ابو الميزان کے فری لانسر کی بکواس

سعد احمد

جب لوگ جوان ہوتے ہیں تو ان کے دل بھی جوان ہوتے ہیں۔ جوانی کی معرفت یہ کہا جاتا ہے کہ جوان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا دراصل وہ پیدا بھی ‘جوان’ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بوڑھوں کے بارے میں بھی بہت سی باتیں ہیں۔ مولانا آزاد کے بارے میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو کہا کرتی تھیں کہ “جب وہ پیدا ہوئے تو ان کی عمر پچاس سال کی تھی“۔ اس سے بھی بڑی بات یہ رہی کہ ابن تیمیہ کے بارے میں کہا گیا جب وہ پیدا ہوئے تو پچاس سال نہیں بلکہ سات سو سال کے تھے۔ یہ کوئی جوانوں والی عمر تو نہیں ہاں بڑھاپے والی عمر ضرور ہے۔ مزید دیکھیں، بڑے بڑے صوفیاء، زہاد، اولیاء اپنے ہی مادی جسم کو اس قدر فراموش کر دیتے ہیں کہ عوام الناس انھیں آبائی زمین میں سایہ دینے والا ایک انتہائی قد آور درخت تسلیم کرنے پہ بضد ہو جائیں، یعنی وہ اپنے جسم کا خیال رکھیں یا نہ رکھیں دوسروں کے جسم، مزاج، خیال، گفت و شنید کے جاری رکھنے کا سامان مہیا کر انھیں سایہ ضرور دیتے رہیں۔ روایتوں میں پنپے بڑے لوگوں سے ہم اسی طور سے مخاطب ہوتے ہیں گویا کہ وہ انتہائی عمر دراز اور قدآور درخت ہیں جن کی دور تک دیکھنے والی نگاہیں ماضی کی جڑوں میں بالکل زیر زمین تک کے حالات کے عینی شاہد ہیں۔ امام غزالی کی عمر کے بارے میں اب آپ کیا کہیں گے، ان کی عمر سات سو سال یا چودہ سو سال کہنے کے بجائے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ قد آور اور لحیم شحیم انسانوں میں سے ہیں جن کے علم نے انھیں ایک قابل اتباع دیو ہیکل شخص بنا دیا۔
اخلاق پہ مبنی تصور کی دنیا میں دو زمانے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ایک میں کسی شخص کے بڑے اور سمجھدار ہونے کا مطلب ایک خاص صف میں داخل ہوجانا ہے۔ حکمت کی بات کرنے والے حکیم ہوتے ہیں، شئی کے اچھے اور برے ہونے کی بات کرنے والے اور اس کو مظاہر دنیا کا حصہ بنانے والے خود بخود بوڑھے سمجھے جانے لگتے ہیں اسی لیے عقلمندی سے آگے والے دروازے کو ”باب تدبر“ کہا جاتا ہے۔عقلمندی دراصل اس محل میں داخل ہونے سے پہلے کی چوکھٹ ہے جس میں عقل کی ذات بنفس نفیس رہتی ہے۔ اب کوئی عقلمند محل میں داخل ہوکر عقل بي بي کو اڑالے جائے تو اس نے تو تیر مار لیا۔ مگر اس نے اس روشن دان کو یکسر نظر انداز کردیا جہاں سے حکمت کی روشنی چھن چھن کر عقل بی بی کے جسم و جان، رگ و پئے، چشم و تاب، قلب و شعور پہ گرتی تھی۔ روشندان تک والی حکمت کے درجے کو پہنچنا سب کے بس کی بات نہیں بس ایک مومن کی ذات ہی اس پہ دھیان دے سکتی ہے۔
اس دنیا میں دوسرا زمانہ دراصل بوڑھوں کا نہیں جوانوں کا ہوتا ہے۔ جوان کا معاملہ یوں ہے کہ چاہے ان کا قد تلوار کے برابر نہ ہو پایا ہو مگر ان کے افکار وخیالات منجنیق سے داغے ہوئے گولے ہوتے ہیں۔ یہ  جوانوں کا معاملہ یوں ہے کہ آپ منبر پہ کھڑے ہوکر لن ترانیوں کا زور چاہے جس طور سے چلاتے رہیں مگر ان کی “کیوں” اور “کیسے” پہ عرب نحوی  کی بکری کی طرح کان ہلا کر کہیں گے کہ سمجھے نہیں گو کہ سب جانتے ہیں وہ سمجھیں خوب ہیں۔ اچھا، ہم بکری کے نقطہ نظر سے بھی کیوں نہ سوچیں کہ واقعتاً آپ جوان جہان ہوکر باتیں کرنے کا مطلب بکواسِ کُلّی کیوں نکالتے ہیں۔ بات بھی کچھ یوں ہی سی ہے، یہ جوانی میں دراصل کون سی بات ہوتی ہے کہ جوانی بردار اپنی تمام بکواس کو عین عقل محض کے گمان سے چرائی ہوئی کہانی سمجھتا ہے۔

