مسجد میں خواتین

محمد رضی الاسلام ندوی

سپریم کورٹ نے پونہ کے مسلم جوڑے کی وہ درخواست قبول کرلی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلم خواتین کو مسجد میں داخلہ کی اجازت دی جائے۔ یہ فیصلہ اس پس منظر میں کیا گیا ہے کہ کیرلا کے سابری مالا مندر میں 10 برس سے 50 برس تک کی لڑکیوں اور خواتین کو مندر میں جانے کی اجازت نہیں تھی، بالآخر خواتین کے زبردست احتجاج اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد انھیں اجازت مل سکی۔ اب خود ایک مسلمان جوڑے نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اسی طرح مسلم خواتین کے مسجدوں میں داخلے پر عائد پابندی کو اٹھایا جائے اور انھیں بھی مسجد جاکر عبادت کرنے کا حق دیا جائے۔
دوسرے مذاہب سے مجھے واقفیت نہیں، لیکن اسلام کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام میں دینی و شرعی اعتبار سے خواتین کے مسجد میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا صریح فرمان ہے:

لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ إِذَا اسْتَأْذَنَّكُمْ إِلَيْهَا(مسلم :442)

” تمھاری عورتیں جب مسجد جانے کے لیے تم سے اجازت چاہیں تو انھیں اس سے نہ روکو۔”
عہد نبوی میں بھی بعض لوگ خواتین کا گھر سے باہر نکلنا، خواہ نماز کے لیے ہو، پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اس صریح ارشاد کی وجہ سے انھیں روکنے کی ہمّت نہیں ہوتی تھی۔ انہی میں سے ایک حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انھیں خواتین کا نکلنا پسند نہ تھا لیکن ان کی زوجہ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا برابر مسجد جاتی تھیں۔ کسی نے ان سے کہا کہ جب آپ کو اپنے شوہر کا عندیہ معلوم ہے تو آپ ان کی خواہش پر عمل کیوں نہیں کرتیں؟ انھوں نے پوچھنے والے سے الٹا سوال کردیا: پھر وہ مجھے روک کیوں نہیں دیتے؟ پوچھنے والے نے کہا: اللہ کے رسول کی صریح اجازت کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے۔ (بخاری: 900) چنانچہ حضرت عاتکہ برابر مسجد جاتی رہیں۔ وہ اس نماز کے موقع پر بھی مسجد میں موجود تھیں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث سنائی تو ان کے بیٹے نے کہا کہ ہم تو اپنی خواتین کو مسجد نہیں جانے دیں گے۔ حضرت ابن عمر نے اس کو انتہائی سخت اور درشت انداز میں ڈانٹا کہ میں تجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم سنا رہا ہوں اور تو اس سے سرتابی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ (مسلم: 442)
بدقسمتی سے بعد کی صدیوں میں خواتین کے مساجد میں جانے کی ہمّت شکنی کی گئی اور وہاں انھیں ادائیگی نماز کی سہولیات نہیں فراہم کی گئیں، جس کی بنا پر مساجد میں ان کی حاضری کم سے کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہوگئی۔ اب عام طور پر خواتین مساجد نہیں جاتیں، اگر کوئی خاتون جانا چاہے تو وہاں ان کے لیے نظم نہیں ہوتا، کوئی خاتون اس کا مطالبہ کرے تو اسے ایسی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جیسے اس نے کسی ناجائز چیز کا مطالبہ کرلیا ہو اور اسے آزاد خیال اور باغی سمجھا جاتا ہے۔
خواتین کو مساجد سے روکنے کے لیے متعدد عذر تراشے گئے۔ ان کی عزّت و عصمت کے تحفّظ کی بات کہی گئی، فسادِ زمانہ کی دلیل دی گئی، ان کی وجہ سے مساجد کی پاکیزگی اور تقدّس میں خلل پڑنے کے اندیشے ظاہر کیے گئے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب بے بنیاد اور لچر توجیہات ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے خواتین کو مسجد جانے کی اجازت دی ہے اور مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ انھیں نہ روکیں۔ اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں، خواہ وہ کوئی بھی ہو، کہ وہ انھیں اس حق سے محروم کرے۔
