں جانتا کہ معیار تعلیم کے تعلق سے اصلاح کی بات اور ترقی کی آواز ہر جگہ سنائی دے رہی ہے، خطیب بھی بول رہے ہیں، ارباب قلم بھی تحریر کر رہے ہیں، مصلحین بھی آوازیں اٹھا رہے ہیں، ماہرین تعلیم بھی تشویش ظاہر کررہے ہیں لیکن آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے۔
ادھر بستوں کا حجم دم بہ دن بڑھتا جارہا ہے، بیگ کے وزن میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی کمر دوہری ہورہی ہے، صبح میں جب بچہ اسکول یونیفارم، جوتا، ٹفن بکس، گردن میں حمائل پانی کی بوتل اور کاندھوں سے لٹکتا ہوا کتابوں اور کاپیوں کا گرانبار بستہ لے کر نکلتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سپاہی میدانِ جنگ پر جارہا ہے، بوجھل بستے کے سبب گردن درد اور کمر درد کی شکایتیں پیدا ہورہی ہیں لیکن کتابوں اور کاپیوں کی تعداد گھٹنے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ معیار تعلیم کے نام پر ہورہا ہے، تعلیم کی ترقی کے مقصد سے کیا جارہا ہے۔ لیکن نتیجہ صفر ہے، رزلٹ اور پروگریس کا دعویٰ ہمارا منہ چڑھا رہا ہے۔ اگر دسویں پاس بچہ سرٹیفیکیٹ کے لیے ایک درخواست نہ لکھ سکے تو اسے کیا کہا جائے گا، ترقی یا تنزلی؟ آج ظاہری چمک دمک صرف جھوٹا رعب جمانے کے لیے ہے نہ کہ بلند معیار تعلیم کا حصول۔ اس کے علاوہ بھاری بستوں کے پیچھے تعلیم مافیاؤں کا بزنس پھل پھول رہا ہے، پبلشر اور اسکول مالکان کے درمیان کمیشن کی بہتی گنگا ہے، ذرا کلکولیشن کرکے دیکھیے تو سہی، ان کے ما تحت چلنے والے اسکولوں کے ہزاروں طلبہ کی کتابوں، بیاضوں اور یونیفارم کا کمیشن بڑھ چڑھ کر کہاں تک جاتا ہوگا، یہ مفادات کی لیلی ہے جس نے ارباب اسکول کو دیوانہ بنا رکھا ہے اور وہ طلبہ اور والدین کے مفاد سے آنکھیں میچ کر حرص و ہوس کے جہنم کو بھر رہے ہیں، آخر کیوں یہ پرائیویٹ ٹرسٹ اور نجی اسکول برانچ پر برانچ کھولتے جارہے ہیں؟ اور ڈریس اور کاپی کتابوں کے لیے مخصوص دکانوں کی شرط ہوتی ہے؟ کیوں سال گزرتے ہی کتابیں تبدیل ہوجایا کرتی ہیں؟ اگر سیٹ کی کوئی کتاب گم ہوگئی تو اکیلی وہ شاہکار ملنے سے رہی، کہا جاتا ہے کہ ہمارا سیٹ خراب ہوجائے گا، ایک کتاب کے لیے پورا سیٹ لینا پڑتا ہے، کیوں پیسے اسکول ہی میں لے کر رسید دے کر دکان کا حوالہ دے دیا جاتا ہے؟ آخر کیوں اسکول گروپس اور برانچز کے سلیبس سیم ہوتے ہیں؟ اور دوسری دکانوں میں دستیاب نہیں ہوتے؟ کیوں دوسری دکانوں کی کتابوں کو ریجیکٹ کردیا جاتا ہے؟ کیوں کتابوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے؟ قیمت بھی اتنی کہ بڑے بڑے دانشوروں کی کتابیں ان سے کم قیمت پر مل جائیں۔ ایسے کون سے نوادرات اور جواہرات ہوتے ہیں کہ قیمت بہت زیادہ لی جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ بڑے بھائی کی کتابیں چھوٹے بھائی بہن کے کام آجاتی تھیں لیکن اب کتاب چھاپنے والوں نے گنجائش ہی باقی نہیں چھوڑی، کتابوں میں مشق کے لیے خالی جگہیں اور سوالات کے جوابات کتاب میں مانگے گئے ہوتے ہیں، مزید کسر کلاس ٹیچر پوری کردیتی ہے۔ ہائی لائیٹر سے جگہ جگہ نشانات لگا کر کتاب کو دوسروں کے استعمال کے قابل نہیں رہنے دیا جاتا۔
اس گورکھ دھندے میں بچے کےساتھ والدین کا بھی استحصال ہوتا ہے، بھاری بھرکم فیس اور کتابوں کی قیمت سے والدین کی حالت پتلی ہو جاتی ہے، اگر فیس ادا نہ کی گئی تو رزلٹ روک لیا جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو جائزہ لے لیجیے، کے جی کا بچہ جو اپنے آپ کو سنبھال نہیں پاتا، اس کی کتابیں اور بیاض کی گنتی کرلی جائے، ایسا لگتا ہے یہ بچے نہیں گدھے ہیں جن سے بار برداری کرائی جارہی ہے۔ بستوں کے بوجھ کو دیکھ کر ڈاکٹر اب گردن کمر اور پیر کی بیماریوں کی تشخیص بھی کرنے لگے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈال دیا جاتا ہے، کیا وہ ابھی سے بلڈنگ کا نقشہ بنانے لگے گا یا اسے ابھی سے آپریشن تھیٹر میں جانا ہے یا ابھی سے وہ سائنسی تحقیقات کرنے لگے گا۔ یا پھر جہاز اڑانے لگے گا۔ یا اسے خلاؤں میں بھیجنے کا ارادہ ہے، ابھی اس بچے کی استطاعت کیاہے، سچ پوچھو تو بستے کے نیچے دبے بچوں پر رحم آتا ہے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گر گرپڑتے ہیں۔