فری لانسر کی بکواس:
تقریباً دس سال پہلے ایک انتہائی عاجز، لطیف، خیالی شخص نے ایک ایسا کام کرنے کا ارادہ کیا جس کو سوچ سمجھ کر بڑے بڑے علماء، دکاترہ، خطیب، مدرسہ کے ذہین ترین پھیکی ہنسی ہنستے اور دل ہی دل کہتے کہ تم سے نہیں ہو پائے گا۔ ساختیات کی عبادت کرنے والوں کے سامنے تم نہیں ٹک پاؤ گے۔ شہر یار بننے سے پہلے شرفاء کی محفلوں کے آداب سیکھ کر آؤ، دانشوری کرنے سے پہلے دانشگاہ کو چلانے والوں کی قدم بوسی کر آؤ۔ ان کے کھڑاؤں لیے پھرو، باغ زیست اٹھائے پھرو۔ ہم سے پوچھو معرفت خداوندی کیا ہے، ہم جو بتائیں اسے یادداشت میں سجائے پھرو۔ ابو الميزان تم جو بھی کرتے ہو بس ایک بکواس ہے، تمھارا لکھنا پڑھنا، اٹھنا بیٹھنا ایک بکواس ہے۔ تمھارا فری لانسر پہ آزاد خیالوں کی طرح کچھ بھی لکھتے رہنا دراصل تمھاری خود کی بھوک ہے۔ تم شہرت چاہتے ہو۔ تم کیا سمجھتے ہو دانشوری کے اس عہد میں چیخ کر کہنا کہ میں بھی دانشور ہوں اور ایک بھیڑ اکٹھی کرلینا عین دانش وری ہے، یہ سب بکواس ہے۔ چند مضامین اکٹھے کردیے، چند جگنوؤں کو اکٹھا کرلیا جو بجھے زیادہ دیر تک رہتے ہیں بنسبت جلنے کے تو ان سے تمھارا کیا بن گیا اور معاف کیجیے یہ اسلام یا، انسان کی خدمت نہیں یہ ان گمراہی کے درازوں کو کھولنا ہے جن کے بارے میں پچھلی رات فلاں جلسے میں میں نے ارشاد فرمایا۔ نہ تم قرآن شریف کے درس کی بات کرتے ہو، نہ احادیث مبارکہ کا احاطہ کرتے ہو کیا ہمارے پہلے کے علماء سب بے کار تھے؟ تمھارا کام صرف علماء کو ناراض کرتے رہنا ہے۔ بھائی کچھ دنیا و آخرت چاہتے ہو تو ان کے فضائل مناقب بیان کرو۔ ناقد ہو تو دوسرے مسلک والوں پہ نقد کرو اپنے مسلک کا نام بلند کرو۔ نسائیت کے حامی ہو تو انھیں ان کی ذمہ داری یاد دلاؤ۔ نئی نسل کا خیر چاہتے ہو تو انھیں کچھ اچھے کام پہ لگاؤ۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے والی مدرسوں کی فارغ التحصیل شریف زادیوں سے ان کی بغاوت نہیں ان کی غباوت بُلواؤ. تمھیں کیوں لگتا ہے کہ یہ عورتیں، یہ جذباتی مخلوق کبھی عقل کی بات کر سکتی ہیں!  یہ سب مغرب کے چونچلوں کی اُپج ہیں۔ مغرب خود تباہ ہے ان کی باتیں کیوں کر فائدہ مند ہوسکتی ہیں۔ عرب کے علماء کو دیکھو علم کا منبع ہیں کس گلی اور کس کوچے تک ان کا علم نہیں پہنچتا۔
ابوالمیزان تمھارا فری لانسر جس طرح کی بکواس پروستا ہے اس سے ہر کوئی یہ سمجھ جائے کہ تم کس طرح کے انسان ہو۔ تم انتہائی کتابی اور تخیل کی دنیا میں جینے والے انسان ہو۔ تمھیں کچھ نہیں معلوم دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ تم کتابوں کے دیوانے نہیں بلکہ تم کتابوں میں رکھے ہوئے سوکھے پھول کے دیوانے ہو، تم اس چیز کی بات کرتے ہو جس کی نہ کوئی اہمیت ہے نہ کوئی افادیت۔ تم بچپن کے دنوں میں کاپی میں چھوڑے ہوئے چاک اور مور پنکھی والا کھیل کھیل رہے ہو۔ کیا تمھیں لگتا ہے کہ مور کے پنکھ ہی چاک کھاتے ہیں؟ کیا تمھیں لگتا ہے کہ فری لانسر پہ کچھ لکھ دینے سے مور پنکھوں جیسے سنبھال کے رکھے ہوئے اذہان کو چاک کھلا سکتے ہو؟ تم کیوں نہیں محسوس کر رہے کہ تمھاری بکواس کسی کی بُدّھی میں نہیں سما سکتی، اس لیے کہ بکواس قبول نہیں کی جاتی۔تمھارے فری لانسر کو بکواس کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے تم نظریاتی جدیدیت کے نخچیر محسوس ہوتے ہو، تم جدیدت کے مارے ہوئے ہو، تمھاری باتوں کا ہر انداز مجددانہ کم اور ملحدانہ زیادہ لگتا ہے۔ تم اسلام کے نام پہ جینے والے جدید ملحد ہو یا زندقہ کی صف کو للچائی نگاہوں سے دیکھنے والے انسان۔

