مرغا بولا ککڑوں کوں

بیلن بلرامپوری ادبیات

میں بچپن میں گاؤں کے جس مدرسہ میں پڑھائی کرتا تھا وہاں کے مولوی صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مرغا بنانے میں بھی استاذ تھے۔ پہلی بار جب میں اسکول میں مرغا بنا تو اس قدر لطف آیا کہ پڑھائی سے زیادہ مرغا بننے میں میری دلچسپی بڑھ گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی مولوی صاحب مجھے اس عمل سے آزاد کرتے میں فورا دوسری شرارت کرکے مرغا بننے کو تیار کھڑا رہتا۔ مرغا بننے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ کم ازکم آدھا گھنٹہ پڑھائی لکھائی سے فرصت مل جاتی تھی لیکن کہتے ہیں نا کہ گرو تو گرو! مرغا بننے کی میری غیر معمولی دلچسپی کو مولوی صاحب نے بھانپ لیا اور پھر سدا کے لیے انھوں نے مجھے اس عمل سے نجات دے دیا اور اس طرح بھرپور صلاحیت کے باوجود میں مرغا بنتے بنتے رہ گیا۔

قسمت کی خوبی دیکھیے کہ شادی کے بعد مجھے جو اکلوتی سگی بیوی ملی اس کے اندر بھی مولوی صاحب کی طرح مرغا بنانے والی عادت نہ صرف بدرجہ اتم موجود تھی بلکہ مرغا پالنے کا شوق بھی جنون کی حد تک تھا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جس طرح آپ کو مرغا بننے کا شوق بچپن سے تھا اسی طرح مرغا پالنے کا شوق بھی مجھے بچپن سے ہے۔ حیرت کی انتہا نہیں رہی جب بیگم نے کہا کہ آپ سے پہلے بھی میں تین مرغ پال چکی ہوں لیکن پھر انھوں نے جب وضاحت کی کہ اس میں دو دیسی اور ایک فارم والا تھا تب جاکر مجھے قدرے اطمینان ہوا۔ مرغا پالنے اور بنانے میں ان کی والہانہ دلچسپی کو دیکھتے ہوئے بطور سزا برتن مانجنے یا مرغا بننے کے آپشن میں ہمیشہ مرغا بننے کو ہی میں نے ترجیح دیا۔ اس کا فایدہ یہ بھی ہوا کہ بچپن میں مولوی صاحب کی لاپروائی اور ان کے غیر دانشمندانہ فیصلے سے اس پروفیشن میں جو کمی رہ گئی تھی وہ بیگم کے زیر نگرانی پروان چڑھنے لگی۔ (جو لوگ اس فن سے نا آشنا ہیں وہ آج بھی گھروں میں برتن مانجنے پر مامور ہیں)

ایک دن مرغا بنانے کے بعد بیگم نے بچے سے کہا کہ جاکر ناشتہ لے آؤ لیکن یاد رہے کہ انڈا مت لانا۔ انڈا نہ لانے کی بات کو انھوں نے جب تین بار دہرایا تو میں آنے والے خطرے کو بھانپ گیا۔ بیگم کی نیت دیکھ کر میری رگِ مذکر پھڑک اٹھی اور بغاوت کے سر میں بولی کہ بیگم جو کام آپ سے نہیں ہوسکا وہ مجھ سے کیسے ہوسکتا ہے؟ میں مانتا ہوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایک عورت جب چاہے جنس بدل کر مرد کا روپ دھار لے یا ایک مرد جب چاہے اپنی گود بھرلے لیکن 4 جی بی ریم کا کام 2 جی بی ریم سے کیسے ہوسکتا ہے۔ اس طرح تو ہارڈسک بھی ڈیمیج ہوسکتا ہے۔ میری بات سن کر بیگم نے جب قہر اور زہر آلود نظروں سے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ انڈے کے بجائے کوئی سیال مادہ باہر آنے کو بیتاب ہے اور تھوڑی سی بھی تاخیر گھر میں ناک کٹوانے کا سبب بن سکتی ہے اس لیے ایک جست کے ساتھ قریب کے بیت الخلاء میں گھس گیا۔
بیت الخلاء گیس، پیٹ اور اسہال کے مریضوں کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں متنوع قسم کی سریلی اور بھانت بھانت کی آواز نکالنے پر ہر کوئی آزاد ہے لیکن اس معاملے میں جو لطف اور مزا میونسپلٹی، عربی مدارس اور یونیورسٹیوں کے بیت الخلاؤں کو حاصل ہے گھر کے بیت الخلاء میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

