مسلم خواتین کے مسائل: غور و فکر کے چند پہلو

رفیق احمد رئیس سلفی

(محترمہ شہلہ تبسم صاحبہ کے تبصرے سے متاثر ہوکر)

اسلامی بہن! اللہ آپ کو اپنی تمام نعمتوں سے سرفراز فرماکر شاد و آباد رکھے، آپ اپنے احساسات اور جذبات اسی طرح صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتی رہیں۔ میں نے دی فری لانسر کے ذمہ داروں سے کئی بار کہا ہے کہ وہ اسلامی ذہن و فکر رکھنے والی بہنوں سے رابطہ رکھیں اور وہ اگر لکھنے کا سلیقہ رکھتی ہیں تو ان سے لکھنے کو کہیں تاکہ خواتین کے مسائل سامنے آئیں اور ان کا کوئی حل نکلے۔
آج مسلم خواتین کی پوزیشن اور معاشرے میں ان کے مقام کا مسئلہ کافی سنگین ہوگیا ہے۔علمائے اسلام مسلم سماج کی بعض غیر منطقی روایت پرستی سے اوپر اٹھ کر سوچنے کے لیے تیار نہیں، جدید دنیا کے مسائل اور نئی نسل کے نوع بہ نوع رجحانات کی انھیں یا تو خبر نہیں ہے یا وہ ان پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعض پروگراموں میں شرکت کرتے رہنے کی وجہ سے بڑی حد تک جدید دنیا اور جدید مسائل کو قریب سے دیکھ رہا ہوں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے آفاقی اصولوں اور خواتین کے تعلق سے پیدا ہونے والے سوالات کے درمیان توافق کی کیا صورت اپنائی جائے۔ مسلم سماج کی بے اعتدالیاں میری نظر میں ہیں۔ جدید رجحانات کے زیر اثر زندگی گزارنے والے افراد کے واقعات بھی سامنے ہیں۔ ایک شادی شدہ عورت کی زندگی، اس کے اختیارات اور اس کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟کیا ہم مغرب کی آزادی کو اپنا کر اسلام کے اصولوں پر باقی رہ سکتے ہیں؟ بیٹے اور بیٹی کی تعلیم و تربیت اور ان کی پرورش میں فرق و امتیاز اسلامی تعلیمات کا نتیجہ نہیں بلکہ برادران وطن کی معاشرت کے اثرات ہیں جن سے ہم خود کو دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ مسلم سماج کی اس خرابی کو دور کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کی صورت حال کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ابھی لوگ اس قدر بالغ نظر اور میچور نہیں بن سکے ہیں کہ اس سماج میں پیدا ہونے والی سوچ کو تبدیل کیا جاسکے۔کسی پر الزام تراشی کرنا اور کسی کے سلسلے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنا اسلام میں بدترین گناہ ہی نہیں بلکہ قابل تعزیر جرم ہے۔ والدین اپنے بچوں کا مزاج بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ سماج کی کوئی انگلی ان کے بچوں کی طرف اٹھے۔ سماج اور ملک کی صورت حال کی وجہ سے والدین کے کچھ اندیشے ہیں جو انھیں بسااوقات مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے تعلق سے محتاط رہیں۔ دیگر مذاہب اور تہذیبوں کی بات میں نہیں کرتا لیکن اسلام جس تہذیبی تشخص کا علم بردار ہے اس کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ تہمت کے مواقع اور مقامات سے بچو۔ یہ حکم صرف خواتین کے لیے نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی ہے۔ ہماری جو بہنیں گھر کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ملازمت میں ہیں، اور پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں، ان کے طرز عمل کو ہدف ملامت بنانا ہر گز درست نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے لیکن اگر کوئی شوہر اپنی تعلیم یافتہ بیوی کو ملازمت نہیں کرنے دیتا بلکہ وہ اسے گھر کی ذمہ داریوں سے وابستہ رہنے کی تاکید کرتا ہے تو ہماری کسی بہن کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ آج کی دنیا میں اس تنازعے کی وجہ سے کتنے گھر برباد ہورہے ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہماری بعض جدید تعلیم یافتہ بہنوں کی خواہش ہے کہ ازدواجی زندگی برباد ہوجائے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ملازمت نہ جانے پائے۔ انھوں نے اپنی ملازمت کو اپنی آزادی سمجھ لیا ہے۔ ہر مرد کا مزاج یکساں نہیں ہوتا ہے۔ آج بہت سے لوگ اپنی بیوی کی ملازمت سے مطمئن ہیں اور خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن درون خانہ ایک بیوی ہی کو معلوم ہے کہ اس کے شوہر کی ترجیحات کیا ہیں، اسے اپنے شوہر کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ابھی چند ماہ پہلے ہماری عدالت نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود غیر مرد سے جنسی تعلقات رکھنا کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس پر شوہر اسے طلاق دے دے۔ خواتین کی آزادی کا اگر مطلب مغربی معاشرے میں موجود آزادی ہے تو اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، ویسے اس دنیا میں ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ مطالبہ درست نہیں ہے کہ اسلام بھی اس پر مہر لگادے۔ اسلام کے اپنے تحفظات ہیں جن کی پاسداری وہ قدم قدم پر چاہتا ہے۔