ابوالمیزان کا تعارف:
ابوالمیزان ابن صفی کا کوئی کردار نہیں بلکہ وہ دینی سوچ کا علمبردار ایک اعلی شخصیت کا حامل انسان ہے۔
اس کی زبان پہ کلام الہی اور فرمان نبوی کبھی کبھی ہی نکھرتے ہیں اور اکثر اس کی زبان پہ آیة مقدسة کے حوالوں کے بغیر ہی ایسی باتیں آتی ہیں ہیں جو دل کی کنڈی اور عقل کی چولیں ہلا دیں۔ اس کی زبان کوئی تارکول نہیں جس پر ضد اور بددماغی پہ مبنی سوچ کے تحت قرآنیات اور مطالعات فرمان نبوی آیا کریں اور عوام الناس پہ ایک رعب علم کا، ایک رعب خدائی ہونے کا طاری کرتے رہیں۔ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ طائر لاہوتی بھی نہیں کہ وہ آپ کو حیرت و استعجاب میں مبتلا نہ ہونے پر سزا بھی دے۔ بلکہ اس کے دماغ کے باریک سے باریک تانے بانے دراصل الفاظ کلام پاک، رمز الہیات اور عبقریات محمدی سے معطر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ذہن کی دنیا اتنی چھوٹی نہیں ہو پاتی کہ آپ کی خوش فہمی میں مبتلا کر دینے والی تغریدات کو نظر انداز کردے۔ اس کے دماغ میں دراصل کچھ بھی نہیں جو آپ کے دماغ میں ہے یعنی اسے دین کے نام پہ ذات کے استبداد کا اچھا خاصا علم ہے۔ اسے علم کے نام پہ دین کے استبداد کے بارے میں باتوں کی بھی بھرپور معرفت حاصل ہے۔
ابوالمیزان انتہائی ٹھنڈے مزاج کا حامل، خوش اخلاقی کی زبان بولنے اور سمجھنے والا انسان ہے۔ وہ دماغی اعتبار سے بوڑھا، دل کے اعتبار سے جوان، ارادے کے اعتبار سے وحشی، خیالات کے اعتبار سے امت کے غم میں دوہرا ہوجانے والا، تزکیہ ذات میں پہنچا ہوا صوفی، مجرموں کے دماغ کے عین عقب پہ چپت رسید کرنے والا شخص ہے۔ دھیرے دھیرے راستے طے کرنا اس کی ذات کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ مولویوں کی ڈانٹ پھٹکار، بد عہدی اور بے وفائی کو خاموشی سے جھیل جانے والا مرد مجاہد ہے۔ اس پہ ظلم کرو اور وہ آہ بھی نہیں کرے گا۔ اسے گالیاں دو وہ آ نکھوں میں آنسو بھرے تمھیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہے گا۔ اسے آزمانا ہے تو اسے بدنام کر کے دیکھ لو، وہ تمھارے دشمنوں میں جاکر تمھاری اچھائیاں بیان کرے گا۔اس کے ساتھ جو نباہ نہیں کر سکا آپ پائیں گے اسے کہ اس کے اعزاء و اقارب اسے لعن طعن کرتے ہوں گے۔ اس کے اندر پہاڑوں جیسا یہ صبر جانے کہاں سے آیا حالانکہ وہ مد مقابل کو باغ برزخ بھیجنے کی بھی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
ابوالمیزان سے تعلق رکھنے والوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس کی محبت تمھیں مہنگی نہ پڑ جائے۔ وہ ایسا شخص ہے جو پانی میں آگ لگا کر غائب ہوجاتا ہے۔ وہ ایسا شخص ہے جو مہذب ترین انسان کو بھی وحشی بنا دیتا ہے۔ وہ جنگل کا باسی ہے اور وحشت اس کی معشوقہ۔ اس کی شخصیت کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ وہ خوف زدہ کردینے کی حد تک اجنبی شخص ہے۔ اس کے اجنبی ہونے کے واقعہ سے بہت سے حادثے جڑے ہیں جو آپ پر سہرن طاری کر دیں گے۔ اس سے ملاقات کا مشورہ اکثر لوگ نہیں دیتے کہ وہ آپ کے ہاتھ میں ایسا آئینہ تھما دے گا جس میں آپ خود کو دیکھ کر اجنبی محسوس کریں گے۔