اب جب کہ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت اور وزارت اقلیتی امور کے ساتھ سینٹرل وقف کونسل اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو بھی جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کیا ہے، مسلم قیادت کو دانش مندی کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہیے۔ درخواست گزاروں نے اس مسئلے کو صنفی مساوات سے جوڑا ہے اور بنیادی حقوق سے متعلق دستورِ ہند کی دفعات 14، 15، 21 اور 25 کا حوالہ دیا ہے۔ جواب میں سپریم کورٹ کو بتایا جائے کہ عبادت گاہوں میں عورتوں کا داخلہ دیگر مذاہب کے برعکس اسلام میں مذہبی اعتبار سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جو کچھ ہے، وہ سماجی مسئلہ ہے، جس کی ان شاء اللہ اصلاح کی جائے گی۔ اسلام نے مردوں اور عورتوں، دونوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ صنفی مساوات کا اسلام میں وہ مطلب نہیں ہے جو آج کل عالمی اور ملکی سطح پر لیا جارہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہر مسئلے کو قرآن و سنت اور صدر اوّل (قرون مشہود لھا بالخیر) کے تعامل کی روشنی میں دیکھا جائے اور اس کا حل پیش کیا جائے۔ بعد کی صدیوں میں فقہی تصلّبات کی وجہ سے جو سختیاں اختیار کی گئی ہیں اور غیر ضروری احتیاط کو روا رکھا گیا ہے اسے دین کا جز نہ سمجھا جائے۔ خاص طور سے مساجد میں خواتین کے داخلہ کے مسئلے کو اسی اعتبار سے دیکھا جائے۔ مساجد عبادت کے مقامات اور روحانیت کے مراکز ہیں، وہاں مسلم سماج کے افراد کو تربیت و تزکیہ، روحانیت کے ارتقا اور دینی تعلیم کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ مسلم خواتین بھی اسلامی سماج کا حصہ ہیں۔ انھیں بھی تربیت و تزکیہ کے ان مراکز سے استفادہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔
نئی مساجد کو اس طرح تعمیر کیا جائے کہ ان میں خواتین کے لیے مخصوص گوشہ ہو۔ آمادگی ہو تو قدیم مساجد میں بھی بہ آسانی ان کے لیے گوشے مخصوص کیے جاسکتے ہیں۔ ہمیں مساجد میں آنے کی خواہش مند خواتین کو روکنے کے بجائے ان کی تربیت کی تدابیر اختیار کرنا چاہیے۔ ہم ان کو بتائیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاں خواتین کے لیے مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے، وہیں اس کے آداب بھی بیان کیے ہیں۔ آپ نے مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط سے سختی سے منع کیا ہے، مسجد سے باہر بھی اور مسجد کے اندر بھی۔ آپ نے عورتوں کے لیے مسجد کا ایک دروازہ خاص کردیا تھا، آپ نے خوشبو لگاکر اور زیب و زینت اختیار کرکے عورتوں کے گھر سے نکلنے کو منع کیا ہے۔
موجودہ دور کا تقاضا ہے کہ نہ صرف مساجد میں حاضری کے معاملے میں، بلکہ زندگی کے دیگر معاملات میں، خواتین کو اسلام نے جو حقوق دیے ہیں، ہم شرحِ صدر کے ساتھ انھیں وہ حقوق دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ مسلمان خواتین کو ہم اپنا حریف بنانے کے بجائے حلیف بنائیں۔ انھیں ورغلانے اور دین سے برگشتہ کرنے کے لیے ‘شیاطین’ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ ہمیں ان کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور حکمت اور دانائی کے ساتھ ان کا توڑ کرنا ہے۔ اگر امّت کے باشعور طبقے اور خاص طور پر طبقۂ علماء اور دینی تنظیموں کے سربراہوں نے ہوشیاری کا مظاہرہ نہ کیا تو انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Rahman Siddiqui

بہتریں ارٹیکل

یاسر اسعد

ما شاء اللہ، مولانا کا دی فری لانسر پر آنا اعزاز کی بات ہے. اللہ ہمیں آپ کی علمی شخصیت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے. آمین

سعد

اللہ مولانا کو لمبی زندگی، صحت اور تندرستی عطا فرمائے.

کلیم احمد

السلام علیکم، الأستاذ المحترم مولانا رضی الاسلام الندوی کا استدلال اور طریقہ تحریر بہت عمدہ اور اعلیٰ فکری اور دعوتی منہج کے اعتبار سے بھی اور معلومات سے مزین ہے