آپ جیسی بہنوں کو جو ان مسائل کو سمجھتی ہیں، پوری دردمندی کے ساتھ ان کو معاشرے میں عام کرنا چاہیے۔ جو ظلم و زیادتی ہورہی ہے، اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ گھریلو زیادتیوں میں ہماری معمر خواتین برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ ان کی نسائیت کہاں چلی جاتی ہے اور وہ کیوں اپنے نالائق اور ناکارہ بیٹے کے ساتھ مل کر بہو پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی ہیں۔
اقرا خلجی کی نظم کا پس منظر انھوں نے خود بیان کیا ہے، آپ نے اپنے مضمون کا عنوان چوں کہ ان کے ایک مصرعے سے اخذ کیا ہے، اس لیے شبہ ہوا کہ کہیں خدانخواستہ آپ ان کے خیالات کی موید تو نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، بہت غلط ہوا۔ کسی مہذب سماج میں اس کے لیے گنجائش نہیں نکلتی لیکن نسائیت کے جملہ مقدسات کو محکومی اور پدرانہ نظام کے جبر و ظلم کا شاخسانہ قرار دینا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟
آپ کے کئی ایک اشکالات مبہم اور غیر واضح ہیں، بہتر ہوتا کہ ان کو صاف صاف لکھا جائے اور ایک بیٹی، بیوی اور ماں کے کردار کو سامنے رکھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کہاں کس کو کون سی الجھن پیش آتی ہے؟ یہ الجھن ایک بگڑے ہوئے سماج نے پیدا کی ہے یا اس کا تعلق اسلام کے کسی اصول یا اس کی کسی تعبیر سے ہے۔ میں ذاتی طور پر اس کے لیے کافی فکر مند ہوں اور اس کا کوئی حل چاہتا ہوں۔ ابھی کل ہی ہمارے ایک پروفیسر نے مجھ سے ایک سوال پوچھ لیا کہ رفیق صاحب بیٹے اور بیٹی کی ولادت کے بعد ہی آپ لوگ دونوں جنسوں میں تفریق شروع کردیتے ہیں۔ عقیقے میں بیٹے کے لیے دو اور بیٹی کے لیے ایک بکرا مسنون سمجھتے ہیں۔ میرا جواب یہ تھا کہ معاملہ صرف حدیث تک نہیں ہے بلکہ خود قرآن نے ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کی بات کہی ہے۔ان کا اعتراض حدیث پر تھا۔ اس لیے قرآن سے جواب دے کر ان کو خاموش کیا گیا لیکن جدید ذہن قرآن اور حدیث دونوں کی اس تفریق پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جدید ذہن کے ان شبہات کا ازالہ کیسے کیا جائے۔ اس کے ذہن میں تو مساوات مردوزن کا خیال غالب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے ابتدائی ماہ و سال اس قسم کے سوالات پیدا کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے عمر اور تجربہ بڑھتا جاتا ہے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا ہوتا ہے تو سب کچھ نارمل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کو کیا کریں کہ آج کی نوجوان نسل خود کو عقل کل کا مالک سمجھ بیٹھی ہے اور کسی کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
جہاں تک سوال دینی مدارس کی فیض یافتہ اسلامی بہنوں کا ہے تو میں خود بہت مایوس ہوں۔میں نے اپنے کئی دوستوں سے جو ان مدارس نسواں کے ذمہ دار ہیں، بارہا عرض کیا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اس قدر پختہ ہونی چاہیے کہ وہ نہ صرف اسلام پر اٹھنے والے سوالات کے جواب دے سکیں بلکہ مسلم معاشرے میں ایک نمونہ بن کر دکھائیں لیکن جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ کئی ایک بہنیں ازدواجی زندگی میں بہت ساری الجھنوں کا سامنا کررہی ہیں۔ یہ معاشرہ آپ کا ہے، آپ نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں اپنے حقوق اور فرائض سمجھ لیے ہیں لیکن جہالت زدہ سماج کو آپ کے فرائض تو یاد ہیں لیکن آپ کا وہ کوئی حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ صبر سے کام لیں، دعوت و اصلاح کے کام آن واحد میں نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ ساڑھے نو سو سال سیدنا نوح علیہ السلام کو لگ گئے، پھر بھی اتنے لوگ ہم رکاب ہوئے جو ایک کشتی میں سماگئے۔ حکمت عملی بڑی چیز ہے جو آپ کی تعلیم نے آپ کو عطا کی ہے۔ غور سے دیکھیں کہ گھر کا کوئی فرد کیوں ایسا رویہ اپناتا ہے جو سب کے لیے باعث اذیت ہے۔ اس کو درست کرنے کا کون سا راستہ اپنایا جاسکتا ہے۔ یہی تو آپ کا امتحان ہے، پتھر کو موم کرنا اسی کو کہتے ہیں۔اگر آپ نے بھی تو تو میں میں شروع کردی تو پھر آپ کا امتیاز ہی کیا رہ جائے گا۔
کسی مضمون پر اتنا طویل تبصرہ مناسب نہیں تھا، بہتر ہوتا کہ ہم ان مسائل کو کئی ایک موضوعات کے تحت مضامین کی شکل دیتے تاکہ ان کی افادیت کا دائرہ وسیع ہوسکے۔ امید ہے کہ آپ اپنے حلقے کی تعلیم یافتہ خواتین کو یہ تحریر پہنچادیں گی تاکہ ہم ان کے تبصروں اور تنقیدات سے بھی استفادہ کرسکیں۔

آپ کے تبصرے

3000