بے کار کو یوں یار بنایا نہیں گیا

صبا شعیب شعروسخن

بے کار کو یوں یار بنایا نہیں گیا

دل کا جلا ہوا تھا بجھایا نہیں گیا


دیدار جو تمہارا نہ اتنے دنوں ہوا

بے چین دل ہوا بھی بلایا نہیں گیا


خواہش تھی راہ رو کی جو پوری نہ ہوسکی

پردہ نشیں تھے چہرہ دکھایا نہیں گیا


“آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی”

پھر یوں ہوا کہ مجھ سے بھلایا نہیں گیا


منصب پہ بیٹھے لوگ تھے نا اہل و بیوقوف

قابل جو تھے انہی کو بٹھایا نہیں گیا


احساس مر گیا ہے جو دل مردہ ہوگئے

معصوم تھا مگر وہ بچایا نہیں گیا


گزرا شباب دنیا کے جنجال میں میاں

کہتے ہیں ہم کو دین سکھایا نہیں گیا


اسلام کے لیے تھے ستائے گئے نبی

ہم ہیں کہ ہم سے یہ بھی بتایا نہیں گیا


دشمن نے لاکھ چاہا کہ دل میں جگہ ملے

چاہا مگر وہ دل میں بٹھایا نہیں گیا


سوچا کہ آخری ہی جھلک دیکھ لوں صبؔا

پردہ پڑا تھا ان پہ ہٹایا نہیں گیا

آپ کے تبصرے

3000