زنانہ کلچر

ایم اے فاروقی

میری نظر میں آج دنیا کے سنگین مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ عورتوں کے حقوق کا ہے، افراط و تفریط سماج میں بگاڑ اور انتشار کو فروغ دیتا ہے، اللہ نے مرد و زن دونوں کو انسان بنایا، لیکن دونوں ٖکی جنس اور جسمانی ساخت الگ بنائی، مرد کو طاقت ور جفاکش بنایا، تو عورتوں کو نازک اندام اور پرکشش بنایا، توالد و تناسل اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری اسے سونپی، معاش اور کفالت کا بار مردوں پر ڈالا، نظام تخلیق کے تقاضوں کی ادائیگی سے پر امن معاشرے پروان چڑھتے ہیں۔ فطرت کے اصولوں سے جب بھی کھلواڑ کرنے کی کوشش کی گئی، نئے نئے فتنوں نے جنم لیا۔
پدری سماج فطری ہے، انسان لاکھ کوشش کر ڈالے، اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ پدری سماج نے عورتوں کے حقوق سلب کرلیے، انھیں جانوروں سے بدتر بنادیا، انھیں جنسی آسودگی کے آلہ سے زیادہ حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انسانی سماج مرد و زن کے ترکیبی توازن سے بنتا ہے، جب سے حضرت انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے، مرد ہی عورت اور بچوں کا رکھوالا بنا، پتھروں کے عہد سے جدید ٹکنالوجی تک کی تاریخ یہی بتلاتی ہے اور فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے، بیل کھیتوں میں کام کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں اور گائے دودھ دینے کے لیے، ہر ایک کا اپنا دائرۂ کار ہے۔ مساوات کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ سب دھان ستائیس سیر، مساوات کا مطلب ہے ہر شخص کا دائرۂ کار اس کی صلاحیت اور فطرت کے مطابق متعین کرنا، خلاف فطرت کام کا نتیجہ انتہائی خوفناک ہوتا ہے۔
مغربی تہذیب نے حقوق نسواں اور آزادئ نسواں کی جس تحریک کا آغاز گذشتہ صدی میں کیا، اس کے بدترین اثرات نے کینسر کی صورت اختیار کرلی ہے۔ آج عورت کی حیثیت تجارتی سامان سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں صرف اس کا استعمال ہو رہا ہے، ٹوائلٹ اور کموڈ تک کے اشتہار میں اس کی عریاں تصویر ضروری ہوگئی ہے، مساوات حقوق کے نام پر اس کے کپڑے اتروا لیے گئے، دہری ذمہ داریوں نے اس کا عورت پن چھین لیا۔ یہ اس کی ناقص العقلی اور خوش گمانی ہے کہ وہ سمجھتی ہے جدید جمہوری نظام نے اسے مردوں کے برابر اور مساوی حقوق دے دیے، کیا وہ اپنے اعضا اور اپنے زنانہ پن کو بھی بدل سکتی ہے، بحیثیت عورت اس کے حقوق نہ ملیں تو اس کے لیے یقینا مہم چلانا چاہیے، لیکن مردانہ حقوق و اختیارات کے لیے اس کی جد و جہد اور زنانہ کلچر کے تسلط کا خواب ہر اعتبار سے اس کی زندگی کو دوزخ بنا دے گا۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
ضمير مدني

عمدہ تحریر احسن انداز