انقلاب یا انحراف

جلال الدین محمدی

حرمین کی وجہ سے سعودی عرب ہر مسلمان کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے ۔کیونکہ حرمین سے محبت اور ان کی حرمت و عظمت ایمان کا تقاضہ ہے ۔لیکن کیا حرمین کی وجہ سے مملکت کے حکمرانوں کو بھی عظمت و تقدس کا وہی مقام حاصل ہے جس کی وجہ سے کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ وہ ان حکمرانوں کے کسی بھی پالیسی پر گفتگو کرسکے تو اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا کیونکہ اس خطے میں حکمرانوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ محبت و عقیدت کے پیمانے بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ترک عثمانی دور خلافت میں جب یہاں پر مزاروں اور قبوں کی بہتات تھی اس وقت ان کے چاہنے والے اور تھے اور جب مملکت کو کتاب و سنت کے ما تحت کرنے کا اعلان کیا گیا تو نظر عقیدت تبدیل ہوگئی، چاہنے والے دشمن بن گئے اور دشمن مملکت کو چاہنے والے بن گئے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محبت و عقیدت حکمرانوں سے گئی گنا زیادہ طرز حکمرانی سے ہے۔ مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیزرحمہ اللہ کے اس اعلان کے بعد کہ مملکت کا نظام اور قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا سعودی عرب کے حکمران پوری دنیا بالخصوص سلفیوں کی فکر و نظر سے قریب ہوگئے۔ خدمت اسلام کے عظیم الشان کارناموں کی وجہ سےاللہ تعالی نے اس مملکت کو حرمین کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی قیادت کی بھی مرکزیت عطا فرمائی ۔جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمان مملکت کی طرز حکمرانی کی کی کامیابی کے لیے اللہ سے دعائیں سے مانگتے رہتے ہیں ۔
لیکن گزشتہ دو سالوں میں عالمی سیاست و معیشت میں آنے والی تبدیلیوں نے نہ صرف اقوام عالم کو متاثر کیا ہے بلکہ سعودی عرب کی موجود ہ حکومت بھی سیاست و معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کے نام پر اپنی ایک نئی شناخت بنا نے کے لیے کوشاں ہے۔ جدت اور معتدل اسلام کی واپسی کے نام پر بعض ایسے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جو نہ صرف کتاب و سنت سے متصاد م ہیں بلکہ سعودی عرب کے معاشرے کو تبدیل کردینے والے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ سعودی عرب میں کتاب و سنت کی بالا دستی اسلام کے معتدل چہرے کی ہی نمائندگی کرتی رہی ہے ۔اور اگر اب اس سے ہٹ کر نئے خطوط پر حکمرانی کا خواب دیکھا جارہا ہے تو گویا کہ یا تو اب تک سعودی کا نظام شدت پسندی کا شکار تھا یا اب اس میں بگاڑ پیدا ہونے والا ہے ۔ جب ولی عہد محمد بن نائف کو معزول کرکے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کیا گیا تو یہ محض عہدے سے معزولی نہیں تھی بلکہ سعودی روایات ،ثقافت اور اب تک کی طرز حکمرانی سے انحراف کا نقطہ آغاز تھا۔اب سے کچھ سال پہلے سعودی عرب میں شرعی موسیقی یا شرعی سنیماکا کوئی تصور نہیں تھا لیکن اب یہ چیزیں حقیقت بن چکی ہیں۔ کئی مخلوط و غیر مخلوط کنسرٹ وزرات ثقافت کے تحت منعقد ہوچکے ہیں، مزید کی تیاریاں جاری ہیں۔ اب اگر کل کو کوئی اور مسلم ملک یہ اعلان کردے کہ ہم اپنے ملک میں ایسے شراب خانوں کے لائسنس کا اجراء کرنے والے ہیں جو اسلام مخالف نہیں ہوں گے تو کیا اسے جدت پسندی اور ماڈریٹ کے نام پر قبول کرکے مخالفین کو لعن و طعن کیا جائے گا ؟جب ایسی صورت حال میں سعودی عرب کے حالیہ اقدامات پر تشویش ظاہر کرکے انھیں روایت سے بغاوت کہا جاتا ہے تو اس کے جواب میں سابقہ حکومتوں کے کارناموں کی فہرست پیش کردی جاتی ہے۔ دوسروں کو تحریکی بتانے والے کیوں اتنے بھولے بن جاتے ہیں۔ ہم نے کب سابقہ حکومتوں کے اقدامات کو روایت شکن کہا ہے، ہم نے بھی تو ہمیشہ ان کی تحسین ہی کی ہے۔ مسئلہ تو اب پیدا ہورہا ہے تو مثالیں بھی حال کی ہی دیں ۔سعودی عرب کے حالیہ جدت پسندانہ اقدام کو ضبط تحریر میں لانے پرایمان اور سلفیت کی سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے والے یہی کام خود بھی اس سے قبل نجی محفلوں میں انجام دے چکے ہیں جب نائف بن عبد العزیز ؒکے بعد سلطان بن عبدالعزیزؒ کو ولی عہد نامزد کیا گیا، تو ان کی زبانوں پر ولی عہد سلطان کے لیے جو الفاظ تھے اس لحاظ سے تو موجودہ ولی عہد کی شخصیت پر کلام ہی نہیں کیا گیا تو کیا اسے بھی ان کے نفاق،تحریکیت،رافضی گندی سوچ اور دل کے زہر پر محمول کرلیا جائے ۔یا انھیں علامہ شخصیات کے کشف و کرامات کے نام پر من و عن قبول کرلیا جائے ۔کیونکہ سلطان بن عبدالعزیز کی محض نامزدگی ہی انھیں مطعون کرگئی اور اب حالیہ جدت پسندی کے اقدامات کی تاویلیں باعث سعادت اور اصل خدمت سلفیت بن چکی ہیں۔علمی تکبر کا اظہار کرکے دوسروں کے علم کا مذاق اڑانے والے سورہ حج و سورہ نور میں اللہ کی طرف سے بیان کردہ آداب حکمرانی کے احکام اور اشاعت فحاشی کی وعید سے تو بخوبی واقف ہی ہوںگے ۔اس لیے ہم پر نکیر کریں یہ آپ کا حق ہے لیکن برائیوں کی غلط توجیہ نہ کریں ۔
سعودی حکومت کے یہ ترجمان سوشل میڈیا کی دنیا میں بہت زیادہ متحرک ہیں اور کسی بھی تحریر کا رد کرنے کے لیے درج ذیل نکات کا استعمال کچھ زیادہ ہی مزہ لے کراجتماعیت کے ساتھ کرتے ہیں ۔
ٹکے کا مولوی:
پوری دنیا میں کسی اور ملک کی پالیسی پر گفتگو کرنے والوں کی علمیت سےمتعلق سوال نہیں کیا جاتا ہے ۔بلکہ اگر مزاج اور فکر سے موافقت ہے تو اسے فوراً قبول کرلیا جاتا ہے لیکن بات اگر موجودہ سعودی اقدامات پر ہو تو گفتگو ثانوی حیثیت اور ہم مزاج شخصیات اولیت رکھتی ہیں ۔ گویا کہ سعودی اقدامات پر نکیر کرنا دنیا کی سب سے بڑی جہالت اور اس کی تائید علمیت کی بلندی کی دلیل ہے ۔عام طور پر آج قحط الرجال کا رونا ہے کہ اہل علم دنیا سے جارہے ہیں جن کی بھرپائی ہونا مشکل ہے لیکن سلفی سائبر سیل کی دنیا میں ماشاء اللہ آج بھی ابن تیمیہؒ اور ابواکلامؒ جیسی بلند پایہ علمی شخصیا ت موجود ہیں ۔ جو نہ صرف ہر محاذ پر سعودی حکمرانوں کی ترجمان ہیں بلکہ ان کی پالیسیوں پر نقد کرنے والوں کو دائرہ سلفیت سے خارج کرکے نفاق اور تحریکیت و شیعیت کا ہم خیال بنانے میں ید طولی رکھتی ہیں ۔ یقینی طور پر یہ مزاج سلفی تحریک (براہ کرم تحریکی نہ پڑھیں) کو کامیابیوں کے نئے افق سے روشناس کرائے گا ۔ کیونکہ اب سلفیت کی تعریف محض سعودی حکمرانوں کے ہر اقدام کی مکمل تائید سے عبارت ہے اور اس سے اختلاف کرنے والے تحریکی ،رافضی ،قبوری ،تقلیدی تو ہوسکتے ہیں لیکن سلفی نہیں ۔