ابوالمیزان کی سوچ:
ابوالمیزان بھی وہی بوڑھوں والی باتیں کہتے ہیں؛ کہ سرمایہ زیست کیا ہے بس قطرہ آب اور پھر مشت خاک۔
مگر اس کے ساتھ ہی وہ ایک لاحقہ لگاتے ہیں یعنی زندگی کو اس طرح سے سمجھ لینا کام چوری ہے۔ دراصل یہ ایک حقیقت ہے اور کاروبار زمانہ ایک حقیقت سے نہیں کئی حقیقتوں سے چلتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کی منطق ”نسمع و نعقل“ کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے مگر اس گھماو کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ وہ علم الکلام، فلسفے، شاعری، تاریخ بینی و دانی، منطق، غیر مذاہب کی فقہیات کو سیکھنے سکھانے کے بارے میں اپنی مثبت رائے دینے میں رد و قدح نہیں کرتے۔ ان کے دماغ میں اسلاف کی صاف ستھری تصویر ہے جو کسی خوف و ہراس کی پیداوار ہے اور نہ فلوس اور سکوں کی امیدوار۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی سادہ تصویر کے نام پہ جھولا چھاپ شبیہ کی ترویج و اشاعت کرتے رہیں انھیں ابوالمیزان کہتے ہیں: ” کریں کچھ تو کرتے رہیں“۔ سادہ اسلام کے نام پہ سیاست کھیلنے والے ظاہرا سادہ لوح یہ بھی کہتے ہیں کہ ابوالمیزان جسے قلوپطرہ سمجھنے لگے ہیں وہ علم ہی بکواس ہے۔ میزان جس ابوالہول کی طرف بھاگے جا رہے ہیں دراصل وہ گمراہی کا راستہ ہے جس کے پالینے پہ دنیا سیدھی نہیں دکھے گی یا خود الٹا لٹکنا پڑے گا کہ شپرک کو دنیا سیدھی اسی وقت دکھتی ہے جب وہ الٹا لٹک جائے۔ ابوالمیزان خاموش طبع انسان ہیں۔ ان کا انتہائی مہلک نشہ انٹرنیٹ نہیں بلکہ لائیبریریوں میں پڑا ہوا علم ہے جسے وہ گٹاگٹ پی جاتے ہیں۔ معلومات کی شوں شاں کے نام پہ وہ ”شخصیةالشاملة“ یا ”رجل فیدیو“ تو قطعی نہیں ہوسکتے۔ ابوالمیزان کو تم کہو، تو یا آپ __ وہ آپ کے جذبات کی قاشوں میں پائے جانے والے غدود کے خالص اور اعلی نوعیت کے ہونے کے اعتبار سے آپ کے دل پہ اترتے جائیں گے۔ وہ ساختیت کے حتی الامکان مخالف ہیں خواہ مادے میں ہو یا لسانیت میں، لہذا انھیں آپ کے طرز خطاب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ انھیں جس سے مطلب ہے وہ آپ کی مطمئن نہیں ”مضطرب روح“ ہے۔ وہ اس قدر مہذب ہیں کہ آپ کی باتوں کو کیا آپ کے اشاروں کو بھی نہیں ٹوکیں گے اور آپ کی بات سنتے جائیں گے اور اپنی۔۔۔۔جی، ہاں، بجا فرمایا۔۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا کے بیانیے سے آپ کے ”بکواس کلام“ میں چھپے تعقل کو لوٹ لے جائیں گے۔

