نہ نظر میں اپنی گر کر کبھی بھی کلام کرنا

صفورا عالیہ بنت ذاکر الہی شعروسخن

نہ نظر میں اپنی گر کر کبھی بھی کلام کرنا

ہو خوشامدی کا خطرہ نہ کبھی سلام کرنا


تری معرفت شناسی میں سرور ہے مسلسل

مری بندگی کا قصہ نہ کبھی تمام کرنا


ہے یہ دنیا بے مروت بے ثباتی اس کی پہچاں

اسے دل کبھی نہ دینا نہ ہی اہتمام کرنا


یہ ہے دل کراۓ کا گھر یہ ہے عارضی رہائش

اسے رہگزر ہی سمجھو کبھی مت قیام کرنا


یہ مزہ ہے زندگی کا جو یہ قسط وار دوڑے

کہ تباہی ہے مکمل اسے بے لگام کرنا


مجھے خدشہ ہے کہ سورج کہیں تم کو لے نہ ڈوبے

نہیں اس کے سنگ اپنی کبھی صبح شام کرنا

آپ کے تبصرے

3000