صدقے کا پیسہ :
تنقید کی دنیا میں یہ بھی ایک نیا اصول پیدا ہوگیا کہ مدرسے میں رہ کر آپ کی تعلیم سعودی صدقے کے طفیل ہی ہوئی ہے ۔اس سعودی صدقے پر پلنے اور پڑھنے والوں کو اس بات کا قطعی حق نہیں کہ وہ اس ملک کی کسی بھی پالیسی کے خلاف کچھ بھی کہیں اور لکھیں لیکن علامہ زماں اور ذہبی دوراں کا یہی اصول ملکی پالیسیوں پر نافذ نہیں ہوتا ہے جب کہ ملک کی قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ریلوے، گیس،تعلیم،صحت صفائی ستھرائی اور دیگر مد میں ملنے والی سبسیڈیز کی شکل میں ہندوستانیوں پر ہی خرچ کی جاتی ہے لیکن جب ملکی پالیسیز کی بات آتی ہے تو حکومت کے رد میں صفحات کے صفحات کالے کردیے جاتے ہیں ۔یہاں حق نمک کیونکر یاد نہیں آتا ہے ؟اور اگر یہی اصول دیگر جگہوں پر نافذ کردیا جائے تو اجلاس اورمدارس وجامعات سعودی صدقے سے زیادہ عوامی چندوں سے چلتے ہیں تو پھر اسٹیج اور منبروں سے عوام کے افعال پر نقد کرنا چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ بھی حق نمک کے خلاف ہے ۔بلکہ دعوت کا پورا سلسلہ ہی بند کردیا جائے۔تاکہ سعودی عرب سمیت ہر کسی کے حق نمک کی مکمل ادائیگی ہوسکے۔
مولوی پیسے کے بغیر ایک لفظ نہیں بولتا :
اب جنھیں لفافوں کا تجربہ ہے او ر جو اپنی نششتی تقریروں کا بھی چارج جی ایس ٹی کے ساتھ وصولتے ہیں وہ تو سب کے بارے میں یہی سوچتے ہوں گے کہ سب ہماری طرح لفافوں کی بنیاد پر ہی دعوتی ذمے داری ادا کررہے ہیں ۔اور یہ تو منتظمین ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون مولوی بغیر پیسے کے ایک بھی لفظ نہیں بولتا ہے۔کیونکہ ان کے اخراجات کی فہرست میں ہر صاحب لفافہ کا تذکرہ مل جائے گا۔
غیر مستند ذرائع اور جھوٹی خبریں ہیں :
سعودی حکومت کی ترجمانی کرنے والے سب سے پہلے مخالف تحریروں کا رد کرنے کے لیے ان تمام ذرائع ابلاغ کو یہودیت،نصرانیت اور مجوسیت زدہ کہہ کر آگے بڑ ھ جاتے ہیں جن کے حوالے ان تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔اور یہی ذرائع ابلاغ جب اخوانی، قطری یا ملک و حکومت مخالف خبروں کو جگہ دیتے ہیں تو پھر یہ سابقہ الزامات کی زد سے نکل کر مصدقہ مقام حاصل کرلیتے ہیں ۔جب کہ سعودی عرب کاحال یہ ہے کہ وہاں جمعے کے خطبے بھی حکومتی نگرانی میں دیے جاتے ہیں۔ حکومت مخالف رجحان رکھنے والے علماء اور صحافیوں پر ( اخوانی ہوں یا غیر اخوانی) پابندی عائد کردی جاتی ہے ۔ تو وہاں کی میڈیا کے بارے میں کیسے یہ سوچ لیا جائے کہ وہ حکومت مخالف کوئی مواد نشر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔اس لیے محض سعودی ذرائع ابلاغ کی بنیاد پر آنے والی تحریر جانبدارانہ ہوگی۔کیونکہ جدت پسندی کے حالیہ اقدامات کے بارے میں عالمی میڈیا پہلے سے خبریں نشر کرتا آرہا ہے جو اب سچائی بن کر سامنے آرہے ہیں ۔مؤیدین کا دعوی ہے کہ علمائے عرب جب مخالفت نہیں کررہے ہیں تو آپ کون ہوتے ہیں؟ کیا آپ ان سے زیادہ کتاب و سنت کا فہم رکھتے ہیں؟ جس مملکت کے مفتی عام ٹریفک سگنل توڑنے کو حرام قرار دیتے ہیں ان کی یا دیگر علماء کی آراء اس سلسلے میں کیوں نہیں بیان کی جاتی ہیں؟ محض سرسری حوالے کیوں دیے جاتے ہیں ۔