14
آپ کے تبصرے

3000
10 Comment threads
4 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
11 Comment authors
newest oldest most voted
احسان الہی

فلسفہ وخوشامد کا حسین امتزاج، فکر اسلامی پر فلسفے کو فضیلت دینے کے لیے خایہ برداری کی حاجت کب سے پڑنے لگی، باقی الحمدللہ ابو المیزان کی شخصیت ما شاء اللہ ہے، لا ریب فیہ.

سعد

فکر اسلامی کیا ہوتی ہے شیخ؟ کچھ بتائیں.

جاوید مدنی

ترقی چاہتے ھو تو ملو ابو المیزان سے سراپا راز ہے نا آپ کی بات فاش کرے گا نا ہی غلط مشورہ دے گا۔ اچھا کام ہو یا برا.. ہر چیز میں صحیح رہنمائی کرے گا۔ یہ اور بات ہے کہ برے میں سخت تنبیہ بھی کرے گا لیکن مشورہ بالکل ایسا ہوگا جو سیدھے نشانے پر جالگے گا۔ وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
ولا ازکی علی اللہ احدا

شہلہ تبسم خان

السلام وعلیکم، سعد، میں اپنا مضمون مولانا رفیق سر کے جواب ان کے ہدایات کے مد نظر رکھ کر بھیجنے کے لئے فریلانسر کی ویبسائٹ کو سکرول کر رہی تھی۔ آپ کی لٹرل بکواس پڑھی، اپنی ساس اور بھابھی کو سنایا، اپنی دوستوں کو سنایا جن کی اردو اچھی نہیں انہیں سنایا۔ اور guess what, ان میں سے کچھ آپ کے سینٹسز کو پڑھ کر رونے لگیں۔ پھر لونگ ڈسکشن۔۔۔۔۔۔۔۔، آپ کو پتہ ہے آپ کے میزان کی بکواس کتنے لوگوں کی زندگیوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا راستہ دکھا رہی ہے!!! اس کا معنی یہ نہیں کہ آپ اپنی… Read more »

