اردو کا زہر

سعد احمد

ایک سانپ تھا، وہ بہت زہریلا تھا۔ اس کی تین زبان ستلیوں کی طرح لپٹی ہوئی تھیں۔ ہر زبان کا زہر دوسری سے کئی گونہ زیادہ ہوتا۔ کبھی ایک زبان سے قومیں تباہ ہو جاتیں تو دوجی سے عورتیں ماری جاتیں اور تیسری کے زہر سے ہر طرح کی محبت زائل ہوجاتی۔
وہ سانپ ہندوستان آیا۔ وہاں اس نے اپنا بوقلمونی زہر ایک دیوتا کی شہہ رگ میں اتار دیا، وہ دیوتا نیلا پڑگیا۔ آسمان تب سے نیلا کہا جانے لگا۔ سانپ کی بے زہر زبان تالو سے چپک گئی، آنکھیں الٹ گئیں اور وہ دم پہ دم تڑپتا رہا۔ نیلے دیوتا نے اسے شراپ دیا، ”جا تو کبھی زہر نہ پیدا کر سکے گا“۔ وہ سانپ اردو زبان ہے۔ اس دیوتا نے یہ نہیں کہا تھا کہ تو شیرینی بھی پیدا نہ کر سکے گا۔ اردو زبان شیریں زبان تب سے ہی سمجھی جانے لگی۔
اس زبان کے اولین مداری امیر خسرو سے لے کر لکھنؤ کے خسروانہ مزاج ادباء قرار پائے۔ دہلی اور دکن کی زبانیں بھی اسی شیرینی کے دم پہ قحط سالی جھیل سکیں۔ فرنگ نے اس زبان پہ شہوت کی لنگوٹ چڑھانی چاہی پر خود چڑھ گئے۔
آزادی نے اس زبان کا استحصال کرنا شروع کردیا۔ اب یہ باوقار زبان، قحبہ خانے میں تھرکتے گھنگھروؤں کی طرح بنا آرام کیے تھرکتی رہی۔ پہلے پہل روزگار کی مار نے اس کے عارض پہ چانٹا رسید کیا، اس کی گاہکی رخصت ہونے لگی، کوئی نامراد اسے بیسوا کہتا تو کوئی اس کی آبرو کو کستا، مسلتا۔ پیٹ کے لالے پڑے، دربار پہ تالے پڑے، اس زبان کے وفادار عین وقت پہ قافلہ عروسی کا بہانا کر رحلت فرمانے لگے۔ تنہا اردو زبان چیختی رہی اور زرداران وطن قہقہے لگاتے رہے۔
آزادی کے نام پہ گھر گھر بھٹکتی رہی، زندہ رہنے سے ڈرتی اور خود کشی کرنے سے مکرتی رہی۔ آنکھوں نے دیکھا اور خبریں بھی ملتی کہ آج یہ زبان فلاں جھونپڑپٹیوں میں گھٹ گھٹ کے جی رہی ہے اور کبھی فلاں خواہش خانے میں پیلی پڑ رہی ہے۔ سرکاروں کی زبان اسے نیم مردہ کہہ رہی ہے اور عوام کی گالیوں میں بس یہ جی رہی ہے۔
دانش گاہوں کے ہنرمند ریسرچ کے نام پہ مغبچوں کا شور اس کی پرورش کر نئے خریداروں کو سجا سجا کر پیش کررہا ہے گویا اسی خواہش خانے کا گھسیٹا عرف باسی چپاتی کا دلال پھر سے حاضر ہے اور جی حضوری کر اس کے خُلیاتی نظام کا جائزہ کراتا ہے یا جینیٹک موڈیفیکیشن کرا رہا ہے۔
اردو زبان کی شیرینی ٹھس لوندا میں بدل رہی ہے، اس میں زہر گھل رہا ہے۔ اس کی زبان میں کئی زبانیں اُگ رہی ہیں اور زبان میں وہی زہر پنپ رہا جو قبل از اردو زبان کے دوسری زبانوں میں پنپتا تھا۔
میرے منہ کے الفاظ کسیلے ہورہے ہیں، میری آنکھیں چڑھ رہی ہیں شاید زبان زہریلی ہے، یا لفظ یا شاید معانی۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

واو ماشاء اللہ بہت خوب ڈاکٹر صاحب

Mohammad Asim

بہت خوب

محمد مقیم

عمدہ.