کلا اور آرٹ سے مزین ان بیت الخلاؤں کی بات ہی نرالی ہے، کام سوتر کے بیشتر چتروں کا دیدار آپ وہاں بآسانی کرسکتے ہیں۔ جو لوگ مدھیہ پردیش میں واقع کھجوراہو کے مندروں کی زیارت نہیں کرپاتے وہ پڑوس کے کسی بھی شوچالیہ میں جاکر مختلف قسم کے پورن سے لطف اندوز ہولیتے ہیں۔
کتاب النکاح پڑھاتے وقت کام سوتر کے ان چتروں کو اگر سامنے رکھا جائے تو عربی مدارس کے طلبا کو جنسی مسائل سمجھنے میں کافی سہولت ہوسکتی ہے لیکن برا ہو ان قدامت پسند مولویوں کا جو جدید قسم کی ایسی ٹیکنالوجیوں کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ طلباء نے بھی اس کو مسترد کردیا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔ بیشتر طالب علم کتاب النکاح کی گھنٹی کے بعد قریب کے کسی بیت الخلاء میں چلے جاتے ہیں اور دیواروں پہ بنی ہوئی ان چتروں سے مولوی صاحب کی تھیوری کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ طلبا جو کسی وجہ سے اس وقت تک بالغ نہیں ہو پاتے جب ان چتروں کو دیکھتے ہیں تو بلوغت کے کیڑے ان کے اندر بھی کسمسانے لگتے ہیں اور اسی وجہ سے شیک ویل بیفور یوز (Shake Well Before Use ) کا فارمولا بھی وہ بہت جلد سیکھ لیتے ہیں۔
مختلف قسم کے اقوال زریں بھی بیت الخلاء کی اس چھوٹی سی چہار دیواری کے اندر آپ کو نظر آجائیں گے۔ دو سال قبل میونسلپٹی کے ایک ٹوائیلیٹ میں جانے کی مری دلی تمنا جب پوری ہوئی تو مجھے اتنی خوشی ہوئی جتنی بیگم کے میکے جانے سے بھی نہیں ہوتی۔ جیسے ہی میں اندر جاکر بیٹھا سامنے دروازے پر ایک عبارت نظر آئی کہ دائیں جانب دیکھیں، دائیں جانب جب نظر دوڑایا تو وہاں لکھا تھا بائیں طرف دیکھیں، بائیں طرف جب نظر گھمایا تو لکھا تھا کہ پیچھے دیکھیے ( پیچھے دیکھنے کی لت ایک زمانے سے میرے اندر موجود ہے کوئی خاتون سامنے آجائے تو فورا ہی نظریں نیچی کرلیتا ہوں لیکن ان کے آگے جاتے ہی دور تک نگاہوں سے ان کا تعاقب کرتا ہوں۔ اس سے مجھے دو فائدہ ہوتا ہے ایک تو یہ کہ شرافت کی ڈگری بھی برقرار رہتی ہے اور دوسرے چار کے بجائے آٹھ چیزوں سے محظوظ ہو لیتا ہوں) بہر کیف پیچھے جب نظر دوڑایا تو جلی حروف میں یہ عبارت تحریر تھی کہ آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھنے کے بجائے جس کام کے لیے آئے ہو اس سے جلد فارغ ہوجاؤ باہر حاجت مندوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔
پلٹتے ہیں گھر کے بیت الخلاء کی طرف جہاں کافی تاخیر سے میں یہ سوچ کر باہر آیا کہ بیگم کا غصہ اب شانت ہوگیا ہوگا لیکن جوں ہی دروازہ کھولا پہاڑاپور کے اینٹ کے بھٹے کی طرح وہ ابھی بھی دہک رہی تھیں، ان کے چہرے پہ مجھے ضلع بلرامپور کا جغرافیہ صاف نظر آرہا تھا، ایسے عالم میں بیگم سے کچھ بات کرنے کا مطلب تھا چائنا سے جنگ مول لینا۔ قبل اس کے کہ فلم شعلے کا ڈائیلاگ “اب کیا ہوگا کالیا” سے بیگم اپنی زبان تر کریں میں نے سر کے ساتھ نگاہیں بھی خم کردیں اور خاموشی کے ساتھ کچن میں جاکر پہلے آپشن (برتن مانجنا) کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔
کچن میں گندے برتنوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ اس میں کچھ تو تروتازہ لگ رہے تھے لیکن کچھ برتن ایسے تھے جو سوکھ کر کانٹا ہوچکے تھے جبکہ بعض برتنوں میں اس قدر تعفن اور بدبو تھا لگ رہا تھا کہ ٹاٹا اسپتال کے کسی کینسر زدہ مریض کا لوتھڑا کاٹ کر اس میں ڈال دیا گیا ہو۔ بہر حال دیگر احباب کی طرح اس فیلڈ میں تجربہ نہ ہونے کے باوجود بھی میں نے برتن دھونے کے عمل کو بحسن و خوبی انجام دیا البتہ ایک سوچی سمجھی رڑنیتی کے تحت نہایت ہی سست رفتاری کا مظاہرہ کیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس درمیان بیگم نیند کی آغوش میں جا چکی تھیں۔
کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بیڈ روم کا رخ کیا تو دیکھا کہ بیگم بیڈ پہ سوئی ہوئی ہیں اس لیے حسب روایت بیڈ کے نیچے اپنا بستر لگانے میں جٹ گیا۔ یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ شادی کے دن سے ہی سونے کا میرا یہی طریقہ رہا ہے الا ماشاءالله۔ کبھی بیمار ہوگیا اور میڈم کو بھی ترس آگیا تو بیڈ پہ سونے کا بھی شرف حاصل ہوا لیکن اس درمیان بیگم نیچے سوتی رہیں، بھلا ہو ان دوا ساز کمپنیوں کا جن کی نیند آور گولیوں کی بدولت میں پانچ بچوں کا باپ بن گیا اور بیگم کو پتہ بھی نہیں چلا۔ مگر آج قسمت نے وفا نہیں کیا یا یوں کہہ لیں کہ کبھی کبھار زیادہ احتیاط بھی بد احتیاطی کا سبب بن جاتی ہے۔ ہوا یوں کہ برتن مانجنے کی وجہ سے ہاتھ میں جو نقاہت تھی اس کے سبب ہاتھ تکیہ کا وزن برداشت نہیں کرسکا اور تکیہ چھوٹ کر دھب سے زمین پہ گرگیا جس کی وجہ سے بیگم کی نیند ٹوٹ گئی۔
نیند ٹوٹتے ہی بیگم دوبارہ آپے سے باہر ہوگئیں۔ آج تو وہ کسی بھی طور شانت ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ غضبناکی کا کون سا بھانگ انھوں نے پی لیا تھا میری سمجھ سے باہر تھا ایک بار تو سوچا کہ قاری صاحب کو بلا کر دعا کرادوں لیکن ہمت نہیں جٹا سکا، ساؤنڈ پروف اس روم میں وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ چیختے ہوئے گویا ہوئیں کہ میرے سوتے سمے جو بھی تم کو آرام کرنا تھا کرلیے لیکن جاگتے ہوئے ایک شوہر نیند کی آغوش میں چلا جائے یہ نسوانیت کے آمرانہ رویے کی توہین ہے۔ بالآخر ان کے ارادے کو بھانپ کر ان کے کہنے سے پہلے ہی میں دوبارہ مرغا بن گیا، مرغا بننے کے ٹھیک تین گھنٹے بعد صبح صادق کے وقت جب غیر شعوری طور پر میری زبان سے ککڑو کوں کی صدا بلند ہوئی تو گھر میں جشن جیسا سماں ہوگیا۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بیگم کے ہونٹوں پہ بھی فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
اور ہو کیوں نا؟؟
اس تاریخی کامیابی کے پیچھے ان کا ہاتھ جو تھا۔

