ہستیاں بستیاں

طارق کاظمی

شہر کی رات بڑی اداس تھی۔ ہر طرف سنّاٹا پسرا ہوا تھا۔ اُن سرد راتوں میں گلی شاہراہوں کے کتّے آنکھیں مُوندے، سٙر ٹانگوں میں دیے بیٹھے تھے۔ اُس وقت محلوں کے پالتو کتے بھی اپنے آقا کی رکھوالی میں جاگ رہے تھے۔ ذرا سی آہٹ پاکر وہ بھی بھونکنے لگتے اور اُن کی بھوں بھوں کی آواز چند لمحوں کے لیے شہر کی رات کا سکوت توڑ دیتی۔ ذرا سے وقفے کے بعد بغل کے فلیٹ کی مُنڈیر سے بلّی کے گِھگھیانے کی مسلسل آواز نے پوری طرح بیدار کر دیا۔ عام طور سے لوگ گاؤں میں گِھگھیاتی بلی کی آواز کو منحوس قرار دیتے ہیں اور سنتے ہی اُس کو وہاں سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ مگر شہر کی مخلوق کو اس سے کیا غرض، یہ لوگ تیز رفتار زندگی کے تھکے ہارے لوگ ہیں جو اپنی نیند پوری کر کے صبح کو شہر کی اُن تیز رفتار گاڑیوں کی رفتار میں گُم ہو جاتے ہیں یا ایک کارخانہ مزدور کی طرح ہرروز اپنے کام پر نکل جاتے اور تمام دن پُرشور مشینوں کے بیچ کھڑے کھڑے، نڈھال ہوکر شام کو پرندوں کی طرح اپنے اپنے گھونسلوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ خیر رات تو کسی طرح کٹ ہی جائے گی کیونکہ رات دن کے تعاقب اور دن رات کے تعاقب میں ہوتا ہے، یہ ایک فطری چکر ہے۔

رات ہولے ہولے اپنے اختتام کی اور بڑھ رہی تھی۔ گھڑی میں صبح کے ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے فجر کی اذان صاف سنائی پڑ رہی تھی۔ مگر شہر اب بھی خاموش پڑا تھا جبکہ اس وقت گاؤں میں چڑیوں کا سکوت ٹوٹ جاتا ہے اور وہ اپنی چہچہاہٹ سے فضا میں ایک قسم کی نغمگی گھول دیتی ہیں۔ مرغ طلوعِ سحر کی بانگ دینے لگتے ہیں اور ننھے منّے بچے اپنے اپنے گھروں سے بے خوف نکل پڑتے ہیں۔ ایسی فضا میں بھلا کس کا ذہن مسحور نہ ہو؟