دسویں جماعت تک آتے آتے مضامین کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ سائنس کی کتاب کے ساتھ رائٹنگ ورک ایکسپیرینس کرافٹ سوشل سروس میتھس پھر ان کے رہبر ڈائجیسٹ کتابیں، بیاضیں اور اسکول کے نظام الاوقات کے حساب سے کھانے کا ڈبہ وغیرہ۔واقعی دولت دنیا نے انسان کو اندھا بنا دیا ہے۔
پہلے لوگ اس فن کو مقدس سمجھ کر رضاکارانہ علم بانٹتے تھے، لوگوں کو اپنے فن سے مستفید کرتے تھے، اسے انسانیت کی خدمت سمجھ کر انجام دیتے تھے لیکن اب طب و علاج کی طرح تعلیم بھی ایک منافع بخش پیشہ ہوگئی ہے۔ڈاکٹروں کی طرح اسکول مالکان بھی رحم و مروت سے خالی ہوتے ہیں۔ اسکول کمپنی اور طلبہ کلائینٹ ہوتے جارہے ہیں، بھاری بھرکم ڈونیشن، الگ الگ طرح کی فیسیں اور بے مروتی سے وصولی ہوتی ہے، بھرے کلاس میں طلبہ کو کھڑا کردیا جاتا ہے یا کلاس سے باہر کردیا جاتاہے، ڈانٹ پلائی جاتی ہے، یہاں تک کہ زدو کوب بھی کیا جاتا ہے، مدارس کو دیکھ کر زکوۃ کے فنڈ پر بھی شب خون مارا جاتا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے زکوۃ کی رقم بٹوری جاتی ہے، چندے میں ان کی چابکدستی کو جاننے کے بعد میرا مشورہ ہے کہ مدارس کے مچندین کو ان سے چندے کی ٹریک سیکھنی چاہیے، پہلے بڑی مچھلیوں کا سراغ لگایا جاتا ہے، پھر بند لفافے میں اپیل بھیجی جاتی ہے، اب باری ہوتی ہے پیش قدمی کی، ایک دن دبے پاؤں گھروں میں کاسہ گدائی لیے آدھمکتے ہیں، اب وہاں مصارف زکوٰۃ کی کس کو پڑی ہوتی ہے اگر شرما کر پوچھ بھی لیا تو دعوی استحقاق کے ثبوت کے لیے دینیات کے سبجیکٹ کا حوالہ دیا جاتا ہے، جبکہ دینیات کی فیس الگ سے وصول کی جاتی ہے۔ رسید سفر کرتے ہوئے خلیجی ممالک میں بھی پہنچ جاتی ہے۔ قوم کی دولت کو چاروں طرف سے گھیرگھار کر بینک میں جمع کیا جاتا ہے، پھر بڑھتے چڑھتے سود کی بندر بانٹ بھی ہوتی ہے۔ زکوۃ کے فنڈ سے اگر کسی غریب کی فیس معاف بھی ہوتی ہے تو پیرنٹس کو تذلیل کے کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، آج بہت زیادہ ضروری ہے کہ تعلیم کو تجارت سے بالاتر سمجھا جائے، معیار تعلیم کو بلند کرنے کی فکر کی جائے، محنت اور دماغ سوزی طلبہ کے علم و صلاحیت کے اضافے پر صرف کی جائے نہ پیسہ بنانے کی، ماہرین تعلیم کی تجاویز کو عملی جامہ پہنایا جائے اور بچوں پر رحم کرتے ہوئے بستوں کا وزن کم کیا جائے، چند اسکولوں کے استثنا کے ساتھ یہ ایک عام رویہ ہے جسے ختم کیے بغیر تعلیم کا صحت مند اور خوش آئند ماحول پیدا نہیں کیا جاسکتا۔
تخلیق کا جب اس نے فسانہ لکھا
ہر چیز کا کیا ہوگا ٹھکانہ لکھا
بستے کے مقدر میں لکھا بھاری پن
اور میرے مقدر میں اٹھانا لکھا

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)

تعلیم اور صحت کے شعبے میں جو خرابیاں در آئی ہیں،اس کی بڑی وجہ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی کمزوری ہے۔ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عوامی نمایندوں کی ہے جو اپنا معقول کمیشن لے کر ان اداروں کو برباد کرچکے ہیں۔سرکاری اسکولوں سے وابستہ اساتذہ اور سرکاری اسپتالوں سے وابستہ ڈاکٹرس اپنے فرائض منصبی سے جی چراتے ہیں۔حکومتیں پرائیویٹ اداروں کی حوصلہ افزائی اسی لیے کرتی ہیں تاکہ ان کی کمیاں عوام کے سامنے نہ آئیں۔ ضرورت ہے کہ عوامی سطح پر بیداری پیدا کی جائے اور سرکاری اداروں کو فعال اور مستحکم کیا جائے۔آج کوئی صاحب ثروت… Read more »