سعودی معیشت کے لیے انقلابی اقدامات ہیں جو مخالفین کو حسد کے مارے سونے نہیں دے رہا ہے :
نیوم پروجیکٹ، سنیما، کنسرٹ، مخلوط پروگراموں کو ویژن ۲۰۳۰ کے تحت ملک میں متعارف کراتے ہوئے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ ملکی عوام تفریحات کے نام پر کئی ارب ریال غیر ممالک میں خرچ کررہے ہیں اور ان تفریحات کی دستیابی کے بعد ملک کا یہ اربوں ریال سرمایہ ملکی معیشت میں ہی گردش کرے گا جس سے گرتی ہوئی معیشت اور بے روزگاری کی شرح پر قابو پاکر زمانے کی ترقی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا جاسکتا ہے نیز سنیماکے ذریعے ثقافتی تبادلے اور دنیا کے ساتھ ربط ضبط بڑھانے میں آسانی پیدا ہوگی اس لیے اب یہ انقلابی تبدیلیاں سعودی معاشرے کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے نظام شریعت کی برکت کی وجہ سے انھیں خوشحالی اور امن وامان کی دولت سے مالامال کیا ہے ۔جس اللہ نے سیال سونے کو ان کی زمین کے نیچے خزانے کی صورت میں جمع کردیا ہے۔تقوی وشکرگذاری کی صورت میں اسی نے اپنی نعمتوں میں مزید اضافے کا وعدہ کیا ہے۔ اس لیے ان تمام اقدامات پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔
ہر کوئی سعودی عرب کے پیچھے ہی ہاتھ دھو کر کیوں پڑا رہتا ہے ؟
سعودی عرب سے متعلق لکھنے بولنے یا پڑھنے والے دوگروہ ہیں۔ ایک وہ جو وہاں کے طرز حکمرانی کی وجہ سے روز اول سے ہی اس کے دشمن ہیں اور وہ آج تک ہر معاملے میں سعودی عرب کی مخالفت کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے چلے آئے ہیں۔اور دوسرے وہ جو حرمین کے ساتھ وہاں کے حکمرانوں اور طرز حکمرانی دونوں سے محبت کرنے والے ہیں کیونکہ یہ کتاب و سنت سے محبت کرنے والا معاملہ اور اس دور میں روئے زمین پر قائم واحد اسلامی سلطنت سے لگائو کا اظہار ہے کیونکہ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک سعودی عرب کے برعکس کتاب و سنت کی حکمرانی کے دعویدار نہیں ہیں۔ اس لیے ان کی غلطیوں پر بات کرنے سے کوئی فائدہ ہی نہیں ہے لیکن اگر کتاب و سنت کے نام پر فکری انحراف کا مظاہر ہ سعودی عرب سے ہوگا تو اس سے اسلام کی شبیہ کو نقصان پہنچے گا۔اس لیے اس پر اپنی تشویش نہ کہ سعودی عرب سے بغض اور دشمنی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ مملکت کے حکمراں ہندوستانی مسلمانوں کی آواز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر حرم مکی کے امام مختلف مواقع پر ہندوستان میں حکومتی دوروں پر نہ آتے۔ ان کی آمد یہ بتلاتی ہے کہ اب تک سعودی حکومت بر صغیر کے مسلمانوں کی تشویش کو سنجیدگی سے دیکھتی آئی ہے۔ آگے کا حال اللہ کو معلوم ہے ۔
نقطہ نظر میں اختلاف رکھنے والوں کی دعائے خیر پر بھی منافقت کا حکم لگانے والوں سے مؤدبانہ التماس ہے کہ حسب سابق اگر یہ تحریر آپ کو رافضیت یا تحریکیت کے زیر اثر نظر آرہی ہے تو براہ کرم کوسنے یا طعن و تشنیع کے بجائے میرے حق میں اللہ سے دعائے خیر کریں کہ وہ مجھے ہدایت کا راستہ دکھلائے کیونکہ مجھے کسی کی دعا پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔آپ کی دعاؤں پر میں نے پیشگی آمین کہہ لی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000