لیکن جیسے ہی شہر کا سکوت ٹوٹا۔ سڑکوں کا سینہ چھلنی ہو گیا۔ اژدہامِ انساں سے شہر کا چپہ چپہ بھرا نظرآیا۔ گاڑیاں جو رات بھر دم لے رہی تھیں سڑکوں پر نکل آئیں۔ میٹرو ریل بھی اپنے وقت پر چل پڑی تاکہ مسافروں کو شہر کے ایک چھور سے دوسرے چھور تک چھوڑ سکے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میٹرو اسٹیشن کے ٹھیک سامنے ہی ڈی ٹی سی کی بسیں آکر رکا کرتیں، جہاں پہلے سے ہی لوگ ان کا انتظار کر رہے ہوتے۔ بس کے آتے ہی فوراً وہ اس پر سوار ہوجاتے اور جامعہ کا، ایک سیاح کی نظر سے نظارہ کرتے ہوئے اپنی منزل کو چلے جاتے۔
میٹرو اسٹیشن کے نیچے ہی ایک قبرستان ہے۔ اپنے آباء و اجداد کی قبروں کی پہچان کے لیے لوگوں نے بڑے بڑے پتھروں کے کتبے نصب کر دیے ہیں۔ بغل میں ہی ذاکر صاحب بھی ابدی نیند سورہے ہیں۔ جن کے لازوال علمی کارناموں سے قوم و ملت آج بھی فیضیاب ہورہی ہے۔ مقبرہ کے پچھم جانب، البِرونی بلاک ہے جو کہ ایک میوزیم ہے اور اسے مشہور ہندوستانی ادیب منشی پریم چند کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ جہاں اس میوزم میں اُن تمام عظیم شخصیات کے عظیم کارنامے دستاویزوں کی شکل میں محفوظ ہیں تو ساتھ ہی ان کی تصویریں بھی آویزاں کی گئی ہیں تاکہ زائرین انھیں جان پہچان سکیں۔ قبرستان کے وسیع صحن میں کئی ایسی ہستیاں بھی ابدی نیند سو رہی ہیں جنھوں نے اپنے اپنے وقت میں نمایاں کام انجام دیے۔
کبھی کبھی شہر میں بھی بستیاں آباد ہوجایا کرتی ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے نظر چاہیے۔ جامعہ ملیہ میٹرو اسٹیشن کے سامنے جہاں بس رکا کرتی تھی ٹھیک اُس کے پیچھے، جھاڑدار میدان میں، کچھ ہی عرصہ میں دیکھتے دیکھتے ایک چھوٹی سی بستی آباد ہو گئی۔ ایسی کئی بستیاں، شہر کے اُن تمام فلائی اُووٙرس کے نیچے بھی ملیں گی جن کے اوپر سے ہر روز، ہزاروں لکزٙری گاڑیاں تیز ہارن دیتے ہوئے برق رفتار گزر جاتی ہیں۔ یہ بستیاں اپنی تہذیب کا دم بھرنے والے مہذب انسانوں کی نہیں بلکہ فاقہ مست جیالوں کی ہیں۔
انتظار حسین نے “بستی” میں بستی کے آغاز و ارتقاء پر بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ بستی میں کس طرح امن کو قائم رکھا جائے۔ آخر بستی کا سکون کس نے غارت کیا؟ اس پر انھوں نے بھرپور روشنی ڈالی ہے۔
کرشن چندر نے افسانہ “مہا لکشمی کا پل” کے ذریعہ انسانی حس کو جگانے کی کوشش کی ہے اور ممبئی جیسے تیزگام چٙکا چوندھ بھرے شہر میں پُل کے اِس پار اور اُس پار کی زندگی کا نقشہ، بہت ہی منصفانہ انداز میں کھینچا ہے۔ اور پوری روداد بیان کرنے کے بعد آخر میں قارئین کے سامنے یہ سوال بھی رکھ دیا کہ آپ پل کے اِس طرف ہیں یا اُس طرف؟
اِس ہستی میں جب تک انسان جنم لیتے رہیں گے بستیاں آباد رہیں گی۔ گاؤں میں نانی کی قبر کے پاس، دیر تک بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ نانی کے جُگ میں بستی کتنی سُندر رہی ہوگی؟ لوگوں کے بیچ کتنا آپسی اتحاد رہا ہوگا؟ بہار کا موسم بھی جھوم جھوم کر آتا رہا ہوگا، کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں اور اس کے بعد اُن کی کٹائی کے وقت، کتنے گیت فضا میں گُونجے ہوں گے؟ خوشی خوشی کسان اناج کے گٹّھر سٙروں پر لادے اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہوں گے۔
وقت کی نبض پر کتنی روحیں فنا کا شکار ہو گئیں اور باقی ابھی فنا و بقا کی جنگ سے دوچار ہیں۔

6
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
3 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
محمد خالد

بہت بہترین طارق کاظمی صاحب، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ، ایک ادیب اور تخلیق کار یا قلم کار کی سب سے بڑی خوبی اس کی وہ تیز نظر ہوتی ہے جس سے وہ اپنے آس پاس کے افراد ماحول اور واقعات کو دیکھتا اور پرکھتا ہے، جس راستے سے ہم روز گزرتے ہیں اور بغیر کچھ دیکھے گزر جاتے ہیں ، اسی راہ سے جب ایک قلمُکار گزرتا ہے تو ایک مہا لکشمی کا پل،یا کفن،یا عید گاہ یا آخر شب کے ہمسفر یا اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، یا پھر نظارہ درمیاں ہے تیار ہوجاتا ہے جو… Read more »

طارق کاظمی

سر آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں، جہاں ایک طرف میرے والدین نے مجھے انگلیاں پکڑ کر چلنا سکھایا،وہیں آپ نے مجھے فکرونظر عطا کی جس سے آج میں موجودہ دنیا کو دیکھ سکنے کی سَکت رکھتا ہوں اور جو حقائق مجھے نظر آتے ہیں انہیں قلمبند کر لیا کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ اب مجھے اسرارِ کائنات کی تلاش میں کافی آنند ملتا ہے۔

آپ کا شاگرد ۔ طارق

شمس ودود

اپنے احساس شرر بار سے ڈر لگتا ہے
اپنی ہی جرأت اظہار سے ڈر لگتا ہے
اتنی راہوں کی صعوبت سے گزر جانے کے بعد
اب کسے وادئ پر خار سے ڈر لگتا ہے… عذرا نقوی کے یہ اشعار آپ کی نظر کرتے ہوئے ایک سوال ذہن میں آن کوندا جو آپ کے مضمون کے مطالعہ کا حاصل ہے وہ یہ کہ آپ نے بلا شبہہ عمدہ لکھاری ہونے کا ثبوت تو دیا لیکن اس تحریر کو کس خانے میں رکھا جائے؟

طارق کاظمی

کامریڈ آپ کا سوال بجا ہے۔ لیکن ایک ابھرتا ہوا قلم کار بھلا کہاں اس قابل کہ بیک وقت ہی تنقیدی شعور سے بھی آراستہ ہو، آشا کر تاہوں کہ آپ جیسے اہلِ نظر لوگ ہی اس کے ساتھ انصاف کا معاملہ کریں گے

عبداللہ ادیب رحمانی

ماشاء اللہ اللہ رب العالمین آپ کے علم وعمل میں برکت دے آمین

سعد

بہت اچھے.