19
آپ کے تبصرے

3000
15 Comment threads
4 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
16 Comment authors
newest oldest most voted
خبیب حسن

😬😬😊😊👍👍❤️❤️

شمس الرب خان

ھھھھھھھھھ۔۔۔۔ آج پتہ چلا کہ بیلن بلرامپوری کا درست تخلص مرغا بلرامپوری ہے۔۔۔ 😂😁😀

مدثر رحمانی

بہت ہی دلچسپ اور نرالا انداز
اللہ ہمیں تمام قسم سے حملوں سے محفوظ رکھے. آمین

حفیظ اللہ خان

کیا بات ہے جی بہت خوب..

Zaffar iqbal

بستر مرض پر بھی ایسے زور سے ہنسی چھوٹی کہ ایک جگہ کے بجائے کئی جگہوں سے آواز بلند ہو گئی

نتیجہ بتلانے کی ضرورت نہیں

Kashif Shakeel

18+ مضمون ہے اس لیے میں نہیں پڑھونگا ورنہ سر غصہ ہو جائیں گے۔۔

Abdul Noor Malik

ٹکٹ میں عمر بائیس سال ہے 😍

شمس الرب خان

کون سے سر؟

صلاح الدین

بہت خوب۔۔۔۔ 🤣🤣🤣🤣🤣ماشاءاللہ ایسے ہی لکھتے رہو جناب اور لوگوں کو اپنے کتابت سے محظوظ کریں،

Mumtaz Shahid

مرغا بیتی لاجواب ہے مرغا بلرامپوری صاحب
بس ایسے ہی لکھیں، بھلے ہی مرغا بنیں یا انڈا دیں یا پھر کسی اور کو مرغا بنائیں 😂😂😂😂

ریاض الدین شاہد

بہت خوب

عطاء الله سلفی

بہت خوب…… 😊😊

محمد عبد الماجد خان

اچھا مضمون ہے ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔لیکن تھوڑا سا بولڈ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔

محمد عبد الماجد خان

اچھا ہے
لیکن تھوڑا سا بولڈ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔

Abdul Noor Malik

جی ہاں مزاحیہ بنانے کے چکر میں کہیں کہیں بولڈ ہوگیا ہے آگے سے ایسا نہ ہو اس کا خیال رکھا جائیگا ان شاءالله

فیاض اعظمی

آج ادبیات کے نام پر غیر ادبیات کو رواج دینا عام ہوگیاہے ، غور کریں اس مضمون میں کتنے ایسے الفاظ اور جملے ہیں جو ادب کے دائرے سے خارج ہیں اور افسوس تو اس وقت ہوتاہے جب ایسے مضامین کا تنقیدی جائزہ لینے کے بجائے لوگ پذیرائی کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔

ریاض مبارک

موضوع کا حسن وقبح اپنی جگہ لوگوں نے پذیرائی اس لئے بھی کی ہے تاکہ لکھنے والا حوصلہ پاکر مزید لکھنے کی مشق کرے۔ ظاہر ہے جب وہ کثرت سے لکھنے لگے گا تو مشاق ہوجائے گا اور ادبی حدود کو پھلانگنے سے گریزاں نظر آئے گا۔ بہر صورت آپ نے اچھا کہ جو دوسروں سے ہٹ کر الگ موقف اختیار کیا مگر جناب والا کم سے کم خامیوں کی نشاندہی تو کرتے جاتے تاکہ لکھاری اپنی اصلاح کرسکتا اور ادبی نزاکت کی ان باریکیوں کو بھی نمایاں کردیتے جہاں ادب رسوا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ… Read more »

عباس عالم

ماشاءاللہ
منجھی ہوئی تحریر

دنیادار

استغفر اللہ