سعد

آپ کے بذلہ سنج بیان کو پڑھ کر خوشی ہوئی۔ آپ سے درضواست ہے کہ آپ اپنی ٹحریر بھیجیں وہ والی بھی جو آپ نے مولانا رفیق کے جواب میں لکھی ہے۔ بس معقولیت کا خیال رہکھیے گا۔ اگر بات علمی ہوئی یا تو ایک اچھی بحث بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ بحرحال شیخ ملوانا رفیق ایک پایہ کے عالم اور آپ کی اور ہماری دنیا سے باخبر علما میں سے ہیں۔ وہ ہونیورسٹی سے بھی جڈے ہیں اور اسلامی فقہ پہ اچھی پکڑ رکھتے ہیں۔

Kashif Shakeel

واہ وا ڈاکٹر بہت کمال کی تحریر ہے۔ ماشاء اللہ۔ خدائے واحد آپ کو سلامت رکھے

Ismail Khan

ابوالمیزان کی شخصیت کے صفات و کمالات کو اپنے عمدہ انداز تحریر کے ساتھ سجانے کے لیے مبارکباد قبول کریں

سعد

بہت بہت شکریہ اسماعیل…

نورا حنبلی

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سعد صاحب نے بکواس کے نام پہ بہت کام کی چیزیں لکھیں ہیں۔ میرے پڑھنے میں جو چیز سامنے آئی ہے وہ سعد صاحب کا عقل کو تانیثی خطاب دینا ہے۔ اان کے انداز کو میں حیرت سے اور تعجب سے بھی دیکھ رہی ہوں۔ مجھے نہیں لگر رہا ہے کہ سعد صاحب اتنی بڑی بات کہہ لوگون کو خاموش کر سکتے ہیں۔ان کی بات نے بطور ایک عورت مجھے تقویت پھنچائی ہے مگر کیا علماء عورتوں کے عقلمند ہونے یا عقل سے تعلق رکھنے کا اقرار کبھی کریں گے؟ علماء اس موضوع… Read more »

ام ھشام

کچھ مبالغہ آمیز باتیں نہ ہوتیں تو شاید ممدوح کی شخصیت اور ان سے جڑے ہوئے کام زیادہ تسلی بخش معلوم ہوتے اور ہم جیسے قارئین کے لیے آپ کی باتوں پر یقین کرنا زیادہ آسان ہوتا جو ایڈیٹر صاحب کو نہیں جانتے۔

سعد

جی شکریہ۔ بلا شبہ مبالغہ کا عنصر بھی ہے، ہو گا مگر مدوح کے علاوہ بھی شئی کو سمجھنے کا اشارہ ہے۔ ہم دوسروں کی کوششوں کو ہی ریکگنائیز نہیں کرتے جیسا کہ ابو المیزان سالوں سے کر رہیں ہیں اور انکی کوشش قبول نہیں کی جارہی، نہ ہی ان کے لئے ایک لفظ لکھنے کے روادار ہیں پھر ہم ایک پوری دینی سوچ کو پروان چڑھانے کا خواب کیوں دیکھنا چاہیے؟ ابو المیزان ایک عام سے شخص ہیں جو ایک بہت بڑی، اچھی اور مثبت سوچ کھڑی کرنے کا خواب دیکھتے اور دکھاتے ہٰن۔

شمس ودود

حال ہی میں ابوالمیزان سے ملاقات کا موقع ہاتھ آیا اور واقعی آپ کی باتیں اور ان کی شخصیت میں یکسانیت کے تمام پہلو موجود ہیں۔۔۔کسی نے سرسیداحمد خان کے بارے میں کہاتھا کہ “بڑے لوگ اگر غلطی بھی کرتے ہیں تو بڑی۔”
ابوالمیزان کی اعلی نظری کو پروان چڑھانے میں ہمیں ہر ممکن وسائل کی فراہمی کرنی چایئے اور ان شاء اللہ اپنی طاقت بھر میں کر گزرنے میں کوتاہ دست نہیں رہوں گا۔
ابوالمیزان کی تفہیم میں مدد گار ہونے کا بے حد شکریہ۔

خبیب حسن

💝💝💝😊😊😊

محمد مقیم

اس پردۂ زنگاری میں ایک کالم نگار مستور ہے۔ بس فلسفے کی کثافت کو مزید لطیف اور تحلیل کرنے کی ضرورت ہے